Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 7
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ١ؐۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ١ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا١ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
ھُوَ : وہی الَّذِيْٓ : جس اَنْزَلَ : نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب مِنْهُ : اس سے (میں) اٰيٰتٌ : آیتیں مُّحْكَمٰتٌ : محکم (پختہ) ھُنَّ : وہ اُمُّ الْكِتٰبِ : کتاب کی اصل وَاُخَرُ : اور دوسری مُتَشٰبِهٰتٌ : متشابہ فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : جو لوگ فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل زَيْغٌ : کجی فَيَتَّبِعُوْنَ : سو وہ پیروی کرتے ہیں مَا تَشَابَهَ : متشابہات مِنْهُ : اس سے ابْتِغَآءَ : چاہنا (غرض) الْفِتْنَةِ : فساد۔ گمراہی وَابْتِغَآءَ : ڈھونڈنا تَاْوِيْلِهٖ : اس کا مطلب وَمَا : اور نہیں يَعْلَمُ : جانتا تَاْوِيْلَهٗٓ : اس کا مطلب اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ وَالرّٰسِخُوْنَ : اور مضبوط فِي الْعِلْمِ : علم میں يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِهٖ : اس پر كُلٌّ : سب مِّنْ عِنْدِ : سے۔ پاس (طرف) رَبِّنَا : ہمارا رب وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : سمجھتے اِلَّآ : مگر اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی اس کی کچھ آیتیں محکم ہیں جو اصل کتاب کا درجہ رکھتی ہیں اور دوسری کچھ آیتیں متشابہ ہیں۔ پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے ‘ وہ اس میں سے متشابہات کے درپے ہوتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کریں حالانکہ نہیں جانتا اس کی حقیقت کو اللہ کے سوا کوئی۔ تو جو لوگ علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے اور یہ سب ہمارے رب ہی کے پاس سے ہے اور نہیں نصیحت قبول کرتے مگر عقلمند
ھُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْـکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْـکِتٰبِ وَاُخَرُمُتَشٰبِہٰتٌ ط فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْـہُ ابْتِغَـآئَ الْفِتْـنَۃِ وَابْتِغَـآئَ تَاْوِیْلِہٖ ج ص ومَایَعْلَمُ تَاْوِیْلَـہٗٓ اِلَّااللّٰہُ مؔ وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖلا کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُوْلُوا الْاَلْـبَابِ ۔ (وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی اس کی کچھ آیتیں محکم ہیں جو اصل کتاب کا درجہ رکھتی ہیں اور دوسری کچھ آیتیں متشابہ ہیں۔ پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے ‘ وہ اس میں سے متشابہات کے درپے ہوتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ حالانکہ نہیں جانتا اس کی حقیقت کو اللہ کے سوا کوئی۔ تو جو لوگ علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے اور یہ سب ہمارے رب ہی کے پاس سے ہے۔ اور نہیں نصیحت قبول کرتے مگر عقلمند) (7) اللہ نے قرآن کریم کو حق کے ساتھ فرقان بنا کے اتارا ہے۔ وہ ایک کلمہ فیصل اور حق و باطل کے لیے کسوٹی ہے۔ اس کی اس حیثیت کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اسے اللہ نے نازل کیا ہے۔ قرآن کریم نے متعدد مواقع پر قرآن کریم کا ذکر کرنے سے پہلے ” اناانزلناہ “ کا ذکر فرمایا ہے یعنی قرآن وہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے۔ اس کے ذاتی خصائص ‘ اس کی معجزانہ فصاحت و بلاغت اور اس میں بیان کردہ ضابطہ حیات کی وسعت اور جامعیت اپنی جگہ ‘ لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ اسے ہم نے نازل کیا ہے ‘ اس لیے جب بھی اس کتاب کو پڑھو یا اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرو تو یہ سوچ کے کرو کہ یہ محض ایک کتاب نہیں ‘ بلکہ خالق کائنات کا کلام اور اس کے فرامین کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب نوع انسانی کے لیے اگر رحمت ثابت ہوئی ہے تو یہ اللہ کی رحمت ہے جس کی قدر کرنا ہم پر واجب ہے اور اگر کوئی شخص اس کا انکار کرتا ہے تو اسے یہ سمجھ کر انکار کرنا چاہیے کہ میں ایک کتاب کا انکار نہیں کر رہا بلکہ اس کے نازل کرنے والے کو ماننے سے انکار کر رہا ہوں۔ فائر کا لفظ اپنی کوئی حیثیت نہیں رکھتا ‘ لیکن جب یہ ایک جرنیل کے منہ سے نکلتا ہے تو نہ جانے کتنی زندگیاں خاک میں ملتی ہیں اور کتنے مورچے تباہ ہوتے اور کتنی فصیلیں اڑتی اور کتنے شہر مسمار ہوتے ہیں۔ لفظ و معنی کی قوت جس طرح اس کی حقیقت میں ہے اس سے بڑھ کر اس لفظ کے بولنے والے میں ہے۔ قرآن کریم نے جہاں یہ فرمایا کہ اگر اس قرآن کریم کو پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو وہ اللہ کی خشیت سے ریزہ ریزہ ہوجاتا وہیں اس کے بعد اپنے سترہ صفاتی ناموں کا ذکر فرمایا ‘ اس میں صرف یہ توجہ دلانا مقصود ہے کہ پہاڑ پر قرآن کا اترنا ‘ پہاڑ کے لیے اس لیے ناقابلِ برداشت ہے کہ پہاڑ کی فطرت میں اللہ کا استحضار گندھا ہوا ہے۔ اس کے نزدیک قرآن کا اترنا پروردگار کے جلال و جمال کا اترنا ہے۔ وہ چونکہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لیے وہ دب جاتا اور بیٹھ جاتا۔ انسان کا قرآن پاک سے کماحقہ اثر قبول نہ کرنا صرف اس سبب سے ہے کہ وہ اللہ کی ذات وصفات کے استحضار سے محروم ہے۔ یہاں اسی حقیقت کی طرف توجہ دلانے کے لیے فرمایا کہ اس قرآن کریم کو اللہ نے نازل کیا ہے۔ اس لیے اگر ایمان لائو گے تو یہ اس کی سب سے بڑی نعمت اور رحمت ہے اور اگر انکار کرتے ہو تو سوچ لو کہ کس کی کتاب اور کس کے کلام سے انکار کر رہے ہو ‘ جو عَزِیْزٌذُانْتِقَامٍ ہے۔ اس کے بعد قرآن کریم کی تعلیمات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک مختصر تعارف کرایا اور طریقہ سکھایا اور ضمنی طور پر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ قرآن کریم کے فہم اور استفادہ سے جو لوگ محروم رہتے ہیں ‘ بلکہ بجائے ایمان میں اضافہ کرنے کے گمراہی کے راستے پر چل پڑتے ہیں ‘ وہ کون لوگ ہیں اور ان کا طریقہ کیا ہے ؟ اس لیے فرمایا کہ قرآن کریم میں دو طرح کی آیات ہیں۔ ایک آیات محکمات ہیں اور دوسرا آیات متشابہات ہیں۔ آیات محکمات کا مفہوم آیاتِ محکمات سے وہ آیات مراد ہیں جن کے الفاظ اور معنی متعین کرنے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا۔ ان کی زبان صاف اور مفہوم واضح ہے۔ ان کا تعلق اگر آفاق وانفس سے ہے تو وہ جانی پہچانی چیزیں ہیں اور علم کی وسعت سے ان کے سمجھنے میں مزید آسانی ہوتی جاتی ہے اور اگر ان کا تعلق خیر و شر کے حوالے سے مذہب سے ہے تو ان کا شمار مذہب کے مسلمات میں ہے اور اگر ان کا تعلق معروف و منکر سے ہے تو وہ قطعیات و یقینیات میں شامل ہیں۔ جس شخص کی عقل سلیم ہے اور وہ لادینیت کی عینک سے قرآن کریم پڑھنے کی کوشش نہیں کرتا ‘ یا ملحدانہ فلسفے نے اس کے دل و دماغ کو متاثر نہیں کیا تو اس کے لیے ان آیات کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں آتی۔ یہی محکمات قرآن کریم کی اصل بنیاد ہیں۔ قرآن کریم کے احکام ایسی ہی صاف اور سادہ زبان میں دیے گئے ہیں۔ انہی آیات میں قرآن پاک کی دعوت دی گئی ہے ‘ عقائد ‘ عبادات ‘ اخلاق کی تعلیمات بھی انہی آیات میں ہمیں ملتی ہیں۔ ام الکتاب کا مفہوم ان آیات کی حیثیت ” ام الکتاب “ کی ہے۔ ” ام “ کسی چیز کی اصل ‘ جڑ اور بنیاد کو کہتے ہیں۔ ایسی چیز پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو بہت ساری چیزوں کا مرجع ہو۔ وہیں سے آغاز ہوتا ہو اور وہیں اختتام ہوتا ہو۔ دماغ کو اسی لیے ام الرأس کہتے ہیں کہ یہیں سے پورے جسم کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور یہیں ہر چیز پلٹ کر آتی ہے اور یا ” ام “ ایک ایسی اوپر کی چیز کو کہتے ہیں جس کے نیچے اس کے بہت سے توابع ہوں۔ مکہ معظمہ کو ام القریٰ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اردگرد کی تمام بستیوں کا مرکز اعصاب اور قوت کا سرچشمہ ہے۔ آیات محکمات ام الکتاب ہیں۔ یعنی ساری کتاب کا مرجع و مرکز یہی آیات ہیں۔ انہی سے سارے مسائل پھوٹتے ہیں۔ کسی آیت کے سمجھنے میں اختلاف ہو تو انہی آیات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ پورا دین انہی آیات سے نکلتا ہے اور انہی آیات کی طرف لوٹتا ہے۔ ہدایت کا سرچشمہ یہی آیات ہیں۔ متشابہات کو سمجھنے کے لیے انہی کو معیار بنایا جاتا ہے۔ جو عقیدہ یا جو حقیقت ان آیات سے ثابت ہوتی ہیں متشابہات کی مراد بھی اس کے مطابق متعین کی جاتی ہیں۔ آیات متشابہات سے مراد کیا ہے ؟ دوسری قسم کی آیات ” متشابہات “ ہیں۔ یعنی ایسی آیات جن کے مراد کے تعین میں اشتباہ پیدا ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ یہ اشتباہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ آیات متشابہات کے الفاظ معنی کے اعتبار سے واضح نہیں ہوتے، یہ بات صحیح نہیں کیونکہ قرآن کریم عربی مبین میں نازل ہوا۔ ایک ایسی ٹکسالی زبان میں، جسے قریش بولتے تھے، جسے جزیرہ عرب کی فصیح ترین زبان سمجھا جاتا تھا۔ ایسی زبان میں اترنے والی کتاب کا کوئی لفظ بھی ایسا نہیں ہوسکتا جس کا کوئی معنی نہ ہو اور جس کا مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آئے۔ یہ تو ممکن ہے بعض الفاظ کے سمجھنے میں دقت ہو کیونکہ قرآن کریم نے بعض ایسے الفاظ کو بھی زندگی بخشی ہے جن کا استعمال تمام قبیلوں میں عام نہیں تھا۔ لیکن قرآن کریم کے آجانے کے بعد تمام قبیلوں میں اس کا استعمال عام ہوگیا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ متشابہات وہ آیات ہیں جن کی مراد متعین کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے صرف ان معاملات پر گفتگو نہیں کیا جن کا تعلق محسوسات ‘ معقولات اور طبعیات سے ہے۔ جنھیں انسان کے حواس جانتے اور پہچانتے ہیں اور جن کا عقل ادراک کرتی ہے بلکہ قرآن کریم کے موضوعات میں وہ معاملات بھی شامل ہیں جن کا تعلق ما بعد الطبعیات سے ہے۔ قرآن جس طرح دنیا کی بات کرتا ہے اسی طرح وہ آخرت کی بات بھی کرتا ہے۔ اسلام کی بنیاد درحقیقت چند عقائد پر ہے جن میں اللہ کی ذات اور اس کی صفات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ جہاں بھی صفات خداوندی کا ذکر آئے گا وہاں بالعموم عقل پیچھے رہ جاتی ہے۔ اسی طرح جزاء و سزا کا تصور یہ انسانی عمل کا محرک اور اس کا نتیجہ ہے۔ اس کے بغیر دین کی دعوت بےروح دعوت ہے اور انسانی زندگی ایک ایسا سفر بن جاتی ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔ قرآن کریم جب عالم آخرت کی باتیں کرتا ہے اور جزا و سزا کی تفصیلات ذکر کرتا ہے ‘ جنت کی نعمتوں اور جہنم کی ہولناکیوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ ان تمام بیان کردہ حقائق سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ انسان کا اپنے اللہ پر ایمان مضبوط ہوجائے ‘ اس کا اپنے خالق کے ساتھ حقیقی تعلق قائم ہوجائے اور وہ اس بات کو سمجھنے لگے کہ میرے اللہ نے مجھے ایک خاص مقصد دے کر دنیا میں بھیجا ہے۔ اس مقصد کی تعمیل میں میرے لیے جنت کی نعمتیں ہیں اور اس سے سرتابی یا پس و پیش میں میرے لیے جہنم کی ہولناکیوں کے اندیشے ہیں۔ قرآن کریم کے بیان کردہ حقائق سے یہ دونوں مقصد حاصل ہوجاتے ہیں۔ انسان اللہ کی صفات کو فی الجملہ سمجھ کر اللہ سے ڈرتا بھی ہے اور اس سے محبت بھی کرتا ہے اور اسی کے احکام کی تعمیل میں زندگی گزارنا اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے۔ اسی طرح آخرت کے بیان کردہ حقائق اس کے اندر جزا و سزا کی فکر مندی پیدا کرتے ہیں۔ وہ اپنے ایک ایک عمل کے بارے میں یہ سوچ کر گراں بار ہوجاتا ہے کہ اللہ کی عدالت میں اگر میں اپنے ہر عمل کے بارے میں اطمینان بخش جواب نہ دے سکا تو پھر میرے ساتھ کیا ہوگا ‘ لیکن جہاں تک بیان کردہ حقائق کی صورت اور حقیقت کا تعلق ہے کوئی شخص ان کے حقیقی مقاصد کو نظر انداز کر کے ان کی صورت کا تصور باندھنے اور ان کی حقیقت جاننے کے درپے ہوجائے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کا کوئی نتیجہ بجز اس کے پید انھیں ہوسکتا کہ ایسی کوشش کرنے والا خود بھی فتنے میں مبتلا ہو اور دوسروں کو بھی مبتلا کرے۔ لیکن جو لوگ اپنی طبیعت میں کجی رکھتے ہیں وہ ان متشابہات کے اصل مقصد سے آگے بڑھ کر اصل حقائق کو جاننے اور ان کی صورت متعین کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ وہ جنت کی ایک ایک نعمت پر تبصرہ کرتے ہیں ‘ خود جنت کا وجود ان کے لیے محل نظر ہوتا ہے۔ تمام مخلوقات کا فنا ہوجانا ‘ پھر از سر نو زندہ ہونا ‘ ایک محشر کا برپا ہونا ‘ اعمال کے تول کے لیے ترازو کا رکھا جانا ‘ اللہ کا انصاف کے لیے عدالت میں منصف بن کے بیٹھنا اور اپنے ہر عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ‘ جسم کے ایک ایک رونگٹے کا گواہی دینا اور اعمال کے تلنے کے نتیجے میں جزا و سزا کا ترتب ہونا اور پھر جنت کی ابدی نعمتیں اور جہنم کی ابدی سزائیں ‘ جہنم کی بےپناہ آگ کے باوجود اس میں ” زقوم “ کے درخت کا پیدا ہونا ‘ اس میں سے ایک مشروب کا نکلنا اور جہنمیوں کو بطور غذا کے اس کا مہیا کیا جانا ‘ ان میں ایک ایک چیز مقصد کے اعتبار سے جزا و سزا کو ابھارتی ہے اور اس کا سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔ لیکن اس نادیدہ عالم کی ایک ایک چیز کی صورت سمجھنا اور حقیقت جاننا ایک ناممکن بات ہے۔ جن کو اللہ نے علم میں پختگی عطا فرمائی ہے اور وہ یقین کی قوت سے بہرہ ور ہیں ان تمام حقائق کا اظہار ان کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ لیکن جو لوگ اس کے حقیقی مقصد کو نظر انداز کر کے محض محسوسات کے جانور بنے رہتے ہیں اور وہ ہر چیز کی اصل حقیقت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ان کا ادراک اس جہان میں ممکن نہیں تو وہ خود بھی فتنے کی نذر ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی فتنے کی نذر کردیتے ہیں۔ رَاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ (علم میں رسوخ رکھنے والے) چونکہ علم کی حدود کو جانتے ہیں اور وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہمارے علم کی رسائی عالم محسوسات اور عالم طبعیات تک ہیں ‘ لیکن ہماری زندگی اور ہمارے ایمان کا رشتہ عالم مغیبات اور عالم آخرت سے بندھا ہوا ہے۔ جو بات عالم محسوسات سے تعلق رکھتی ہے اس کا وہ ادراک کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جن حقائق کا تعلق اس نادیدہ عالم سے ہے جس سے تعلق ہمارے ایمان کا تو ہے لیکن ہمارے علم کا نہیں ‘ وہ وہاں ایمانی قوت کو حرکت دے کر پکار اٹھتے ہیں کہ ہماری عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ہم ہر چیز کا ادراک کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔ لیکن اس سے جو مقصد وابستہ کیا گیا ہے ‘ اسے ہم سمجھتے ہیں۔ رہی ان کی حقیقت اور ماہیت تو اس کے درپے ہونے کی بجائے ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے رب کی جانب سے ہے۔ اس نے کچھ چیزوں کے ادراک کی قوت ہمیں یہاں بخشی ہے اور باقی وہاں بخشے گا جب عالم آخرت میں ہم داخل ہوں گے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو متشابہات کو سمجھتے ہوئے سامنے رہنی چاہیے کہ ہماری ہدایت سرا سر آیات محکمات میں ہے۔ وہی ہمارا معیار ہیں اور وہی ہمارے فکر و عمل کا مرجع۔ عقائد اور عمل کی تفصیل ہم ان آیات سے لیں گے اور متشابہات کو بھی انہی کے دیئے ہوئے تصورات پر محمول کریں گے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کی جلوہ نمائی کے لیے بعض مثالیں بھی ارشاد فرمائی ہیں ‘ جن میں سے ہم صرف ایک مثال عرض کرتے ہیں : ایک مثال سورة مدثر میں قرآن کریم نے دوزخ کے عذاب کی تصویر پیش کرتے ہوئے فرمایا : سَاُصْلِیْہِ سَقَرَ ۔ وَمَآ اَدْرٰ کَ مَا سَقَرُ ۔ ط لاَ تُبْقِیْ وَلاَ تَذَرُ ۔ ج لَوَّاحَۃٌ لِّـلْبَشَرِ ۔ ج عَلَیْہَا تِسْعَۃَ عَشَرَ ۔ ط (میں اس کو دوزخ میں داخل کروں گا، اور تجھے کیا خبر کہ دوزخ کیا ہے ؟ وہ نہ ذرا ترس کھائے گی اور نہ کسی چیز کو چھوڑے گی، جسموں کو جھلس دینے والی۔ اس پر انیس داروغے مقرر ہیں) (المدثر : 26 تا 30) ان آیات کو دیکھئے کافروں کے لیے سزا کا ذکر ہے اور جس آدمی کا یقین جزاء و سزا اور قانونِ مجازات پر ہے ‘ اس کے لیے ان آیات کو سمجھنے کے لیے کوئی دشواری نہیں۔ لیکن جس شخص کی طبیعت میں فتنہ پسندی اور فتنہ جوئی ہے وہ اس کے اصل مقصد کو نظر انداز کر کے اس کے انیس (19) کے لفظ کو لے کے بیٹھ جاتا ہے ‘ کہ اتنے بڑے جہنم پر انیس (19) فرشتوں کا تقرر کیا معنی رکھتا ہے ؟ اور اس سے مراد کیا ہے ؟ چناچہ قرآن کریم نے خود اس کا ذکر فرمایا ارشاد ہے : وما جعلنا اصحاب النار الا ملائکۃ ص وما جعلنا عدتہم الا فتنۃ للذین کفروالیستیقن الذین اوتوا الکتاب ویزداد الذین اٰمنوا ایمانا ولا یرتاب الذین اوتوا الکتاب والمؤمنون ولیقول الذین فی قلوبہم مرض والکافرون ماذا اراد اللّٰہ بھذا مثلاً ط کذالک یضل اللّٰہ من یشآء ویہدی من یشآء وما یعلم جنود ربک الا ھو وما ہی الا ذکری للبشر۔ (اور ہم نے دوزخ کی پہرہ داری پر نہیں مقرر کیے ہیں مگر فرشتے اور ہم نے ان کی تعداد کو نہیں بنایا مگر کافروں کے لیے فتنہ تاکہ وہ لوگ یقین کریں جن کو کتاب ملی ہے اور ایمان والے اپنے ایمان میں اضافہ کریں اور کتاب پانے والے اور اہل ایمان شک میں نہ پڑیں اور جن کی دلوں میں بیماری ہے اور جو کافر ہیں وہ یہ کہیں کہ اس قسم کی تمثیل سے اللہ تعالیٰ کا کیا مطلب ہے ؟ اسی طرح اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور یہ نہیں ہے مگر انسانوں کے لیے یاددہانی) اس ایک مثال کو سامنے رکھئے تو چند باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں کہ آیات محکمات میں جن بنیادی عقائد پر ایمان لانا ایک مومن کے لیے لازم قرار دیا ہے ان میں آخرت پر ایمان بھی شامل ہے اور آخرت پر ایمان کا جو حقیقی مقصد ہے اسے بھی قرآن نے جابجا کھول دیا ہے۔ اس ایمان کی پختگی کی موجودگی میں ان آیات میں کافروں کے لیے جو سزا ذکر فرمائی گئی ہے اس کا سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔ آیاتِ محکمات سے یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ اللہ کی کائنات بہت وسیع ہے ‘ تم تو چھوٹے سے زمین کے کرے پہ رہنے والی ایک مخلوق ہو اور تمہیں بڑا محدود علم دیا گیا ہے۔ تمہیں اگرچہ جوہر عقل سے نوازا گیا ہے لیکن اس کی رسائی بھی عالم طبعیات تک ہے۔ ما بعد الطبعیات کیا ہوتا ہے ؟ انسان کا علم وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس جہان میں تمہاری زندگی گزارنے کے لیے ‘ یہ عقیدہ ضروری ہے کہ ایک دن تم اللہ کے دربار میں پیش کیے جاؤ گے ‘ حساب کتاب ہوگا ‘ نیکیوں کا پلڑا جھک جانے سے تم جنت میں جا سکو گے اور برائیوں کا پلڑا جھکنے کی صورت میں تمہیں جہنم میں جانا ہوگا۔ ہر عمل کا ایک نتیجہ اور اس پر جزا و سزا کا ترتب ‘ یہ وہ بات ہے جسے عقل تسلیم کرتی ہے۔ رہی یہ بات کہ جس عالم آخرت میں یہ سب کچھ ہوگا وہ ایک نادیدہ عالم ہے۔ تمہارا علم اس کے بارے میں سماعی ہے ‘ مشاہداتی نہیں۔ اس لیے تم اس پر یقین لا کر اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ لیکن اگر اس کی ایک ایک چیز کی حقیقت و ماہیت کو جاننے کی کوشش کرو (اور یہاں تاویل کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے) تو یہ وہ کوشش ہے جو تمہاری عقل کی حدود سے ماورا ہے اور اس کوشش کے نتیجے میں تم فتنے میں مبتلا ہوسکتے ہو۔ جہنم کی سزا کا سمجھنا تمہارے ایمان کے لیے ایک معمولی بات ہے۔ لیکن یہ بات جاننے کی کوشش کرنا کہ جو انیس (19) فرشتے مقرر کیے گئے ہیں اس کا کیا مفہوم ہے ؟ اور انیس کے عدد میں کیا رمز ہے ؟ یہ وہ متشابہ بات ہے جس میں الجھ کر تم اپنا وقت بھی برباد کرو گے اور اس کے نتیجے میں فتنے میں مبتلا ہو کر ایمان و عمل کی قوت بھی کھو بیٹھو گے۔ اس میں عافیت کا ایک ہی راستہ ہے کہ اس بات کا یقین پیدا کرو کہ وما یعلم تاویلہ الا اللہ (اس نادیدہ عالم کے حقائق کی صورت و ماہیت کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا) اور پختہ فکر اور پختہ علم لوگ اپنی عقل اور اپنے ایمان سے یہ سمجھ لیتے ہیں اور اسی کا اظہار بھی کرتے ہیں (یہ سب کچھ ہمارے رب کی جانب سے ہے) اگر طبیعت میں سلامتی ہے اور اللہ نے کج فکری سے محفوظ رکھا ہے تو یہی عافیت کا راستہ ہے جس کو اختیار کرنا کوئی مشکل نہیں چناچہ اسی پر قائم رہنے کے لیے اگلی آیات میں دعا سکھائی گئی۔
Top