Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 64
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب تَعَالَوْا : آؤ اِلٰى : طرف (پر) كَلِمَةٍ : ایک بات سَوَآءٍ : برابر بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان اَلَّا نَعْبُدَ : کہ نہ ہم عبادت کریں اِلَّا : سوائے اللّٰهَ : اللہ وَلَا نُشْرِكَ : اور نہ ہم شریک کریں بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَتَّخِذَ : اور نہ بنائے بَعْضُنَا : ہم میں سے کوئی بَعْضًا : کسی کو اَرْبَابًا : رب (جمع) مِّنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں فَقُوْلُوا : تو کہ دو تم اشْهَدُوْا : تم گواہ رہو بِاَنَّا : کہ ہم مُسْلِمُوْنَ : مسلم (فرمانبردار)
(کہہ دیجیے ! اے اہل کتاب ! آئو اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں مشترک ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں اور نہ بنائے کوئی ہم میں سے کسی کو رب اللہ کے سوا پھر اگر وہ روگردانی کریں اس سے تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں
قُلْ یٰٓـاَہْلَ الْـکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَبَیْنَـکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّااللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۔ (کہہ دیجیے ! اے اہل کتاب ! آئو اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں مشترک ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں اور نہ بنائے کوئی ہم میں سے کسی کو رب اللہ کے سوا، پھر اگر وہ روگردانی کریں اس سے تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں) (64) اس آیت کریمہ میں خطاب اگرچہ اہل کتاب کو ہے جن میں نصاریٰ اور یہود دونوں شامل ہیں، لیکن سیاق وسباق کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اصل روئے سخن نصاریٰ ہی کی طرف ہے۔ گزشتہ آیات میں دلائلِ قاطعہ سے ان کے خیالات کی تردید کی گئی اور دلائل کی دنیا میں انھیں بالکل بےبس ہونا پڑا۔ لیکن جب اس بےبسی کے باوجود بھی انھوں نے آنحضرت ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو پھر آپ ﷺ نے انھیں مباہلہ کی دعوت دی کہ آئو ہم اور تم اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردیں کہ وہ ہمارے ساتھ وہ معاملہ کریں، جس کے ہم دونوں سزاوار ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے حق کو قبول کرنے سے ہر طرح انکار کیا، وہ دلائل میں لاجواب ہو کر بھی اپنی بات پر اڑے رہے۔ اس کا مطلب یہی لیا جاسکتا ہے کہ انھیں اپنے موقف اور اپنے برسر حق ہونے کا پوری طرح یقین تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ دلائل میں پوری طرح مقابلہ نہ کرسکے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے ہی انھیں اپنے برسرحق ہونے کو ثابت کرنے کا موقع ملا تو وہ آگے بڑھ کر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے اور اپنے موقف کی حقانیت کو ثابت کردیتے لیکن جب وہ اس مقابلے سے بھی بھاگ گئے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انھیں اپنے برسر حق ہونے کا بالکل یقین نہ تھا۔ البتہ ! ایک ہٹ دھرمی تھی جسے وہ آخر حد تک نبھانا چاہتے تھے۔ سر ولیم میور انیسویں صدی کے مسیحی مستشرق ہیں اور صرف مستشرق ہی نہیں، انھیں مشنری کہنا چاہیے۔ لیکن حق وہ ہے جو سر چڑھ کر بولے۔ انھوں نے ” لائف آف محمد ﷺ “ (Lifeof Muhammad) میں مباہلہ کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے، اسے ملاحظہ فرمایئے : سارے واقعہ میں محمد ﷺ کے ایمان کی پختگی بالکل نمایاں ہے۔ نیز ان کے اس عقیدہ کی شہادت کہ ان کا تعلق عالم غیب سے جڑا ہوا ہے اور اس لیے حق تمام تر انھیں کے ساتھ ہے، درآں حالیکہ ان کے خیال میں مسیحیوں کے پاس ظن وتخمین کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ دعوت کا حکیمانہ انداز اس طرح سے تمام ممکن ذرائع سے جب عیسائیوں پر اتمامِ حجت ہوگیا اور حق کھل کے ان کے سامنے آگیا۔ لیکن وہ پھر بھی اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک دوسرے پہلو سے اور نہایت ٹھہرے ہوئے اور مثبت اسلوب میں انھیں اسلام کی دعوت دی اور اس میں بجائے ان کے عقائدِ باطلہ کو زیر بحث لانے کے نہایت حکیمانہ طریقے سے ایک قدر مشترک کے ذریعے بات کا آغاز کیا۔ گفتگو جب مباحثے اور مناظرے کا اسلوب اختیار کرلے تو پھر قرآن کریم حکمت کے ذریعے دعوت کا حکم دیتا ہے اور حکمت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ جانبین میں قدر مشترک تلاش کی جائے کیونکہ اگر آغازہی میں فریقِ مخالف کے خیالات پر تنقید اور اس کے عقائدِ باطلہ کا ابطال شروع کردیا جائے تو بات تو وہیں رک جاتی ہے البتہ لڑائی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ قدرِ مشترک سے بات کے آغاز سے ایک تو بات کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے اور دوسری آسانی یہ ہوتی ہے کہ اس کی مقتضیات کو بڑی آسانی سے مخاطب کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے اور وہ ہزار کوشش کے باجود بھی فرار کا راستہ اختیار نہیں کرسکتا۔ چناچہ یہاں بھی اسی طریق دعوت کو اختیار کیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ انھیں دعوت دیجیے کہ آئو ایک ایسے کلمے کو بنیاد بنائیں جو ہمارے تمہارے درمیان مشترک ہے۔ کلمہ سے مراد لفظ بھی ہوتا ہے، لیکن قرینہ بتارہا ہے کہ اس سے مراد جملہ مفیدہ ہے۔ ابن کثیر نے بھی یہی کہا الکلمۃ تطلق علی الکلمۃ المفیدۃ اور احادیث ِ پاک میں اسی بات کو کہیں الکلمۃ سے اور کہیں الکلمۃ الجامعۃ سے یاد کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بتانا بھی مقصود ہوتا ہے کہ ہم تمہیں ایک ایسی بات اور ایک ایسی حقیقت کی طرف دعوت دے رہے ہیں جو دنیا میں نئی نہیں اور نہ وہ کسی کی میراث ہے۔ جو پہلا انسان دنیا میں آیا تھا وہ اسی دعوت کو لے کر دنیا میں اترا تھا اور پھر جب جب اللہ کا کوئی نبی دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے۔ اس نے یہی بنیادی دعوت انسانوں کے سامنے پیش کی۔ انیسویں پارے میں پروردگار نے حضرت نوح، حضرت ہود حضرت صالح، حضرت شعیب اور بعض اور جلیل القدر انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کیا ہے اور ہر ایک پیغمبر کے حوالے سے یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم کی طرف صرف ایک ہی دعوت لے کے آئے تھے یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَـکُمْ مِنْ اِلٰـہٍ غَیْرُہٗ (اے میری قوم ! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا اور کوئی الٰہ نہیں) یہ حقیقت اور دعوت کی یہ بنیاد جب تک دنیا میں نظام حیات کی بنیاد بنی رہی اس وقت تک انسانیت کا دامن محفوظ رہا اور انسانیت نے وہ برگ و بار پیدا کیے جس نے اس دنیا کو ہمیشہ چمن زار کی صورت باقی رکھا اور جب بھی یہ دعوت انسانی زندگی کی بنیاد نہ رہی تو انسانیت مختلف گروہوں میں بٹ گئی، جس کے نتیجے میں یہ گلشن ہستی جہنم زار بن گیا۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے توحید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہی وہ اساس ہے جس پر ہر مذہب کی عظیم عمارت استوار ہوئی ہے۔ چناچہ اہل کتاب کو دوبارہ اسی عہد رفتہ اور متاع گم گشتہ کی طرف آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ جس طرح اس کلمے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کی جائے کیونکہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ نہ اس کا کوئی فرزند ہے، نہ کوئی اقنوم۔ نہ اس کا کوئی مظہر ہے جو اس کا اوتار بن سکے اور نہ کوئی دیوتا ہے جو اس کی قوتوں میں شریک ہو۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت عیسائی کیتھولک فرقہ کی صورت میں موجود تھے اور یا کلیسائے رومی کے متبع تھے۔ پروٹسٹنٹ فرقہ کئی صدی بعد کی چیز ہے۔ انھوں نے اللہ کی بندگی کے توڑ پر نہ جانے کتنی قسم کی پرستشیں ایجاد کر رکھی تھیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ شرک جلی کے ساتھ ساتھ شرک خفی کی کیا کیا صورتیں ان کے یہاں پائی جاتی تھیں۔ ان سب کی براہ راست تردید کرنے کی بجائے انھیں دعوت دی جا رہی ہے کہ اس بنیادی بات کو قبول کرلو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ اس لیے اس کے سوا کسی اور کی بندگی روا نہیں۔ اسی طرح اس کا لازمی نتیجہ اس کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا کہ اس کی بندگی میں شرک کا شائبہ بھی قابل قبول نہیں اور یہ وہ بنیاد ہے جس کے ذکر سے تورات آج بھی بھرپور ہے۔ جس میں توحید کی بار بار تاکید کی گئی ہے اور شرک کی بار بار ممانعت فرمائی گئی ہے۔ انجیل میں اگرچہ تورات کی طرح اس حقیقت کی فراوانی تو نہیں لیکن وہ یکسر اس سے بیگانہ بھی نہیں۔ اس میں بھی اسی بنیادی عقیدہ کی تعلیم موجود ہے۔ مثلاً : (تو خداوند خدا کو سجدہ کر اور صرف اس کی عبادت کر) (متی 4: 10) (یسوع نے جواب دیا کہ اول (حکم) یہ ہے اے اسرائیل سن ! خداوند ہمارا ایک ہی خداوند ہے) (یوحنا 17: 29۔ 30) (اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد و برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں) (متی 19: 17) عقیدہ توحید کا لازمی نتیجہ رب کی وحدت ہے اس عقیدے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ جس طرح آسمانوں میں اس کا کوئی شریک نہیں اسی طرح مخلوق میں بھی کسی کو اس کا شریک نہ مانا جائے اور شرک کی برأت کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ اللہ کے سوا جس طرح کوئی معبود نہیں، اسی طرح کوئی رب بھی نہیں۔ مخلوق میں سے کسی کو مطاع مطلق مان لینا یہ اس کو رب قرار دینا ہے۔ حدیث میں آتا ہے امام ترمذی نے حضرت عدی ابن حاتم طائی سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ قرآن کریم کہتا ہے کہ اہل کتاب نے اپنے علماء اور مذہبی پیشوائوں کو رب بنا رکھا ہے تو ہم اپنے مذہبی علماء و پیشواؤں کی عبادت تو نہیں کرتے کیونکہ عدی عرب اور عرب کے قبیلہ کے سردار ہونے کے باوجود عیسائی تھے۔ تو انھوں نے عیسائی ہونے کی وجہ سے ایمان لانے کے بعد اس بات کو جاننا ضروری سمجھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ کیا یہ بات نہیں ہے کہ جس چیز کو تمہارے احبارو رہبان حرام ٹھہرا دیں تم اس کو حرام ٹھہرا دیتے ہو اور جس چیز کو حلال ٹھہرا دیں اس کو حلال جانتے ہو۔ عدی نے کہا کہ ہاں ! ایسی بات تو ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ یہی ان کو رب بنادینا ہے یعنی اللہ کے حکم کے بغیر کسی کو حلال و حرام کرنے کے کلی اختیارات سونپ دینا اور اس کو تحلیل و تحریم کے لیے اتھارٹی تسلیم کرلینا اس کو رب بنادینا ہے۔ چناچہ یہاں ان کو صاف صاف دعوت دی گئی کہ توحید کی دعوت تمہاری کتابوں نے بھی دی ہے اور ہم اسی کی تجدید کر رہے ہیں اور اس توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کی جائے اور نہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرایا جائے اور نہ کسی کو تحلیل و تحریم کا حق دیا جائے۔ اگر کسی کو یہ حیثیت دے دی جائے کہ زندگی میں حسن و قبح کے فیصلے جائز اور ناجائز کی حد بندی اور حلال و حرام کا قانون اور اوامرو نواہی کے اصول طے کرنا اس کا حق ہے اور اس معاملے میں اس کی بلا چوں و چراں اطاعت کی جائے گی۔ تو اسے قرآن کریم رب ماننے کے مترادف قرار دیتا ہے اور عقیدہ توحید میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ عیسائی چونکہ اپنے کلیسا کے بارے میں خاص عقیدہ رکھتے ہیں، اس کی معصومیت ان کے ایمان کا جزو ہے اور ان کے مذہبی رہنما ان کی دینی زندگی کے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں اور عیسائیوں نے سینٹ پال کے زیر اثر چونکہ اپنے آپ کو تورات کی شریعت سے آزاد کرلیا ہے تو اس طرح سے انھوں نے کلیۃً انسان کو اللہ کی حاکمیت سے آزاد کر کے اپنے منتخب نمائندوں کو زندگی کے وہ فیصلے کرنے کا حق دے دیا ہے جو صرف اللہ کا حق ہے۔ بندے اور اللہ کا تعلق ان کے نزدیک ایک پرائیویٹ اور تنہائی کا تعلق ہے۔ پبلک زندگی میں اللہ کو دخل دینے کی قطعاً اجازت نہیں اور اگر کسی کو اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے تو پھر اسے رہبانیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ جو قوم اس قسم کے تصورات رکھتی ہو اس کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ توحید کے بنیادی تصور کو قبول کر کے اپنے انفرادی اور اجتماعی ڈھانچہ کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہوجائے جبکہ اللہ کی تمام کتابوں نے اسی بنیادی بات پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور یہاں بھی اسی کی دعوت دی جا رہی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم نے جس بات کو انسانیت کی قدر مشترک اور مسلمہ سچائی کے طور پر ان کے سامنے پیش کیا اور انھوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ اس طرح سے وہ تو ہمیشہ کے لیے اسلام سے کٹ گئے لیکن امت مسلمہ کے ایک فرد کی حیثیت سے آج یہ بات کہتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے کہ توحید کو ماننے کے باوجود اور پانچ وقت ایک اللہ کے سامنے جھکنے کے باوجود ہم اس بات کو قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں کہ ہم اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتاب کو وہ حیثیت دے دیں جو توحید کا لازمی تقاضا ہے۔ مسلمانوں کی پارلیمان جب ان معاملات میں آزادانہ فیصلے کرتی ہے جس میں قرآن و سنت پہلے فیصلہ دے چکے ہیں اور قرآن و سنت کے دیے ہوئے ضابطہ حیات اور قوانین کو نافذ کرنے کے لیے کسی طور تیار نہیں۔ تو اس آیت کریمہ کا خطاب ان کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے اور انھیں بھی پکار پکار کر کہتا ہے کہ جس قرآن کریم کو تم چومتے ہو، جسے خوشبو میں بسا کے رکھتے ہو، جس سے ایصالِ ثواب کرتے ہو اور جسے پڑھ کر اجر وثواب کا یقین رکھتے ہو اسی قرآن کریم کی یہ آیت اور اس کی ہم معنی بیسیوں آیات تمہیں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے فیصلوں میں پابند کرتی ہے کہ قانون سازی اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بنیادی فیصلے تمہارا حق نہیں بلکہ اللہ کا حق ہے، تم اس میں دخل دے کر یا انھیں نظر انداز کر کے سوچو تو سہی کہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتے ہو۔ ملک میں جرائم ہوتے ہیں، لیکن تم ان کا ازالہ اللہ کی حدود کے ذریعے کرنے سے گریزاں ہو۔ انسان بری طرح بگڑتا جا رہا ہے۔ اجتماعی زندگی زخم زخم ہوگئی ہے لیکن تم اس کی اصلاح کے لیے قرآن و سنت کے دیئے ہوئے ضوابط کو نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے، لیکن تم اپنے تعلیمی اداروں میں اس کا فہم عام کرنے کے لیے کسی طرح آمادہ نہیں ہو۔ جب تمہاری عدالتیں اسلامی قانون سے ہٹ کر فیصلے دیتی ہیں، جب تمہاری پارلیمنٹ اسلامی تعلیمات کے خلاف بل پاس کرتی ہے، جب تمہاری انتظامیہ شراب کے پر مٹ جاری کرتی اور ہوٹلوں میں پیش کرنے کی اجازت دیتی ہے، جب تمہارے قانون کے سائے میں قحبہ خانے کھلتے ہیں اور جب تمہارا مقتدر طبقہ اپنے اقتدار کے مقابلے میں اللہ کے اقتدار کو پرِ کا ہ کے برابر بھی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو غیر جانبداری سے کہو کہ اس آیت کی روشنی میں اس رویے کو کیا کہا جائے گا۔ جب کہ اس آیت میں ہمارے سپرد ایک دوہری ذمہ داری کی گئی تھی، جس کا ذکر اس آیت کریمہ کے آخری جملہ میں فرمایا گیا ہے۔ منصب شہادت کے دو تقاضے فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ اس جملے کو غور سے دیکھئے ! اس میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ پہلی یہ بات کہ اگر یہ اہل کتاب توحید کی اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیں جو تمام مذاہب کے درمیان قدر مشترک اور تمام مذاہب کی اساس کی حیثیت رکھتی ہے تو پھر تمہاری پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ تم صاف صاف ان پر یہ بات واضح کردو کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح و ہدایت کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ ہم حامل دعوت امت کے اسی منصب پر فائز کیے گئے ہیں، جس منصب سے اے اہل کتاب تمہیں معزول کیا گیا ہے۔ تمہاری سازشوں اور تمہاری مخاصمتوں نے اگرچہ ہمارے دل زخمی کر رکھے ہیں، تمہارا رویہ اگرچہ ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ باایں ہمہ ! ہم اس ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے ہر ممکن طریق سے تمہارے سامنے یہ دعوت پیش کرتے رہے ہیں۔ دلائل کی قوت سے ہم نے تمہیں پسپا کیا ہے۔ تمہاری بد اخلاقی کو اپنی اخلاقیات کی ڈھال سے ہمیشہ کند کیے رکھا ہے۔ آخری بات اللہ سے فیصلہ طلب کرنا تھا سو مباہلے کی صورت میں وہ بھی ہم کر گزرے۔ اس طرح سے ہمارا وہ فریضہ جسے شہادتِ حق کہا جاتا ہے ہم نے اسے ادا کرنے میں بفضلہ تعالیٰ کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اس لیے تم گواہ رہو کہ کل کو ہمارے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس فریضہ کی ادائیگی کے ہم نے تمام تقاضوں کو پورا کیا تھا یا نہیں۔ ہم تمہیں گواہ بنا کر کہتے ہیں تاکہ تم کل کو تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکو کہ ہم نے واقعی اپنا فرض انجام دے دیا ہے اور دوسری یہ بات کہ تم ہماری اس دعوت کے مقابلے میں کچھ بھی رویہ اختیار کرو اور اپنے ظاہری علم و فضل کو ہمارے راستے کی رکاوٹ کے لیے چاہے کیسے ہی اسالیب سے استعمال کرو اور تم اسلام کا راستہ روکنے کے لیے جو بن پڑے بیشک اس سے دریغ نہ کرو۔ لیکن ہمارا طرزعمل بالکل ایک حقیقت کی طرح اپنی جگہ قائم رہے گا کہ ہم ازاول تا آخر اللہ کے مسلم ہیں۔ ہم نے اپنے اللہ کے سامنے خودسپردگی اختیار کی ہے۔ جب وہی ہمارا رب اور وہی ہمارا معبود ہے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ ہم اس کے سوا اپنی زندگی کے فیصلوں میں کسی اور کو دخیل ہونے کا موقع دیں۔ کبریائی اسی کی، محبت اسی سے اور رہنمائی اور اطاعت اسی کی۔ یہ ہمارا وہ طرز عمل ہے جسے ہم کبھی بھی تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی زندگی انہی دونوں چیزوں سے عبارت ہے۔ ایک طرف اللہ کی بلا کم وکاست بندگی و غلامی اور دوسری طرف اس کی ذات، اس کی صفات، اس کے دین کے برسر حق ہونے کی ایک ایسی گواہی جو زندگی کے ہر میدان میں بولتی ہوئی سنائی دے اور جسے دیکھ کر کوئی شخص اللہ کے سامنے یہ عذر پیش نہ کرسکے کہ مجھے تو تیرے دین سے کسی نے باخبر نہیں کیا تھا۔ میرے سامنے وہ عملی زندگی کبھی نہیں آئی تھی جس پر صرف تیری کبریائی کی چھاپ ہوتی۔ اس لیے میں اہل دنیا کی دعوت اور طرز عمل کو قبول کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا تھا۔ عہدِ نبوت اور عہد صحابہ میں بھی امت مسلمہ کی یہی دوہری ذمہ داری تھی جس نے ان کو دنیا میں سر افراز کیا تھا اور آخرت کے وعدوں کا حقدار ٹھہرایا تھا اور آج بھی اس کی یہی دوہری ذمہ داری ہے اور آج بھی اس کی آبرومندانہ زندگی کے حصول کی اگر کوئی ضمانت ہوسکتی ہے تو وہ صرف یہی ذمہ داری ہے ؎ ہم کو بخشی ہیں خدا نے دوہری دوہری خدمتیں خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے خود سراپا نور بن جانے سے کب چلتا ہے کام ہم کو اس ظلمت کدے میں نور پھیلانا بھی ہے
Top