Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 196
لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِی الْبِلَادِؕ
لَا يَغُرَّنَّكَ : نہ دھوکہ دے آپ کو تَقَلُّبُ : چلنا پھرنا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) فِي : میں الْبِلَادِ : شہر (جمع)
تجھے مغالطہ میں نہ ڈالیں ملک میں سرگرمیاں ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا
لَایَغُرَّنَّـکَ تَقَـلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ ۔ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ قف ثُمَّ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمِھَادُ ۔ لٰـکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا نُزُلاً مِّنْ عِنْدِاللّٰہِ ط وَمَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ لِّـلْاَبْرَارِ ۔ (تجھے مغالطہ میں نہ ڈالیں ملک میں سرگرمیاں ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا۔ یہ لطف اندوزی تھوڑی مدت کے لیے ہے پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور یہ بہت بری ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ لیکن جن لوگوں نے اپنے رب کا تقویٰ اختیار کیا ان کے لیے ایسے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ تو پہلی مہمانی ہوگی اللہ کی طرف سے اور جو ابدی نعمتیں اللہ کے پاس ہیں وہ بہت بہتر ہیں اس کے وفادار بندوں کے لیے) (196 تا 198) ایک غلط فہمی کا ازالہ لَایَغُرَّنَّـکَمیں ” ک “ ضمیر واحد کے لیے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں خطاب ہر مسلمان کے لیے ہے۔ آیت کا مضمون بتارہا ہے کہ یہ آیت اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب مدینے میں خصوصاً اور جزیرہ عرب میں عموماً کفر کا پلڑا بھاری تھا۔ ملک کے تمام ذرائع کافروں کے قبضے میں تھے ہر شہر میں ان کی سرگرمیاں غالب حیثیت رکھتی تھیں۔ مسلمان ابھی تک کوئی بڑی طاقت بن نہیں سکے تھے۔ ایسی صورتحال میں کمزور مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال آئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ اگر ہم حق پر ہیں اور کفر ناحق پر، تو پھر کفر کا پلڑا بھاری کیوں ہے ؟ ہر جگہ بات ان کی چلتی ہے، دولت کے منابع پر ان کا قبضہ ہے۔ وہ کسی وقت بھی مسلمانوں کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اللہ کے آخری نبی کی تشریف آوری کے بعد تیزی سے اس صورتحال کو بدلنا چاہیے لیکن اس میں تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اس آیت کریمہ میں اس غلط فہمی کو دور فرمایا گیا ہے کہ تمہیں جو کفار کی چلت پھرت، دوڑ بھاگ اور کاروبار کی فراوانی نظر آتی ہے یہ چند روزہ زندگی کا محدود سامان اور محدود لطف اندوزی کا ذریعہ ہے۔ ان کی بنیادیں اکھڑ چکی ہیں، ان کی فکر صلابت سے محروم ہے، ان کے اعمال نیکی اور خیر سے خالی ہیں۔ ان کے پاس کوئی مقصد حیات نہیں، خواہشات کی دنیا میں جیتے اور مرتے ہیں۔ وہ اس دنیا کو صرف لطف اندوزی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کی قوت اگرچہ کم ہے لیکن اس قوت میں ایک ارتقاء ہے، یہ ایک صالح بیج کی طرح آہستہ آہستہ برگ وبار لا رہا ہے۔ یہ جیسے جیسے بڑھے گا ویسے ویسے معاشرے کے لیے سکون و اطمینان کا ذریعہ بنے گا۔ اس کے برعکس کفر کا انجام یہاں ناکامی اور رسوائی ہے اور آخرت میں جہنم ان کا ٹھکانہ ہے۔ ایک دوسرے پہلو سے اس آیت کریمہ کو دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے تسلی بھی ہے اور آنے والے دنوں کی پیشگوئی بھی کہ تمہیں بظاہر کفر کی سرگرمیاں اور دوڑ بھاگ ان کی قوت اور طاقت کا اظہار معلوم ہوتی ہیں حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے وہ اس قوت سے بالکل محروم ہوچکے ہیں جو قوت کچھ کر گزرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ مصنوعی اور تصنع ہے۔ ان کا وہی حال ہے جو اقبال نے تہذیبِ مغرب کے بارے میں کہا : نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے کفر ایک ایسی دیوار کی مانند ہے جو ہل چکی ہے اور گرنا جس کا مقدر ہوچکا ہے۔ اس کے برعکس مسلمان صحیح نظریات اور صالح عمل کی وجہ سے ایک ابلتی ہوئی قوت ہیں۔ ان کی سرفروشیاں اور ان کی مخلصانہ جدوجہد بہت جلد صالح نتائج پیدا کریں گی۔ جہاں تک آخرت کا تعلق ہے یہاں اگرچہ مسلمان تنگ دستی سے دن گزار رہے ہیں لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کے لیے وہ باغات مہیا فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ اہل جنت ہمیشہ اس میں رہیں گے انھیں یہ کھٹکا نہیں ہوگا کہ ہمیں کبھی یہاں سے نکلنا بھی ہوگا۔ یہ اتنا بڑا انعام اللہ کی طرف سے ” نزل “ کے طور پر ہوگا۔ نزل عربی زبان میں اس ضیافت کو کہتے ہیں جو میزبان مہمان کے گھر پہنچتے ہی فوری مہمانی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی جب مہمان آتے ہیں تو سب سے پہلے انھیں ٹھنڈے یا گرم کا پوچھا جاتا ہے یعنی کوئی مشروب پلایا جاتا ہے یا چائے پیش کی جاتی ہے اور ساتھ ہی میزبان یہ کہتا ہے کہ ابھی آپ اس سے دل بہلائیے کھانا تیار ہوتا ہے تو پھر کھانا کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنی بےکراں جنت اور ہمیشہ رہنے کی سند ابتدائی مہمانی کے طور پر پیش فرمائے گا۔ اس کے بعد مسلسل نعمتوں کی بارش ہوگی۔ ہر نئی نعمت گزشتہ نعمت کی یاد بھلادے گی۔ آئے دن ملنے والی نعمتیں کیسی ہوں گی ؟ کسی دل میں نہ ان کا خیال گزر سکتا ہے، نہ کسی کے مشاہدے میں آسکتی ہیں اور نہ بصارت ان کی متحمل ہوسکتی ہے۔ ان کا ہلکا سا تصور دینے کے لیے صرف یہ فرمایا : وَمَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ لِّلـْاَبْرَارِ ابرار یعنی اللہ کی عبادت و اطاعت اور اس سے محبت میں زندگی کے آخری لمحے تک ثابت قدمی دکھانے والوں کے لیے جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ سب سے بہتر ہے۔ اللہ کے پاس کیا ہے، ایک بندے کی مجال نہیں کہ وہ اس پر رائے دے سکے۔ جب پروردگار اسے سب سے بہتر قرار دے رہے ہیں تو انسان کے خیال میں پرواز کی وہ قوت کہاں جو اس کی بہتری کا اندازہ کرسکے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو کیا کچھ عطا فرمائے گا۔ وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْـکِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَـآ اُنْزِلَ اِلَیْـکُمْ وَمَـآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰہِلا لاَ یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیْلًاط اُوْلٰٓئِکَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ط اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ۔ (اور بیشک اہل کتاب میں سے ایسے بھی ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس چیز پر بھی جو تم پر اتاری گئی ہے اور ان پر اتاری گئی ہے اللہ سے ڈرتے ہوئے وہ اللہ کی آیتوں کا حقیر قیمت پر سودا نہیں کرتے یہی لوگ ہیں جن کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، بیشک اللہ جلد حساب چکانے والا ہے) (199) اہلِ کتاب میں صاحب ایمان لوگوں کی تحسین ہم نے دیکھا ہے کہ اس پوری سورة میں اہل کتاب کے افعال و اعمال پر شدید تنقید ہوئی ہے اور بعض جگہ تو شدید مذمت سے کام لیا گیا ہے۔ قرآن کریم کا انداز چونکہ انتہائی منصفانہ ہے وہ گفتگو کے کسی مرحلے پر بھی تنقید کو عدل و انصاف کی حدود سے نکلنے نہیں دیتا۔ یہاں بھی ضروری سمجھا گیا ہے کہ عدل کے پلڑوں کو درست رکھنے کے لیے اگر مذمت ضروری ہے تو اس طبقے کی تعریف بھی ہونی چاہیے جو اسلام کی آغوش میں آیا اور اس نے اسلامی خدمات سرانجام دیں۔ اگرچہ یہود و نصاریٰ کی بڑی تعداد غیر مسلم رہی لیکن ان میں ایک قابل ذکر تعداد مسلمان بھی ہوئی۔ خاص طور پر حضرت عبداللہ بن سلام ( رض) جیسے علماء کا اسلام قبول کرلینا مسلمانوں کے لیے بڑی قوت کا باعث بنا۔ یہاں اسی گروہ کی تحسین کی جارہی ہے۔ نئی بنیادوں پر اٹھنے والے اور نئی نظریاتی شکل اختیار کرنے والے معاشروں میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ کسی گروہ کی ایک محدود اقلیت کسی دوسرے نظریاتی گروہ کا ساتھ دیتی ہے تو ادھر ادھر سے نگاہیں کبھی حیرانی سے اور کبھی شک کی نمائندہ بن کر ان کی نگرانی کرنے لگتی ہیں۔ انھیں اس بات کا مشکل سے یقین آتا ہے کہ یہ لوگ واقعی وفادار ہوں گے۔ ایسی صورتحال میں خو دوہ لوگ اخلاص رکھتے ہوئے بھی اپنے انجام کے بارے میں یکسو نہیں ہوتے، اس لیے پروردگار نے یہ ضروری سمجھا کہ ان نئے آنے والوں کی تحسین کی جائے تاکہ ناقدانہ نگاہیں اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور یہ نئے آنے والے لوگ اپنے انجام کے بارے میں یکسو ہوسکیں۔ چناچہ اسی ضرورت کے تحت اس آیت کریمہ میں نہ صرف ان کی تحسین فرمائی بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی اور یہ کہہ کر ان کے اجر وثوب میں اضافے کی طرف اشارہ فرمایا کہ تم جس طرح نبی کریم ﷺ اور قرآن کریم پر ایمان لائے ہو اسی طرح تم اپنے پہلے مذہب اور پہلی کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہو۔ ان دونوں میں کوئی بعد نہیں اور پھر ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا ایمان صرف زبانی ایمان نہیں بلکہ ان کے دل خشوع کی دولت سے مالا مال ہیں اور ان کے رویے میں حُبِ دنیا کے غلبے کی بجائے اسلام سے محبت غالب ہے۔ ساری قوم یہود حب دنیا کی اسیر ہو کر ہر اخلاقی قدر سے تہی دامن ہوگئی ہے۔ لیکن یہ ان میں سے نکلنے والا خالص سونا خزف ریزوں کو ہیرے سمجھنے سے انکار کرتا ہے۔ وہ اللہ کی آیات کے بدلے میں پوری دنیا کو بھی لینے کے لیے تیار نہیں۔ چناچہ ان کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اجر اللہ کے پاس ہے اور وہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ اس اجروثواب کے ملنے میں تاخیر ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سریع الحساب ہے۔ وہ تیزی سے حساب کرنے والا ہے وہ جس طرح سزا دینے کے لیے تیزی سے حساب کرتا ہے اسی طرح جزا دینے اور نوازنے کے لیے بھی تیزی سے حساب کرتا ہے۔ نہ کوئی اس کی سزا سے بچ سکتا ہے اور نہ کسی کو اس کے انعامات سے محرومی کا شکوہ ہوگا۔
Top