Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 184
فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ جَآءُوْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ الْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ
فَاِنْ : پھر اگر كَذَّبُوْكَ : وہ جھٹلائیں آپ کو فَقَدْ : تو البتہ كُذِّبَ : جھٹلائے گئے رُسُلٌ : بہت سے رسول مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے جَآءُوْ : وہ آئے بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیوں کے ساتھ وَالزُّبُرِ : اور صحیفے وَالْكِتٰبِ : اور کتاب الْمُنِيْرِ : روشن
پس اگر وہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں (تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں) تم سے پہلے بھی رسولوں کی تکذیب ہوچکی ہے۔ جو کھلی ہوئی نشانیاں، صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے
فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ جَـآئُ وْبِالْـبـَیـِّنٰتِ وَالزُّبُرِوَالْـکِتٰبِ الْمُنِیْرِ ۔ (پس اگر وہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں (تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں) تم سے پہلے بھی رسولوں کی تکذیب ہوچکی ہے۔ جو کھلی ہوئی نشانیاں، صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے) (184) نبی کریم ﷺ کی طرف التفات اور تسلی اس آیت کریمہ میں نبی کریم ﷺ کو تسلی دی جارہی ہے۔ قرآن کریم میں یہ مضمون متعدد مواقع پر گز رچکا ہے کہ اللہ کے نبیوں کو دل و دماغ کے ایسے احساسات کے ساتھ پروردگار پیدا فرماتا ہے جن میں دنیوی نفع و نقصان کا احساس ہمیشہ مغلوب رہتا ہے البتہ ! جو احساس ہمیشہ انھیں پریشان اور دل گرفتہ رکھتا ہے وہ لوگوں کا ایمان نہ لانا ہے۔ اس سے بعض دفعہ پیغمبر کو یہ خدشہ ہونے لگتا ہے کہ لوگ جو ہدایت قبول کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھتے تو اس میں میری کسی کوتاہی کا دخل نہ ہو۔ شاید میری مساعی ناتمام ہوں۔ میرے دعوت دینے کے انداز میں کوئی کمزوری ہو، میں شاید اپنی بات کو پوری طرح سمجھا نہیں پارہا۔ اس طرح کے مختلف خیالات ہیں جو اللہ کے رسولوں کے آئینہ دل پر بال کی طرح اترتے ہیں اور ان کے نہاں خانہ کو ویران کرجاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ یقینا ایسے خیالات سے سب سے زیادہ دوچار ہوتے تھے کیونکہ آپ کا کام سب سے زیادہ وسیع اور سب سے کٹھن تھا۔ اس لیے قرآن کریم بار بار آپ کو تسلی دیتا ہے کہ آپ کی قوم کی طرف سے آپ کا جھٹلایا جانا کوئی نئی بات نہیں قومیں اپنے محسنوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی معاملہ کرتی رہی ہیں۔ کتنے ایسے رسول گزرے ہیں کہ جنھوں نے زندگی بھر اپنی قوم کی اصلاح کی کوشش کی لیکن ان ظالموں نے یا تو انھیں قتل کرڈالا اور یا ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ دنیا کی یہ عجیب رسم ہے کہ یہ اپنے محسنوں سے لڑتی اور اپنے دشمنوں سے سازگاری پیدا کرتی ہے۔ وہ خون جگر پی پی کر ان کی بھلائی چاہتے ہیں اور یہ ان کے خون کے پیاسے بنے رہتے ہیں۔ ٹھیک کہا حفیظ نے ؎ زمانہ یوں ہی اپنے محسنوں کو تنگ کرتاہے وہ درس صلح دیتے ہیں یہ ان سے جنگ کرتا ہے مزید فرمایا کہ آپ یہ خیال نہ فرمائیں کہ آپ پر ایمان نہ لانے کا سبب شاید یہ ہو کہ کفار جو آئے دن نئے نئے معجزات طلب کرتے رہتے ہیں ان کے مطلوبہ معجزات انھیں دکھائے نہیں جارہے ورنہ ممکن تھا کہ وہ لوگ ایمان لے آتے۔ فرمایا : بگڑی ہوئی قومیں اپنے خاص اطوار رکھتی ہیں۔ ان کی طرف سے معجزات کی طلب ہدایت پانے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ جیسے جیسے انھیں معجزات دکھائے جاتے ہیں وہ اور زیادہ بگڑتی چلی جاتی ہیں۔ ہر معجزہ کو جادو اور شعبدہ بازی کا نام دے کر ٹھکرادیا جاتا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ یہود کی طرف مختلف زمانوں میں جو رسول آتے رہے ان میں سے جو رسول بھی آیا وہ بینات لے کر، زُبر اور کتاب منیر لے کر آیا۔ بینات،” حسی معجزات اور مضبوط دلائل “ کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی آیات کو بھی بینات قرار دیا گیا ہے۔ زُبر، زبور کی جمع ہے اس کے معنی ” ٹکڑے، قطعے اور صحیفے “ کے ہیں۔ یہاں اس سے مراد انبیائے کرام کے وہ صحیفے ہیں جو توراۃ کے مجموعہ میں شامل ہیں اور کتاب منیر سے مراد یوں تو ہر کتاب ہوسکتی ہے لیکن یہود کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس سے مراد توراۃ ہے۔ آنحضرت سے یہ فرمایا جارہا ہے کہ وہ رسول بڑے بڑے معجزات بھی لے کرآئے، ان پر آسمانی صحیفے بھی اترے، توراۃ بھی ان کے ہاتھوں میں تھی، اس کے باجود کتنے ایسے رسول ہیں جن کو ان کی دشمنی اور بدباطنی سے واسطہ پڑا۔ اس لیے اگر آپ کی تکذیب کی جارہی ہے تو آپ اس سے پریشان نہ ہوں یہ تو اس راستے کی سنت ہے جسے برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔
Top