Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 44
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ١ؕ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ١۪ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ : خبریں الْغَيْبِ :غیب نُوْحِيْهِ : ہم یہ وحی کرتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَمَا كُنْتَ : اور تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يُلْقُوْنَ : وہ ڈالتے تھے اَقْلَامَھُمْ : اپنے قلم اَيُّھُمْ : کون۔ ان يَكْفُلُ : پرورش کرے مَرْيَمَ : مریم وَمَا : اور نہ كُنْتَ : تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يَخْتَصِمُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے
یہ غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں اور آپ ان کے پاس موجود نہیں تھے جب وہ ( قرعہ اندازی کے لیے) اپنی قلمیں ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی سرپرستی کرے اور آپ اس وقت بھی ان کے پاس نہ تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے
ذٰلِکَ مِنْ اَنْـبَآم ئِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْـکَ ط وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْیُلْقُوْنَ اَقْلاَ مَہُمْ اَیُّـہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ ص وَمَاکُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْیَخْتَصِمُوْنَ ۔ (یہ غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ اور آپ ان کے پاس موجود نہیں تھے جب وہ (قرعہ اندازی کے لیے) اپنی قلمیں ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی سرپرستی کرے اور آپ اس وقت بھی ان کے پاس نہ تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے) (44) گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت مریم (علیہ السلام) کے بارے میں اہل کتاب کی تاریخ کا جو حصہ بیان کیا ہے اس کا انجیل میں اولاً تو ذکر ہی نہیں اور اگر کہیں ذکر ہے تو کچھ غیر مربوط باتیں ہیں۔ اس لیے اثنائے کلام میں نبی کریم ﷺ کی طرف التفات فرما کر آپ ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ غیب کی خبریں تمہارے علم و اطلاع سے غیر متعلق ہیں کیونکہ یہ واقعات عرب سے باہر پیش آئے اور عربوں کی تاریخ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور جن کی تاریخ سے یہ واقعات متعلق ہیں انھوں نے تاریخ کا یہ حصہ نہایت نامکمل شکل میں تاریخ کے حوالے کیا ہے ؟ جن علاقوں میں یہ واقعات پیش آئے آپ نہ کبھی وہاں رہے اور نہ کبھی گئے اور پھر وہ زمانہ بھی آپ ﷺ کے زمانے سے نہایت دور کا زمانہ ہے۔ لیکن آپ ﷺ پر جو کتاب نازل ہو رہی ہے وہ جس طرح ان واقعات کو حسن ترتیب، غایت صحت اور حکمت سے بھرپور انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کر رہی ہے یہ بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو منصب نبوت سے نوازا ہے اور آپ ﷺ پر اللہ کی طرف سے وحی اتر رہی ہے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ عیسائی حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور زکریا کو بھی کاہن اعظم کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور حضرت مریم کے بارے میں تو وہ انتہائی غلو کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ باایں ہمہ ! حضرت یحییٰ و زکریا کا تو کیا کہنا حضرت مریم کے واقعات کو بھی انجیل میں نہایت سرسری انداز میں بیان کیا گیا ہے اور اس سے یہاں تک مترشح ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی والدہ محترمہ کا اس طرح احترام نہیں کرتے تھے جس احترام کی وہ مستحق تھیں۔ بعد میں عیسائیوں نے حضرت مریم کے بارے میں جو بھی عقیدہ اختیار کیا ہو لیکن ان کی اصل حیثیت اور ان کا تقدس اور احترام انجیل نے نہیں، قرآن کریم نے واضح کیا ہے۔ لیکن کس قدر ستم کی بات ہے کہ عیسائی اس پر شکرگزار ہونے کی بجائے مسلمانوں کی دشمنی پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ آیت میں قلمیں ڈالنے کا جو ذکر آیا ہے اس سے مراد وہ قلم ہے جو بیت المقدس میں قرعہ اندازی کے لیے رکھے گئے تھے۔ بیت المقدس میں رکھے گئے تیروں کی طرح ان کا استعمال جوئے کے لیے نہیں ہوتا تھا بلکہ انھیں قرعہ اندازی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور اسلام نے حقوق مساوی ہونے کی صورت میں تصفیہ نزاع کے لیے قرعہ اندازی بالکل جائز رکھا ہے۔ مثلاً چار بھائیوں کا ایک مکان ہے جس میں وہ برابر کے شریک ہیں۔ اب ان میں نزاع یہ ہے کہ اسے کس طرح تقسیم کیا جائے ؟ تو اس میں اگر وہ آپس میں قرعہ اندازی کرلیں تو اسلام اس کی مخالفت نہیں کرتا۔ چناچہ ہیکل کے تمام خدام حق کفالت میں برابری رکھتے تھے۔ حضرت مریم جب ان کے پاس آئیں اور سوال یہ پیدا ہوا کہ ان کی کفالت اور تربیت کی ذمہ داری کون اٹھائے ؟ تو حضرت عمران کی صاحبزادی ہونے کی حیثیت سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ یہ نیک کام میرے حصے میں آئے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے گھر میں چونکہ ان کی خالہ تھیں اور یہ بات ان کی ترجیح کے لیے کافی تھی لیکن دوسرے خدام نے اس وجہ ترجیح کو کافی نہیں سمجھا۔ اس لیے حق کفالت کے فیصلے کے لیے باہمی قرعہ اندازی کرنا پڑی۔ آیت کے آخری حصہ میں پھر خدام کے جھگڑے کا ذکر ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ جھگڑا کفالت کا حق ادا کرنے کے سلسلے میں نہیں کیونکہ اس کا فیصلہ تو قرعہ اندازی سے ہوگیا۔ یہ جھگڑا ممکن ہے اس سوال پر ہوا ہو کہ ایک لڑکی ہیکل کے زمرہ خدام میں شامل بھی کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ کیونکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم کے آنے سے پہلے یہ روایت موجود نہ تھی۔
Top