Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے اللہ اور رسول کا حکم مانا اس کے بعد کہ وہ زخمی ہوچکے تھے ان میں سے جنھوں نے بھی خوبی کے ساتھ کام کیا اور جو تقویٰ کی راہ چلے ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْالِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْ م بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ ط لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔ ج اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْجَمَعُوْا لَـکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا صلے ق وَّقَالُوْا حَسْبُنَااللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ۔ فَانْقَلَـبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْھُمْ سُوْٓئٌ لا وَّاتَّـبَـعُوْا رِضْوَانَ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ ذُوْفَضْلٍ عَظِیْمٍ ۔ اِنَّمَاذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَـآئَ ہٗ ص فَلاَ تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْـتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ (جن لوگوں نے اللہ اور رسول کا حکم مانا اس کے بعد کہ وہ زخمی ہوچکے تھے ان میں سے جنھوں نے بھی خوبی کے ساتھ کام کیا اور جو تقویٰ کی راہ چلے ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یہ وہ ہیں جن کو لوگوں نے کہا کہ بیشک لوگوں نے تمہارے خلاف بہت طاقت اکٹھی کی ہے تو ان سے ڈرو تو اس چیز نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بولے ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ سو یہ لوگ واپس آئے اللہ کی نعمت اور اس کا فضل لے کر ان کو کوئی گزند نہیں پہنچی اور یہ اللہ کی خوشنودی کے طالب ہوئے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تم ان سے نہ ڈرو مجھ ہی سے ڈرو اگر تم مومن ہو) ( 172 تا 175) ان آیات کے مضمون کا پس منظر ان آیات کریمہ میں جنگ احد میں اور اس کے بعد پیش آنے والے بعض حالات کی طرف اشارے ہیں اور مقصود ان سے مسلمانوں کے جذبہ جہاد اور سرفروشی کے رویے کو واضح کرنا ہے جو مسلمان کا اصل سرمایہ اور اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے اور مقصود یہ بھی ہے کہ ان واقعات سے اس حقیقتِ ابدی کی تائید ہوجائے جس کا ذکر ان آیات کریمہ سے پیشتر آیات کریمہ میں کیا گیا ہے۔ جن واقعات کی طرف اشارے فرمائے گئے ہیں ہم ان کی روداد اور تفصیل ” الرحیق المختوم “ سے نقل کرتے ہیں۔ اہلِ سیر کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معرکہ احد کے دوسرے دن یعنی یک شنبہ 8 شوال 3 ؁ھ کو علی الصبح اعلان فرمایا کہ دشمن کے مقابلے کے لیے چلنا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی آدمی چل سکتا ہے جو معرکہ احد میں موجود تھا۔ تاہم عبداللہ بن ابی نے اجازت چاہی کہ آپ کا ہمرکاب ہو مگر آپ نے اجازت نہ دی۔ ادھر جتنے مسلمان تھے اگرچہ زخموں سے چور، غم سے نڈھال اور اندیشہ و خوف سے دوچار تھے، لیکن سب نے بلاتردُّد سرِ اطاعت خم کردیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ نے بھی اجازت چاہی جو جنگ احد میں شریک نہ تھے۔ حاضر خدمت ہو کر عرض پرداز ہوئے۔ ” یارسول اللہ ﷺ ! میں چاہتا ہوں کہ آپ جس کسی جنگ میں تشریف لے جائیں میں بھی حاضر خدمت رہوں اور چونکہ (اس جنگ میں) میرے والد نے مجھے اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر روک دیا تھا۔ لہٰذا آپ مجھے اجازت دیدیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں “۔ اس پر آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ پروگرام کے مطابق رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے اور مدینے سے آٹھ میل دور ” حمراء الاسد “ پہنچ کر خیمہ زن ہوئے۔ اثناء قیام میں معبد بن ابی معبد خزاعی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوا ۔۔۔۔ اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شرک ہی پر قائم تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کا خیر خواہ تھا کیونکہ خزاعہ اور بنوہاشم کے درمیان حلف (یعنی دوستی اور تعاون کا عہد) تھا۔ بہرکیف اس نے کہا :” اے محمد ﷺ ! آپ کو اور آپ کے رفقاء کو جو زک پہنچی ہے وہ واللہ ہم پر سخت گراں گزری ہے۔ ہماری آرزو تھی کہ اللہ آپ کو بعافیت رکھتا۔ “۔۔۔۔۔ اس اظہار ہمدردی پر رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ ابو سفیان کے پاس جائے اور اس کی حوصلہ شکنی کرے۔ ادھر رسول اللہ ﷺ نے جو اندیشہ محسوس کیا تھا کہ مشرکین مدینے کی طرف پلٹنے کی بات سوچیں گے، وہ بالکل برحق تھا۔ چناچہ مشرکین نے مدینے سے 36 میل دور مقام ” رَوحاء “ پر پہنچ کر جب پڑائو ڈالا تو آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کی۔ کہنے لگے : ” تم لوگوں نے کچھ نہیں کیا ان کی شوکت وقوت توڑ کر انھیں یوں ہی چھوڑ دیاحالان کہ ابھی ان کے اتنے سرباقی ہیں کہ وہ تمہارے لیے پھر درد سر بن سکتے ہیں۔ لہٰذا واپس چلو اور انھیں جڑ سے صاف کردو۔ “ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سطحی رائے تھی جو ان لوگوں کی طرف سے پیش کی گئی تھی جنھیں فریقین کی قوت اور ان کے حوصلوں کا صحیح اندازہ نہ تھا۔ اسی لیے ایک ذمہ دار افسر صفوان بن امیہ نے اس رائے کی مخالفت کی اور اور کہا :” لوگو ! ایسا نہ کرو۔ مجھے خطرہ ہے کہ جو (مسلمان غزوہ احد میں) نہیں آئے تھے وہ بھی اب تمہارے خلاف جمع ہوجائیں گے۔ لہذا اس حالت میں واپس چلے چلو کہ فتح تمہاری ہے۔ ورنہ مجھے خطرہ ہے کہ مدینے پر چڑھائی کروگے تو گردش میں پڑجاؤ گے۔ “ لیکن بھاری اکثریت نے یہ رائے قبول نہ کی اور فیصلہ کیا کہ مدینے واپس چلیں گے۔ لیکن ابھی پڑائو چھوڑ کر ابو سفیان اور اس کے فوجی ہلے بھی نہ تھے کہ معبد بن ابی معبد خزاعی پہنچ گیا۔ ابو سفیان کو معلوم نہ تھا کہ یہ مسلمان ہوگیا ہے۔ اس نے پوچھا ! معبد ! پیچھے کی کیا خبر ہے ؟ معبد نے پروپیگنڈے کا سخت اعصابی حملہ کرتے ہوئے کہا : محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کو لے کر تمہارے تعاقب میں نکل چکے ہیں۔ ان کی جمعیت اتنی بڑی ہے کہ میں نے ویسی جمعیت کبھی دیکھی ہی نہیں۔ سارے لوگ تمہارے خلاف غصے سے کباب ہوئے جارہے ہیں۔ احد میں پیچھے رہ جانے والے بھی آگئے ہیں۔ وہ جو کچھ ضائع کرچکے اس پر سخت نادم ہیں اور تمہارے خلاف اس قدر بھڑکے ہوئے ہیں کہ میں نے اس کی مثال دیکھی ہی نہیں۔ ابو سفیان نے کہا : ارے بھائی یہ کیا کہہ رہے ہو ؟ معبد نے کہا :” واللہ میرا خیال ہے کہ تم کوچ کرنے سے پہلے پہلے گھوڑوں کی پیشانیاں دیکھ لوگے یا لشکر کا ہر اول دستہ اس ٹیلے کے پیچھے نمودار ہوجائے گا۔ “ ابو سفیان نے کہا : واللہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر پلٹ کر حملہ کریں اور ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیں۔ معبد نے کہا : ایسا نہ کرنا، میں تمہاری خیرخواہی کی بات کررہا ہوں۔ یہ باتیں سن کر مکی لشکر کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ ان پر گھبراہٹ اور رعب طاری ہوگیا اور انھیں اسی میں عافیت نظر آئی کہ مکہ کی جانب اپنی واپسی جاری رکھیں۔ البتہ ! ابو سفیان نے اسلامی لشکر کو تعاقب سے باز رکھنے اور اس طرح دوبارہ مسلح ٹکرائو سے بچنے کے لیے پروپیگنڈے کا ایک جوابی اعصابی حملہ کیا جس کی صورت یہ ہوئی کہ ابو سفیان کے پاس قبیلہ عبدالقیس کا ایک قافلہ گزرا۔ ابوسفیان نے کہا : کیا آپ لوگ میرا ایک پیغام محمد ﷺ کو پہنچا دیں گے ؟ یہ میرا وعدہ ہے کہ اس کے بدلے جب آپ لوگ مکہ آئیں گے تو عکاظ کے بازار میں آپ لوگوں کو اتنی کشمش دوں گا جتنی آپ کی یہ اونٹنی اٹھاسکے گی۔ ان لوگوں نے کہا : جی ہاں۔ ابو سفیان نے کہا : محمد ﷺ کو یہ خبر پہنچادیں کہ ہم نے ان کی اور ان کے رفقاء کی جڑ کاٹ دینے کے لیے دوبارہ پلٹ کر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بعد جب یہ قافلہ حمراء الاسد میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے پاس سے گذرا تو ان سے ابوسفیان کا یہ پیغام کہہ سنایا اور کہا کہ لوگ تمہارے خلاف جمع ہیں، ان سے ڈرو۔ مگر ان کی باتیں سن کر مسلمانوں کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا اور انھوں نے کہا : حَسْبُنَااللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ( اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے) (اس ایمانی قوت کی بدولت) وہ لوگ اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹے۔ انھیں کسی برائی نے نہ چھوا اور انھوں نے اللہ کی رضا مندی کی پیروی کی اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ صحابہ ( رض) کا بےمثال کردار یہ ہے ان آیات کا پس منظر جو آپ نے تفصیل سے پڑھ لیا۔ اب ان آیات کریمہ کے ایک ایک جملے پر غور فرمائیں۔ سب سے پہلے جملے میں پروردگار نے صحابہ کرام کے حوالے سے دو باتوں کا اعتراف فرمایا ہے۔ پہلی یہ بات کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں سے یہ فرمایا کہ ہم نے قریش کے لشکر کے تعاقب کے لیے نکلنا ہے تو ان میں سے کسی شخص نے تعمیلِ حکم میں انکار تو دور کی بات ہے تساہل سے بھی کام نہیں لیا۔ بلکہ ان میں ایک ایک فرد لبیک کہتا ہوا تعمیلِ حکم کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور دوسری بات جس کا اعتراف فرمایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ تمام وہ لوگ تھے جو ایک روز پہلے زخموں سے گھائل ہوچکے تھے۔ جو ہتھیار اتار کر مال غنیمت اکٹھا کرنے میں مصروف تھے کہ ان پر دو طرفہ حملہ ہوا۔ پیادہ فوج نے ان کو تلواروں پر رکھ لیا اور سواروں نے انھیں گھوڑوں کے سموں تلے روند ڈالا۔ بہت بڑاجانی اور مالی نقصان ہوا۔ اس کے باوجود یہ تاریخ کا عجیب واقعہ ہے کہ ایسی زخمی اور غم واندوہ میں دبی ہوئی فوج نے تعمیلِ حکم میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی۔ نپولین کی جنگوں کے حالات پڑھ لیجئے، کتنی دفعہ اس کی فوج نے تنگ آکر نپولین پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ تیمورلنگ کی فوج نے اپنے ملک کی طرف واپسی کے لیے شدید اصرار کیا اور آگے بڑھنے میں پس وپیش کرتے رہے۔ سکندر کی فوج میں بھی ایسے واقعات کی کمی نہیں۔ لیکن یہ عجیب خدائی فوجدار ہیں کہ بےساکھیوں کے سہارے چل کر اپنے سے کئی گنا طاقتور فوج کے مقابلے میں جانے کے لیے لبیک کہہ رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو دنیا میں انقلاب لانے کے لیے منتخب کرتا ہے تو اس کا ہر اول دستہ ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس جذبے کے بغیر بڑی سے بڑی فوج بھی کرائے کی فوج سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ حکمِ خدا اور حکم رسول میں واجب الاطاعت ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں یہاں ایک اور بات کی طرف بھی توجہ فرمائیے جو اس جملے کے بین السطور میں جھلکتی ہے۔ وہ یہ کہ قریش کے تعاقب میں نکلنے کے لیے مسلمانوں کو حکم اللہ کے رسول نے دیا تھا اللہ نے نہیں کیونکہ اس کا قرآن کریم میں کہیں ذکر نہیں۔ لیکن یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ اور رسول کے حکم کی تعمیل میں لبیک کہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نگاہوں میں جس طرح قرآن کریم کی آیات واجب التعمیل تھیں اور قرآن کریم کے ایک ایک حکم پر وہ سرتاپا عمل رہتے تھے۔ یہی حیثیت ان کی نگاہوں میں اللہ کے رسول کی تھی۔ وہ اللہ اور رسول کے حکم میں کوئی فرق کرنا نہ جانتے تھے اور قرآن کریم نے اس رویے کی تحسین فرماکر اسے شریعت کا ایک لازمی حصہ بنادیا اور قیامت تک ان لوگوں کے لیے کوئی موقعہ باقی نہیں رہنے دیا جو صرف قرآن پاک کے احکام کی اطاعت کو تو واجب اور فرض سمجھتے ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کے احکام کی اطاعت کو سربراہِ مملکت کی اطاعت کے برابر قرار دیتے ہیں۔ حُسنِ عمل اور تقویٰ اجر عظیم کی ضمانت ہے لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ سے تمام وہ لوگ مراد ہیں جن کا ذکر پہلے جملے میں ہے۔ جو قریش کے تعاقب میں آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب ہیں۔ ان میں سے ایک ایک فرداحسان اور تقویٰ کی چلتی پھرتی تصویر ہے لیکن آنے والی دنیا کے لیے ان کے رویے کی تحسین کے بعد بطور اصول یہ بات فرمائی کہ اللہ کے یہاں صفات میں مراتب ہیں۔ لیکن وہ درجہ اور مرتبہ جو اجر عظیم کا مستحق ثابت ہوتا ہے وہ وہ ہے جس میں احسان بھی ہوا اور تقویٰ بھی۔ احسان سے مراد یہ ہے کہ جاں نثاری اور فدا کاری کے عمل کو اسقدر بہتر انداز میں بروئے کار لانا کہ ہر دیکھنے والا یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ عمل کی اس سے بہتر اور خوبصورت شکل شاید ممکن نہیں۔ اپنی پوری صلاحیتوں کو اس میں نچوڑ دینا اور اخلاص میں کسی قسم کا شائبہ نہ آنے دینا اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ایمان وعمل میں نفاق کی جتنی آلائشیں بھی تصور میں لائی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے ایک ایک آلائش سے پرہیز کرنا۔ مصلحتوں کا غبار اڑکر بھی ایمان و عمل کی خوبصورتی کو گدلا نہ کرسکے۔ مفادات کا کوئی حوالہ اس پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ جو ایمان وعمل اس طرح نفاق کی تمام آلائشوں سے پاک ہوگا اور اس کا اخلاص عمل میں سعی بلیغ کی آخری حدوں کا چھونے لگے گا تو ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے صرف اجر ہی نہیں رکھا بلکہ اجر عظیم رکھا ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ کسی بھی چیز کا عظیم ہونا کہنے والے کی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے۔ جب غریب آدمی کسی سے یہ کہتا ہے کہ اگر تم نے میرا یہ کام کردیا تو میں تمہیں اس کا بہت بڑا معاوضہ دوں گا۔ تو وہ معاوضہ اس کی اپنی حیثیت کے مطابق ہوگا۔ لیکن یہی بات جب کسی امیر آدمی کے منہ سے یا بادشاہ کے منہ سے نکلتی ہے تو معاوضے کی وسعت کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نواب عبدالرحیم خان خاناں کے پاس ایک عالم دین بیٹھے تھے انھوں نے نواب سے کہا کہ میں نے آج تک ایک لاکھ روپے کا ڈھیر نہیں دیکھا۔ نواب نے حکم دیا کہ ہمارے سامنے ایک لاکھ روپے کا ڈھیر لگادیا جائے۔ اس زمانے میں نوٹ نہیں چاندی کے روپے چلتے تھے۔ ڈھیر لگایا گیا تو ایک ٹیلہ بن گیا۔ عالم دین نے تعجب سے دیکھا اور خوش ہو کر کہا کہ یا اللہ ! تیرا شکر ہے ایک لاکھ کا ڈھیر دیکھنے کو تو ملا۔ وہ دیکھ لینے کو بھی بہت بڑی بات سمجھ رہے تھے۔ نواب نے یہ سن کر خزانچی کو حکم دیا کہ ایک لاکھ روپیہ انھیں دے دیا جائے۔ وہ لاکھ روپیہ انھیں مل گیا تو نواب نے کہا : اللہ جیسے کریم کا محض ایک لاکھ روپے دیکھ لینے پر شکر بجا لانا کوئی معنی نہیں رکھتا اب آپ کو مل گیا ہے تو شکر بجا لائیے تو خیر ایک بات بھی ہے۔ اس واقعہ سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کسی چیز کے بڑا یا چھوٹا ہونے پر اصل اہمیت کہنے والے کی ہوتی ہے۔ یہاں پروردگار جس اجر کو عظیم قرار دے رہے ہیں اس کا اندازہ بھی پروردگار ہی کرسکتے ہیں کیونکہ مخلوق کے بس میں نہیں کہ وہ پروردگار کے جود و عطا کا اندازہ کرسکے۔ صحابہ کی پامردی واستقلال دوسری آیت کریمہ میں، جن اصحابِ احسان وتقویٰ کو پہلی آیت کریمہ میں بیان فرمایا گیا ہے انہی کے ایک اور امتحان کا ذکر فرمایا جارہا ہے کہ یہ زخمی اور محدود تعداد میں لیکن شجاعت اور وجاہت کی علامت ابھی گھر سے نکلنے نہیں پائے یا راستے میں ہیں کہ ان تک افواہیں پہنچنا شروع ہوگئیں اس کی تفصیل آپ پس منظر میں پڑھ چکے ہیں۔ لیکن الناس کے لفظ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک شخص (جو ابو سفیان کا قاصد بن کر آیا تھا) نے تنہا مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ الناس کا لفظ بول رہا ہے کہ ایک بڑی تعداد تھی ایسے لوگوں کی جنھیں قریش کی طاقت اور قوت کے بارے میں مبالغہ آمیز افواہیں پھیلانے پر لگایا گیا تھا۔ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ افواہیں پھیلانے میں بےمزد بھی چاکری کرتے ہیں۔ جو سنتے ہیں آگے پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ تو قریش کے زرخرید ہوں گے اور کچھ لوگ اپنی عادت کے مطابق ان میں شامل ہوگئے ہوں گے نتیجتاً ایک بڑی تعداد نے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش کی اور نجانے کیسی کیسی مبالغہ آمیز خبریں ان تک پہنچائیں۔ جن کا حاصل یہ تھا کہ قریش اتنی بڑی فوج لے کر مدینہ پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں جن کے مقابلے کے بارے میں تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ پس تم ان سے ڈرو اور اپنے انجام کی فکر کرو اور ان سے ڈر کر اپنی عافیت کے لیے ان سے کوئی ایسا معاہدہ کرلو جس میں جان بچ جائے اور مدینہ کی حدود بھی محفوظ رہیں۔ وہ ان تمام مساعی مذمومہ سے یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان خوف زدہ ہو کر گھٹنے ٹیک دیں گے اور ابو سفیان سے چند مراعات حاصل کرنے کے لیے کوشش کریں گے اور کوئی تعجب نہیں کہ اس میں عبداللہ بن ابی کے ساتھیوں کا بھی عمل دخل ہو۔ ہم اس سے پہلے یہ بات پڑھ چکے ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ کے انتقال پر ملال کی خبر اڑی تو بعض لوگوں نے مخلص مسلمانوں سے یہ کہنا شروع کردیا کہ اب لڑنے کا کیا فائدہ ؟ چلو عبداللہ بن ابی کے پاس چلیں اور اسے کہیں کہ وہ ہمارا معاملہ ابو سفیان سے کرادے۔ اب بھی یقینا اسی طرح کی باتیں کی جارہی ہوں گی۔ لیکن اس جذبے، جرأت اور بہادری کی مثال کہاں تلاش کی جائے کہ یہ زخمی مسلمان بجائے صورتحال سے متأثر ہونے کے اور زیادہ ثابت قدمی کی تصویر بن گئے۔ ان کا ایمان جو پہلے ہی کسی کے سامنے جھکنے کو تیار نہ تھا اب تو اور بھی روشن ہو کر روشنی دینے لگا۔ اور انھوں نے وہ بات کہی جو ہمیشہ وہ لوگ کہا کرتے ہیں جنھیں اللہ پر بےپناہ یقین ہوتا ہے۔ بےساختہ ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے : حَسْبُنَااللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ (ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ ہمارا بہترین کارساز ہے ) ہر قوت کی ایک انتہا ہے، اللہ کی قوت کی کوئی انتہا نہیں۔ انسانی لشکر بہت مختصر ہیں، اللہ کے لشکروں کا کوئی شمار نہیں۔ حوصلہ اور ولولہ حالات دیکھ کر بنتا اور بگڑتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کا بھروسہ اللہ پر ہوتا ہے ان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا راستہ بحر قلزم نے روک لیا اور خبر ملی کہ فرعون اور اس کی فوجیں سرپر پہنچا ہی چاہتی ہیں۔ بنی اسرائیل چیخ اٹھے کہ اب ہمارے پکڑے جانے اور تباہی اور بربادی میں کیا دیر ہے۔ لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو اللہ پر بھروسے کی علامت تھے پوری قوت سے دھاڑے : کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنَ (ہرگز نہیں ! بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے بحر قلزم کی موجوں میں بھی راستہ دے گا) یہی جذبہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ میں بھی تھا۔ حالات کچھ اور کہہ رہے ہیں لیکن ان کا ایمان صرف ایک زبان جانتا ہے کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے، جس کی کارسازی وہ کرتا ہے اور جس کا پشت پناہ وہ بن جاتا ہے اسے دنیا کی کوئی قوت شکست نہیں دے سکتی۔ صحابہ ہراساں ہونے کی بجائے پہلے سے زیادہ عزیمت و استقلال کا پیکر بن کراٹھے۔ کیا غم ہے اگر ساری خدائی ہو مخالف کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو جب یہ خبر پہنچی کہ ہماری افواہیں پھیلانے اور مسلمانوں کے زخمی ہونے کے باوجود بجائے اس کے کہ مسلمان حوصلہ ہارتے اور کسی کمزوری کا اظہار کرتے ان کی ایمانی قوت کا عالم تو یہ ہے کہ وہ تو ہمارے تعاقب میں چل پڑے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ کمزور پڑگئے ہیں، وہ کمزور نہیں ہوئے بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں۔ وہ تو مصائب کی بھٹی سے کندن بن کرنکلے ہیں۔ تو ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں کے مشورے سے یہی مناسب سمجھا کہ جو فتح میسر آگئی ہے اسی کو غنیمت سمجھاجائے۔ اور زیادہ کی خواہش میں پہلی عزت بھی نہ گنوا دی جائے۔ چناچہ قریش کا لشکر بجائے مدینہ کی طرف آنے کے مکہ کی طرف روانہ ہوگیا مسلمان حمراء لاسد تک پہنچے جو مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔ دوشنبہ، منگل اور بدھ یعنی 9، 10، 11 شوال تک وہیں مقیم رہے۔ قرب و جوار کی بستیوں اور قبائل سے بھی لوگ پہنچے اور عربوں کی روایت کے مطابق وہاں ایک بازار لگ گیا اور تجارت شروع ہوگئی۔ چناچہ مسلمانوں نے تین دن تک خوب تجارت سے فائدہ اٹھایا اور قرب و جوار کی بستیوں میں خود بخود یہ پیغام پہنچ گیا کہ مسلمان زخمی ضرور ہیں لیکن کمزور نہیں۔ وہ زخمی شیر کی طرح پہلے سے زیادہ دشمن کے لیے خطرناک ہوگئے ہیں۔ اسی کو اگلی آیت کریمہ میں پروردگار نے فرمایا کہ تین چار روز کے بعد مسلمان مدینہ طیبہ کو واپس لوٹے اور ان تین چار دنوں میں اللہ کی نعمت اور اس کے احسان سے خوب فائدہ اٹھایا اور کسی قسم کی تکلیف اور ناگواری سے انھیں کوئی سابقہ پیش نہیں آیا۔ اور اس کا سبب صرف یہ تھا کہ انھوں نے ہر طرف سے منہ موڑ کر اللہ کی رضا کو اپنی منزل بنالیا تھا تو جو قوم اللہ کی رضا کو اپنی منزل بنا لیتی ہے اور وہی اس کا مقصد ومنہاج بن جاتا ہے وہی اس کا ہدف ٹھہرتا ہے اور وہ اسی کے لیے جیتی اور مرتی ہے تو اللہ کبھی انہیں مایوس نہیں ہونے دیتا۔ اللہ بڑے فضل والا ہے، اس کے یہاں فضل وانعام کی کوئی کمی نہیں۔ دنیا کے پاس سوائے جھوٹے بہلاو وں کے اور کیا رکھا ہے۔ جس نے اس راز کو پالیا اس کی زندگی پر ناکامی کے سائے نہیں لہراتے۔ مومن صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتاہے اگلی آیت کریمہ میں ایک ایسی بات فرمائی گئی ہے جو حق و باطل کے معرکے میں نہایت قیمتی سرمایہ ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ دشمن کبھی اپنی افرادی قوت اور کبھی اپنے وسائلِ جنگ سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دشمن کے یہ حربے دراصل شیطان کی چالیں ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی طرح مسلمانوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی ہر چال اور اس کی ہر تدبیر پیشاب کے اٹھتے ہوئے جھاگ کی طرح بظاہر اٹھتا ہوا طوفان دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس کی حقیقت سوائے شیطان کی تدبیر کے اور کچھ بھی نہیں اور شیطان کی تدبیر اصحابِ ایمان کے سامنے مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔ اس لیے جب بھی کبھی کفر کی قوتوں سے سابقہ پیش آئے تو مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے امکان کی حدتک تیاری کریں اپنے گھوڑے تیار رکھیں، مناسب تدبیر سے گریز نہ کریں۔ لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ دلوں کے کسی گوشے میں خوف کے سائے کو کبھی اترنے نہ دیں۔ دشمن سے ڈرنے کی بجائے ڈر صرف اللہ کا ہونا چاہیے کہ میرے کسی عمل یا میری کسی کوتاہی سے اللہ کے احکام کی تعمیل میں کمی پید انھیں ہونی چاہیے۔ ہر طرح کی صورتحال کے مطابق اللہ کے احکام کو سمجھ کر اس کی اطاعت و بندگی میں لگ جانا اور لگے رہنا یہ ایک مومن کی ذمہ داری ہے۔ رہی راستے کی مشکلات تو ان کے لیے وسائل فراہم کرنا یہ بھی ایک مومن کا فریضہ ہے۔ لیکن اس کے بعد بھروسہ اور توکل صرف اللہ پر ہونا چاہیے اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مومن کبھی اللہ کے سوا کسی اور سے نہیں ڈرتا۔ وسائل اگر ہوں تو وسائل کو اپنے ساتھ لیتا ہے۔ لیکن وسائل میں کمی اس کے دل میں ہیجان کا باعث نہیں بنتی۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ پر ایمان سب سے بڑی قوت ہے۔ اگر میں مومن ہوں تو پھر غیر اللہ سے ڈرنا زیب نہیں دیتا۔ اس لیئے یہاں زور دے کر فرمایا کہ کافروں سے مت ڈرومجھ سے ڈرو اگر تم مومن ہو یعنی مومن کے لیے یہ رویہ لازم وملزوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ کافر اسے بیشک ڈرائے کہ ہم تمہیں تباہ و برباد کردیں گے، تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے، تمہارا ملک تباہ کردیا جائے گا، تمہارے ملک کو غاروں میں تبدیل کردیا جائے گا، تمہیں پتھر کے دور میں داخل کردیا جائے گا۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو تمہارا ایک ہی جواب ہونا چاہیے کہ مومن اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا، وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور کسی کے ظلم کے سامنے جھکتابھی نہیں۔ وہ شیخی نہیں بگھارتا لیکن شیخی بگھارنے والوں کے سامنے ریشہ ختمی بھی نہیں بنتا۔ یہی وہ حقیقی قوت ہے جو سب سے بڑا ہتھیا رہے۔ اقبال نے اس ہتھیا رکے بعد ہر ہتھیار سے بےنیاز ہوجانے کی بات کی ہے۔ لیکن میں تو یہ کہتا ہوں کہ وسائل کی فراہمی بھی جائز حدتک امت پر فرض ہے۔ لیکن حوصلے اور امنگیں صرف اللہ کے ساتھ توانا ہوتی ہیں۔ اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
Top