Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 73
وَ لَا تُؤْمِنُوْۤا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَكُمْ١ؕ قُلْ اِنَّ الْهُدٰى هُدَى اللّٰهِ١ۙ اَنْ یُّؤْتٰۤى اَحَدٌ مِّثْلَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ اَوْ یُحَآجُّوْكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ١ؕ قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ١ۚ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۚۙ
وَلَا : اور نہ تُؤْمِنُوْٓا : مانو تم اِلَّا : سوائے لِمَنْ : اس کی جو تَبِعَ : پیروی کرے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین قُلْ : کہ دیں اِنَّ : بیشک الْهُدٰى : ہدایت ھُدَى : ہدایت اللّٰهِ : اللہ اَنْ : کہ يُّؤْتٰٓى : دیا گیا اَحَدٌ : کسی کو مِّثْلَ : جیسا مَآ : کچھ اُوْتِيْتُمْ : تمہیں دیا گیا اَوْ : یا يُحَآجُّوْكُمْ : وہ حجت کریں تم سے عِنْدَ : سامنے رَبِّكُمْ : تمہارا رب قُلْ : کہ دیں اِنَّ : بیشک الْفَضْلَ : فضل بِيَدِ اللّٰهِ : اللہ کے ہاتھ میں يُؤْتِيْهِ : وہ دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور نہ مانو کسی کی بات سوائے ان کے جو تمہارے دین کی پیروی کریں، ان سے کہئے کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس طرح کی چیز کسی اور کو بھی مل جائے جیسی تمہیں دی گئی ہے یا وہ حجت لاسکیں تم پر تمہارے رب کے حضور، ان سے کہئے ! بیشک فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے
وَلاَ تُؤْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَـکُمْ ط قُلْ اِنَّ الْہُدٰی ھُدَی اللّٰہِ لا اَنْ یُّؤْتٰٓی اَحَدٌ مِّثْلَ مَـآ اُوْتِیْتُمْ اَوْ یُحَآجُّوْکُمْ عِنْدَ رَبِّـکُمْ ط قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِاللّٰہِ ج یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ ج لا یَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۔ (اور نہ مانو کسی کی بات سوائے ان کے جو تمہارے دین کی پیروی کریں۔ ان سے کہئے کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس طرح کی چیز کسی اور کو بھی مل جائے جیسی تمہیں دی گئی ہے یا وہ حجت لاسکیں تم پر تمہارے رب کے حضور۔ ان سے کہئے بیشک فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے خاص کردیتا ہے اور اللہ صاحب فضلِ عظیم ہے) (73 تا 74) سلسلہ کلام کی توجیہ میں دو آراء مفسرینِ کرام نے اس آیت کی تشریح و تفسیر میں بڑی طویل بحثیں کی ہیں اور انھیں اس سلسلے میں بڑا اضطراب پیش آیا ہے کیونکہ اس آیت میں مختلف جملے ہیں جن میں باہمی تعلق واضح کرنا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن ایسا بھی مشکل نہیں جسے اللہ کے فضل و کرم سے آسان نہ کیا جاسکے۔ چناچہ اللہ کی توفیق سے اہل علم نے اس کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے ہم اس سلسلے میں صرف دو باتیں عرض کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم جن دو آراء کا ذکر کرنے لگے ہیں ان میں اس بات پر تو اتفاق ہے کہ اس آیت کا دوسرا جملہ قُلْ اِنَّ الْہُدٰی ہُدَی اللّٰہِاصل سلسلہ کلام کا جزو نہیں بلکہ یہ دو جملوں کے درمیان ایک جملہ معترضہ ہے۔ دوسری زبانوں کے لیے تو شاید یہ ایک اجنبی بات ہو حالانکہ اس کا استعمال تقریباً ہر زبان میں ہوتا ہے۔ لیکن عربی زبان اور عربی اسالیب میں یہ ایک عام بات ہے۔ جس کا ہر ادیب کے یہاں استعمال شائع و ذائع رہا ہے اور قرآن کریم نے بیسیوں جگہ اس اسلوب کو استعمال کیا ہے۔ جہاں بھی قرآن کریم میں کوئی ایسی بات کہی گئی ہے کہ جس کی فوری تردید یا تائید ضروری ہے۔ تو قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ سلسلہ کلام کو روک کر پہلے جملہ معترضہ کی صورت میں تائید یا تردید کی جاتی ہے اور اس کے بعد سلسلہ کلام کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ چناچہ یہاں بھی پہلے جملے میں یہود کی متذکرہ بالا سازش کے حوالے سے فرمایا گیا ہے کہ یہود جب کسی اپنے آلہ کار کو اپنے مذموم مقاصد کی بجاآوری کے لیے مسلمانوں میں یہ کہہ کر بھیجتے تھے کہ تم وہاں جا کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کرو تو ساتھ ہی اسے نہایت تاکید کے ساتھ یہ بات کہتے تھے کہ تم وہاں جا کر مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے اسلام کا اظہار تو کرو لیکن خبردار ان میں سے کسی کی بات ماننے کی کبھی غلطی نہ کرنا۔ بات جب بھی ماننی ہے اپنے لوگوں کی ماننی ہے کیونکہ اہل کتاب ہوتے ہوئے کسی غیر اہل کتاب کی بات ماننا تمہارے لیے ہرگز جائز نہیں۔ یہ بات وہ دو وجہ سے کہتے تھے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ یہودی حق کو صرف اپنے لیے مخصوص سمجھتے تھے اور عیسائی اپنے لیے۔ اپنے سے باہر یا اپنی نسل سے باہر حق کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے وہ تیار نہیں تھے۔ وہ اپنے عوام کو یہ باور کرا چکے تھے اور اس میں وہ کسی طرح کی کمزوری کے در آنے کو برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ نبوت صرف بنی اسرائیل کی خصوصیت ہے۔ نبی جب بھی آئے گا وہ بنی اسرائیل میں سے ہوگا۔ اس طرح سے انھوں نے نسل کی ایک ایسی فصیل کھینچ رکھی تھی جس کی موجودگی میں کسی حق کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہ تھی اور دوسری بات یہ تھی کہ یہود چونکہ مدینے کے پڑھے لکھے اور صاحب علم لوگ تھے اور اوس و خزرج ان کے مقابلے میں بالکل امی اور ان پڑھ تھے اور یہ تو دنیا کا عام چلن ہے کہ ہر جگہ پڑھا لکھا طبقہ Dominate کرتا ہے اور ان پڑھ طبقہ ہمیشہ پڑھے لکھے لوگوں کی پیروی کرتا ہے۔ اب نئی آنے والی نبوت اور نیا اٹھنے والا دین چونکہ اپنے ساتھ علم کی فضیلت بھی لایا تھا بلکہ حقیقی علم اب انہی کے پاس تھا تو انھیں اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ اگر نبی کریم ﷺ یا مسلمانوں میں سے اصحاب الرائے کی بات چلنے لگی تو ہمارا یہ نام نہاد طلسم ٹوٹ جائے گا۔ اس لیے وہ اپنے آلہ کار لوگوں کو سازش کے طور پر بھیجنے پر تو مجبور تھے لیکن ساتھ پوری طرح انھیں ہر آنے والے خطرے سے آگاہ کرنا بلکہ محفوظ کرنا بھی ضروری سمجھتے تھے اور یہ دونوں باتیں چونکہ یہود کی تمام گمراہیوں کی جڑ تھیں اور اسی نسلی برتری اور نام نہاد علمی تفوق نے انھیں ہر طرح کی ہدایت کو قبول کرنے سے محروم کردیا تھا اس لیے قرآن کریم نے سلسلہ کلام کو روک کر سب سے پہلے برسر موقع اس کی تردید کرنا ضروری سمجھا کہ ایک طرف تو تم اپنے آپ کو اہل کتاب اور اہل ہدایت کہتے ہو اور دوسری طرف تمہارا حال یہ ہے کہ تم نے ہدایت کو ایک نسل میں محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ تو ایک ایسا اندھا بہرہ گروہی تعصب ہے جسے کسی طرح بھی صحیح نہیں کہا جاسکتا۔ اگر واقعی ہدایت تمہارے پاس ہے تو یہی تعصب دوسرے لوگوں میں اگر موجود ہوگا تو وہ تمہاری ہدایت کو کیسے قبول کرسکیں گے۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ اصل پیروی ہدایت کی ہونی چاہیے نہ کہ گروہی تعصبات کی اور یہ بھی تمہیں معلوم ہے کہ ہدایت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے کوئی شخض یا گروہ نہیں تو اللہ کی ہدایت اسرائیلی پیغمبر کے ذریعے سے ملے یا کسی اسماعیلی پیغمبر کے واسطہ سے، ترجیح تو ہمیشہ اس ہدایت کو دینا چاہیے۔ چناچہ اس گمراہی کی تردید کے بعد پھر اصل سلسلہ کلام کو شروع کردیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جملہ معترضہ کو درمیان سے نکال کر اگلے جملوں کو پہلے جملے سے ملا دیا جائے تو سلسلہ کلام مربوط ہوجاتا ہے تو پھر بات کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہتی کیونکہ ہم نے جو مفہوم بیان کیا ہے دوسرا جملہ اسی کی تائید کر رہا ہے اور تائید کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنے کارندوں کو بھیجتے ہوئے یہ جو تاکید کرتے تھے کہ اپنے لوگوں کے سوا کسی اور کی بات نہ ماننا اس کی وجہ اصل میں یہ ذہنیت اور یہ سوچ تھی کہ وہ کسی صورت میں بھی اپنی نسلی فصیل سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ نفسیاتی طور پر اپنے اردگرد خانہ ساز تصورات کا ایسا تانا بانا بن چکے تھے کہ جس کی وجہ سے ان کے لیے کسی اور کی دینی سیادت اور پیشوائی کو تسلیم کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ بنی اسماعیل باوجود اس کے کہ نسل اور نسب کے اعتبار سے ان کے سب سے زیادہ قریب تھے کیونکہ دونوں کے جدامجد ایک تھے۔ باایں ہمہ ! اپنی خانہ ساز برتری کے باعث یہ بات ان کے لیے ہرگز قابل قبول نہ تھی کہ بنی اسماعیل میں سے کوئی پیغمبر آسکتا ہے اور اس کی دینی سیادت تسلیم کی جاسکتی ہے اور اسی کے نتیجے میں اگلے جملے میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس کی بھی ہدایت کرتے تھے یعنی اپنے بھیجنے والوں کو یہ سمجھاتے تھے کہ تم جانتے ہو کہ آخری نبی اور آخری دین کے بارے میں تورات میں بہت سی باتیں اب بھی موجود ہیں دیکھنا ان میں سے کوئی بات مسلمانوں کو نہ بتانا ورنہ وہ قیامت کے دن تمہارے رب کے سامنے اسے بطوردلیل پیش کریں گے۔ سورة بقرہ آیت نمبر 76 اور 77 میں یہ بحث گزر چکی ہے اور وہاں کسی حد تک ہم اس کی وضاحت کرچکے ہیں۔ دوسری رائے امام ابو عبداللہ القرطبی ( رح) کی ہے، جو ترکیب و تالیف میں متذکرہ بالا رائے سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود مفہوم کے تعین میں کسی حد تک مختلف ہے۔ وہ اس آیت کو سلجھاتے ہوئے قَلْ اِنَّ الْہُدٰی ہُدَی اللّٰہ کو متذکرہ بالا رائے کی طرح جملہ معترضہ ہی قرار دیتے ہیں اور دوسرے جملوں کا تعلق وَلَا تُوْمِنُوْا سے اس طرح پیوست کرتے ہیں۔ اَلْمَعْنٰی وَلاَ تُوْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَـکُمْ وَلَا تُؤْمِنُوْٓا اَنْ یُّوْتٰی اَحَدٌ مِّثْلَ مَـآ اُوْتِیْتُمْ وَلاَ تُصَدِّقُوْٓ ا اَنْ یُّحَآجُّوْا کُمْ (تفسیر قرطبی) اس کا مفہوم یہ ہے کہ رؤسائے یہود اپنے جن لوگوں کو اس سازش کے لیے تیار کر کے بھیجتے تھے تین باتیں ان کے ذہن میں پیوست کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ پہلی بات یہ کہ اپنے دین کے ماننے والوں کے علاوہ کسی اور کی بات کی مت مانو اور دوسری بات یہ کہ اس بات کا یقین رکھنا کہ جن انعاماتِ خداوندی سے تمہیں نوازا گیا ہے وہ دوسری کسی قوم کو مرحمت نہیں کیے گئے اور تیسری یہ بات کہ تمہیں اس بات کا ہرگز کھٹکا نہیں ہونا چاہیے کہ مسلمان قیامت کے دن تم پر کوئی حجت قائم کرسکیں گے۔ تمہیں اللہ تعالیٰ نے اس لحاظ سے محفوظ رکھا ہے کیونکہ تم اللہ کے برگزیدہ بندوں سے تعلق رکھتے ہو۔ وہ قیامت کے دن تم کو ہرگز شرمسار نہیں ہونے دے گا۔ یہ تین باتیں ان کے دل و دماغ میں اتار کر انھیں مسلمانوں کے پاس بھیجا جاتا تھا کیونکہ یہود کو اس بات کا برابر اندیشہ رہتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تو انھیں اس لیے بھیج رہے ہیں کہ یہ لوگ چند روز دائرہ اسلام میں رہیں، اپنا ایک اعتبار قائم کریں اور پھر اچانک اسلام سے نکل کر اس کی خود ساختہ برائیاں بیان کر کے لوگوں کو اسلام سے بدظن کریں۔ لیکن اگر یہ لوگ اپنے تعصبات پر قائم نہ رہے اور مسلمانوں میں جا کر انھوں نے کھلے دل و دماغ سے آنحضرت ﷺ کی باتیں سننا شروع کردیں اور مسلمانوں کے مصفا و مجلا کردار کو دیکھا تو کہیں سچ مچ مسلمان بن کر اسلام کی قوت نہ بن جائیں۔ اس لیے ان کے گرد تعصبات کی جتنی دیواریں اٹھائی جاسکتی تھیں ان کے اٹھانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ حقیقت کے مقابلے میں مصنوعی تہذیب اور توہمات پر مبنی مذاہب کی اصل قوت ان کے تعصبات ہی ہوتے ہیں۔ جیسے ہی اس میں غور و فکر کے شگاف کھلنے لگیں تو پھر ان کی فصیلوں کو گرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہود نے اپنے نسلی تفوق سے ہر دور میں اپنی قوم کو بچایا اور یہی وہ تعصب ہے جس نے حقیقت کو قبول کرنے سے انھیں دور رکھا۔ نیشنلزم (Nationalism) ، دودھاری تلوار یہ وہ چیز ہے جسے آج کی زبان میں قومی عصبیت یا نیشنلزم کا نام دیا جاتا ہے۔ یہود کا نیشنلزم نسلی تفوق اور مذہبی تفوق کے دو گونہ تعصبات سے مل کر تیار ہوا تھا اور عیسائیوں کا نیشنلزم بھی انہی دونوں چیزوں سے مل کر تشکیل پایا ہے۔ لیکن مرور زمانہ نے ان میں بعض ایسی ضرورتوں کا شعور ابھارا جس کی وجہ سے مذہبی تعصب کو انھوں نے پردہ اخفاء میں رکھا اور نسلی تعصب کو پردہ اظہار میں لا کر اپنی قوت کی فصیل بنایا اور اسی کو نیشن کا نام دیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ انھوں نے نیشن کے اس تصور سے دو دھاری تلوار کا کام لیا ہے۔ اس کی ایک دھار ان کے تحفظ کا ذریعہ بنی ہے اور دوسری دھار نے دوسری قوموں میں تخریب کے زخم لگائے ہیں۔ ان کے اپنے اندر جب بھی انتشار کی قوتوں نے سر اٹھایا ہے تو انھوں نے ہمیشہ نیشنلزم کی قوت سے ان قوتوں کو یا تو خاموش ہونے پر مجبور کردیا اور یا ان کا سر پھوڑ ڈالا اور ان تصورات نے ان کے اساسی تصورات میں اتنی جگہ بنا لی ہے کہ ان کا ہر بچہ، ہر جوان اور ہر بوڑھا ان تعصبات کی چلتی پھرتی تصویر دکھائی دیتا ہے۔ رنگ اور نسل پہچان کے سوا اور کچھ نہیں، لیکن انھوں نے جرمن قوم کی طرح اسے برتری کا ذریعہ بنالیا۔ خوبصورتی جس طرح گورے رنگ میں ہے، اسی طرح دوسرے رنگوں میں بھی ہے۔ لیکن ان کے نزدیک ایشیاء یا افریقہ کا خوبصورت ترین آدمی بھی ایک انگریز جیسا نہیں ہوسکتا اور اس معاملے میں وہ اس حدتک آگے بڑھ چکے ہیں کہ ایک انگریز کسی بھی ایشیائی یا کلرڈ (Coloured) آدمی کے پاس سیاسی ضرورتوں یا مفادات کی خواہشوں کے سوا بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ ٹرین میں کھڑے ہونا پسند کرلے گا، لیکن اپنے سے مختلف رنگ کے آدمی کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کرے گا بلکہ کلرڈ (Coloured) کہہ کر توہین کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا اور اس معاملے میں انھوں نے جو اخلاقی ضوابط بنا رکھے ہیں یہود نے تو انھیں پردہ اخفا میں بھی نہیں رکھا کیونکہ تورات میں واضح طور پر ان کا تذکرہ موجود ہے اور ان کے پروٹوکول میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں اس میں وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ان کا ذکر کرتے ہیں۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن جہاں تک عیسائیوں کا تعلق ہے وہ اگرچہ دنیا میں مساوات کے مبلغ ہیں اور انسانی حقوق کے اپنے آپ کو چمپیئن سمجھتے ہیں اور امریکہ نے سب سے بڑھ کر ان باتوں کے دعوے دار ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ، وہ عام زندگی میں احساس نہیں ہونے دیتے، لیکن جب کبھی بین الاقوامی معاملات میں الجھنیں پڑتی ہیں تو پھر ان کے پیمانے بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ قومی مفادات میں وقت کے ساتھ ساتھ سچ اور جھوٹ صحیح اور غلط اور حق اور ناحق آپس میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہ سب چیزیں ان کے نیشنلزم کا تقاضا یا قومی تعصب کا نتیجہ ہیں۔ جہاں تک اس تلوار کی دوسری دھار کا تعلق ہے اس سے انھوں نے بالعموم مسلمانوں کی تخریب کے لیے کام لیا ہے۔ انھیں اچھی طرح اس بات کا شعور ہے کہ ان کا نیشنلزم ان کی بقا کا ضامن ہے۔ وہ جتنا اس پر زور دیں گے اتنی ان کی شیرازہ بندی پختہ ہوتی جائے گی۔ لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ اس معنیٰ میں ایک نیشن نہیں کہ وہ ایک رنگ، ایک نسل یا ایک جغرافیے سے تعلق رکھتے ہیں، اسلام تو ایک نظریے، زندگی کے ایک رویے یا چند حقائق 1 ور صداقتوں کے مجموعے کا نام ہے۔ انھیں عقیدے کی قوت سے قبول کرلینا ایمان کہلاتا ہے۔ جو شخص بھی ایمان لاکر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے وہ مومن اور مسلم کہلاتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس کا رنگ کیا ہے ؟ وہ کس نسل سے تعلق رکھتا ہے ؟ اور اس کی جنم بھومی کہاں ہے ؟ خونی رشتے میں شریک لوگ ایک علاقے سے تعلق رکھنے والے اور ایک جگہ پیدا ہونے والے آپس میں بیگانہ ہوجاتے ہیں، اگر ان کے درمیان ایمان کا رشتہ نہ ہو اور اگر وہ اسلام کی بنیادی صداقتوں کو قبول کر کے اسلام کے دائرے میں آجائیں تو وہ مسلمانوں کے بھائی بن جاتے ہیں۔ چاہے رنگ، نسل اور جغرافیے کے اعتبار سے وہ ایک دوسرے سے کتنے ہی بیگانہ کیوں نہ ہوں ؎ حسن ز بصرہ، بلال از حبش، صہیب از روم ابوجہل زم کہ این چہ بولعجبی است حسن ( رض) بصرہ سے آئے اور اصحابِ ایمان کے مقتداء بن گئے۔ بلال ( رض) حبش سے بکتے بکاتے آئے لیکن اسلام سے وابستگی اور آنحضرت ﷺ کی غلامی نے انھیں یہ اعزاز بخشا کہ فتح مکہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کریں اور لوگوں کو یہ دکھا دیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی غلامی اور اسلام سے وابستگی وہ دولت ہے جس کی وجہ سے ایک کالا کلوٹا آدمی اللہ کے گھر کی چھت پر کھڑا ہو کر اللہ کی کبریائی اور انسانی مساوات کا اعلان کرسکتا ہے۔ صہیب ( رض) روم سے غلام بنا کر لائے گئے اور مکہ کے بازاروں میں بیچے گئے۔ لیکن تاریخ کا وہ لمحہ آج تک دم بخود ہے جب اس نے یہ منظر دیکھا کہ اسلام کے بطل جلیل حضرت عمر فاروق ( رض) کا جسد خاکی نماز جنازہ کے لیے سامنے رکھا گیا ہے اور تمام جلیل القدر صحابہ ( رض) اس انتظار میں ہیں کہ اس عظیم انسان کی نماز کون پڑھائے گا ؟ لیکن یہ دیکھ کر انسان ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ امامت کے لیے آگے بڑھنے والا وہ صہیب ( رض) تھا جو کل مکہ کے بازاروں میں بیچا گیا تھا اور آج اسلام سے وابستگی نے اسے ان لوگوں کا امام بنادیا ہے جن سے بڑھ کر دنیا اور آخرت میں معزز کوئی نہ تھا۔ لیکن ان کے مقابلے میں ابوجہل جو قریش مکہ کے اشراف میں سے تھا اور اسی طرح کے دوسرے لوگ جنھیں اپنے قومی افتخار پر ہمیشہ ناز رہا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ ابوجہل اور اس جیسے دوسرے عمائدینِ قریش گدھوں کی طرح کھینچ کر ایک بند کنویں میں پھینکے گئے۔ جس سے دنیا کے سامنے یہ بات مبرہن ہوگئی کہ عظمتیں، رفعتیں، عزتیں اور سربلندیاں، رنگ، نسل یا جغرافیے سے وابستگی میں نہیں بلکہ اسلام سے وابستگی میں ہیں۔ دنیا کا کوئی شخص بھی جو اس کے دامن میں آجائے گا۔ وہ ان تمام عزتوں کا مالک ہوجائے گا اور جو اس سے کٹ جائے گا وہ چاہے اللہ کے آخری رسول ﷺ کا ہم نسب اور ہم وطن کیوں نہ ہو اس کا ٹھکانہ آخرت میں جہنم ہوگا اور دنیا میں وہ سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن اسلامی قومیت کا حصہ نہیں بن سکتا۔ دنیائے کفر نے اس راز کو اچھی طرح سمجھا اور مسلمانوں کی قوت کے اس سرچشمہ کو غارت کرنے کے لیے نیشنلزم کی دوسری دھار کو استعمال کیا۔ ان میں قومیتوں کے فتنے اٹھائے، زبانیں جو مافی الضمیر کے اظہار کے لیے ہوتی ہیں انھیں مستقل وحدت بنا کر اسلامی وحدت کے مقابلے میں لا کھڑا کیا۔ مسلمان ملکوں میں صوبائیت کو علیحدگی کا پیش خیمہ بنادیا۔ قبائلی زندگی میں ہر قبیلہ کو وحدت کی ایسی عظمت بخشی کہ باقی ساری وحدتیں اس پر قربان ہوگئیں اور ان میں سے ہر ایک چیز کو الگ الگ نیشن (Nation) کی بنیاد بنایا گیا۔ ہسپانیہ کی عظیم مسلمان حکومت اسی فتنے کی نذر ہوئی۔ سقوطِ بغداد اور سقوط ڈھا کہ اسی عفریت کے ہاتھوں عمل میں آئے۔ خلافتِ عثمانیہ عرب نیشنلزم سے تباہ کی گئی اور آج پاکستان ایک دفعہ پھر اسی نیشنلزم کے پیدا کردہ حوادث کا سامنا کر رہا ہے۔ اس آیت کریمہ میں قوم پرستی یا نیشنلزم کے اسی تباہ کن نظریے کا ذکر فرما کر بروقت اس کا ابطال کیا گیا اور پھر یہ بھی آگاہی دی گئی کہ تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں کو اسی فتنہ سے واسطہ پڑے گا۔ اہل کتاب اسی کی بنیاد پر اپنا تحفظ کریں گے اور مسلمانوں کو اسی دو دھاری تلوار سے تباہ کیا جائے گا۔ لیکن افسوس قرآن کریم کی اس قدر واضح وارننگ کے باوجود امت مسلمہ آج پھر انہی حوادث کا شکار ہے۔ وہ ایک طرف اہل کتاب کی حقیقت کو نہ پہچان کر بےبصیرتی کا ثبوت دے رہی ہے اور دوسری طرف اپنی قوت کے اصل سرچشمہ اور اپنی قوم کی شیرازہ بندی کے اصل اسباب کو نظرانداز کر کے تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے بلکہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ہم زہر کو آب حیات سمجھنے لگے ہیں۔ اقبال نے شاید ایسے ہی تأثرات کے تحت کہا تھا ؎ ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوع انساں کو اخوت کی زباں ہوجا محبت کا بیاں ہوجا یہ ہندی وہ خراسانی یہ ایرانی وہ تورانی تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بےکراں ہوجا غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہوجا ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِاللّٰہِ ج یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ اے پیغمبر ! ان سے کہہ دیجیے کہ تم اپنی سیادت و پیشوائی کو بچانے کے لیے قومی عصبیت کی جو دیواریں کھڑی کر رہے ہو اور اس کے نتیجے میں تم یہ سمجھتے ہو کہ عزت و فضیلت ہمیشہ تمہارے گھر میں رہے گی۔ یہ تمہاری نادانی ہے کیونکہ فضیلت سراسر نبوت کا نتیجہ ہے۔ اگر بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ نہ چلتا اور کسی اور خاندان کو اس سے سر افراز کردیا جاتا تو تم آج تک تاریخ کے غبار میں بےنشان ہوچکے ہوتے۔ نبوت کسی خاندان یا قوم کی خصوصیت نہیں وہ تو خالصتاً اللہ کی دین ہے۔ تمہاری کوششیں اور تمہاری سازشیں اسے اپنے گھر میں بند نہیں رکھ سکتیں۔ کل اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بنی اسرائیل کو منتخب کیا تھا تو آج وہ اس کے لیے بنی اسماعیل کو منتخب کرچکا ہے اور وہ اپنے فیصلوں میں بااختیار ہے، کوئی بھی اس میں دخیل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ ہماری یہ ساری کاوشیں اللہ کے فیصلے کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتیں اور ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھو کہ اس کے فضل و رحمت کے پیمانے تم جیسے نہیں۔ وہ نہ تو اتنے تنگ ہیں کہ جو ایک خاندان میں سمٹ کے رہ جائیں اور نہ ان پیمانوں کا مالک اتنا بیخبر ہے کہ وہ نبوت کی عزت و فضیلت ایسے لوگوں کو دے دے جو اپنی نااہلیت ثابت کرچکے ہوں۔ وہ جس طرح بےانتہا فضل و کمال کا مالک ہے اسی طرح وہ علیم بھی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون کس چیز کا استحقاق رکھتا ہے اور کون صرف تعصبات کے سائے میں زندہ رہنا چاہتا ہے۔ بنی اسرائیل کو اگر اس اعزاز سے محروم کیا جا رہا ہے تو یہ بھی سراسر اللہ کے علم و آگہی کا فیصلہ ہے اور اگر بنی اسماعیل کو اس سے نوازا جا رہا ہے تو وہ جہاں ایک اعزازو اکرام ہے وہیں ایک آزمائش بھی ہے اور آزمائش بھی اتنی وسیع ہے جس کا دائرہ پوری نوع انسانی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس لیے بنی اسرائیل کو اگر اپنی بقا عزیز ہے تو اسے اپنی کوتاہیوں کی اصلاح کرنی چاہیے اور اپنے فخر و نخوت کے سارے سرمائے کو نبی آخر الزماں کے قدموں میں ڈھیر کردینا چاہیے اور بنی اسماعیل اگر چاہتے ہیں کہ وہ واقعی اس اعزازو اکرام کے مستحق رہیں اور ان کا انجام کبھی بنی اسرائیل جیسا نہ ہو تو انھیں اس انعام پر اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے اور آگے بڑھ کر اس کا حق ادا کرنے کے لیے جان و تن کو کھپا دینا چاہیے۔
Top