Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 59
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ١ؕ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
اِنَّ : بیشک مَثَلَ : مثال عِيْسٰى : عیسیٰ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک كَمَثَلِ : مثال جیسی اٰدَمَ : آدم خَلَقَهٗ : اس کو پیدا کیا مِنْ : سے تُرَابٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَالَ : کہا لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : سو وہ ہوگیا
بیشک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال اللہ کے نزدیک آدم (علیہ السلام) کی مانند ہے، اسے اللہ نے مٹی سے بنایا پھر اسے فرمایا ہوجا تو وہ ہوگیا
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَاللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمِ ط خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَـہٗ کُنْ فَیَکُوْنَ ۔ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّـکَ فَلاَ تَـکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ ۔ بیشک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال اللہ کے نزدیک آدم (علیہ السلام) کی مانند ہے۔ اسے اللہ نے مٹی سے بنایا پھر اسے فرمایا ہوجا تو وہ ہوگیا۔ (اے مخاطب ! ) یہ حقیقت ہے تیرے رب کی جانب سے، پس تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہوجا) (59 تا 60) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں عیسائیوں نے جن غلط فہمیوں کی بنیاد پر غلط عقائد اختیار کیے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایک انسان اور رسول سمجھنے کی بجائے کبھی خدا اور کبھی خدا کا بیٹا بنا ڈالا۔ ان میں سے ایک ایک غلط فہمی کا تجزیہ اور تنقید کر کے ازالہ کردیا گیا۔ اب اس آیت کی صورت میں بحث کو سمیٹتے ہوئے خاتمہ بحث کے طور پر یہ فرمایا جا رہا ہے کہ متذکرہ بالا دلائل اظہارِ حقیقت اور اتمامِ حجت کے لیے کافی ہیں۔ لیکن ہم آخرت میں ایک ایسی مثال دے رہے ہیں جسے جان لینے کے بعد کوئی غبی سا غبی آدمی بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوسکتا۔ فسادِ نیت کا تو کوئی علاج نہیں، لیکن اس سے بڑھ کر واضح تر بات اور کیا ہوگی کہ تمہاری غلط فہمی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور پیدائش اور وجود کے لیے تمہارے نزدیک چونکہ باپ کا ہونا ضروری ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کوئی باپ نہیں تو تم نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ وہ یقینا خدا کے بیٹے ہیں۔ لیکن ذرا اس بات کا جواب دو کہ تمہیں بھی تسلیم ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نوعِ انسانی کے جد امجد ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کا باپ بنایا جبکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کسی کے باپ نہیں۔ لیکن انھیں کسی کا بیٹا نہیں بنایا کیونکہ نہ ان کی کوئی ماں ہے اور نہ باپ۔ اللہ نے انھیں مٹی سے بنایا اور پھر کلمہ کن سے انھیں پیدا فرما دیا۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ ایک ذات عزیز جس کے بارے میں تمہیں تسلیم ہے کہ وہ محض اللہ کے حکم سے وجود میں آئی۔ اس کے سوا اور کوئی سبب اس کے وجود میں آنے کا نہیں۔ اسے نہ تم نے اور نہ دنیا میں کسی اور نے نہ خدا بنایا نہ خدا کا بیٹا بنایا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے۔ اسباب کی دنیا میں ان کے باپ نہ سہی، ماں تو موجود ہے۔ تو تم نے آخر کس بنیاد پر ان کو خدا کا بیٹا بنا لیا ؟ یہ وہ آخری بات ہے جس کے بعد اس بحث کو ختم ہوجانا چاہیے۔ اس لیے فرمایا کہ اے مخاطب ! تیرے رب کی جانب سے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کی یہی حقیقت ہے کہ وہ انسانوں میں سے ایک انسان اور رسولوں میں سے ایک رسول تھے۔ اللہ نے انھیں برگزیدہ فرمایا اور کلمہ کن سے بغیر باپ کے انھیں پیدا فرمایا۔ دلائل اور مثال سے یہ بات پوری طرح واضح کردی گئی۔ اس لیے اے مخاطب تمہارے لیے اب اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ تم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو انسان سمجھنے میں کسی شک و شبہ کا اظہار کرو اور اگر یہ کہا جائے کہ فَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ میں خطاب آنحضرت ﷺ سے ہے اور آنحضرت کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آپ کسی حقیقت کے بارے میں شک کا شکار ہوں گے۔ تو اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ جب وہ اپنے مخاطب کو خطاب کے قابل نہیں سمجھتا تو پھر ان سے منہ پھیر کر خطاب تو اپنے پیغمبر سے کرتا ہے لیکن سناتا اسی کو ہے جسے سنانا مقصود ہوتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خطاب بظاہر آنحضرت ﷺ کو ہوتا ہے، لیکن بات امت کو سمجھانا مقصود ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی مثال دے کر عیسائیوں کے سامنے یہ بات واضح کی ہے کہ تم اگر اللہ کی قدرت پر یقین نہیں رکھتے ہو تو تب بھی، عقل کے تو تم بھی مالک ہو۔ تم صرف عقل سے فیصلہ کرو کہ آدم (علیہ السلام) کی پیدائش پر یقین رکھنے والا شخص کیا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے بارے میں کسی الجھن کا شکار ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اگر تم اپنی عقل کو ایک قدم اور آگے بڑھنے دو تو تم نے جن الفاظ کو الجھنوں کا سبب جانا ہے اور غلط عقائد کی بنیاد بنایا ہے تم خود محسوس کرو گے کہ اس بنیاد کی کوئی حقیقت نہیں۔ تم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بناتے ہوئے انجیل میں ” ابن “ کے لفظ کا سہارا لیا ہے کہ جب پروردگار خود عیسیٰ (علیہ السلام) کو ابن یعنی بیٹا کہہ کے پکارتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یقینا اس کے بیٹے ہیں حالانکہ تم جانتے ہو کہ تورات اور انجیل میں ابن کا لفظ صرف عیسیٰ ہی کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ حضرت آدم کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ فرشتوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ حتیٰ کہ نصاریٰ کو بھی بیٹے کہہ کر پکارا گیا ہے۔ تو اگر کسی کو خدا کا بیٹا یا معبود بنا دینے کے لیے یہ لفظ کافی ہے تو پھر تم نے صرف عیسیٰ (علیہ السلام) کو بیٹا کہنے پر اکتفا کیوں کیا ہے پھر تو تمہیں ہر اس ذات کو معبود ماننا ہوگا جس کے لیے بیٹے کا لفظ استعمال ہوا اور اس طرح معبودوں کا ایک لشکر تیار ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ تم بھی اتنی بڑی حماقت کبھی نہیں کرسکتے تو پھر سیدھی طرح اس حقیقت کو تسلیم کرلو کہ تم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوچکے ہو۔
Top