Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 23
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰى كِتٰبِ اللّٰهِ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ وَ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يُدْعَوْنَ : بلائیے جاتے ہیں اِلٰى : طرف كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کرے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر يَتَوَلّٰى : پھرجاتا ہے فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان سے وَھُمْ : اور وہ مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیرنے والے
کیا آپ نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنھیں کتاب الٰہی کا ایک حصہ دیا گیا وہی بلائے جارہے ہیں اللہ کی کتاب کی طرف تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو ایک گروہ ان میں سے پیٹھ پھیر لیتا ہے۔ یہ لوگ ہیں ہی روگردانی کرنے والے
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْـکِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ وَہُمْ مُّعْرِضُوْنَ ۔ (کیا آپ نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنھیں کتاب الٰہی کا ایک حصہ دیا گیا وہی بلائے جا رہے ہیں اللہ کی کتاب کی طرف تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو ایک گروہ ان میں سے پیٹھ پھیر لیتا ہے، یہ لوگ ہیں ہی روگردانی کرنے والے) (23) یہود پر تنقید کا سبب یہود مدینہ کی آبادی میں غالب عنصر کی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنے مال و دولت، اپنی کاروباری وسعت، اپنے علم اور اپنی مشیخیت کے باعث اوس و خزرج کے لوگوں پر ان کا بےپناہ اثر تھا۔ یہ قحطانی عرب اپنی تمام تر خودداریوں کے باوجود یہود سے مرعوب رہتے تھے۔ کسی بھی اہم فیصلے کے لیے وہ ہمیشہ ان کی طرف دیکھتے۔ آنحضرت ﷺ کی مدینہ طیبہ میں تشریف آوری کے بعد عام لوگوں کا خیال یہ تھا کہ یہود آگے بڑھ کر آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کی دعوت کا استقبال کریں گے۔ لیکن جب ان کی طرف سے شدید مخالفت بلکہ مخاصمت کا آغاز ہوگیا تو اوس و خزرج کے بہت سارے لوگ ان کے علمی رعب کی وجہ سے اسلام کے بارے میں شش و پنج کا شکار ہوگئے۔ وہ ایک طرف اسلام اور پیغمبر ﷺ کی حقانیت کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور دوسری طرف یہود کا رویہ انھیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا تھا۔ اس لیے قرآن پاک نے مختلف مواقع پر یہود کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش فرمائی ہے۔ گذشتہ آیت کریمہ میں تاریخ کے آئینہ میں ان کی اصل شکل دکھائی گئی ہے اور پھر یہ سوال عام لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ جس قوم کی تاریخ یہ رہی ہو اس قوم سے کس طرح قبولیتِ ایمان کی امید کی جاسکتی ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں ایک دوسرے پہلو سے ان کی دینی حیثیت کو واضح فرما کر اظہارِ تعجب کیا گیا ہے اور ان کے عملی اور فکری تضاد کو نمایاں کر کے لوگوں کے سامنے ان کی اصل حقیقت لائی گئی ہے۔ تعجب اس بات پر فرمایا گیا ہے کہ یہود و نصاریٰ وہ لوگ ہیں جنھیں کتاب الٰہی کا کچھ نہ کچھ حصہ اپنے پاس رکھنے کا شرف حاصل ہے۔ نَصِیْـبًا مِّنَ الْـکِتٰبِ کا مفہوم یہاں ممکن ہے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ یہود و نصاریٰ کے پاس مستقل اور مکمل کتابیں تھیں۔ یہود کے پاس تورات تھی اور عیسائیوں کے پاس انجیل تو پھر اس ارشاد کا کیا مطلب لیا جائے کہ انھیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا تھا ؟ حقیقت یہ ہے کہ کتاب سے اگر تورات مراد لی جائے تو وہ تورات جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی اور جس کی ایک ایک نقل ہر قبیلے کے حوالے کی گئی تھی اور بنی لاوی کو اصل نسخہ دے کر حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور شاید وہی نسخہ یا اس کی ایک نقل تابوتِ سکینہ میں رکھی گئی تھی۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وہ اصل کتاب اور اس کی نقول یہود نے گم کردیں۔ بختِ نصر کے حملے کے بعد اس کا ایک ایک نسخہ جلا دیا گیا۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) اور بعض بزرگانِ بنی اسرائیل نے مل کر جو تورات مرتب کی وہ اصل تورات نہیں بلکہ بنی اسرائیل کی تاریخ اور اس کے ضمن میں تورات کے وہ حصے شامل ہیں جو اس وقت تک لوگوں کے یا حضرت عزیر کے حافظے میں محفوظ تھے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگلی نسلوں نے اس کے بعد مزید تحریف و ترمیم سے کام لیا تو آنحضرت ﷺ کے ہم عصر یہود کے پاس تورات نام کی جو کتاب موجود تھی وہ یقینا اصل تورات کا حصہ تو کہی جاسکتی ہے، لیکن اصل تورات نہیں۔ جہاں تک انجیل کا تعلق ہے وہ اگرچہ خود بھی محفوظ نہیں رہی، لیکن اس میں چونکہ احکامِ شریعت نازل ہی نہیں کیے گئے بلکہ نصاریٰ کو تورات ہی کی شریعت کی پیروی کا حکم دیا گیا۔ اس لیے حقیقت یہی ہے کہ انجیل بھی تورات کے مقابلے میں اس کا ایک جزو تو کہی جاسکتی ہے، مکمل کتاب نہیں۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ اس آیت میں کتاب سے مراد قرآن کریم ہے اور باقی تمام کتابیں اگر محفوظ بھی سمجھ لی جائیں تو وہ اس کے مقابلے میں اجزا کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ اللہ کی طرف سے انسانوں کی راہنمائی کے لیے ہر دور میں کتابیں اور صحیفے نازل ہوتے رہے، لیکن ہر صحیفے اور ہر کتاب میں نازل کیے جانے والے احکامِ شریعت اپنے اپنے دور کے انسانی ذہن اور انسانی معاشرہ کی ضرورتوں کے مطابق تھے اور انسانی ذہن اور انسانی معاشرے نے چونکہ بتدریج ارتقاء کا سفر کیا ہے اور وہ دھیرے دھیرے اپنی بلوغ کی عمر کو پہنچا ہے، اس لیے ہر دور میں اترنے والے احکام باہمی تفاوت رکھتے تھے اور یہ تفاوت ان کے ذہنی معیار کا عکاس تھا۔ جیسے جیسے انسان بلوغ کی طرف بڑھتا گیا ویسے ویسے اللہ کی طرف سے آنے والی شریعت تکمیل کی طرف بڑھتی گئی۔ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری کے وقت انسانیت چونکہ بلوغ کو پہنچ چکی تھی تو اللہ نے وہ کتاب نازل فرمائی جس میں مکمل شریعت عطا کی گئی۔ اسی لیے قرآن کریم میں تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ پہلی تمام کتابیں چونکہ اپنے ادوار کی ضرورتوں کے مطابق تھیں، اس لیے ان میں عقائد، احکام اور آداب ان کی ذہنی سطح کے مطابق مختصر دیئے گئے تھے۔ لیکن ہر دور میں جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا ویسے ویسے ان میں بھی ارتقاء ہوتا گیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک بچہ پرائمری سکول میں جو کچھ پڑھتا ہے وہ انہی مضامین اور اسی علم کا پیش خیمہ ہوتا ہے جنھیں وہ آگے چل کر کالج یا یونیورسٹی میں پڑھتا ہے، ان میں اگر فرق ہوتا ہے تو صرف مختصر، نامکمل اور مکمل اور مطول کا ہوتا ہے۔ لیکن دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہوتا، علم کا ایک سفر ہے جس کا ایک حصہ ابتدائی سکولوں میں اور اس کا آخری حصہ بعد کے تعلیمی اداروں میں مکمل ہوتا ہے۔ یہی حال دین اور شریعت کا بھی ہے۔ اگر پہلی آسمانی کتابوں میں تحریف واقع نہ ہوئی ہوتی اور وہ بعینہ اسی طرح محفوظ ہوتیں جیسے وہ نازل کی گئی تھیں تو ہر پڑھنے والا دیکھ سکتا کہ ان کی تعلیم اور قرآن کریم کی تعلیم میں اجمال و تفصیل اور آغاز و تکمیل کے سوا کوئی فرق نہیں۔ اس آیت کریمہ میں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ ان لوگوں کو جو کتابیں دی گئی تھیں وہ اسی مشکوٰۃ علم و معرفت سے پھوٹی تھیں، جہاں سے قرآن کریم طلوع ہوا ہے۔ اس لیے جو شخص ان کتابوں کا جاننے والا ہے وہ سارے تغیرات کے باوجود کتاب الٰہی کا شناسا َضرور ہوجاتا ہے۔ اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اللہ کی کتاب کس مزاج کی حامل ہوتی ہے اور ان کتابوں میں چونکہ انبیائے کرام کی تاریخ، ان کی شخصیت کے خد و خال اور ان کی دعوت کے مختلف مراحل کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے کتاب کے کسی حصے کا پڑھنے والا بھی کتاب پڑھنے کے بعد ایسے ذوق کا حامل ضرور ہوجاتا ہے جس سے سچے نبی کو پہچاننا آسان ہوجاتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کے پاس کتابیں ہیں جن کی وجہ سے وہ اس ذوق اور اس شناسائی کے حامل ہیں اور پھر ان کی کتابوں میں آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کے بارے میں پیش گوئیاں بھی موجود ہیں اور انہی کے یہ آج تک منتظر بھی رہے ہیں۔ تو عجیب بات ہے کہ جب انہی پیش گوئیوں کے مصداق اور انہی صفات کے حامل اللہ کے آخری رسول اور آخری کتاب نازل ہوگئے تو ان کو ماننے سے انھوں نے انکار کردیا۔ ایک نہ جاننے والا کسی حقیقت کا انکار کر دے تو چنداں تعجب خیز نہیں ہوتا لیکن جب جاننے پہچاننے والا جانی پہچانی ہوئی حقیقت کا انکار کرتا ہے تو تعجب بھی ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ خیال بھی پیدا ہونے لگتا ہے کہ اس میں یقینا بدنیتی اور بدطینتی کا دخل بھی ہے۔ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ کا مفہوم لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ… الخ اس کا فاعل کتاب اللّٰہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کو اللہ کی آخری کتاب یعنی قرآن کریم پر عمل کرنے کی دعوت دی جارہی ہے تاکہ وہ اس کتاب اللہ کی مدد سے ان متنازعہ مسائل کا حل نکال سکیں جس میں وہ بری طرح مبتلا ہوچکے ہیں۔ یہود نے اپنی کتاب میں ترمیم و تحریف کرنے کی وجہ سے خود اپنے لیے ایسی الجھنیں پیدا کیں کہ نہ ان کے عقائد سلامت رہے اور نہ احکام کی اصل صورت باقی رہی اور نصاریٰ نے اپنی کتاب میں تحریف کی وجہ سے اپنے عقائد کو اس طرح بگاڑا کہ چودہ سو سال سے وہ ایک ایسے تضاد کا شکار ہیں جس کا کوئی حل ان کے پاس نہیں۔ انجیل سے اللہ کی توحید ثابت ہوتی ہے۔ لیکن ان کا اختیار کردہ تثلیث کا عقیدہ کسی طرح توحید سے میل نہیں کھاتا۔ صدیوں سے وہ اس کی عقدہ کشائی میں لگے ہوئے ہیں کہ اللہ ایک بھی ہے اور تین بھی ہیں۔ ایک میں تین اور تین میں ایک۔ ایسا سوال ہے جس کا حل قیامت تک نہیں نکل سکتا۔ باوجود اس کے کہ ان کی انجیل انھیں تورات میں بیان کردہ شریعت کی پیروی کا حکم دیتی ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے احکام اس پر شاہد ہیں، لیکن پالؔ نے عیسائیت کو ایک ایسے ڈگر پر چلایا جس کی وجہ سے وہ شریعت سے آزاد ہوگئے۔ ان باتوں کا فیصلہ کرنے کے لیے اللہ نے قرآن کریم کو نازل فرمایا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انکے اہل علم آگے بڑھ کر اللہ کے آخری رسول ﷺ اور قرآن کریم کا استقبال کرتے تاکہ جن الجھنوں نے ان کی زندگی ویران کر کے رکھ دی ہے اس سے وہ نجات حاصل کرسکتے۔ لیکن وہ بجائے استقبال کرنے کے مخالفت اور معاندت کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ آیت کے آخری حصہ میں پروردگار نے خود اس تعجب سے پردہ اٹھایا اور اس حقیقت کو افشا کیا ہے کہ یہ لوگ اپنے پاس کتاب کا ایک حصہ رکھتے ہوئے بھی اس لیے ایمان نہ لاسکے وَہُمْ مُعْرِضُوْنَ (کہ وہ ہیں ہی اعراض کرنے والے) صدیوں کی تاریخ ان کے اعراض کی داستانوں سے بھری پڑی ہے اور یہ اعراض ان کا مزاج بن چکا ہے۔ تو جو چیز ان کا مزاج بن چکی ہے، وہ آج اس روش سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ اس میں ایک طرف تو اہل کتاب کو ملامت کی جا رہی ہے اور دوسری طرف آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ ایسے لوگ جن کی فطرت بگڑ چکی اور قومی مزاج زہر آلود ہوچکا ہے آپ ان سے قبولیتِ حق کی امید کیسے رکھتے ہیں ؎ تم کو ان سے وفا کی ہے امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے یہی ان کا قومی مزاج ہے جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر حضرت مسیح (علیہ السلام) تک ہر پیغمبر نے ماتم کیا ہے اور قرآن کریم کی شہادت موجود ہے کہ بڑے بڑے نبیوں کی زبان سے ان پر لعنت کرائی گئی ہے۔
Top