Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 25
فَكَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ١۫ وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
فَكَيْفَ : سو کیا اِذَا : جب جَمَعْنٰھُمْ : انہیں ہم جمع کرینگے لِيَوْمٍ : اس دن لَّا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں وَوُفِّيَتْ : پورا پائے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : حق تلفی نہ ہوگی
سو اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم انھیں ایک ایسے دن کے لیے جمع کریں گے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ اور پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ہر شخص کو جو اس نے کمایا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا
فَکَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰـہُمْ لِیَوْمٍ لَّارَیْبَ فِیْہِ قف وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لَایُظْلَمُوْنَ ۔ (سو اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم انھیں ایک ایسے دن کے لیے جمع کریں گے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں، اور پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ہر شخص کو جو اس نے کمایا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا) (25) جن لوگوں نے آخرت میں نجات کے لیے چند جھوٹے سہارے تراش رکھے ہیں اور امیدوں اور آرزوئوں میں بہل کر اس فریب میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ ہمیں آخرت میں کوئی پکڑنے والا نہیں، اللہ نے جنت ہمارے لیے ہی پیدا کی ہے۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اس روز ان کا کیا حال ہوگا جب ہم انھیں قیامت کے دن قبروں سے اٹھائیں گے اور پھر یہ کشاں کشاں محشر میں پہنچیں گے۔ وہاں انھیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور زندگی کے ایک ایک لمحے اور ایک عمل کا ان سے حساب لیا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ ہم نے تمہیں ایک ضابطہ حیات دیا تھا، تمہیں زندگی گزارنے کے لیے راہنمائی بخشی تھی۔ تمہاری طرف آخری نبی اور آخری کتاب بھیجی گئی تھی۔ ہر دور میں تمہیں شریعت کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا گیا تھا، آج بتائو تم نے زندگی کیسے گزاری ؟ تم نے جوانی کس طرح کے معمولات میں کھپائی ؟ تم نے مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا ؟ زندگی کی راہنمائی کے لیے جس علم کی ضرورت تھی وہ تم نے حاصل کیا یا نہیں ؟ اور اگر کیا تو اس کا کیا حق ادا کیا ؟ جب تک ان باتوں کا جواب نہیں دیا جائے گا زمین سے قدم الگ نہیں ہو سکیں گے۔ اس وقت یہ لوگ حیران و پریشان چاروں طرف دیکھیں گے کہ جن سہاروں پر ہم نے زندگی برباد کی وہ تو آج کہیں دکھائی نہیں دیتے اور جو سوالات ہم سے کیے جا رہے ہیں ہمارے پاس تو ان کا کوئی جواب نہیں۔ تو آج اگر اس کا جواب سوچ لیا جائے تو ممکن ہے کہ کل کی شرمندگی اور ہولناکی سے بچا جاسکے۔ لیکن اگر آج ان کا جواب مہیا نہیں کیا جائے گا تو وہاں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ یہ کس کا بیٹا ہے یا کس کا باپ ہے بلکہ ہر شخص سے اس کے اعمال پوچھے جائیں گے اور جس شخص نے جیسے اعمال کیے ہوں گے ویسا اسے اس کا صلہ اور معاوضہ ملے گا۔ نہ جزا میں کمی ہوگی نہ سزا میں کمی بیشی ہوگی۔ کسی سے اس لیے زیادتی نہیں کی جائے گی کہ وہ ایک شودر کا بیٹا ہے اور کسی سے اس لیے رعایت نہیں کی جائے گی کہ وہ ایک سید زادہ ہے۔ ہر ایک کو اس کے ایمان و عمل کا صلہ ملے گا۔ یہ آرزوئیں اور امیدیں کام نہیں آئیں گی، ایمان و عمل کی سفارش اصل سفارش ہوگی جس سے ہر شخص کی نجات وابستہ ہوگی۔
Top