Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 29
قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ اَوْ تُبْدُوْهُ یَعْلَمْهُ اللّٰهُ١ؕ وَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
قُلْ : کہ دیں اِنْ : اگر تم تُخْفُوْا : چھپاؤ مَا : جو فِيْ : میں صُدُوْرِكُمْ : تمہارے سینے (دل) اَوْ : یا تُبْدُوْهُ : تم ظاہر کرو يَعْلَمْهُ : اسے جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَيَعْلَمُ : اور وہ جانتا ہے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
کہہ دیجیے کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اس کو چھپائو یا ظاہر کرواللہ اسے جانتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ اَوْ تُبْدُوْہُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ ط وَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا صلے ج وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓئٍ ج تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَہَا وَبَیْنَـہٗٓ اَمَدًا م بَعِیْدًا ط وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ط وَاللّٰہُ رَئُ وْفٌ م بِالْعِبَادِ ۔ ع (کہہ دیجیے کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اس کو چھپائو یا ظاہر کرواللہ اسے جانتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جس دن موجود پائے گا ہر شخص جو اس نے نیکی کی ہوگی اور جو اس نے برائی کی ہوگی اور وہ آرزو کرے گا کہ کاش ! اس کے اور اس کے درمیان ایک طویل مدت حائل ہوجائے اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے، اللہ اپنے بندوں کے ساتھ بڑا مہربان ہے) (29، 30) محبت اور دوستی کا تعلق چونکہ دل سے ہے اور دل ایک ایسی گہری وادی ہے کہ جس کے ایک ایک احساس کو جاننا اور اس کی ایک ایک لہر کو گننا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ ایک شخص چرب زبانی سے اپنی محبت کا اظہار کر کے دوسرے کو یقین دلا دیتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ مخلصانہ تعلق رکھتا ہوں اور سننے والا اس کی چرب زبانی سے متأثر ہو کر یقین کرلیتا ہے۔ لیکن حالات ثابت کرتے ہیں کہ اس کا زبانی اظہار دھوکا دہی کی واردات کے سوا کچھ نہ تھا اور یہی وہ مرحلہ ہے جس میں ہمیشہ تعلقات آزمائے جاتے ہیں اور انسان اسی طرح ایک دوسرے کو فریب دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جو آدمی اللہ کی صفات کا استحضار نہیں رکھتا وہ اپنے دینی تعلق میں بھی انہی کمزوریوں کا شکار رہتا ہے۔ زبان سے کچھ کہتا ہے اور دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔ اس لیے پروردگار نے فرمایا کہ اے پیغمبر ! ان پر یہ بات واضح کردو کہ تم اپنے سینے کی باتوں کو ظاہر کرو یا چھپائو اللہ کی ذات کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا، وہ تمہارے سینوں کے اسرار سے پوری طرح آگاہ ہے۔ تمہارے دل میں خیال کی لہر بعد میں اٹھتی ہے اللہ کے علم میں پہلے سے ہوتی ہے اور صرف تم ہی نہیں اس کائنات میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کے علم میں نہ ہو۔ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا (زمین پر کوئی پتہ نہیں گرتا مگر اللہ اسے جانتا ہے) خزاں میں زمین پر گرنے والے پتوں کو کون شمار کرسکتا ہے اور پوری زمین پر اٹھنے والوں آہٹوں کو کون سن سکتا ہے ؟ لیکن اللہ کے علم کی وسعتوں کا کیا ٹھکانہ ہے کہ وہ ایک ایک پتے کو گرتا ہوا دیکھتا ہے اور اس کے گرنے کی آہٹ سنتا ہے۔ سمندر کی نچلی تہہ میں اگر کوئی مچھلی حرکت کرتی ہے تو اللہ اس کی حرکت کو جانتا ہے، زمین کی پہنائیوں میں گھاس کی پتی پھوٹتی ہے کوئی دانہ اگتا ہے، کوئی گٹھلی سوئی نکالتی ہے، کوئی سیپ منہ کھولتی ہے، کوئی قطرہ گہر بنتا ہے، سورج کی کوئی کرن نکلتی ہے، کوئی کلی چٹکتی ہے، ان میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کے علم میں نہ ہو۔ جس طرح اس کا علم مکمل اور بےمثال ہے اسی طرح اس کی قدرتوں کی بھی کوئی انتہا نہیں۔ کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی اس کی گرفت سے باہر نہیں۔ اگر آج تم اس کے علم کی وسعتوں اور اس کی قدرتوں کی بےپناہی کو دل و دماغ میں بٹھا لو تو عاقبت سنور جائے گی اور زندگی پاکیزہ ہوجائے گی ورنہ اس بات کو یاد رکھو وہ دن زیادہ دور نہیں جس دن ایک ایک شخص اللہ کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوگا اور ہر شخص کے ہاتھوں میں اپنا نامہ عمل ہوگا۔ اس نے زندگی میں کوئی نیکی کی ہوگی تو اس میں وہ بھی موجود پائے گا اور کوئی برائی کی ہوگی تو وہ بھی موجود ہوگی۔ آدمی کی حیرت کی انتہا نہ رہے گی جب وہ دیکھے گا کہ جو اعمال میرے حافظہ سے اتر چکے تھے وہ سب اس میں موجود ہیں، وہ چیختے ہوئے کہے گا : یٰـوَیْلَتٰی مَا لِھٰذَا الْـکِتَابَ لَایَغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلاَ کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصَاہَا وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا وَلاَ یَظْلِمُ رَبُّـکَ اَحَدًا (ہائے شامت اعمال…! یہ نامہ عمل کیسا ہے ؟ نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتا ہے نہ کوئی بڑی، انھوں نے زندگی بھر جو کیا ہوگا اس میں موجود پائیں گے (اب جزا سزا انھیں اعمال کے حوالے سے ہوگی) اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا) اس وقت انسان آرزو کرے گا کہ کاش ! اس کے اور اس کی بد اعمالیوں کے درمیان ایک لمبی مسافت حائل ہوجائے تاکہ وہ اپنی بد اعمالیوں کو نہ دیکھ سکے لیکن ایسا نہیں ہو سکے گا۔ لیکن اس وقت اس پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن اللہ کے کرم کا کیا کہنا، اللہ پھر امید کا چراغ روشن کرتا ہے اور دوبارہ وہی بات ارشاد فرماتا ہے جو پہلی آیت میں گزر چکی کہ اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے، اس سے ڈرو اور اپنی بد اعمالیوں سے باز آجاؤ۔ نفاق کا رویہ ترک کردو، اسلام کے بارے میں یکسو ہوجاؤ۔ وہ بار بار اپنی ذات سے تمہیں اس لیے ڈراتا ہے کیونکہ وہ اپنے بندوں کے لیے رؤف ہے۔ رؤف کا مصدر رأفۃ ہے۔ رأفت ” دل کی نرمی اور خیر خواہی “ کو کہتے ہیں۔ لیکن اس میں دفع شر کا پہلو غالب ہوتا ہے یعنی یہ ایک ایسی رحمت ہے جو بندوں کو ہر نقصان اور شر سے بچانا چاہتی ہے اور چونکہ اصل نقصان آخرت کا نقصان ہے اور اصل سزا جہنم کی سزا ہے اس لیے پروردگار اپنے بندوں کو اس سے بچانے کے لیے بار بار اپنی ذات کا حوالہ دے رہا ہے۔
Top