Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 178
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِهِمْ١ؕ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ لِیَزْدَادُوْۤا اِثْمًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ
وَلَا : اور نہ يَحْسَبَنَّ : ہرگز نہ گمان کریں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا اَنَّمَا : یہ کہ نُمْلِيْ : ہم ڈھیل دیتے ہیں لَھُمْ : انہیں خَيْرٌ : بہتر لِّاَنْفُسِھِمْ : ان کے لیے اِنَّمَا : درحقیقت نُمْلِيْ : ہم ڈھیل دیتے ہیں لَھُمْ : انہیں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھ جائیں اِثْمًا : گناہ وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب مُّهِيْنٌ : ذلیل کرنے والا
گمان نہ کریں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہے کہ یہ جو ہم ان کو ڈھیل دے رہے ہیں ان کے لیے بہتر ہے۔ ہم تو اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں کچھ اور اضافہ کرلیں اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے
وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ خَیْرٌلِّـاَ نْفُسِھِمْ ط اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَادُوْٓا اِثْمًا ج وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ۔ (گمان نہ کریں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہے کہ یہ جو ہم ان کو ڈھیل دے رہے ہیں ان کے لیے بہتر ہے، ہم تو اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں کچھ اور اضافہ کرلیں اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے) (178) کفار کو وارننگ انسان میں اللہ نے بہت سی خوبیاں اور صلاحیتیں رکھی ہیں۔ لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ حیوانیت سے پہلو بچا سکے کیونکہ اس کے اندر قدرت نے ایک حیوان بھی بٹھا رکھا ہے۔ اسے اگر انسانی صفات کا جامہ نہ پہنایا جائے یا اگر اس کی انسانی صفات کو اجاگر کرنے کے لیے ایمان کی پابندیاں نہ لگائی جائیں تو یہ کبھی بہیمانہ حرکتوں سے باز نہیں آتا اور ہمیشہ حیوانی فطرت کے مطابق اپنے اعمال بروئے کار لاتا ہے۔ آپ کسی بھی حیوان کو دیکھئے اگر آپ اس کے گلے میں رسہ ڈال کر رکھیں گے یا چابک آپ کے ہاتھ میں رہے گا تو وہ آپ کی متعین کردہ حدود کے اندر رہے گا۔ لیکن اگر آپ اسے کھیت میں کھلا چھوڑ دیں گے تو وہ پورے کھیت کو ویران کردے گا۔ یہ حیوانیت یقینا انسان میں موجود ہے اور اکثر اس کا اظہار بھی ہوتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ حیوان کو اللہ تعالیٰ نے جوہرِ عقل جیسی نعمت عطانھیں فرمائی اور اسے خیرو شر کے معاملے میں وحی الہٰی کے نور سے بھی بہرہ ور نہیں فرمایا۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ دونعمتیں دے کر مکلف زندگی گزار نے کا حکم دیا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ معقولات میں عقل سے کام لے کر حیوانیت کے تقاضوں کو صحیح نہج دینے کی کوشش کرے اور جو معاملات بالائے عقل یا اخلاق سے تعلق رکھتے ہیں ان کے لیے وحی الہٰی کی راہنمائی قبول کرنے کا پابند ٹھہرایا۔ پھر مختلف وقتوں میں اپنے رسول بھیج کر اس راہنمائی کی ترغیب کا سامان کیا تاکہ انسانوں کے لیے اسے قبول کرنا آسان ہوجائے۔ لیکن یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ اللہ کریم کی یہ تمام عنایات دھری رہ جاتی ہیں اور انسان اپنی بہیمانہ فطرت پر زندگی گزارنے پر اصرار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اس لیے سزا نہیں دیتے کہ ممکن ہے کبھی وہ راہ راست اختیار کرلے اسے سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کا موقعہ ملنا چاہیے۔ پیغمبر باربار انھیں ہدایت کی طرف لانے کی کوشش جاری رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انھیں تنبہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن انسان جب دیکھتا ہے کہ میرے رویے پر منجانب اللہ کوئی قدغن عائد نہیں کی جارہی اور میری بدعنوانیوں پر میری گرفت بھی نہیں ہورہی تو وہ اس سے یہ سمجھتا ہے کہ میرا رویہ بالکل صحیح ہے ورنہ قدرت کے لیے کیا مشکل تھا کہ مجھے زبردستی اس سے روک دیا جاتا۔ اس آیت کریمہ میں اور دیگر مواقع پر بھی قرآن کریم نے جابجا اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل قرار دیا ہے کہ ہم پکڑنے میں اس لیے جلدی نہیں کرتے کہ جنھیں راہ راست پر آنا ہے انھیں سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کا موقعہ دیں اور جنھیں بہرصورت غلط راستے پر ہی چلنا ہے ہم انھیں بھی مہلت دیتے ہیں تاکہ وہ گناہ کرنے اور اللہ کی نافرمانی کرنے میں جہاں تک جاسکتے ہیں چلے جائیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کوئی کمزور حکمران نہیں کہ اسے یہ اندیشہ ہو کہ اگر ان باغیوں کو جلدی نہ پکڑا گیا تو یہ مضبوط ہوجائیں گے اور پھر انھیں پکڑنا مشکل ہوجائے گا۔ اللہ کی طاقت کا مقابلہ کون کرسکتا ہے اور اس کی مملکت کی حدود سے کون نکل سکتا ہے ؟ جو بھی گناہ پر اصرار کرے گا یا باغیانہ روش پر بڑھتا چلا جائے گا وہ اپنا ہی پیمانہ بھرے گا اور اپنی فائل کو اتنا ضخیم کرلے گا کہ قیامت کے دن پھر اس کے لیے عذر کا کوئی موقعہ نہیں ہوگا۔ یہاں وہ اپنی جن حرکتوں کو عزت و افتخار کی علامت سمجھتارہا ہوگا وہی اس کے لیے توہین آمیز عذاب بن جائیں گی۔
Top