Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 153
اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَ لَا تَلْوٗنَ عَلٰۤى اَحَدٍ وَّ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ فِیْۤ اُخْرٰىكُمْ فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ لِّكَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا مَاۤ اَصَابَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
اِذْ
: جب
تُصْعِدُوْنَ
: تم چڑھتے تھے
وَلَا تَلْوٗنَ
: اور مڑ کر نہ دیکھتے تھے
عَلٰٓي اَحَدٍ
: کسی کو
وَّالرَّسُوْلُ
: اور رسول
يَدْعُوْكُمْ
: تمہیں پکارتے تھے
فِيْٓ اُخْرٰىكُمْ
: تمہارے پیچھے سے
فَاَثَابَكُمْ
: پھر تمہیں پہنچایا
غَمًّۢا بِغَمٍّ
: غم کے عوض غم
لِّكَيْلَا
: تاکہ نہ
تَحْزَنُوْا
: تم غم کرو
عَلٰي
: پر
مَا فَاتَكُمْ
: جو تم سے نکل گیا
وَلَا
: اور نہ
مَآ
: جو
اَصَابَكُمْ
: تمہیں پیش آئے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
خَبِيْرٌ
: باخبر
بِمَا تَعْمَلُوْنَ
: اس سے جو تم کرتے ہو
یاد کرو ! جب تم دور بھاگے جارہے تھے اور کسی کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھتے تھے اور رسول (کریم۔ ) تمہیں تمہارے پیچھے سے پکار رہے تھے پس اللہ نے تمہیں غم پر غم پہنچایا تاکہ تم دل شکستہ نہ ہوا کرو کسی نقصان پر اور نہ کسی مصیبت پر اور اللہ تعالیٰ خبردار ہے جو کچھ تم کررہے ہو
اِذْتُصْعِدُوْنَ وَلَاتَلْوٗنَ عَلٰٓی اَحَدٍ وَّالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ فِیْٓ اُخْرٰ کُمْ فَاَثَابَـکُمْ غَمًّا م بِغَمٍّ لِّـکَیْلاَ تَحْزَنُوْا عَلٰی مَافَاتَـکُمْ وَلاَ مَـآاَصَابَـکُمْ ط وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔ (یاد کرو ! جب تم دور بھاگے جارہے تھے اور کسی کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھتے تھے اور رسول (کریم۔ ) تمہیں تمہارے پیچھے سے پکار رہے تھے پس اللہ نے تمہیں غم پر غم پہنچایا تاکہ تم دل شکستہ نہ ہوا کرو کسی نقصان پر اور نہ کسی مصیبت پر اور اللہ تعالیٰ خبردار ہے جو کچھ تم کررہے ہو) ( 153) زمین میں دو رتک دوڑے چلے جانے یا کسی چڑھائی کی سمت میں جانے کو ” اصعاد “ کہتے ہیں۔ ابو حاتم نے کہا ہے کہ بلندی پر چڑھنے کو ” صعود “ اور ہموار زمین اور وادیوں میں چلنے کو ” اصعاد “ کہتے ہیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ منہ اٹھائے بدحواسی میں دوڑے چلے جانا اور شدت غم سے کسی طرف دھیان نہ دینا اور بلندی پر بھی چڑھنا اور ہموار زمین میں بھی سرپٹ دوڑے چلے جانا ان تمام کیفیتوں کو ” اصعاد “ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اصحابِ سیر نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کا پہلا حملہ اتنا زور دار تھا کہ قریش مکہ اپنی ساری بہادری اور منہ زوری کے باوجود میدان میں جم کر لڑ نہ سکے فوج کے پائوں اکھڑ گئے اور وہ بےتحاشہ بھاگ نکلے۔ دشمن کی اس پسپائی نے مسلمانوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا کہ دشمن مکمل طور پر شکست کھاچکا ہے اور اب اس کے پلٹ کر حملہ آور ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ چناچہ اسی خیال کے پیش نظر صحابہ نے ہتھیار کھول دیئے اور بجائے دشمن کا تعاقب کرنے کے اطمینان سے مال غنیمت سمیٹنے لگے۔ جبل الرماۃ پر جن تیر اندازوں کو متعین کیا گیا تھا انھوں نے اپنی فوج کے طرز عمل سے یہ سمجھا کہ اب لڑائی ختم ہوگئی ہے چناچہ وہ اپنے امیر کے روکنے کے باوجود اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے والوں میں شامل ہوگئے۔ خالد بن ولید کی عقابی نگاہوں نے جیسے ہی درے کو خالی دیکھا تو پہاڑ کا چکر کاٹ کر پیچھے سے حملہ آور ہوا۔ درے کی حفاظت پر جو چند لوگ ابھی باقی تھے ان کو روندتا ہوا آگے بڑھا اور وہ نہتے مسلمان جو ہتھیار کھول چکے تھے اور اب سامان اکٹھا کرنے میں مصروف تھے ان پر عقاب کی طرح جھپٹا اور کوئی بعید نہیں کہ چندسواروں کو بھاگتی ہوئی فوج کے پاس پیغام دے کر بھیجا ہو کہ میدان صاف ہے تم واپس پلٹ آئو۔ چناچہ ایک طرف دشمن کے گھڑ سوار دستے نے مسلمانوں کو تلواروں پر رکھ لیا اور دوسری طرف ان کی پیادہ فوج واپس پلٹ آئی اور انھوں نے بھی حملہ کردیا، اب مسلمان دفاعی قوت کی بجائے دونوں طرف سے دشمن فوج میں گھر گئے۔ اس قدر افراتفری مچی کہ مسلمانوں کی تلواریں مسلمانوں پر برسنے لگیں۔ جن مسلمانوں کو اپنے بچائو کے لیے کوئی تلوار یا کوئی اور ہتھیار نہ مل سکا ان میں کچھ لوگ تو وہ تھے جنھوں نے نہتے ہونے کے باوجود دشمنوں کا مقابلہ کیا اور دشمنوں سے ہتھیار چھین کر انھیں روکنے کی کوشش کی یا اپنے نہتے جسموں کو دوسرے مسلمانوں کے لیے ڈھال بنادیا لیکن کچھ لوگ ایسے تھے جو انسانی فطرت کے خلاف صرف قتل ہونے کے لیے میدان میں ٹھہر نہیں سکتے تھے ان میں سے کچھ پہاڑ کی طرف بھاگے اور پہاڑ پر چڑھ گئے اور کچھ میدانی علاقے میں بھاگتے ہوئے مدینہ منورہ میں جاکر رکے۔ آنحضرت ﷺ نے جب یہ صورتحال دیکھی تو آپ نے لوگوں کو اپنی طرف پکارنا شروع کیا۔ آپ بجائے اپنی جگہ چھوڑنے کے پہاڑ کی طرح ایک جگہ جم گئے۔ روایت کے مطابق آپ کے ساتھ کل بارہ آدمی باقی رہ گئے تھے باقی یا تو شہید ہوگئے اور یا بکھر گئے اور یا بھاگتے ہوئے میدانِ جنگ چھوڑ گئے۔ آپ نے نہایت پامردی، استقلال اور شجاعت کا ثبوت دیتے ہوئے ایک جگہ ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا اور مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ باربار آپ پکارتے رہے : الیّ عباد اللہ الیّ عباد اللہ ” اللہ کے بندوں میری طرف آئو، اللہ کے بندومیری طرف آئو “ لیکن اس ہنگامہ آہ وبکا اور ہنگامہ رستا خیز میں کون کسی کی سنتا ہے۔ چناچہ اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے قرآن کریم نے کہا :” ذرا اس وقت کو یاد کرو ! جب تم بدحواس ہو کر ہر نشیب و فراز کی طرف بھاگے چلے جارہے تھے اور اللہ کے عظیم رسول تمہیں پیچھے سے پکار رہے تھے لیکن تم کسی طرف دیکھنے کی بھی ہمت کھو چکے تھے “۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت کعب بن مالک ( رض) نے جو نہایت بلند آواز تھے، نے مسلمانوں کو پوری قوت سے پکارا کہ مسلمانو ! کدھر جارہے ہو ؟ نبی کریم ﷺ تو یہاں ہیں۔ تب مسلمان پلٹے لیکن اس وقت اتنی دیر ہوچکی تھی کہ مسلمانوں پر ایک طرف تلواروں کی بارش ہورہی تھی اور دوسری طرف غموں کا ہجوم ہورہا تھا۔ قرآن کریم کہتا ہے : پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں غم پر غم پہنچایا اس جملے کا اسلوب یہ بتاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کو ایک طرح کی سزادی گئی لیکن اس سے مقصود سزا نہیں بلکہ تادیب تھا۔ دوسرا جملہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تادیب کی صورت کو واضح کررہا ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بظاہر یہ سزا تھی لیکن حقیقت میں یہ ابتلاء تھا جو مسلمانوں کے لیے سراسر اللہ کی رحمت ہوتا ہے۔ جہاں تک سزا کا تعلق ہے اس کا سبب تو بالکل واضح ہے کہ جب مسلمانوں نے آنحضرت ﷺ کی آواز پہچاننے میں کوتاہی کی اور بجائے آپ کی فکر کرنے کے بدحواس ہو کر ادھر ادھر جانکلے۔ تو یہ بہرحال ایک فروگزاشت تھی جس کا صدور ان لوگوں سے تو نہیں ہونا چاہیے تھا جو اسلام کا ہر اول دستہ تھا اور جن کی حیثیت زمین کے نمک کی تھی اور جن کی کمزوریاں کل کو تاریخ کی کمزوریاں بننے والی تھیں اور جن کے کندھوں پر دنیا کی اصلاح کا دارومدار تھا۔ لیکن ان کی اس بدحواسی کے پیچھے بھی ایک عذر کارفرما تھا اور وہ عذر یہ تھا کہ یہ افواہ پھیلا دی گئی تھی کہ آنحضرت ﷺ شہید کردیئے گئے ہیں۔ صحابہ کے لیے ہر چیز قابل برداشت تھی لیکن اس خبر کا برداشت کرنا صحابہ کے لیے ناممکن تھا۔ وہ شمع جس سے انھیں روشنی ملی، وہ آفتاب جس کی تمازت سے ان کا کاروبارِزندگی رواں دواں ہوا، وہ جانِ جہاں جس کی حرارت ہر دل کے لیے حرکت کا باعث تھی اس کے اٹھ جانے کی خبر ایسی نہ تھی جسے برداشت کیا جاسکتا۔ چناچہ اسی خبر نے بڑے بڑے لوگوں کے حوصلے توڑ ڈالے۔ حضرت مصعب بن عمیر ( رض) جو مسلمان فوج کے علمبردار تھے ابن قمیہ نے جب انھیں شہید کیا تو وہ چونکہ آنحضرت ﷺ سے شکل و صورت میں کسی حد تک مشابہت رکھتے تھے تو یہ بات مشہور ہوگئی یا کردی گئی کہ آنحضرت ﷺ کو شہید کردیا گیا۔ حضرت عمر فاروق ( رض) جیسے بطل جلیل بھی اس افواہ کی زد میں آئے اور تلوار پھینک کر بیٹھ گئے کہ اب کس کے لیے لڑنا ہے ؟ حضرت انس ابن نضر ( رض) نے دیکھا کہ آپ تلوار رکھے بیٹھے ہیں تو پوچھا عمر یہ کیا ماجرا ہے ؟ بولے جب وہ نہ رہے جن کے لیے ہم لڑتے تھے اب لڑ کر کیا کریں گے ؟ انھوں نے برجستہ کہا تو ان کے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے ؟ انھوں نے جس مقصد کے لیے جان دی ہے ہمیں بھی اسی مقصد کے لیے جان دینی چاہیے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس خبر نے مسلمانوں پر واقعی غیر معمولی اثر ڈالا۔ چناچہ وہ غم جو پہلے ہی ان کے لیے جان لیوا تھے اس غم نے ان کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ کردیا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے جسم زخموں سے چور ہیں، ان کے عزیزوں کے لاشے خاک وخوں میں تڑپ رہے ہیں۔ ان کی فتح شکست کے خون میں نہلائی جارہی ہے کہ عین اس وقت آنحضرت ﷺ کے دنیا سے اٹھ جانے کی خبر ملتی ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس خبر نے کیا قیامت برپا کی ہوگی۔ یہ صورتحال بظاہر ایک سزا معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت مسلمانوں کے لیے ایک ابتلاء تھی اور اسی ابتلاء کا اشارہ گذشتہ آیت کریمہ میں بھی دیا گیا ہے۔ ابتلاء سے ہمیشہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ جن کمزوریوں کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ آئندہ یہ کمزوریاں باقی نہ رہیں اور نہ دوبارہ پیدا ہوسکیں۔ اس لیے فرمایا : لِکَیْلاَ تَحْزَنُوْا عَلٰی مَافَاتَـکُمْ وَلَا مَـآاَصَابَـکُمْ ہم نے تمہیں اس ابتلا میں اس لیے مبتلا کیا ہے کہ تم نے جو یہ کمزوری دکھائی ہے کہ جیسے ہی تم پر مصائب کی بارش برسی اور غموں کا ہجوم ہوا تو تم بدحواس ہوگئے، تم پر ہراس طاری ہوگیا اور تم نے ہراساں ہو کر وہ کمزوریاں دکھائیں جو تمہارے شایانِ شایان نہ تھیں۔ تمہیں دنیا میں ایک انقلاب برپا کرنا ہے۔ دنیائے کفر تمہارے خون کی پیاسی ہے۔ تمہیں انہی دشمنوں میں رہ کر ان کی اصلاح کا کام کرنا ہے۔ جہاد و قتال سے تمہارا واسطہ ایک دن کا نہیں بلکہ زندگی بھر کا ہے۔ تمہیں ابھی اندازہ نہیں کہ دشمنوں کی کتنی بڑی تعداد تمہاری گھات میں ہے۔ اگر تم نے ہراساں ہو کر کمزوریوں کا شکار ہونا نہ چھوڑا اور تمہارے اندر پہاڑوں جیسی استقامت اور پانی کی روانی جیسی راستہ بنانے کی عزیمت پیدا نہ ہوئی اور تم نے چٹانوں کے دل میں شگاف ڈالنا نہ سیکھا اور تم نے وقت کی آندھیوں سے نبرد آزماہونے کی مشق نہ کی تو آنے والے معرکہ ہائے حق و باطل میں اپنا فرض پوری طرح ادا نہ کرسکو گے۔ اس لیے تمہیں غموں کے اس ہجوم سے گزارا گیا ہے، تمہاری کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ آئندہ ہر طرح کی صورتحال کا تم وقار کے ساتھ سامنا کرسکو اور دوبارہ اسلام کو ایسی خطرناک صورتحال سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ حوادث اور آزمائشیں ہمیشہ قوموں کی باوقار زندگی کی ضامن بنتی ہیں۔ جو قومیں مصائب سے گزرنا نہیں جانتیں اور نامساعد حالات کا سامنا کرنا نہیں جانتیں وہ کبھی مشکل حالات میں اپنے حواس پر قابو نہیں رکھ سکتیں اور جو شخص یا جو قوم اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکے اسے خطرناک حالات میں صحیح فیصلے کرنے کی کبھی توفیق نہیں ملتی۔ یہی وہ حقیقت ہے جو اس آیت کریمہ میں پیش فرمائی جارہی ہے۔ ممکن ہے تم اپنی کمزوریوں کا کوئی جواز بھی رکھتے ہو کیونکہ آدمی جب کبھی اپنے بارے میں سوچتا ہے تو ہمیشہ اپنے آپ کو الائونس دیتا ہے۔ لیکن تمہارے ذہنوں میں یہ بات ہمیشہ تازہ رہنی چاہیے کہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ ہمیشہ اس سے باخبر رہتا ہے۔
Top