Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاخْتِلَافِ : اور آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّھَارِ : اور دن لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے
(بےشک آسمان اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّـیْلِ وَالنَّھَار ِلَاٰیٰتٍ لِّاُوْلِی الْاَلْـبَابِ ۔ ج لا الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰماً وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَـکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج رَبَّنَا مَاخَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً ج سُبْحٰنَـکَ فَـقِـنَـا عَذَابَ النَّارِ ۔ رَبَّنَـآ اِنَّـکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخَزَیْتَـہٗ ط وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ۔ (بےشک آسمان اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ وہ جو یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوئوں پر اور غور کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، ان کی دعا یہ ہوتی ہے کہ اے ہمارے رب ! تو نے یہ کارخانہ بےمقصد پیدا نہیں کیا ہے، تو سب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ اے ہمارے رب ! جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا سو اس کو رسوا کردیا اور ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہیں) (190 تا 192) اربابِ دانش کا طرز عمل یہ رکوع اس سورة کا آخری رکوع ہے اور یہ آیات خاتمہ سورة کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سابقہ آیات میں اہل کتاب پر تنقید ہے۔ ان کی مختلف گمراہیوں کا ذکر کرنے کے بعدآخری آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تم ایک اہل کتاب امت ہو، تمہیں اللہ نے شریعت سے نوازا، تمہاری ہمعصر دنیا کی ہدایت کا تمہیں ذمہ دار بنایا، توحید کی امانت تمہارے سپرد کی گئی، اللہ کے بیشمار انعامات تم پر ہوئے۔ باایں ہمہ ! تمہاری ذہنیت یہ ہے کہ تمہیں وہ عہد تو یاد ہیں جو تم سے نہیں لیے گئے۔ البتہ ! بعض انبیائے کرام کے معجزات کے حوالے سے آسمانی کتابوں میں ان کا ذکر ہے۔ لیکن دینی ذمہ داریوں کے حوالے سے جو عہد تم سے لیا گیا اور جس کی انتہائی تاکید کی گئی اس کی یاد تمہیں کبھی بھول کر بھی نہیں آئی۔ تم اپنے آپ کو انبیاء کا وارث سمجھتے ہو اور نہ جانے تم نے اپنے لیے کیسے کیسے امتیازات پیدا کرلیے ہیں۔ لیکن جو دین تمہاری وجہِ اختصاص تھا اس سے تم بالکل لاتعلق ہوچکے ہو۔ تمہارا ہر عمل اس سے دوری کی علامت ہے۔ تم جیسے لوگوں کا انجام عذاب الیم کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ انتہا ہے جو دنیا طلبی میں اندھا ہونے کے باعث پیدا ہوتی ہے اور جب کوئی قوم اللہ کے انعامات کی قدر نہیں کرتی اور اپنے فرائض منصبی کو پس پشت ڈال دیتی ہے تو اس کا انجام اس سے مختلف نہیں ہوتا۔ چناچہ ہدایت و ضلالت کے اس باب کو مکمل کرنے کے بعدپیشِ نظر آیات کریمہ میں ایک نیا باب کھولا جارہا ہے۔ جس سے بتانا یہ مقصود ہے کہ دنیا کی محبت سے جب قومیں اندھی ہوجاتی ہے تو وہ اہل کتاب ہو کر بھی ہدایت سے دور رہتی ہیں۔ لیکن جب وہ بصیرت کا ثبوت دیتی ہیں اور اخلاص سے اللہ کے راستے کی طرف آتی ہیں تو ان کے لیے اس کائنات کا ایک ایک ورق کتاب ہدایت بن جاتا ہے اور اس کائنات کا ایک ایک ذرہ ان کے لیے ہدایت کی نشانی بن جاتا ہے۔ وہ جب ان مخلوقات کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے اور آزاد عقل سے ملاحظہ کرتے ہیں تو انھیں ہر طرف اللہ کی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں اور وہ محسوس کرتے ہیں ہر گیا ہے کہ از زمین روید وحدہٗ لا شریک لہ گوید شانِ نزول ان آیات کا شان نزول جو بیان کیا گیا ہے اس سے بھی اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔ محدث ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے کہ عطا ابن رباح ( رض) حضرت عائشہ ( رض) کے پاس تشریف لے گئے اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے حالات میں جو سب سے زیادہ عجیب چیز آپ نے دیکھی ہو وہ مجھے بتلائیے۔ اس پر حضرت عائشہ ( رض) نے فرمایا : آپ کی کس شان کو پوچھتے ہیں ؟ ان کی تو ہر شان عجیب ہی تھی۔ ہاں ایک واقعہ عجیب سناتی ہوں وہ یہ کہ حضور اکرم ﷺ ایک رات میرے پاس تشریف لائے اور لحاف میں میرے ساتھ داخل ہوگئے پھر فرمایا کہ اجازت دو میں اپنے پروردگار کی عبادت کروں۔ بستر سے اٹھے، وضو فرمایا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے اور قیام میں اس قدر روئے کہ آپ کے آنسو سینہ مبارک پر بہنے لگے پھر رکوع فرمایا اس میں بھی روئے پھر سجدہ کیا اور سجدہ میں بھی اسی قدر روئے پھر سر اٹھایا اور مسلسل روتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ حضرت بلال ( رض) آئے اور آپ کو نماز کی اطلاع دی۔ بلال ( رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ حضور اس قدر کیوں گریہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں۔ آپ نے فرمایا تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ اور شکریہ میں گریہ زاری کیوں نہ کروں جب کہ اللہ تعالیٰ نے آج کی شب مجھ پر یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ہے۔ اس کے بعد آپ نے پیش نظر آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔ اربابِ دانش کے اوصاف اس آیت کریمہ میں سب سے پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ زمین اور آسمان کی پیدائش اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں اور پھر عقل مندوں کے اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر وہ شخص عقلمند نہیں جسے ہم عقلمند قرار دیتے ہیں بلکہ عقلمند کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ جب آسمان اور زمین کی پیدائش اور اختلاف لیل ونہار میں مضمر نشانیوں پر غور کرتے ہیں تو ان کا طریقہ یہ نہیں کہ وہ ان مخلوقات میں گم ہو کر رہیں۔ اگر وہ فلکیات میں غور کرتے ہیں تو وہ ساری عمر ان کی حرکتیں اور گردشیں نوٹ کرتے نہیں رہتے اور نہ ان سے لوگوں کی قسمتوں کا حال معلوم کرتے ہیں۔ اگر وہ زمین پر غور کرتے ہیں تو اس کے بھی مختلف عوامل، اس کے انفعالات، اس کی قوت روئیدگی، اس میں مضمر خزانوں پر ہی غور کرتے ہوئے زندگی نہیں گزار دیتے بلکہ جب وہ فلکیات کو دیکھتے ہیں اور اس میں ان کو دکھائی دیتا ہے کہ اس میں ایک سے ایک بڑا کرّہ محوِپرواز ہے، ان کا مدار، ان کی منزلیں، ان کی کیفیتِ سفر، ان کی حرکتوں کی رفتار اس قدر منظم ومرتب ہے کہ کبھی ان میں ایک لمحے کا توقف نہیں ہوتا اور کبھی تقدیم و تاخیر پیش نہیں آتی، کبھی اپنے راستے گم نہیں کرتے، کبھی اپنے مدار سے نہیں نکلتے، کبھی ان میں تصادم نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ انھیں وجود کس نے بخشا ہے ؟ یہ بےسہارا محو پرواز کیسے ہیں ؟ ان میں جو ثوابت ہیں وہ کس کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں ؟ اور جو محو پرواز ہیں ان کی سمت سفر اور رفتارِ سفر کس نے مقرر کی ہیں ؟ بڑی سے بڑی حکومتیں اپنے دارالخلافہ تک میں افراط وتفریط کو نہیں روک سکتیں۔ آئے دن مختلف قسم کے تصادم ہوتے ہیں جبکہ ان کے احتسابی ادارے رات دن نظام کی نوک پلک سنوارنے میں لگے رہتے ہیں۔ تو یہ زمین اور آسمان کو تھامنے والی وہ کون سی قوت ہے کہ جس کی نافرمانی کا کبھی کسی کو حوصلہ نہیں ہوتا، جس کے احکام کبھی توڑے نہیں جاتے، جس نے اس طرح اپنی مخلوقات کو جن میں غیر معمولی طور پر بڑے بڑے کرے بھی شامل ہیں ایک نظام میں اس طرح باندھ رکھا ہے کہ مجال نہیں ہے کہ اس سے کوئی سرتابی کرسکے۔ ان کی عقلیں ہر مخلوق کے اردگرد گھومنے کی بجائے اس کے خالق کو تلاش کرتی ہیں۔ ہر مخلوق میں وہ اپنے خالق کی جھلک دیکھتی ہیں۔ وہ ریل کے انجن کو دیکھتے ہیں کہ وہ سرخ جھنڈی کو دیکھ کر رکتا اور روانہ ہوتا ہے تو وہ سرخ جھنڈی کو طاقت کا سرچشمہ نہیں سمجھتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ اس کا ڈرائیور اس کو کنٹرول کرتا ہے لیکن وہ اسے بھی تمام طاقتوں کا منبع یقین نہیں کرتے۔ پھر اس میں بھرا ہواسٹیم یا بھاپ یا پٹرول کو دیکھ کر بھی وہ یہ نہیں سمجھتے کہ انجن کی تمام طاقت اس میں ہے بلکہ ان تنگنائیوں سے نکل کر وہ غور کرتے ہیں کہ سٹیم یا بھاپ کو طاقت کس نے دی ہے ؟ پٹرول کو پیدا کس نے کیا ہے ؟ ڈرائیور کو جسمانی توانائی اور دماغی رعنائی کس نے عطا کی ہے ؟ اس سے وہ اپنے خالق کو پہچاننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان کا نہایت سادہ سا براہ راست اور صحیح طریقہ ہے جس سے وہ اپنی عقل کا حق ادا کرتے ہیں کہ وہ تعمیر سے معمار کو پہچانتے ہیں۔ نظم کے راستے سے ناظم سے شناسا ہوتے ہیں۔ شعر سے شاعر تک پہنچتے ہیں اور مخلوق سے خالق تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ یہ ایسا نکتہ ہے جسے قرآن کریم نے فاش کیا ہے یہ بہت سادہ بھی ہے اور بہت صحیح بھی۔ لیکن انسان نہ جانے اس کی طرف دھیان کیوں نہیں دیتا ؟ ایک بنا سنورا صاحب بہادر چمن میں چہل قدمی کرتے ہوئے پھول توڑ کر یہ سمجھتا ہے کہ اس کا کام مشام جان کو معطر کرنا ہے اور یا یہ سمجھتا ہے کہ اس کا صحیح مصرف اسے کالر یا گریبان میں لگانا ہے اور اگر اس کی عقل نے بہت کام دیا تو وہ یہ سمجھنے کو کافی سمجھتا ہے کہ اس سے گلقند بھی تیار کی جاسکتی ہے۔ لیکن کبھی وہ پھول کی خوشبو، اس کی پنکھڑیوں کی نزاکت، اس کی پتیوں کی خوش رنگی، پر دھیان نہیں دیتا کہ یہ کس کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے ماننے والوں کو جو بصیرت عطا کی تھی وہ یہی بصیرت تھی جس نے ان کے لیے خالق و مخلوق کے رشتے کو پہچاننا آسان کردیا تھا۔ ایک شخص نے حضرت علی ( رض) سے پوچھا کہ آپ نے اپنے پروردگار کو کیسے پہچانا ؟ آپ نے فرمایا : شہتوت کے پتے سے۔ سائل نے حیران ہو کر کہا : وہ کیسے ؟ آپ نے فرمایا : شہتوت کا پتہ اگر بکری کھاتی ہے تو وہ مینگنیاں کردیتی ہے، اگر ریشم کا کیڑا کھاتا ہے تو وہ ریشم بنتا ہے اور اگر ختن کا ہرن کھاتا ہے تو اس کے ناف سے کستوری نکلتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پتے کی کوئی خصوصیت ہے تو ہر جگہ یکساں ہونی چاہیے لیکن ہم تینوں جگہ مختلف خصوصیات کا اظہار دیکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پتے کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ اصل قوت اس ہاتھ میں ہے جو کہیں اسے گوبر میں بدل دیتا ہے، کہیں ریشم کے دھاگے میں اور کہیں کستوری میں۔ وہ ہاتھ جو یہ تبدیلیاں عمل میں لاتا ہے دراصل وہی میرے اللہ کا ہاتھ ہے۔ وہ عقل والے جن کی یہاں تعریف کی گئی ہے وہ جب مخلوقات کی نشانیوں کو دیکھتے ہیں تو اسی طریقے سے مخلوق کے واسطے سے خالق تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح سے ہوا کا ایک ایک جھونکا، پانی کی ایک ایک بوند، روشنی کی ایک ایک کرن، درخت کا ایک ایک پتہ، پھول کی ایک ایک پنکھڑی، حتی کہ خود انسان کی اپنی ذات اللہ کی خبر دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور انسان بےساختہ پکار اٹھتا ہے ہر کہ بینم درجہاں غیرے تو نیست یا توئی یا خوئے تو یا بوئے تو چناچہ اپنے خالق کی معرفت کے بعد بےساختہ بندے کی زبان پر اس کا ذکر جاری ہوجاتا ہے۔ وہ جیسے جیسے اپنی ذات، اپنی صفات، اپنے احساسات، اپنی صلاحیتوں اور اپنی توانائیوں کو دیکھتا ہے ویسے ویسے اسے اپنے خالق کی یاد ایک محبوب مشغلہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ وہ اٹھتے بیٹھتے، لیٹتے جاگتے، اللہ کی یاد کو اپنا معمول بنالیتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس کی یاد محبوب ہوجائے اس کی ذات بھی محبوب ہوجاتی ہے۔ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اس محبوب ذات کا حکم یہ ہے، وہ مجھ سے فلاں فلاں بات کا تقاضا کرتی ہے، اسے یہ یہ طور اطوار پسند ہیں اور یہ یہ باتیں اسے ناپسند ہیں تو یہ ممکن نہیں کہ ایک عاشق صادق اپنے محبوب کی یاد سے دل تو بہلائے لیکن اس کے احکام اور اس کی پسند و ناپسند کو کبھی اہمیت نہ دے۔ اس لیے بعض علماء نے کہا کہ اللہ کی یاد کا مفہوم جہاں اللہ کا ذکر ہے وہیں اس کی اطاعت بھی ہے۔ ذکر بغیر اطاعت کے محض زبان کا جمع خرچ ہے اور اطاعت بغیر ذکر کے محض عادت ہے۔ عقل والوں کی دوسری علامت آسمان اور زمین کی تخلیق میں تفکر کرنا ہے۔ وہ جب مخلوقات کو دیکھ کر اپنے خالق تک پہنچ جاتے ہیں تو اب وہ مخلوقات میں تفکر کرنا شروع کرتے ہیں۔ تفکر کا لفظی معنی ” غور کرنا “ اور ” کسی چیز کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش “ ہے۔ اس آیت کریمہ میں جس طرح ان عقلمندوں کی صفت یہ بتائی ہے کہ وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں اسی طرح یہ بات فرمائی کہ وہ مخلوقات میں تفکر بھی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ذکر ایک عبادت ہے اس طرح فکر اور تفکر بھی عبادت ہے۔ البتہ ! یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جو تفکر عبادت ہے اس کا تعلق مخلوقات سے ہے۔ اللہ کی ذات اور اس کی صفات سے نہیں کیونکہ پروردگار کی ذات وصفات کی حقیقت کا ادراک انسان کی عقل سے ماورا ہے۔ اس کی ذات وصفات میں تدبر اور تفکرحیرانی کے سوا کچھ نہیں دیتا۔ جیسے جیسے آدمی اس راستے میں بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کی عقل کی حیرانی اور درماندگی بڑھتی جاتی ہے۔ اس لیے کہ ایک مخلوق اپنے فہم و ادراک کی وسعتوں کے باوجود مخلوق ہی ہے وہ اپنے دستیاب وسائل میں خالق کی وسعتوں کو نہیں سمیٹ سکتی۔ انسانی ذہن مخلوقات میں قدرت کا شاہکار ہے لیکن وہ بہر حال مخلوق اور محدود ہے۔ محدود میں غیر محدود کبھی نہیں سما سکتا۔ اکبرؔ مرحوم نے خوب کہا جو ذہن میں گھر گیا لاانتہا کیوں کر ہوا جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا البتہ ! انسان کو اگر اپنی ذات میں فہم وادراک کی نارسائی اور اپنے عجز و درماندگی کا اعتراف نصیب ہوجائے تو یہ وہ دولت ہے جو عبدیت کی معراج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ عرفان و بصیرت کی راہ کے سالک ہیں۔ ان کے ادراک کا منتہا ہمیشہ یہی رہا ـ ربِ زدنی فیک تحیرا ( اے اللہ ! ہمیں اپنے بارے میں ایسا کر کہ تیرے بارے میں ہمارا تحیر ہمیشہ بڑھتا رہے ) عارف رومی نے خوب فرمایا : دور بینانِ بارگاہِ الست غیر ازیں پے نبردہ اند کہ ہست اس لیے اس راہ کے رمز شناس لوگوں نے وصیت کی۔ تَفَـکَّرْ فِیْ اٰیَاتِ للّٰہِ وَلاَ تَتَفَـکَّرْ فِی اللّٰہِ (اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی نشانیوں میں غور وفکر کرو مگر خود اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں غور وفکر نہ کرو کہ وہ تمہاری رسائی سے بالاتر ہے۔ ) چناچہ اس آیت کریمہ میں آسمان و زمین کی پیدا ئش میں غور کرنے کو اہل خرد کا شعار قرار دیا ہے۔ تفکر و تدبر کا کوئی ایک گوشہ نہیں پوری کائنات تفکر کرنے والے کے لیے ایک مضمون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس راہ میں تگ وتاز کرنے والے کے لیے ایک میدان کی مانند ہے۔ وہ ایک ذرے اور ایک قطرے سے لے کر سورج اور چاند تک اور حشرات الارض سے لے کر ملائکہ مقربین تک کو اپنے تفکر و تدبر کا موضوع بناسکتا ہے اور جیسے جیسے وہ آگے بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے وہ اللہ کے قرب کی منزلیں طے کرتاچلا جاتا ہے۔ اس لیے حسن بصری رحمۃ اللہ نے فرمایا : تَفَـکُّرُ سَاعَۃٍ خَیْرٌمِّنْ قِـیَامِ لَیْلَۃٍ (ایک گھڑی آیات قدرت میں غور کرنا پوری رات کی عبادت سے بہتر اور زیادہ مفید ہے ) تفکر کا ایک پہلو آیت کریمہ میں غور وفکر کے ایک زاویے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ہم اس کی راہنمائی میں غور وفکر کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہم آسمانوں اور زمین پر غور کرتے ہیں تو سب سے بڑی حیرت انگیز چیز جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ آسمان پر بیشمار کرے ہیں کچھ ثوابت ہیں کچھ سیارے ہیں۔ ان کی مختلف حرکتیں ہیں ہر ایک کا اپنا مدار ہے اور ہر ایک کی اپنی سمت سفر۔ اسی طرح زمین کی بھی دو حرکتیں اور گردشیں ہیں جن کی رفتار بھی مقرر ہے اور اوقاتِ کار بھی معین ہیں۔ ان میں جو سب سے حیرت انگیز چیزدکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر مخلوقات کو اللہ نے انسان کی چاکری پر لگا رکھا ہے۔ سورج اس لیے چمکتا ہے تاکہ زمین پر بسنے والوں کو روشنی اور گرمی مہیا کرے۔ سمندر سے کرنوں کے ڈول بھر بھر کر کھینچے اور اس کے پانی کو فلٹر کرنے کے بعد فضا میں ابر کی چادروں کی شکل میں پھیلا دے۔ پھر ہوا کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق جہاں زمین کے لیے آبیاری کی ضرورت ہے وہاں اس بادل کو ہانکتی ہوئی لے جائے اور وہاں جاکر برسادے۔ فضائے آسمانی کا کام یہ ہے کہ وہ پہاڑوں پر برف جمائے اور سورج کا کام یہ ہے کہ وہ گرمیوں میں اس برف کو پگھلاکر ندی نالوں اور دریائوں میں پہنچادے تاکہ انسان اپنی ضرورت کے مطابق ان سے پانی حاصل کرسکے۔ زمین کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی قوت روئیدگی کو عمل میں لائے اور انسان کی ضرورت کے ایک ایک دانے کو اپنی آغوش میں اس طرح پالے جس طرح ماں اپنے بچے کو پالتی ہے پھر اسے دھیرے دھیرے پودے کی شکل دے، ہوائیں آکر اسے لوریاں دیں، سورج اس کے دانے کو پکائے اور چاند اس میں گداز پیدا کرے، زمین میں کام کرنے والی مختلف قوتیں جو گیسز کی شکل میں موجود ہیں وہ غلے کی افزائش میں اپنا کام کریں۔ اس طرح سے بادل، ہوا، سورج، چاند، زمین اور اس کے مختلف عوامل اور آسمان کی مختلف قوتیں رات دن مصروفِ عمل ہیں تاکہ انسان کو خوراک مہیا کی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کے اس کارخانے کو باوجود اس کے کہ ان کے اپنے اندر کتنا تخالف پایا جاتا ہے اور کس طرح قدم قدم پر ان میں تضادات ہیں۔ لیکن مقصد کی ہم رنگی، ہم آہنگی اور وحدت کبھی ان کو ایک دوسرے سے اختلاف کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ وہ ہمہ تن انسان کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں جب سے انسان دنیا میں آیا ہے اس وقت سے یہی ان کا وظیفہ ہے۔ ان کے اس وظیفہ اور عمل کو دیکھتے ہوئے انسان کے غور وفکر پر یہ نکتہ فاش ہوتا ہے کہ اے نالائق انسان تو تو ایک معمولی مخلوق ہے جس کی اپنی ذاتی کوئی حیثیت نہیں۔ تیرے پاس بظاہر کوئی طاقت نہیں، تیرے دائیں بائیں بڑی بڑی مخلوقات موجود ہیں لیکن اس کے باوجود اللہ نے عناصرِ قدرت اور عناصرِ فطرت کو تیری خدمت پر لگادیا ہے سورج تیرے لیے چمکتا ہے، چاند تیرے لیے دمکتا ہے، ستارے تیرے لیے ٹمٹماتے ہیں، روشنی تجھ پر قربان ہوتی ہے، تاریکی تیرے سکون کا باعث بنتی ہے، پانی تیری پیاس بجھاتا اور تیری کھیتیاں اگاتا ہے، غلہ تیری بھوک مٹاتا ہے، درختوں کا سایہ تجھے فرحت دیتا ہے، خوبصورت پرندے تیرے جمالیاتی ذوق کی تسکین کا باعث ہیں، ان کی مختلف بولیاں موسیقی کا کام دیتی ہیں، آبشاریں تیرے لیے گرتی ہیں، فوارے تیرے لیے ابلتے ہیں، گھنگھور گھٹائیں تیرے لیے تل کر آتی ہیں، بجلی تجھ سے آنکھ مچولی کھیلتی ہے، بادلوں کی گرج تیری اولوالعزمی کو دعوت دیتی ہیں۔ بعض موانع کا سراٹھانا، چٹانوں کا حائل ہوجا نا اور پانی جیسی نعمت کا سیلاب کی صورت اختیار کر جانا تیرے عزائم اور قوت ایجاد کا امتحان ہے۔ مختصر یہ کہ تو پوری کائنات میں ایک مخدوم کی حیثیت رکھتا ہے اور تیرے چاروں طرف تیرے خادم پھیلے ہوئے ہیں حالانکہ بظاہر تو ان میں بہتر نہیں لیکن تو نے کبھی اس پر غور کیا ہے کہ ان کو تو پیدا کرنے والے نے ان کے مخدوم کی خبر دی اور انھوں نے اپنے مخدوم کو تلاش کرکے اپنے آپ کو اس کے قدموں میں ڈال دیا۔ تو نے مختلف قسم کی کھانے کی چیزوں کو جیسے چاہا پکایا، جیسے چاہا بھون ڈالا، لیکن کبھی کسی نے تیرے سامنے سر ہلانے کی جرأت نہیں کی۔ تو نے ہاتھی جیسے جانور پر سواری کرڈالی، تو نے لوہے میں قوت پرواز پیدا کردی، تو نے بجلی کو تاروں میں بند کردیا۔ لیکن کسی قوت نے تیری نافرمانی کی جرأت نہیں کی۔ لیکن تجھے یہ کبھی خیال نہیں آیا کہ ان کا تو میں مخدوم ہوں کیا میرا کوئی مخدوم نہیں ؟ انھیں تو اللہ نے میرے لیے پیدا کیا ہے تو مجھے بھی تو کسی کے لیے پیدا کیا ہوگا ؟ وہ مخلوقات میں سے تو کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ تمام مخلوقات میری خادم بنائی گئی ہیں میں مخدوم ہو کر تو خادم کی بندگی نہیں کرسکتا۔ کس قدر احمق ہوگا وہ شخص جو اپنے نوکروں کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجائے، ان کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے، ان کے سامنے دست سوال دراز کرے، مصیبتوں میں ان سے مدد طلب کرے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ میرا مخدوم اگر کوئی ہے اور یقینا ہے تو وہ صرف وہ ذات ہے جس نے مجھے اور تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن کریم نے دوسری جگہ فرمائی وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنَ (میں نے جن وانس کو اس لیے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں) مقدمات کی ترتیب عبادت صرف ذکر وفکر کو نہیں کہتے بلکہ یہ پوری زندگی کو کسی کے تابع فرمان بنا دینے اور کسی کی اطاعت میں دے دینے کا نام ہے۔ جب آدمی کی سوچ یہاں تک پہنچ جاتی ہے اور وہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ جس نے مجھے پیدا کیا ہے وہی میر امعبود، مسجود، مطلوب، محبوب، اور حاکم حقیقی ہے تو پھر خود بخود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میں اس کا اگر بندہ ہوں اور وہ میرا معبود ہے تو میری بندگی کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟ مجھے کس طرح اللہ کی عبادت کرنی چاہیے ؟ وہ کیا احکام ہیں جس میں مجھے اللہ کی اطاعت کرنی چاہیے ؟ وہ کیا کام ہیں جن سے اللہ کی اطاعت میں مجھے رک جانا چاہیے ؟ اور وہ اللہ کے پسندیدہ مقاصد کیا ہیں جن کی خاطر مجھے زندگی قربان بھی کرنا پڑے تو کردینی چاہیے ؟ اور اس سے یہ نیتجہ بھی آپ سے آپ نکلتا ہے کہ ایک دن ایسا ہونا چاہیے کہ جب میں اپنے پروردگار کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر کیا جاؤں وہ مجھ سے تمام اعمال کا حساب لے۔ کامیابی کی صورت میں جزا سے نوازے اور ناکامی کی صورت میں سزا دے۔ یہ وہ پورا پر اسس ہے جس کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن تفکر کرنے والے کے غور وفکر پر اعتماد کرتے ہوئے صراحت سے ذکر نہیں فرمایا بلکہ صرف یہ فرمایا کہ جب وہ زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کرتے ہیں تو غور وفکر کے نتیجے میں بالآخر وہ اپنے رب کو پکارنے لگتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے اس دنیا کی کسی چیز کو باطل پیدا نہیں کیا۔ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مقصد اور کوئی نہ کوئی منزل ہے۔ یقینا میری زندگی کا بھی کوئی مقصد ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دن اس مقصد کے بارے میں مجھ سے باز پرس ہوگی جو کامیاب ٹھہرا وہ نوازا جائے گا اور جو ناکام ہوگیا وہ جہنم کی آگ میں جلایا جائے گا۔ اس لیے اے میرے مالک ! میں اپنی کمزوریوں کا واسطہ دیتا ہوں تو پاک ہے کہ کسی کو بےسبب پکڑے، تیری رحمت تیرے غضب سے وسیع ہے۔ تو تو سرتاپا معافی ہے، بندوں کو معاف کردینا تیرا شیوہ ہے۔ تو کبھی کسی کو ناحق سزا نہیں دیتا۔ اگر تو مجھے پکڑے گا تو میری خطائوں پر پکڑے گا یا اللہ ! مجھے اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے اور جہنم کے عذاب سے بچالے کیونکہ جہنم کا عذاب صرف عذاب نہیں وہ ایسی رسوائی ہے جس کی برداشت کسی کے بس میں نہیں۔ جسے تو جہنم میں داخل کرتا ہے تو اسے رسوا کردیتا ہے۔ ساری دنیا کے سامنے اس کی رسوائی کا اعلان ہوتا ہے۔ یا اللہ ! ہمیں اس رسوائی سے محفوظ رکھنا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ظالموں کو تیرے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں اور کسی کو تیرے فیصلے کے خلاف مدد کرنے کی جرأت نہیں۔ ظلم کا مفہوم ظلم کہتے ہیں : وضع الشیء فی غیر محلہ ” کسی چیز کا ایسی جگہ رکھنا جو اس کے رکھنے کی جگہ نہ ہو، کسی چیز کا ایسا استعمال جو اس کا صحیح استعمال نہ ہو “۔ اس لحاظ سے جو آدمی اللہ کی کسی طرح بھی نافرمانی کرتا ہے وہ اپنے جسم وجان پر ظلم کرتا ہے۔ اللہ نے سر اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اس کے سامنے جھکے۔ جو شخص غیر اللہ کے سامنے سر جھکاتا ہے وہ اپنے سر پر ظلم کرتا ہے۔ جسم کا ایک ایک رونگھٹا اللہ کی عبادت کے لیے وجود میں آیا ہے۔ جب وہ غیر اللہ کی خدمت میں استعمال ہوتا ہے تو وہ ظلم کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ جان بوجھ کر اپنی صلاحیتوں کو لادینی قوتوں کی خدمت کے لیے کام میں لاتے ہیں وہ اپنے آپ پر ظلم ڈھاتے ہیں یہی وہ ظالم ہیں جن کا قیامت کے دن کوئی مددگار نہیں ہوگا۔
Top