Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
(اے ایمان والو ! سود نہ کھائو دگنا چوگنا بڑھتا ہوا اور ڈرو اللہ سے تاکہ تم فلاح پائو
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنَوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْحَافًا مُّضٰعَفَۃً ص وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ ج وَاتَّقُوا النَّارَالَّتِیْٓ اُعِدَّتْ لِلْـکٰفِرِیْنَ ۔ ج وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّـکُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ ج (اے ایمان والو ! سود نہ کھائو دگنا چوگنا بڑھتا ہوا اور ڈرو اللہ سے تاکہ تم فلاح پائو۔ اور بچو اس آگ سے جو کافروں کے لیے تیار ہے۔ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے) (130 تا 132) جنگ احد کی شکست کے مضمر اسباب پیشِ نظر آیات کریمہ اپنے مفہوم میں عموم بھی رکھتی ہیں اور خصوص بھی۔ عموم تو یہ ہے کہ ان آیات میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ تمام مسلمانوں کے لیے ہیں اور قیامت تک کے لیے ہیں اور خصوص ان معنوں میں کہ گزشتہ آیات کریمہ میں جنگ احد کے حالات پر تبصرہ ہے اور اس وقت کے مسلمانوں کی کمزوریوں پر توجہ بھی دلائی گئی ہے اور یہ تبصرہ قرآن کریم کے اپنے اسلوب کے مطابق ہے، مختلف وادیوں سے گذرتا ہوا ابھی آگے بڑھ رہا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان آیات کریمہ میں مسلمانوں کو جو احکام دیے گئے ہیں اس میں مسلمانوں کی کمزوریوں کی طرف اشارے بھی ہیں۔ جنگ احد میں جس طرح اللہ کی تائید و نصرت سے مسلمانوں کو فتح ہوئی اور دشمن اپنی برتر افرادی قوت اور بہتر اسلحہ جنگ کے باوجود شکست کھا کر سر پر پائوں رکھ کر بھاگا۔ لیکن جلدی ہی بعد خالد بن ولید کے مسلمانوں کے لشکر کے عقب سے اچانک حملے نے صورت حال بدل دی اور ایک جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہوگئی اور ایک فاتح لشکر شکست خوردہ لشکر میں بدل گیا۔ اس کے اسباب کیا تھے ؟ ان آیات کریمہ میں دو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ میں پہلے یہ بات عرض کرچکا ہوں کہ آنحضرت ﷺ نے عقب لشکر سے حملے کا خطرہ محسوس فرماتے ہوئے ایک ٹیلے پر مسلمانوں کو مقرر کیا تھا تاکہ اس درے اور راستے پر نگاہ رکھیں جس سے مسلمانوں کی پشت پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ پچاس تیر اندازوں کو اس ٹیلے پر مقرر فرمایا اور یہ حکم دیا کہ ہمیں فتح ہو یا شکست تمہیں کسی صورت بھی اپنے مورچے چھوڑ کر آنے کی اجازت نہیں۔ حضور نے یہاں تک فرمایا کہ اگر تم یہ دیکھو کہ ہماری بوٹیاں نوچی جا رہی ہیں، یعنی کافر لشکر مسلمان لشکر کو تہِ تیغ کر رہا ہے تو تم ایسے حالات میں بھی اپنی جگہ چھوڑ کر ہماری طرف آنے کی کوشش نہ کرنا۔ لیکن جب قریش مکہ شکست کھا کر بھاگے اور ابھی اس کی بعض ٹکڑیاں ادھر ادھر میدانِ جنگ میں بکھری ہوئی تھیں کہ مسلمانوں نے لڑائی روک دی اور دشمن کا سامان اور ان کا مال و دولت لوٹنے میں لگ گئے۔ جبل الرماۃ کے تیر اندازوں نے جب دیکھا کہ لڑائی رک گئی ہے اور مسلمان سامانِ غنیمت اکٹھا کر رہے ہیں تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر مسلمان لشکر کی طرف بڑھے لیکن ان کے سالار حضرت جبیر بن مطعم ( رض) نے انھیں روکا اور یاد دلایا کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں ہر قیمت پر اپنے مورچوں پر قائم رہنے کی نصیحت فرمائی تھی۔ لیکن ان کے ساتھیوں نے ان کی ایک نہ سنی۔ چند سپاہیوں کے علاوہ تمام سپاہی مال غنیمت کی محبت میں اپنے مورچے خالی چھوڑ کر دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوگئے۔ خالد بن ولید کی عقابی نگاہوں نے جب اس مورچے کو خالی دیکھا اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ مسلمان مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہیں اور ہتھیار اتار چکے ہیں۔ انھیں اس سے بہتر موقع کیسے ہاتھ آسکتا تھا۔ انھوں نے نہایت بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے پہاڑ کا چکر کاٹا اور مسلمانوں کی پشت پر حملہ کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک افراتفری مچ گئی، مسلمان چونکہ خالی ہاتھ تھے۔ اس اچانک حملے سے بچنے کے لیے ادھر ادھر تلواروں کی تلاش میں بھاگے۔ فوج ایک بھیڑ کی شکل اختیار کرگئی۔ ایسی مصیبت آئی کہ اپنے اور پرائے کی پہچان بھول گئی۔ حضرت حذیفہ ( رض) کے والد خود مسلمانوں کے نرغے میں آگئے۔ مسلمانوں نے انھیں کافر لشکر کا سپاہی سمجھ کر تلواریں برسانا شروع کردیں۔ حذیفہ ( رض) چیختے ہی رہے کہ مسلمانو ! یہ میرے والد ہیں، لیکن اس ہنگامے میں کون سنتا تھا۔ چناچہ ان کے والد شہید ہوگئے اور حضرت حذیفہ ( رض) صبر کی تصویر بنے صرف یہ کہہ سکے کہ مسلمانوں تمہیں اللہ معاف فرمائے۔ تم نے بیخبر ی میں میرے والد کو قتل کر ڈالا اور پھر اس کے نتیجے میں ستر (70) صحابہ شہید ہوئے۔ آنحضرت ﷺ کے چچا اور حضرت عبداللہ ابن جحش ( رض) کی لاشوں کو مثلہ کیا گیا۔ خود آنحضرت ﷺ بری طرح زخمی ہوئے۔ خود کی کڑیاں روئے مبارک میں گھس گئیں۔ چار دانت متأثر ہوئے۔ چہرہ مبارک پر زخم آئے اور خون بہنے لگا۔ دشمن کی کھودی ہوئی کھائیوں میں سے ایک کھائی میں آپ گرگئے۔ اس طرح سے آنکھوں سے اوجھل ہوجانے کے باعث مسلمانوں میں یہ بات مشہور کردی گئی کہ پیغمبر ﷺ شہید ہوگئے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے اپنی جانوں پر کھیل جانا اتنا گراں نہ تھا جتنا آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ سننا کہ آپ ﷺ دنیا میں نہیں رہے۔ بڑے بڑے جی داروں نے حوصلے ہار دئیے اور زبان پر ایک ہی بات تھی کہ وہ ذات عزیز جس کی نظیر پوری کائنات میں نہیں اور جو مسلمانوں کے دل کی دھڑکن ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی زندگی تھی، جب وہ دنیا میں نہ رہے تو اب آخر کس کے لیے لڑا جائے۔ ایسی ابتر اور تشویشناک صورت حال اور قیامت کا سماں صرف اس لیے پیش آیا کہ مسلمانوں نے حب زَر میں مبتلا ہو کر اپنی جگہ چھوڑ دی اور اللہ کے رسول کے احکام سے سرتابی عمل میں آئی چناچہ ان آیات میں انہی دونوں غلطیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً کا مفہوم سب سے پہلے یہ ارشاد فرمایا گیا کہ مسلمانو ! سود مت کھائو دوگنا چوگنا بڑھتا ہوا۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ سود کھانے میں تو کوئی حرج نہیں لیکن اس کو دوگنا چوگنا بنانے کی فکر میں رہنا شاید اس سے روکا گیا ہے۔ اصل بات یہ نہیں اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً کے اضافے سے محض صورت حال کی تصویر اور اس کے گھنائونے پن کو نمایاں کرنا مقصود ہے اور قرآن کریم کے اسلوب کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ بعض دفعہ کسی حکم کے ساتھ ایسی قیود کا ذکر کرتا ہے جو مقصود نہیں ہوتیں بلکہ صرف یہ دکھانا ہوتا ہے کہ اس کی بدترین شکل درحقیقت یہ ہے۔ اس لیے تمہیں اس سے بچنا اور نفرت کرنا چاہیے۔ جس طرح فرمایا گیا ہے : وَلَا تُـکْرِہُوْا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَـآئِ اِنْ اَرَدْنَ تَحُصُّنًا ( اپنی لونڈیوں کو پیشہ کرنے پر مجبور نہ کرو، اگر وہ قید نکاح میں آنا چاہتی ہوں) اس میں اِنْ اَرَدْنَ تَحُصُّنًاکی شرط مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود اس سے صرف حال کی تصویر اور اس کی شناعت کو نمایاں کرنا ہے۔ یہی بات اس آیت میں بھی پیش نظر ہے۔ مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خالق فطرت نے کچھ فطری اشارے بھی فرمائے ہیں۔ ایک اشارہ تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سود کو اگر بروقت نہ روکا جائے تو یہ ایک ایسا وبائی مرض ہے اور اس حوالے سے انسان میں ایسی کمزوری ابھرتی ہے کہ پھر یہ سود دوگنا چوگنا بڑھے بغیر نہیں رہتا بلکہ اس کے بڑھنے کی کوئی انتہا ہی نہیں رہتی۔ تو جو نتیجہ آگے چل کر نکل سکتا ہے اسے تعبیر کے انداز میں پہلے واشگاف کردیا گیا ہے تاکہ قرآن کے قاری اس سے فائدہ اٹھائیں۔ سود انفاق کا متضاد ہے دوسرا اشارہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی اور اس کے علاوہ متعدد جگہ قرآن کریم نے سود کو انفاق کے متضاد کے طور پر ذکر فرمایا ہے۔ اللہ کے راستے میں انفاق تو عین مطلوب ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہر صاحب ایمان اپنی ہمت اور اپنے عشق کے مطابق اس میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح حبِّ دنیا بھی انسانی سیرت و کردار کا ایک ایسا گناہ ہے کہ جو شخص اس میں مبتلا ہوجاتا ہے اسے کسی انتہا پر بھی چین نہیں ملتا۔ اس لیے اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃًکے لفظ سے اس کی حقیقت کو نمایاں فرماکر مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی انفاق کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ فطرت بگڑتی ہے تو انسان سود کی کمائی میں آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اگر فطرت صحیح رخ پہ کام کرتی ہے تو اس کے جذبہ انفاق میں ہمہ جہت ترقی ہوتی جاتی ہے۔ ان دونوں کے تقابل سے مسلمانوں کو صحیح راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
Top