Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 64
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
قُلْ
: آپ کہ دیں
يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ
: اے اہل کتاب
تَعَالَوْا
: آؤ
اِلٰى
: طرف (پر)
كَلِمَةٍ
: ایک بات
سَوَآءٍ
: برابر
بَيْنَنَا
: ہمارے درمیان
وَبَيْنَكُمْ
: اور تمہارے درمیان
اَلَّا نَعْبُدَ
: کہ نہ ہم عبادت کریں
اِلَّا
: سوائے
اللّٰهَ
: اللہ
وَلَا نُشْرِكَ
: اور نہ ہم شریک کریں
بِهٖ
: اس کے ساتھ
شَيْئًا
: کچھ
وَّلَا يَتَّخِذَ
: اور نہ بنائے
بَعْضُنَا
: ہم میں سے کوئی
بَعْضًا
: کسی کو
اَرْبَابًا
: رب (جمع)
مِّنْ دُوْنِ
: سوائے
اللّٰهِ
: اللہ
فَاِنْ
: پھر اگر
تَوَلَّوْا
: وہ پھرجائیں
فَقُوْلُوا
: تو کہ دو تم
اشْهَدُوْا
: تم گواہ رہو
بِاَنَّا
: کہ ہم
مُسْلِمُوْنَ
: مسلم (فرمانبردار)
(کہہ دیجیے ! اے اہل کتاب ! آئو اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں مشترک ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں اور نہ بنائے کوئی ہم میں سے کسی کو رب اللہ کے سوا پھر اگر وہ روگردانی کریں اس سے تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں
قُلْ یٰٓـاَہْلَ الْـکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَبَیْنَـکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّااللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۔ (کہہ دیجیے ! اے اہل کتاب ! آئو اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں مشترک ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں اور نہ بنائے کوئی ہم میں سے کسی کو رب اللہ کے سوا، پھر اگر وہ روگردانی کریں اس سے تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں) (64) اس آیت کریمہ میں خطاب اگرچہ اہل کتاب کو ہے جن میں نصاریٰ اور یہود دونوں شامل ہیں، لیکن سیاق وسباق کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اصل روئے سخن نصاریٰ ہی کی طرف ہے۔ گزشتہ آیات میں دلائلِ قاطعہ سے ان کے خیالات کی تردید کی گئی اور دلائل کی دنیا میں انھیں بالکل بےبس ہونا پڑا۔ لیکن جب اس بےبسی کے باوجود بھی انھوں نے آنحضرت ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو پھر آپ ﷺ نے انھیں مباہلہ کی دعوت دی کہ آئو ہم اور تم اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردیں کہ وہ ہمارے ساتھ وہ معاملہ کریں، جس کے ہم دونوں سزاوار ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے حق کو قبول کرنے سے ہر طرح انکار کیا، وہ دلائل میں لاجواب ہو کر بھی اپنی بات پر اڑے رہے۔ اس کا مطلب یہی لیا جاسکتا ہے کہ انھیں اپنے موقف اور اپنے برسر حق ہونے کا پوری طرح یقین تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ دلائل میں پوری طرح مقابلہ نہ کرسکے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے ہی انھیں اپنے برسرحق ہونے کو ثابت کرنے کا موقع ملا تو وہ آگے بڑھ کر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے اور اپنے موقف کی حقانیت کو ثابت کردیتے لیکن جب وہ اس مقابلے سے بھی بھاگ گئے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انھیں اپنے برسر حق ہونے کا بالکل یقین نہ تھا۔ البتہ ! ایک ہٹ دھرمی تھی جسے وہ آخر حد تک نبھانا چاہتے تھے۔ سر ولیم میور انیسویں صدی کے مسیحی مستشرق ہیں اور صرف مستشرق ہی نہیں، انھیں مشنری کہنا چاہیے۔ لیکن حق وہ ہے جو سر چڑھ کر بولے۔ انھوں نے ” لائف آف محمد ﷺ “ (Lifeof Muhammad) میں مباہلہ کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے، اسے ملاحظہ فرمایئے : سارے واقعہ میں محمد ﷺ کے ایمان کی پختگی بالکل نمایاں ہے۔ نیز ان کے اس عقیدہ کی شہادت کہ ان کا تعلق عالم غیب سے جڑا ہوا ہے اور اس لیے حق تمام تر انھیں کے ساتھ ہے، درآں حالیکہ ان کے خیال میں مسیحیوں کے پاس ظن وتخمین کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ دعوت کا حکیمانہ انداز اس طرح سے تمام ممکن ذرائع سے جب عیسائیوں پر اتمامِ حجت ہوگیا اور حق کھل کے ان کے سامنے آگیا۔ لیکن وہ پھر بھی اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک دوسرے پہلو سے اور نہایت ٹھہرے ہوئے اور مثبت اسلوب میں انھیں اسلام کی دعوت دی اور اس میں بجائے ان کے عقائدِ باطلہ کو زیر بحث لانے کے نہایت حکیمانہ طریقے سے ایک قدر مشترک کے ذریعے بات کا آغاز کیا۔ گفتگو جب مباحثے اور مناظرے کا اسلوب اختیار کرلے تو پھر قرآن کریم حکمت کے ذریعے دعوت کا حکم دیتا ہے اور حکمت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ جانبین میں قدر مشترک تلاش کی جائے کیونکہ اگر آغازہی میں فریقِ مخالف کے خیالات پر تنقید اور اس کے عقائدِ باطلہ کا ابطال شروع کردیا جائے تو بات تو وہیں رک جاتی ہے البتہ لڑائی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ قدرِ مشترک سے بات کے آغاز سے ایک تو بات کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے اور دوسری آسانی یہ ہوتی ہے کہ اس کی مقتضیات کو بڑی آسانی سے مخاطب کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے اور وہ ہزار کوشش کے باجود بھی فرار کا راستہ اختیار نہیں کرسکتا۔ چناچہ یہاں بھی اسی طریق دعوت کو اختیار کیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ انھیں دعوت دیجیے کہ آئو ایک ایسے کلمے کو بنیاد بنائیں جو ہمارے تمہارے درمیان مشترک ہے۔ کلمہ سے مراد لفظ بھی ہوتا ہے، لیکن قرینہ بتارہا ہے کہ اس سے مراد جملہ مفیدہ ہے۔ ابن کثیر نے بھی یہی کہا الکلمۃ تطلق علی الکلمۃ المفیدۃ اور احادیث ِ پاک میں اسی بات کو کہیں الکلمۃ سے اور کہیں الکلمۃ الجامعۃ سے یاد کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بتانا بھی مقصود ہوتا ہے کہ ہم تمہیں ایک ایسی بات اور ایک ایسی حقیقت کی طرف دعوت دے رہے ہیں جو دنیا میں نئی نہیں اور نہ وہ کسی کی میراث ہے۔ جو پہلا انسان دنیا میں آیا تھا وہ اسی دعوت کو لے کر دنیا میں اترا تھا اور پھر جب جب اللہ کا کوئی نبی دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے۔ اس نے یہی بنیادی دعوت انسانوں کے سامنے پیش کی۔ انیسویں پارے میں پروردگار نے حضرت نوح، حضرت ہود حضرت صالح، حضرت شعیب اور بعض اور جلیل القدر انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کیا ہے اور ہر ایک پیغمبر کے حوالے سے یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم کی طرف صرف ایک ہی دعوت لے کے آئے تھے یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَـکُمْ مِنْ اِلٰـہٍ غَیْرُہٗ (اے میری قوم ! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا اور کوئی الٰہ نہیں) یہ حقیقت اور دعوت کی یہ بنیاد جب تک دنیا میں نظام حیات کی بنیاد بنی رہی اس وقت تک انسانیت کا دامن محفوظ رہا اور انسانیت نے وہ برگ و بار پیدا کیے جس نے اس دنیا کو ہمیشہ چمن زار کی صورت باقی رکھا اور جب بھی یہ دعوت انسانی زندگی کی بنیاد نہ رہی تو انسانیت مختلف گروہوں میں بٹ گئی، جس کے نتیجے میں یہ گلشن ہستی جہنم زار بن گیا۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے توحید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہی وہ اساس ہے جس پر ہر مذہب کی عظیم عمارت استوار ہوئی ہے۔ چناچہ اہل کتاب کو دوبارہ اسی عہد رفتہ اور متاع گم گشتہ کی طرف آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ جس طرح اس کلمے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کی جائے کیونکہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ نہ اس کا کوئی فرزند ہے، نہ کوئی اقنوم۔ نہ اس کا کوئی مظہر ہے جو اس کا اوتار بن سکے اور نہ کوئی دیوتا ہے جو اس کی قوتوں میں شریک ہو۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت عیسائی کیتھولک فرقہ کی صورت میں موجود تھے اور یا کلیسائے رومی کے متبع تھے۔ پروٹسٹنٹ فرقہ کئی صدی بعد کی چیز ہے۔ انھوں نے اللہ کی بندگی کے توڑ پر نہ جانے کتنی قسم کی پرستشیں ایجاد کر رکھی تھیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ شرک جلی کے ساتھ ساتھ شرک خفی کی کیا کیا صورتیں ان کے یہاں پائی جاتی تھیں۔ ان سب کی براہ راست تردید کرنے کی بجائے انھیں دعوت دی جا رہی ہے کہ اس بنیادی بات کو قبول کرلو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ اس لیے اس کے سوا کسی اور کی بندگی روا نہیں۔ اسی طرح اس کا لازمی نتیجہ اس کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا کہ اس کی بندگی میں شرک کا شائبہ بھی قابل قبول نہیں اور یہ وہ بنیاد ہے جس کے ذکر سے تورات آج بھی بھرپور ہے۔ جس میں توحید کی بار بار تاکید کی گئی ہے اور شرک کی بار بار ممانعت فرمائی گئی ہے۔ انجیل میں اگرچہ تورات کی طرح اس حقیقت کی فراوانی تو نہیں لیکن وہ یکسر اس سے بیگانہ بھی نہیں۔ اس میں بھی اسی بنیادی عقیدہ کی تعلیم موجود ہے۔ مثلاً : (تو خداوند خدا کو سجدہ کر اور صرف اس کی عبادت کر) (متی 4: 10) (یسوع نے جواب دیا کہ اول (حکم) یہ ہے اے اسرائیل سن ! خداوند ہمارا ایک ہی خداوند ہے) (یوحنا 17: 29۔ 30) (اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد و برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں) (متی 19: 17) عقیدہ توحید کا لازمی نتیجہ رب کی وحدت ہے اس عقیدے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ جس طرح آسمانوں میں اس کا کوئی شریک نہیں اسی طرح مخلوق میں بھی کسی کو اس کا شریک نہ مانا جائے اور شرک کی برأت کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ اللہ کے سوا جس طرح کوئی معبود نہیں، اسی طرح کوئی رب بھی نہیں۔ مخلوق میں سے کسی کو مطاع مطلق مان لینا یہ اس کو رب قرار دینا ہے۔ حدیث میں آتا ہے امام ترمذی نے حضرت عدی ابن حاتم طائی سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ قرآن کریم کہتا ہے کہ اہل کتاب نے اپنے علماء اور مذہبی پیشوائوں کو رب بنا رکھا ہے تو ہم اپنے مذہبی علماء و پیشواؤں کی عبادت تو نہیں کرتے کیونکہ عدی عرب اور عرب کے قبیلہ کے سردار ہونے کے باوجود عیسائی تھے۔ تو انھوں نے عیسائی ہونے کی وجہ سے ایمان لانے کے بعد اس بات کو جاننا ضروری سمجھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ کیا یہ بات نہیں ہے کہ جس چیز کو تمہارے احبارو رہبان حرام ٹھہرا دیں تم اس کو حرام ٹھہرا دیتے ہو اور جس چیز کو حلال ٹھہرا دیں اس کو حلال جانتے ہو۔ عدی نے کہا کہ ہاں ! ایسی بات تو ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ یہی ان کو رب بنادینا ہے یعنی اللہ کے حکم کے بغیر کسی کو حلال و حرام کرنے کے کلی اختیارات سونپ دینا اور اس کو تحلیل و تحریم کے لیے اتھارٹی تسلیم کرلینا اس کو رب بنادینا ہے۔ چناچہ یہاں ان کو صاف صاف دعوت دی گئی کہ توحید کی دعوت تمہاری کتابوں نے بھی دی ہے اور ہم اسی کی تجدید کر رہے ہیں اور اس توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کی جائے اور نہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرایا جائے اور نہ کسی کو تحلیل و تحریم کا حق دیا جائے۔ اگر کسی کو یہ حیثیت دے دی جائے کہ زندگی میں حسن و قبح کے فیصلے جائز اور ناجائز کی حد بندی اور حلال و حرام کا قانون اور اوامرو نواہی کے اصول طے کرنا اس کا حق ہے اور اس معاملے میں اس کی بلا چوں و چراں اطاعت کی جائے گی۔ تو اسے قرآن کریم رب ماننے کے مترادف قرار دیتا ہے اور عقیدہ توحید میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ عیسائی چونکہ اپنے کلیسا کے بارے میں خاص عقیدہ رکھتے ہیں، اس کی معصومیت ان کے ایمان کا جزو ہے اور ان کے مذہبی رہنما ان کی دینی زندگی کے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں اور عیسائیوں نے سینٹ پال کے زیر اثر چونکہ اپنے آپ کو تورات کی شریعت سے آزاد کرلیا ہے تو اس طرح سے انھوں نے کلیۃً انسان کو اللہ کی حاکمیت سے آزاد کر کے اپنے منتخب نمائندوں کو زندگی کے وہ فیصلے کرنے کا حق دے دیا ہے جو صرف اللہ کا حق ہے۔ بندے اور اللہ کا تعلق ان کے نزدیک ایک پرائیویٹ اور تنہائی کا تعلق ہے۔ پبلک زندگی میں اللہ کو دخل دینے کی قطعاً اجازت نہیں اور اگر کسی کو اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے تو پھر اسے رہبانیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ جو قوم اس قسم کے تصورات رکھتی ہو اس کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ توحید کے بنیادی تصور کو قبول کر کے اپنے انفرادی اور اجتماعی ڈھانچہ کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہوجائے جبکہ اللہ کی تمام کتابوں نے اسی بنیادی بات پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور یہاں بھی اسی کی دعوت دی جا رہی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم نے جس بات کو انسانیت کی قدر مشترک اور مسلمہ سچائی کے طور پر ان کے سامنے پیش کیا اور انھوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ اس طرح سے وہ تو ہمیشہ کے لیے اسلام سے کٹ گئے لیکن امت مسلمہ کے ایک فرد کی حیثیت سے آج یہ بات کہتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے کہ توحید کو ماننے کے باوجود اور پانچ وقت ایک اللہ کے سامنے جھکنے کے باوجود ہم اس بات کو قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں کہ ہم اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتاب کو وہ حیثیت دے دیں جو توحید کا لازمی تقاضا ہے۔ مسلمانوں کی پارلیمان جب ان معاملات میں آزادانہ فیصلے کرتی ہے جس میں قرآن و سنت پہلے فیصلہ دے چکے ہیں اور قرآن و سنت کے دیے ہوئے ضابطہ حیات اور قوانین کو نافذ کرنے کے لیے کسی طور تیار نہیں۔ تو اس آیت کریمہ کا خطاب ان کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے اور انھیں بھی پکار پکار کر کہتا ہے کہ جس قرآن کریم کو تم چومتے ہو، جسے خوشبو میں بسا کے رکھتے ہو، جس سے ایصالِ ثواب کرتے ہو اور جسے پڑھ کر اجر وثواب کا یقین رکھتے ہو اسی قرآن کریم کی یہ آیت اور اس کی ہم معنی بیسیوں آیات تمہیں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے فیصلوں میں پابند کرتی ہے کہ قانون سازی اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بنیادی فیصلے تمہارا حق نہیں بلکہ اللہ کا حق ہے، تم اس میں دخل دے کر یا انھیں نظر انداز کر کے سوچو تو سہی کہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتے ہو۔ ملک میں جرائم ہوتے ہیں، لیکن تم ان کا ازالہ اللہ کی حدود کے ذریعے کرنے سے گریزاں ہو۔ انسان بری طرح بگڑتا جا رہا ہے۔ اجتماعی زندگی زخم زخم ہوگئی ہے لیکن تم اس کی اصلاح کے لیے قرآن و سنت کے دیئے ہوئے ضوابط کو نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے، لیکن تم اپنے تعلیمی اداروں میں اس کا فہم عام کرنے کے لیے کسی طرح آمادہ نہیں ہو۔ جب تمہاری عدالتیں اسلامی قانون سے ہٹ کر فیصلے دیتی ہیں، جب تمہاری پارلیمنٹ اسلامی تعلیمات کے خلاف بل پاس کرتی ہے، جب تمہاری انتظامیہ شراب کے پر مٹ جاری کرتی اور ہوٹلوں میں پیش کرنے کی اجازت دیتی ہے، جب تمہارے قانون کے سائے میں قحبہ خانے کھلتے ہیں اور جب تمہارا مقتدر طبقہ اپنے اقتدار کے مقابلے میں اللہ کے اقتدار کو پرِ کا ہ کے برابر بھی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو غیر جانبداری سے کہو کہ اس آیت کی روشنی میں اس رویے کو کیا کہا جائے گا۔ جب کہ اس آیت میں ہمارے سپرد ایک دوہری ذمہ داری کی گئی تھی، جس کا ذکر اس آیت کریمہ کے آخری جملہ میں فرمایا گیا ہے۔ منصب شہادت کے دو تقاضے فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ اس جملے کو غور سے دیکھئے ! اس میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ پہلی یہ بات کہ اگر یہ اہل کتاب توحید کی اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیں جو تمام مذاہب کے درمیان قدر مشترک اور تمام مذاہب کی اساس کی حیثیت رکھتی ہے تو پھر تمہاری پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ تم صاف صاف ان پر یہ بات واضح کردو کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح و ہدایت کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ ہم حامل دعوت امت کے اسی منصب پر فائز کیے گئے ہیں، جس منصب سے اے اہل کتاب تمہیں معزول کیا گیا ہے۔ تمہاری سازشوں اور تمہاری مخاصمتوں نے اگرچہ ہمارے دل زخمی کر رکھے ہیں، تمہارا رویہ اگرچہ ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ باایں ہمہ ! ہم اس ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے ہر ممکن طریق سے تمہارے سامنے یہ دعوت پیش کرتے رہے ہیں۔ دلائل کی قوت سے ہم نے تمہیں پسپا کیا ہے۔ تمہاری بد اخلاقی کو اپنی اخلاقیات کی ڈھال سے ہمیشہ کند کیے رکھا ہے۔ آخری بات اللہ سے فیصلہ طلب کرنا تھا سو مباہلے کی صورت میں وہ بھی ہم کر گزرے۔ اس طرح سے ہمارا وہ فریضہ جسے شہادتِ حق کہا جاتا ہے ہم نے اسے ادا کرنے میں بفضلہ تعالیٰ کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اس لیے تم گواہ رہو کہ کل کو ہمارے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس فریضہ کی ادائیگی کے ہم نے تمام تقاضوں کو پورا کیا تھا یا نہیں۔ ہم تمہیں گواہ بنا کر کہتے ہیں تاکہ تم کل کو تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکو کہ ہم نے واقعی اپنا فرض انجام دے دیا ہے اور دوسری یہ بات کہ تم ہماری اس دعوت کے مقابلے میں کچھ بھی رویہ اختیار کرو اور اپنے ظاہری علم و فضل کو ہمارے راستے کی رکاوٹ کے لیے چاہے کیسے ہی اسالیب سے استعمال کرو اور تم اسلام کا راستہ روکنے کے لیے جو بن پڑے بیشک اس سے دریغ نہ کرو۔ لیکن ہمارا طرزعمل بالکل ایک حقیقت کی طرح اپنی جگہ قائم رہے گا کہ ہم ازاول تا آخر اللہ کے مسلم ہیں۔ ہم نے اپنے اللہ کے سامنے خودسپردگی اختیار کی ہے۔ جب وہی ہمارا رب اور وہی ہمارا معبود ہے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ ہم اس کے سوا اپنی زندگی کے فیصلوں میں کسی اور کو دخیل ہونے کا موقع دیں۔ کبریائی اسی کی، محبت اسی سے اور رہنمائی اور اطاعت اسی کی۔ یہ ہمارا وہ طرز عمل ہے جسے ہم کبھی بھی تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی زندگی انہی دونوں چیزوں سے عبارت ہے۔ ایک طرف اللہ کی بلا کم وکاست بندگی و غلامی اور دوسری طرف اس کی ذات، اس کی صفات، اس کے دین کے برسر حق ہونے کی ایک ایسی گواہی جو زندگی کے ہر میدان میں بولتی ہوئی سنائی دے اور جسے دیکھ کر کوئی شخص اللہ کے سامنے یہ عذر پیش نہ کرسکے کہ مجھے تو تیرے دین سے کسی نے باخبر نہیں کیا تھا۔ میرے سامنے وہ عملی زندگی کبھی نہیں آئی تھی جس پر صرف تیری کبریائی کی چھاپ ہوتی۔ اس لیے میں اہل دنیا کی دعوت اور طرز عمل کو قبول کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا تھا۔ عہدِ نبوت اور عہد صحابہ میں بھی امت مسلمہ کی یہی دوہری ذمہ داری تھی جس نے ان کو دنیا میں سر افراز کیا تھا اور آخرت کے وعدوں کا حقدار ٹھہرایا تھا اور آج بھی اس کی یہی دوہری ذمہ داری ہے اور آج بھی اس کی آبرومندانہ زندگی کے حصول کی اگر کوئی ضمانت ہوسکتی ہے تو وہ صرف یہی ذمہ داری ہے ؎ ہم کو بخشی ہیں خدا نے دوہری دوہری خدمتیں خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے خود سراپا نور بن جانے سے کب چلتا ہے کام ہم کو اس ظلمت کدے میں نور پھیلانا بھی ہے
Top