Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 26
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ١٘ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ١ؕ بِیَدِكَ الْخَیْرُ١ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
قُلِ : آپ کہیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ مٰلِكَ : مالک الْمُلْكِ : ملک تُؤْتِي : تو دے الْمُلْكَ : ملک مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتَنْزِعُ : اور چھین لے الْمُلْكَ : ملک مِمَّنْ : جس سے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُعِزُّ : اور عزت دے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُذِلُّ : اور ذلیل کردے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِيَدِكَ : تیرے ہاتھ میں الْخَيْرُ : تمام بھلائی اِنَّكَ : بیشک تو عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
اے پیغمبردعا کیجیے ! اے اللہ ! بادشاہی کے مالک ! تو ہی جس کو چاہے بادشاہی دے، جس سے چاہے بادشاہی چھینے۔ تو جسے چاہے عزت بخشے اور جسے چاہے ذلت دے۔ تیرے ہی ہاتھ میں ساری بھلائی ہے۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْـکِ تُؤْتِی الْمُلْـکَ مَنْ تَشَآئُ وَتُنْزِعُ الْمُلْـکَ مِمَّنْ تَشَآئُ ز وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّـکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُ ۔ تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَتُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ ز وَ تُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ ز وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَآئُ بِغَیْرِحِسَابٍ ۔ (اے پیغمبر ! دعا کیجیے، اے اللہ ! بادشاہی کے مالک ! تو ہی جس کو چاہے بادشاہی دے، جس سے چاہے بادشاہی چھینے۔ تو جسے چاہے عزت بخشے اور جسے چاہے ذلت دے۔ تیرے ہی ہاتھ میں ساری بھلائی ہے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے بےحساب رزق دیتا ہے) (26 تا 27) شانِ نزول بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ دونوں آیات کریمہ جنگ خندق کے موقع پر نازل ہوئیں۔ سیاق کلام یہود سے متعلق ہے اور یہود ہی کو سنا کر چند باتیں ارشاد فرمائی جا رہی ہیں۔ لیکن جنگ خندق کے موقع پر ان آیات کے نزول نے وقت کی تمام سرکش قوتوں کی طرف اشارے کیے ہیں جس میں یہود بھی ہیں، مشرکینِ عرب بھی اور بعض علاقوں کے سردار بھی اور مزید یہ کہ چوں کہ جنگ خندق کے انعقاد کا اصل سبب یہود ہی کی سازشیں تھیں، اس لیے اسی سیاق کلام میں ان آیات کو لایا گیا ہے۔ بنو نضیر کو جب سے مدینہ منورہ سے نکالا گیا تھا، انھوں نے تہیہ کرلیا تھا کہ وہ مسلمانوں سے اس کا انتقام لیں گے۔ چناچہ انہی کی کوششوں کا یہ نتیجہ تھا کہ پورے عرب میں اسلام دشمنی کی ایک لہر اٹھی اور ایک بڑے لشکر کی صورت میں مدینہ پر چھا گئی۔ روایات مختلف ہیں، اس لشکر کی تعداد دس سے چوبیس ہزار تک روایت کی جاتی ہے اور مسلمانوں کے پاس زیادہ سے زیادہ تین ہزار کی تعداد تھی۔ انھیں اپنے بچوں اور خاندانوں کو بھی سنبھالنا تھا، بنوقریظہ کی درپردہ دشمنی کا بھی سدباب کرنا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اتنی بڑی منہ زور قوت کا مقابلہ بھی کرنا تھا۔ مدینہ کے اقتصادی حالات کسی جنگ کے متحمل نہیں تھے۔ لیکن یہود کی سازشوں نے ایک طوفانِ عظیم کھڑا کردیا تھا۔ آنحضرت ﷺ کو جب ان حالات کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے حضرت سلمانِ فارسی ( رض) کے مشورہ سے خندق کھودنے کا آغاز فرمایا تاکہ خندق کے پیچھے بیٹھ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ چناچہ جب یہ خندق کھودی جا رہی تھی تو ایک چٹان رستے میں حائل ہوگئی جو کسی طرح ٹوٹنے کا نام نہ لیتی تھی۔ مسلمانوں نے ہرچند کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ آنحضرت ﷺ کو اطلاع دی گئی، آپ ﷺ اس حال میں تشریف لائے کہ مسلسل فاقہ کی وجہ سے کمر سیدھی نہیں ہو رہی تھی تو آپ ﷺ نے اسے سیدھا رکھنے کے لیے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے۔ آپ ﷺ نے کمزوری کے باوجود پھاوڑا اٹھا کر چٹان پر ضرب لگائی، اس میں دراڑیں پڑیں اور ساتھ شعلے پھوٹے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں مبارک ہو مجھے اس میں قیصر کے محلات دکھائے گئے ہیں۔ دوسری ضرب لگائی تو پھر اس سے روشنی نکلی۔ آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں مبارک ہو میں نے اس میں کسریٰ کے محلات دیکھے ہیں۔ تیسری چوٹ نے چٹان کو ریزہ ریزہ کر ڈالا اور اس سے شعلے بھی نکلے آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہ تمہیں مبارک ہو میں نے اس میں یمن کے محلات دیکھے ہیں۔ مقصد یہ تھا کہ آج جب کہ تمہیں زندگی کے لالے پڑے ہیں اور بظاہرحالات بقا کی جنگ درپیش ہے، لیکن مجھے دکھایا جا رہا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب یہ تینوں بڑی قوتیں مفتوح ہو کر مسلمانوں کے قدموں میں پڑی ہوں گی۔ جب یہ باتیں یہود اور منافقین کے کانوں تک پہنچیں تو انھیں مذاق اڑانے کا ایک نیا موقع ہاتھ آگیا۔ انھوں نے اپنی مجلسوں میں یہ کہنا شروع کیا کہ ذرا ان مسلمانوں کو دیکھو نہ انھیں کھانے کو ملتا ہے نہ پہننے کو اور خواب یہ محلات کے دیکھتے ہیں۔ ان کے دماغوں میں بادشاہت کا سودا پیدا ہوگیا ہے۔ یہ تمسخر اور استہزاء اگرچہ مسلمانوں کے لیے کوئی نئی بات نہ تھا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے آغاز دعوت ہی سے تمام لوگوں پر یہ بات واضح کردی تھی اور ہر آنے والے دن میں آپ نے اس بات کو ہمیشہ نئے نئے عنوانات کے ساتھ دہرایا کہ میں جس دین کو لے کے آیا ہوں اس کو قبول کرنے کے نتیجے میں صرف عاقبت اور آخرت ہی اچھی نہیں ہوگی بلکہ دنیا بھی سنور جائے گی۔ جو گروہ اس دین کا علم لے کر اٹھے گا اسے اللہ تعالیٰ دنیوی اور اخروی نعمتوں سے نوازیں گے اور وقت کی بڑی بڑی قوتیں اس کے مقابلے میں مفتوح ہوجائیں گی۔ آپ ﷺ نے مکہ معظمہ میں بھی اس وفد کے سامنے یہ بات فرمائی جو ابو طالب کے مرض الوفات میں آنحضرت ﷺ سے گفتگو کرنے کے لیے آیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں جو کلمہ لے کے آیا ہوں اگر تم اسے قبول کرلو اور اسے زندگی کا راہنما بنا لو تو تَمْلِکُوْنَ بِہَا الْعَرَبُ وَتُدِیْنُ لَـکمْ بِہَا الْعَجَمُ (تم عرب کے مالک ہوجاؤ گے اور عجم تمہارے قدموں میں جھک جائے گا اور تمہارا مطیع ہوجائے گا) ایسی ہی باتوں پر مشرکین مکہ بھی مذاق اڑاتے تھے، انھیں بھی اپنی قیادت سعادت اور امارت پر ناز تھا اور یہود بھی اسی فریب میں مبتلا تھے۔ قرآن کریم نے ان آیات میں مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھا کیونکہ ان کے تمسخر اور استہزاء سے مسلمانوں کے دل ہمیشہ زخمی ہوتے تھے اور ان کے سامنے ایک آئینہ رکھ دیا ہے جس میں وہ آنے والے حالات کی صورت دیکھ سکتے ہیں اور یہود کو بطور خاص بالواسطہ توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تمہیں جس عظیم منصب پر فائز کیا گیا تھا، تم نے اس کی قدر نہ پہچانی، صدیوں تک تمہیں سنبھلنے کا موقع دیا گیا، اب وقت آگیا ہے کہ تمہیں معزول کردیا جائے اور تمہاری جگہ قوموں کی دعوت و امامت کا منصب ان لوگوں کو سونپ دیا جائے، جو اپنے مضبوط ایمان اور صالح کردار کے باعث اس کے اہل ہیں۔ تم ہزار آل اسماعیل سے بغض رکھو اور اس فریب میں مبتلا رہو، لیکن تم اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ اس کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ یہاں کے تغیرات اسی کے حکم سے وجود میں آتے ہیں۔ چونکہ وہ مالک ہے اس لیے بجا طور پر اس کا حق ہے کہ وہ جسے چاہے ملک دے دے اور جس سے چاہے چھین لے۔ وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت کے دلدل میں اتار دے۔ تم اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ تمہیں صدیوں تک حامل دعوت امت ہونے کی عزت بخشی گئی۔ تم بجائے اس کے کہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے، تم نے اسے بھی اپنا ذاتی استحقاق سمجھا اور جہاں تک دوسری قوموں کا تعلق ہے انھوں نے حکومت و اختیار کو تقدس یا الوہیت کی علامت سمجھا۔ اس لیے جہاں اقتدار دیکھا اس کے سامنے جھک گئے اور مقتدر قوتوں نے بھی اپنے آپ کو دوسروں سے برتر جانا بلکہ بادشاہی کو الوہیت یا نیم الوہیت کا درجہ دے دیا اور بادشاہوں کو خدا کا اوتار بنادیا۔ مصر میں فرعون کی پرستش ہوتی رہی، ہندوستان میں چندر بنسی اور سورج بنسی، راجا مہاراجا خدائی اوتار سمجھے گئے، جاپان میں میکاڈوآج تک مظہر خدا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں زور دے کر فرمایا گیا کہ مالک صرف اللہ کی ذات ہے، دنیا کی حکومتیں اور بادشاہتیں سب اللہ کے قبضے میں ہیں۔ وہ جب بادشاہوں سے اقتدار لینے پہ آتا ہے تو مسولینی اور ہٹلر جیسے آمر بھی عبرت بن کر رہ جاتے ہیں۔ اس لیے نہ تو مشرکین عرب کے پاس قبائل کی سرداریاں رہیں گی اور نہ یہود کے پاس امارتیں اور مشیخیت کی مسندیں رہیں گی۔ عزت و ذلت کے پیمانے بدلنے والے ہیں۔ یہود سے امامت چھین کر مسلمانوں کو دی جا رہی ہے۔ لیکن اسے کھل کے کہنے کی بجائے دعا کا پیرایہ اختیار کیا گیا۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک وجہ یہ تھی کہ ابھی حالات اتنے واضح نہیں ہوئے تھے کہ مسلمانوں کی کامیابی اور کافروں کی ہزیمت کھل کے سامنے آجاتی۔ مستقبل ابھی تک پردے میں تھا۔ اس لیے کھل کر بات کہنے کی بجائے یہی اسلوب زیادہ موزوں تھا اور دوسری یہ بات کہ خود مسلمانوں کو حالات کی نزاکت کا احساس دلانا تھا کہ اللہ تعالیٰ عنقریب ایک بہت بڑی ذمہ داری ان کے سپرد کر رہا ہے۔ وہ اسے ان احساسات کے ساتھ قبول کریں جو احساسات دعا میں کارفرما ہوتے ہیں۔ اتنے بڑے اعزاز سے فخر و غرور پیدا ہونے کی بجائے تواضع، تذلل اور احساسِ عبدیت کے جذبات پیدا ہونے چاہئیں۔ وہ ہمیشہ اس بات کو سامنے رکھیں کہ پوری کائنات کا مالک تو پروردگار ہے۔ وہی عزت دیتا ہے وہی ذلت دیتا ہے، ہمیں ہرحال میں اسی کی بندگی اور اطاعت کرنا ہے اور اسی کے سہارے اعلائے کلمتہ الحق کا فرض انجام دینا ہے۔ بِیَدِکَ الْخَیْرُ کا مفہوم بِیَدِکَ الْخَیْرُ آیت کریمہ میں پہلو بہ پہلو دو باتوں کا ذکر ہے کہ اللہ وہ ہے جو جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ دو متضاد باتیں ایک ساتھ بیان فرمائی گئی ہیں، جن میں ایک خیر ہے اور دوسری شر۔ ایک اچھائی ہے اور ایک برائی۔ اس لحاظ سے ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان باتوں کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا جاتا بِیَدِکَ الْخَیْرِ وَالشَّرِّ (تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے اور تیرے ہی ہاتھ میں برائی ہے) تو جس طرح خیر کا مالک ہے اسی طرح شر کا بھی مالک ہے۔ نہ خیر کسی کو تیری اجازت کے بغیر پہنچ سکتا ہے اور نہ شر تیری اجازت کے بغیر کسی کو لاحق ہوسکتا ہے۔ لیکن شر کا لفظ حذف کردیا گیا اور صرف خیر کے ذکر پر اکتفا فرمایا گیا۔ جب کہ مقتضائے حال کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں کو ذکر کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی کو تاہی فکر کے باعث دو باتوں کے سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ ایک یہ بات کہ وہ پوری انسانی دنیا کو جسد واحد سمجھنے کے بجائے ایک ایک فرد کو سامنے رکھ کر قیاس کرتا اور حکم لگاتا ہے۔ وہ اپنے فائدے کو فائدہ سمجھتا ہے اور اپنی تکلیف کو تکلیف گردانتا ہے۔ لیکن اس کی فکری کوتاہی کبھی اسے یہ سوچنے پر آمادہ نہیں کرتی کہ تم تو صرف اپنے بارے میں سوچتے ہو لیکن کائنات کا خالق پوری کائنات اور پھر پوری انسانی دنیا کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرتا ہے۔ وہ جہاں ایک ایک فرد کی مصلحت کو دیکھتا ہے وہیں پورے جسدِ انسانیت کی مصلحت بھی اس کے سامنے ہوتی ہے۔ اگر فرد کی تکلیف میں جسد انسانیت کی راحت ہے تو وہ فرد کی تکلیف کا فیصلہ کرتا ہے اور اگر فرد کی بھلائی میں جسدِ انسانیت کے لیے خیر ہے تو وہ خیر کا فیصلہ فرماتا ہے کیونکہ اس کے پیش نظر انسانیت کا اجتماعی فائدہ اور اجتماعی مصلحت ہے۔ ایک فرد کی مصلحت صرف اس کے لیے ہے، لیکن اجتماعی مصلحت میں تمام افراد شریک ہوتے ہیں اور ہر فرد اپنی قسمت کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ دوسری بات جس کا ادراک عموماً ہر فرد نہیں کرتا وہ یہ ہے کہ خیر اور شر درحقیقت اضافی باتیں ہیں۔ اسی طرح فائدہ اور نقصان وہ بھی نسبت کے اختلاف کے ساتھ مختلف ہوجاتا ہے۔ ایک آدمی کو پہنچنے والی بظاہر تکلیف ضروری نہیں کہ دوسروں کے لیے بھی تکلیف ثابت ہو۔ متنبی کا مشہور مصرعہ ہے : مَصَائِبُ قَوْمٍ عِنْدَ قَوْمٍ فَوَائِدٗ (ایک قوم کے مصائب دوسری قوم کے فوائد ہوتے ہیں) ایک قاتل جب قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکتا ہے تو یقینا اس کے اہل خانہ کے لیے یہ ایک بڑی مصیبت ہوتی ہے۔ بچے اس کے یتیم رہ جاتے ہیں، بیوی بیوہ ہوجاتی ہے، گھر کا پورا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کی پھانسی بہت سے لوگوں کے لیے اذیت کا باعث ہے۔ لیکن جس گھر کا اس نے فانوس بجھایا، جن بچوں کے سر سے اس نے سایہ چھینا، جس عورت کا اس نے سہاگ لوٹا، ان سے پوچھ کر دیکھئے کہ کیا اس کی پھانسی کسی تکلیف کا باعث ہے یا راحت کا ؟ متذکرہ بالا دونوں حقیقتوں کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ خیر کی اور شر کی تقسیم ہماری کوتاہی فکر کا نتیجہ ہے ورنہ ہر چیز خیر ہے اور انسانوں کے غلط استعمال سے وہ شر ہوجاتی ہے۔ اس لیے اس دعا میں ہمیں یہ سکھایا گیا کہ ہم یہ دعا کریں کہ یا اللہ ! ہر بھلائی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں بھلائی نصیب فرما اور ہمیں ایسے ہر غلط استعمال سے محفوظ فرما جس میں تیری عطا کردہ بھلائی کو ہم برائی سے بدل ڈالیں کیونکہ ؎ نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں دوسری آیت کریمہ میں اسی بات کو موکد کرنے کے لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے اختیارِ مطلق پر کائنات کا نظام تکوینی بھی شہادت دے رہا ہے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں بےدست و پا ہے۔ وہی اللہ ہے جو رات کو دن میں تبدیل کرتا ہے اور رات کے بعد دن کو نمودار کرتا ہے۔ یہ مردہ سے زندہ کو اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے۔ اسی کے حکم سے انڈہ سے مرغی نکلتی ہے اور مرغی سے انڈا پیدا ہوتا ہے۔ وہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے یعنی وہ دونوں یکے بعد دیگرے ایک نظام میں بندھے ہوئے اس طرح محو پرواز ہیں کہ یُکَوِّرُاللَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُالنَّہَارَ عَلَی اللَّیْلِ (کہ رات دن پر لپٹی چلی آتی ہے اور دن رات پر لپٹا چلا آتا ہے) دونوں میں کہیں انقطاع نہیں ہوتا۔ دن کی روشنی میں اندھیرا اور اندھیرے میں دن کی روشنی اس طرح اتر جاتی ہے جس طرح کوئی دل میں اتر جاتا ہے۔ جس پروردگار کے غلبہ اور استعلاء اور بےپناہ قدرت کا یہ عالم ہے اس پر یہ اعتراض کرنا کہ ” وہ آل اسماعیل میں نبی کیسے پیدا کرسکتا ہے یہ تو سراسر بنی اسرائیل کا حق ہے “ کس قدر بےہودگی ہے۔ بشارت کو دعائیہ اسلوب میں لپیٹ کر پیش کرنا اس کی مثالیں قرآن کریم میں اور بھی موجود ہیں مثلاً ہجرت کے حکم سے کچھ پہلے نبی کریم ﷺ کو یہ دعا سکھلائی گئی : وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِیْ مِنْ لَّـدُنْـکَ سُلْطَانًا نَصِیْرًا۔ وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْـبَاطِلُ اِنَّ الْـبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا۔ (اے پیغمبر ! دعا کیجیے، اے میرے رب ! مجھے عزت کے ساتھ داخل کر اور مجھے عزت کے ساتھ نکال اور مجھے خاص اپنے پاس سے نصرت کا پروانہ عطا فرما۔ اور یہ بھی کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوا اور باطل نابود ہونے ہی کے لیے ہے) اس دعا میں دیکھ لیجئے کہ اس میں ہجرت کی طرف اشارہ بھی ہے اور ساتھ ہی اس بات کی بشارت بھی کہ آپ ﷺ کا مکہ سے نکلنا اور دارالہجرت میں داخل ہونا دونوں عزت کے ساتھ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا سروسامان فراہم کیا جائے گا کہ ہجرت اور مدینے میں داخلہ آسان ہوجائے گا اور پھر اس میں عجیب بات یہ ہے کہ داخل ہونے کا ذکر پہلے ہے اور نکلنے کا بعد میں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں آپ کے پروقار داخلے کا پہلے سے سروسامان ہوچکا ہے اور اس پیرایہ دعا میں اس کٹھن سفر کو ایسی محبوبیت عطا کردی ہے کہ اس کے راستے کا ایک ایک کانٹا پھول محسوس ہونے لگا۔ یہی حال اس دعا کا بھی ہے۔ اس میں مسلمانوں پر ایک عظیم ذمہ داری ڈالے جانے کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن پیرایہ دعا میں اس عظیم ذمہ داری کو محبوبیت عطا کردی ہے اور ساتھ ہی دل و دماغ کو اس راستے میں آنے والی مشکلات کے لیے تیار کردیا ہے۔ بِغَیْرِ حِسَابٍ کا مفہوم اس لیے آخر میں فرمایا : وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ۔ (اللہ جسے چاہتا ہے بےحساب رزق دیتا ہے) بےحساب سے یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ کے یہاں اس کا کوئی حساب نہیں ہوتا۔ اللہ کی حاکمیت تو اس حد تک مرتب اور مکمل ہے کہ اس میں کسی چیز کا توازن درہم برہم نہیں ہوتا، حقوق میں اختلال پیدا نہیں ہوتا اور کوئی چیز اس کے حکم سے باہر نکل نہیں سکتی۔ اس لیے بےحساب کے دو مطلب لیے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ جب عطا کرنے پہ آتا ہے تو انسانوں کے پیمانے اس کی قدر و پیمائش سے عاجز رہ جاتے ہیں اور انسان کے ظن و گمان اس کے سامنے سمٹ جاتے ہیں اور دوسرا مطلب اس کا یہ ہے یَرْزُقْـہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (وہ وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے سان گمان بھی نہیں ہوتا) اس کی بہترین مثال حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے۔ آپ ( رض) رفع حاجت کے لیے کھجوروں کے ایک جھنڈ میں جا کے بیٹھے۔ آپ ( رض) نے دیکھا کہ ایک چوہا بل سے نکلا۔ اس کے منہ میں سونے کی ایک اشرفی تھی جو اس نے بل سے باہر رکھ دی اور پھر بل میں گھس گیا۔ اس طرح اس نے سترہ چکر لگائے اور سترہ اشرفیاں لا کر باہر رکھ دیں اور پھر اس کی نگرانی کے لیے بیٹھ گیا۔ حضرت عبداللہ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے تو اس کی طرف بڑھے وہ انھیں دیکھ کر بل میں گھس گیا۔ آپ ( رض) نے وہ اشرفیاں اٹھائیں اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سارا واقعہ سنا کر پوچھا کہ میرے لیے ان اشرفیوں کا استعمال حلال ہے یا حرام ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ حلال اور طیب رزق ہے جو تجھے اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طریقے سے عطا فرمایا ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے متذکرہ بالا آیت پڑھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ چوہا ایک ایسا جانور ہے جو باہر کی چیزیں اپنے بل میں لے جاتا ہے، اپنے بل سے کوئی چیز لا کر باہر رکھ دے، یہ اس کی عادت اور معمول کے خلاف ہے۔ ایسے جانور کے ذریعے رزق دینا ” بغیر حساب “ کہلاتا ہے یعنی ایسے ذریعے سے رزق دیا گیا جس سے کبھی گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حاصل کلام یہ کہ بظاہر حالات ابھی مسلمانوں کے حق میں نہیں، لیکن اس کائنات کا مالک جلدی تبدیلی لانا چاہتا ہے، تم عنقریب دیکھو گے کہ یہود کی سازشیں دم توڑ جائیں گی، ان کی گڑھیاں اور ان کے قلعے انھیں پناہ نہیں دے سکیں گے۔ مشرکین عرب بالآخر سرنگوں ہوجائیں گے اور انسانوں کی اصلاح و فلاح کی ذمہ داری مسلمانوں کے حوالے کردی جائے گی اور یہ سب کچھ اس طرح سے ہوگا جس کا آج گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ چناچہ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ مسلمان اسی طرح نوازے گئے اور مسلمانوں کے دشمن ایک ایک کر کے یا مسلمان ہوگئے یا قتل ہوگئے یا تحلیل ہوگئے۔ امام بغوی نے اپنی سند کے ساتھ ایک حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص ہر نماز کے بعد سورة فاتحہ، آیت الکرسی اور آل عمران کی دو آیتیں ایک آیت شَہِدَاللّٰہُ اَنَّـہٗ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ آخر تک اور دوسری یہ آیت قُلِ اللّٰہُمَّ سے بِغَیْرِ حِسَابٍ تک پڑھا کرے تو میں اس کا ٹھکانہ جنت میں بنا دوں گا اور اس کو اپنے حظیرۃ القدس میں جگہ دوں گا اور ہر روز اس کی طرف ستر مرتبہ نظر رحمت کروں گا اور اس کی ستر حاجتیں پوری کروں گا اور ہر حاسد اور دشمن سے پناہ دوں گا اور ان پر اس کو غالب رکھوں گا۔
Top