Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 73
وَ لَا تُؤْمِنُوْۤا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَكُمْ١ؕ قُلْ اِنَّ الْهُدٰى هُدَى اللّٰهِ١ۙ اَنْ یُّؤْتٰۤى اَحَدٌ مِّثْلَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ اَوْ یُحَآجُّوْكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ١ؕ قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ١ۚ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۚۙ
وَلَا
: اور نہ
تُؤْمِنُوْٓا
: مانو تم
اِلَّا
: سوائے
لِمَنْ
: اس کی جو
تَبِعَ
: پیروی کرے
دِيْنَكُمْ
: تمہارا دین
قُلْ
: کہ دیں
اِنَّ
: بیشک
الْهُدٰى
: ہدایت
ھُدَى
: ہدایت
اللّٰهِ
: اللہ
اَنْ
: کہ
يُّؤْتٰٓى
: دیا گیا
اَحَدٌ
: کسی کو
مِّثْلَ
: جیسا
مَآ
: کچھ
اُوْتِيْتُمْ
: تمہیں دیا گیا
اَوْ
: یا
يُحَآجُّوْكُمْ
: وہ حجت کریں تم سے
عِنْدَ
: سامنے
رَبِّكُمْ
: تمہارا رب
قُلْ
: کہ دیں
اِنَّ
: بیشک
الْفَضْلَ
: فضل
بِيَدِ اللّٰهِ
: اللہ کے ہاتھ میں
يُؤْتِيْهِ
: وہ دیتا ہے
مَنْ
: جسے
يَّشَآءُ
: وہ چاہتا ہے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
وَاسِعٌ
: وسعت والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اور نہ مانو کسی کی بات سوائے ان کے جو تمہارے دین کی پیروی کریں، ان سے کہئے کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس طرح کی چیز کسی اور کو بھی مل جائے جیسی تمہیں دی گئی ہے یا وہ حجت لاسکیں تم پر تمہارے رب کے حضور، ان سے کہئے ! بیشک فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے
وَلاَ تُؤْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَـکُمْ ط قُلْ اِنَّ الْہُدٰی ھُدَی اللّٰہِ لا اَنْ یُّؤْتٰٓی اَحَدٌ مِّثْلَ مَـآ اُوْتِیْتُمْ اَوْ یُحَآجُّوْکُمْ عِنْدَ رَبِّـکُمْ ط قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِاللّٰہِ ج یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ ج لا یَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۔ (اور نہ مانو کسی کی بات سوائے ان کے جو تمہارے دین کی پیروی کریں۔ ان سے کہئے کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس طرح کی چیز کسی اور کو بھی مل جائے جیسی تمہیں دی گئی ہے یا وہ حجت لاسکیں تم پر تمہارے رب کے حضور۔ ان سے کہئے بیشک فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے خاص کردیتا ہے اور اللہ صاحب فضلِ عظیم ہے) (73 تا 74) سلسلہ کلام کی توجیہ میں دو آراء مفسرینِ کرام نے اس آیت کی تشریح و تفسیر میں بڑی طویل بحثیں کی ہیں اور انھیں اس سلسلے میں بڑا اضطراب پیش آیا ہے کیونکہ اس آیت میں مختلف جملے ہیں جن میں باہمی تعلق واضح کرنا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن ایسا بھی مشکل نہیں جسے اللہ کے فضل و کرم سے آسان نہ کیا جاسکے۔ چناچہ اللہ کی توفیق سے اہل علم نے اس کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے ہم اس سلسلے میں صرف دو باتیں عرض کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم جن دو آراء کا ذکر کرنے لگے ہیں ان میں اس بات پر تو اتفاق ہے کہ اس آیت کا دوسرا جملہ قُلْ اِنَّ الْہُدٰی ہُدَی اللّٰہِاصل سلسلہ کلام کا جزو نہیں بلکہ یہ دو جملوں کے درمیان ایک جملہ معترضہ ہے۔ دوسری زبانوں کے لیے تو شاید یہ ایک اجنبی بات ہو حالانکہ اس کا استعمال تقریباً ہر زبان میں ہوتا ہے۔ لیکن عربی زبان اور عربی اسالیب میں یہ ایک عام بات ہے۔ جس کا ہر ادیب کے یہاں استعمال شائع و ذائع رہا ہے اور قرآن کریم نے بیسیوں جگہ اس اسلوب کو استعمال کیا ہے۔ جہاں بھی قرآن کریم میں کوئی ایسی بات کہی گئی ہے کہ جس کی فوری تردید یا تائید ضروری ہے۔ تو قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ سلسلہ کلام کو روک کر پہلے جملہ معترضہ کی صورت میں تائید یا تردید کی جاتی ہے اور اس کے بعد سلسلہ کلام کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ چناچہ یہاں بھی پہلے جملے میں یہود کی متذکرہ بالا سازش کے حوالے سے فرمایا گیا ہے کہ یہود جب کسی اپنے آلہ کار کو اپنے مذموم مقاصد کی بجاآوری کے لیے مسلمانوں میں یہ کہہ کر بھیجتے تھے کہ تم وہاں جا کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کرو تو ساتھ ہی اسے نہایت تاکید کے ساتھ یہ بات کہتے تھے کہ تم وہاں جا کر مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے اسلام کا اظہار تو کرو لیکن خبردار ان میں سے کسی کی بات ماننے کی کبھی غلطی نہ کرنا۔ بات جب بھی ماننی ہے اپنے لوگوں کی ماننی ہے کیونکہ اہل کتاب ہوتے ہوئے کسی غیر اہل کتاب کی بات ماننا تمہارے لیے ہرگز جائز نہیں۔ یہ بات وہ دو وجہ سے کہتے تھے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ یہودی حق کو صرف اپنے لیے مخصوص سمجھتے تھے اور عیسائی اپنے لیے۔ اپنے سے باہر یا اپنی نسل سے باہر حق کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے وہ تیار نہیں تھے۔ وہ اپنے عوام کو یہ باور کرا چکے تھے اور اس میں وہ کسی طرح کی کمزوری کے در آنے کو برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ نبوت صرف بنی اسرائیل کی خصوصیت ہے۔ نبی جب بھی آئے گا وہ بنی اسرائیل میں سے ہوگا۔ اس طرح سے انھوں نے نسل کی ایک ایسی فصیل کھینچ رکھی تھی جس کی موجودگی میں کسی حق کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہ تھی اور دوسری بات یہ تھی کہ یہود چونکہ مدینے کے پڑھے لکھے اور صاحب علم لوگ تھے اور اوس و خزرج ان کے مقابلے میں بالکل امی اور ان پڑھ تھے اور یہ تو دنیا کا عام چلن ہے کہ ہر جگہ پڑھا لکھا طبقہ Dominate کرتا ہے اور ان پڑھ طبقہ ہمیشہ پڑھے لکھے لوگوں کی پیروی کرتا ہے۔ اب نئی آنے والی نبوت اور نیا اٹھنے والا دین چونکہ اپنے ساتھ علم کی فضیلت بھی لایا تھا بلکہ حقیقی علم اب انہی کے پاس تھا تو انھیں اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ اگر نبی کریم ﷺ یا مسلمانوں میں سے اصحاب الرائے کی بات چلنے لگی تو ہمارا یہ نام نہاد طلسم ٹوٹ جائے گا۔ اس لیے وہ اپنے آلہ کار لوگوں کو سازش کے طور پر بھیجنے پر تو مجبور تھے لیکن ساتھ پوری طرح انھیں ہر آنے والے خطرے سے آگاہ کرنا بلکہ محفوظ کرنا بھی ضروری سمجھتے تھے اور یہ دونوں باتیں چونکہ یہود کی تمام گمراہیوں کی جڑ تھیں اور اسی نسلی برتری اور نام نہاد علمی تفوق نے انھیں ہر طرح کی ہدایت کو قبول کرنے سے محروم کردیا تھا اس لیے قرآن کریم نے سلسلہ کلام کو روک کر سب سے پہلے برسر موقع اس کی تردید کرنا ضروری سمجھا کہ ایک طرف تو تم اپنے آپ کو اہل کتاب اور اہل ہدایت کہتے ہو اور دوسری طرف تمہارا حال یہ ہے کہ تم نے ہدایت کو ایک نسل میں محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ تو ایک ایسا اندھا بہرہ گروہی تعصب ہے جسے کسی طرح بھی صحیح نہیں کہا جاسکتا۔ اگر واقعی ہدایت تمہارے پاس ہے تو یہی تعصب دوسرے لوگوں میں اگر موجود ہوگا تو وہ تمہاری ہدایت کو کیسے قبول کرسکیں گے۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ اصل پیروی ہدایت کی ہونی چاہیے نہ کہ گروہی تعصبات کی اور یہ بھی تمہیں معلوم ہے کہ ہدایت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے کوئی شخض یا گروہ نہیں تو اللہ کی ہدایت اسرائیلی پیغمبر کے ذریعے سے ملے یا کسی اسماعیلی پیغمبر کے واسطہ سے، ترجیح تو ہمیشہ اس ہدایت کو دینا چاہیے۔ چناچہ اس گمراہی کی تردید کے بعد پھر اصل سلسلہ کلام کو شروع کردیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جملہ معترضہ کو درمیان سے نکال کر اگلے جملوں کو پہلے جملے سے ملا دیا جائے تو سلسلہ کلام مربوط ہوجاتا ہے تو پھر بات کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہتی کیونکہ ہم نے جو مفہوم بیان کیا ہے دوسرا جملہ اسی کی تائید کر رہا ہے اور تائید کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنے کارندوں کو بھیجتے ہوئے یہ جو تاکید کرتے تھے کہ اپنے لوگوں کے سوا کسی اور کی بات نہ ماننا اس کی وجہ اصل میں یہ ذہنیت اور یہ سوچ تھی کہ وہ کسی صورت میں بھی اپنی نسلی فصیل سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ نفسیاتی طور پر اپنے اردگرد خانہ ساز تصورات کا ایسا تانا بانا بن چکے تھے کہ جس کی وجہ سے ان کے لیے کسی اور کی دینی سیادت اور پیشوائی کو تسلیم کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ بنی اسماعیل باوجود اس کے کہ نسل اور نسب کے اعتبار سے ان کے سب سے زیادہ قریب تھے کیونکہ دونوں کے جدامجد ایک تھے۔ باایں ہمہ ! اپنی خانہ ساز برتری کے باعث یہ بات ان کے لیے ہرگز قابل قبول نہ تھی کہ بنی اسماعیل میں سے کوئی پیغمبر آسکتا ہے اور اس کی دینی سیادت تسلیم کی جاسکتی ہے اور اسی کے نتیجے میں اگلے جملے میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس کی بھی ہدایت کرتے تھے یعنی اپنے بھیجنے والوں کو یہ سمجھاتے تھے کہ تم جانتے ہو کہ آخری نبی اور آخری دین کے بارے میں تورات میں بہت سی باتیں اب بھی موجود ہیں دیکھنا ان میں سے کوئی بات مسلمانوں کو نہ بتانا ورنہ وہ قیامت کے دن تمہارے رب کے سامنے اسے بطوردلیل پیش کریں گے۔ سورة بقرہ آیت نمبر 76 اور 77 میں یہ بحث گزر چکی ہے اور وہاں کسی حد تک ہم اس کی وضاحت کرچکے ہیں۔ دوسری رائے امام ابو عبداللہ القرطبی ( رح) کی ہے، جو ترکیب و تالیف میں متذکرہ بالا رائے سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود مفہوم کے تعین میں کسی حد تک مختلف ہے۔ وہ اس آیت کو سلجھاتے ہوئے قَلْ اِنَّ الْہُدٰی ہُدَی اللّٰہ کو متذکرہ بالا رائے کی طرح جملہ معترضہ ہی قرار دیتے ہیں اور دوسرے جملوں کا تعلق وَلَا تُوْمِنُوْا سے اس طرح پیوست کرتے ہیں۔ اَلْمَعْنٰی وَلاَ تُوْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَـکُمْ وَلَا تُؤْمِنُوْٓا اَنْ یُّوْتٰی اَحَدٌ مِّثْلَ مَـآ اُوْتِیْتُمْ وَلاَ تُصَدِّقُوْٓ ا اَنْ یُّحَآجُّوْا کُمْ (تفسیر قرطبی) اس کا مفہوم یہ ہے کہ رؤسائے یہود اپنے جن لوگوں کو اس سازش کے لیے تیار کر کے بھیجتے تھے تین باتیں ان کے ذہن میں پیوست کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ پہلی بات یہ کہ اپنے دین کے ماننے والوں کے علاوہ کسی اور کی بات کی مت مانو اور دوسری بات یہ کہ اس بات کا یقین رکھنا کہ جن انعاماتِ خداوندی سے تمہیں نوازا گیا ہے وہ دوسری کسی قوم کو مرحمت نہیں کیے گئے اور تیسری یہ بات کہ تمہیں اس بات کا ہرگز کھٹکا نہیں ہونا چاہیے کہ مسلمان قیامت کے دن تم پر کوئی حجت قائم کرسکیں گے۔ تمہیں اللہ تعالیٰ نے اس لحاظ سے محفوظ رکھا ہے کیونکہ تم اللہ کے برگزیدہ بندوں سے تعلق رکھتے ہو۔ وہ قیامت کے دن تم کو ہرگز شرمسار نہیں ہونے دے گا۔ یہ تین باتیں ان کے دل و دماغ میں اتار کر انھیں مسلمانوں کے پاس بھیجا جاتا تھا کیونکہ یہود کو اس بات کا برابر اندیشہ رہتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تو انھیں اس لیے بھیج رہے ہیں کہ یہ لوگ چند روز دائرہ اسلام میں رہیں، اپنا ایک اعتبار قائم کریں اور پھر اچانک اسلام سے نکل کر اس کی خود ساختہ برائیاں بیان کر کے لوگوں کو اسلام سے بدظن کریں۔ لیکن اگر یہ لوگ اپنے تعصبات پر قائم نہ رہے اور مسلمانوں میں جا کر انھوں نے کھلے دل و دماغ سے آنحضرت ﷺ کی باتیں سننا شروع کردیں اور مسلمانوں کے مصفا و مجلا کردار کو دیکھا تو کہیں سچ مچ مسلمان بن کر اسلام کی قوت نہ بن جائیں۔ اس لیے ان کے گرد تعصبات کی جتنی دیواریں اٹھائی جاسکتی تھیں ان کے اٹھانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ حقیقت کے مقابلے میں مصنوعی تہذیب اور توہمات پر مبنی مذاہب کی اصل قوت ان کے تعصبات ہی ہوتے ہیں۔ جیسے ہی اس میں غور و فکر کے شگاف کھلنے لگیں تو پھر ان کی فصیلوں کو گرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہود نے اپنے نسلی تفوق سے ہر دور میں اپنی قوم کو بچایا اور یہی وہ تعصب ہے جس نے حقیقت کو قبول کرنے سے انھیں دور رکھا۔ نیشنلزم (Nationalism) ، دودھاری تلوار یہ وہ چیز ہے جسے آج کی زبان میں قومی عصبیت یا نیشنلزم کا نام دیا جاتا ہے۔ یہود کا نیشنلزم نسلی تفوق اور مذہبی تفوق کے دو گونہ تعصبات سے مل کر تیار ہوا تھا اور عیسائیوں کا نیشنلزم بھی انہی دونوں چیزوں سے مل کر تشکیل پایا ہے۔ لیکن مرور زمانہ نے ان میں بعض ایسی ضرورتوں کا شعور ابھارا جس کی وجہ سے مذہبی تعصب کو انھوں نے پردہ اخفاء میں رکھا اور نسلی تعصب کو پردہ اظہار میں لا کر اپنی قوت کی فصیل بنایا اور اسی کو نیشن کا نام دیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ انھوں نے نیشن کے اس تصور سے دو دھاری تلوار کا کام لیا ہے۔ اس کی ایک دھار ان کے تحفظ کا ذریعہ بنی ہے اور دوسری دھار نے دوسری قوموں میں تخریب کے زخم لگائے ہیں۔ ان کے اپنے اندر جب بھی انتشار کی قوتوں نے سر اٹھایا ہے تو انھوں نے ہمیشہ نیشنلزم کی قوت سے ان قوتوں کو یا تو خاموش ہونے پر مجبور کردیا اور یا ان کا سر پھوڑ ڈالا اور ان تصورات نے ان کے اساسی تصورات میں اتنی جگہ بنا لی ہے کہ ان کا ہر بچہ، ہر جوان اور ہر بوڑھا ان تعصبات کی چلتی پھرتی تصویر دکھائی دیتا ہے۔ رنگ اور نسل پہچان کے سوا اور کچھ نہیں، لیکن انھوں نے جرمن قوم کی طرح اسے برتری کا ذریعہ بنالیا۔ خوبصورتی جس طرح گورے رنگ میں ہے، اسی طرح دوسرے رنگوں میں بھی ہے۔ لیکن ان کے نزدیک ایشیاء یا افریقہ کا خوبصورت ترین آدمی بھی ایک انگریز جیسا نہیں ہوسکتا اور اس معاملے میں وہ اس حدتک آگے بڑھ چکے ہیں کہ ایک انگریز کسی بھی ایشیائی یا کلرڈ (Coloured) آدمی کے پاس سیاسی ضرورتوں یا مفادات کی خواہشوں کے سوا بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ ٹرین میں کھڑے ہونا پسند کرلے گا، لیکن اپنے سے مختلف رنگ کے آدمی کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کرے گا بلکہ کلرڈ (Coloured) کہہ کر توہین کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا اور اس معاملے میں انھوں نے جو اخلاقی ضوابط بنا رکھے ہیں یہود نے تو انھیں پردہ اخفا میں بھی نہیں رکھا کیونکہ تورات میں واضح طور پر ان کا تذکرہ موجود ہے اور ان کے پروٹوکول میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں اس میں وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ان کا ذکر کرتے ہیں۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن جہاں تک عیسائیوں کا تعلق ہے وہ اگرچہ دنیا میں مساوات کے مبلغ ہیں اور انسانی حقوق کے اپنے آپ کو چمپیئن سمجھتے ہیں اور امریکہ نے سب سے بڑھ کر ان باتوں کے دعوے دار ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ، وہ عام زندگی میں احساس نہیں ہونے دیتے، لیکن جب کبھی بین الاقوامی معاملات میں الجھنیں پڑتی ہیں تو پھر ان کے پیمانے بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ قومی مفادات میں وقت کے ساتھ ساتھ سچ اور جھوٹ صحیح اور غلط اور حق اور ناحق آپس میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہ سب چیزیں ان کے نیشنلزم کا تقاضا یا قومی تعصب کا نتیجہ ہیں۔ جہاں تک اس تلوار کی دوسری دھار کا تعلق ہے اس سے انھوں نے بالعموم مسلمانوں کی تخریب کے لیے کام لیا ہے۔ انھیں اچھی طرح اس بات کا شعور ہے کہ ان کا نیشنلزم ان کی بقا کا ضامن ہے۔ وہ جتنا اس پر زور دیں گے اتنی ان کی شیرازہ بندی پختہ ہوتی جائے گی۔ لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ اس معنیٰ میں ایک نیشن نہیں کہ وہ ایک رنگ، ایک نسل یا ایک جغرافیے سے تعلق رکھتے ہیں، اسلام تو ایک نظریے، زندگی کے ایک رویے یا چند حقائق 1 ور صداقتوں کے مجموعے کا نام ہے۔ انھیں عقیدے کی قوت سے قبول کرلینا ایمان کہلاتا ہے۔ جو شخص بھی ایمان لاکر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے وہ مومن اور مسلم کہلاتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس کا رنگ کیا ہے ؟ وہ کس نسل سے تعلق رکھتا ہے ؟ اور اس کی جنم بھومی کہاں ہے ؟ خونی رشتے میں شریک لوگ ایک علاقے سے تعلق رکھنے والے اور ایک جگہ پیدا ہونے والے آپس میں بیگانہ ہوجاتے ہیں، اگر ان کے درمیان ایمان کا رشتہ نہ ہو اور اگر وہ اسلام کی بنیادی صداقتوں کو قبول کر کے اسلام کے دائرے میں آجائیں تو وہ مسلمانوں کے بھائی بن جاتے ہیں۔ چاہے رنگ، نسل اور جغرافیے کے اعتبار سے وہ ایک دوسرے سے کتنے ہی بیگانہ کیوں نہ ہوں ؎ حسن ز بصرہ، بلال از حبش، صہیب از روم ابوجہل زم کہ این چہ بولعجبی است حسن ( رض) بصرہ سے آئے اور اصحابِ ایمان کے مقتداء بن گئے۔ بلال ( رض) حبش سے بکتے بکاتے آئے لیکن اسلام سے وابستگی اور آنحضرت ﷺ کی غلامی نے انھیں یہ اعزاز بخشا کہ فتح مکہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کریں اور لوگوں کو یہ دکھا دیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی غلامی اور اسلام سے وابستگی وہ دولت ہے جس کی وجہ سے ایک کالا کلوٹا آدمی اللہ کے گھر کی چھت پر کھڑا ہو کر اللہ کی کبریائی اور انسانی مساوات کا اعلان کرسکتا ہے۔ صہیب ( رض) روم سے غلام بنا کر لائے گئے اور مکہ کے بازاروں میں بیچے گئے۔ لیکن تاریخ کا وہ لمحہ آج تک دم بخود ہے جب اس نے یہ منظر دیکھا کہ اسلام کے بطل جلیل حضرت عمر فاروق ( رض) کا جسد خاکی نماز جنازہ کے لیے سامنے رکھا گیا ہے اور تمام جلیل القدر صحابہ ( رض) اس انتظار میں ہیں کہ اس عظیم انسان کی نماز کون پڑھائے گا ؟ لیکن یہ دیکھ کر انسان ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ امامت کے لیے آگے بڑھنے والا وہ صہیب ( رض) تھا جو کل مکہ کے بازاروں میں بیچا گیا تھا اور آج اسلام سے وابستگی نے اسے ان لوگوں کا امام بنادیا ہے جن سے بڑھ کر دنیا اور آخرت میں معزز کوئی نہ تھا۔ لیکن ان کے مقابلے میں ابوجہل جو قریش مکہ کے اشراف میں سے تھا اور اسی طرح کے دوسرے لوگ جنھیں اپنے قومی افتخار پر ہمیشہ ناز رہا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ ابوجہل اور اس جیسے دوسرے عمائدینِ قریش گدھوں کی طرح کھینچ کر ایک بند کنویں میں پھینکے گئے۔ جس سے دنیا کے سامنے یہ بات مبرہن ہوگئی کہ عظمتیں، رفعتیں، عزتیں اور سربلندیاں، رنگ، نسل یا جغرافیے سے وابستگی میں نہیں بلکہ اسلام سے وابستگی میں ہیں۔ دنیا کا کوئی شخص بھی جو اس کے دامن میں آجائے گا۔ وہ ان تمام عزتوں کا مالک ہوجائے گا اور جو اس سے کٹ جائے گا وہ چاہے اللہ کے آخری رسول ﷺ کا ہم نسب اور ہم وطن کیوں نہ ہو اس کا ٹھکانہ آخرت میں جہنم ہوگا اور دنیا میں وہ سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن اسلامی قومیت کا حصہ نہیں بن سکتا۔ دنیائے کفر نے اس راز کو اچھی طرح سمجھا اور مسلمانوں کی قوت کے اس سرچشمہ کو غارت کرنے کے لیے نیشنلزم کی دوسری دھار کو استعمال کیا۔ ان میں قومیتوں کے فتنے اٹھائے، زبانیں جو مافی الضمیر کے اظہار کے لیے ہوتی ہیں انھیں مستقل وحدت بنا کر اسلامی وحدت کے مقابلے میں لا کھڑا کیا۔ مسلمان ملکوں میں صوبائیت کو علیحدگی کا پیش خیمہ بنادیا۔ قبائلی زندگی میں ہر قبیلہ کو وحدت کی ایسی عظمت بخشی کہ باقی ساری وحدتیں اس پر قربان ہوگئیں اور ان میں سے ہر ایک چیز کو الگ الگ نیشن (Nation) کی بنیاد بنایا گیا۔ ہسپانیہ کی عظیم مسلمان حکومت اسی فتنے کی نذر ہوئی۔ سقوطِ بغداد اور سقوط ڈھا کہ اسی عفریت کے ہاتھوں عمل میں آئے۔ خلافتِ عثمانیہ عرب نیشنلزم سے تباہ کی گئی اور آج پاکستان ایک دفعہ پھر اسی نیشنلزم کے پیدا کردہ حوادث کا سامنا کر رہا ہے۔ اس آیت کریمہ میں قوم پرستی یا نیشنلزم کے اسی تباہ کن نظریے کا ذکر فرما کر بروقت اس کا ابطال کیا گیا اور پھر یہ بھی آگاہی دی گئی کہ تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں کو اسی فتنہ سے واسطہ پڑے گا۔ اہل کتاب اسی کی بنیاد پر اپنا تحفظ کریں گے اور مسلمانوں کو اسی دو دھاری تلوار سے تباہ کیا جائے گا۔ لیکن افسوس قرآن کریم کی اس قدر واضح وارننگ کے باوجود امت مسلمہ آج پھر انہی حوادث کا شکار ہے۔ وہ ایک طرف اہل کتاب کی حقیقت کو نہ پہچان کر بےبصیرتی کا ثبوت دے رہی ہے اور دوسری طرف اپنی قوت کے اصل سرچشمہ اور اپنی قوم کی شیرازہ بندی کے اصل اسباب کو نظرانداز کر کے تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے بلکہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ہم زہر کو آب حیات سمجھنے لگے ہیں۔ اقبال نے شاید ایسے ہی تأثرات کے تحت کہا تھا ؎ ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوع انساں کو اخوت کی زباں ہوجا محبت کا بیاں ہوجا یہ ہندی وہ خراسانی یہ ایرانی وہ تورانی تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بےکراں ہوجا غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہوجا ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِاللّٰہِ ج یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ اے پیغمبر ! ان سے کہہ دیجیے کہ تم اپنی سیادت و پیشوائی کو بچانے کے لیے قومی عصبیت کی جو دیواریں کھڑی کر رہے ہو اور اس کے نتیجے میں تم یہ سمجھتے ہو کہ عزت و فضیلت ہمیشہ تمہارے گھر میں رہے گی۔ یہ تمہاری نادانی ہے کیونکہ فضیلت سراسر نبوت کا نتیجہ ہے۔ اگر بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ نہ چلتا اور کسی اور خاندان کو اس سے سر افراز کردیا جاتا تو تم آج تک تاریخ کے غبار میں بےنشان ہوچکے ہوتے۔ نبوت کسی خاندان یا قوم کی خصوصیت نہیں وہ تو خالصتاً اللہ کی دین ہے۔ تمہاری کوششیں اور تمہاری سازشیں اسے اپنے گھر میں بند نہیں رکھ سکتیں۔ کل اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بنی اسرائیل کو منتخب کیا تھا تو آج وہ اس کے لیے بنی اسماعیل کو منتخب کرچکا ہے اور وہ اپنے فیصلوں میں بااختیار ہے، کوئی بھی اس میں دخیل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ ہماری یہ ساری کاوشیں اللہ کے فیصلے کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتیں اور ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھو کہ اس کے فضل و رحمت کے پیمانے تم جیسے نہیں۔ وہ نہ تو اتنے تنگ ہیں کہ جو ایک خاندان میں سمٹ کے رہ جائیں اور نہ ان پیمانوں کا مالک اتنا بیخبر ہے کہ وہ نبوت کی عزت و فضیلت ایسے لوگوں کو دے دے جو اپنی نااہلیت ثابت کرچکے ہوں۔ وہ جس طرح بےانتہا فضل و کمال کا مالک ہے اسی طرح وہ علیم بھی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون کس چیز کا استحقاق رکھتا ہے اور کون صرف تعصبات کے سائے میں زندہ رہنا چاہتا ہے۔ بنی اسرائیل کو اگر اس اعزاز سے محروم کیا جا رہا ہے تو یہ بھی سراسر اللہ کے علم و آگہی کا فیصلہ ہے اور اگر بنی اسماعیل کو اس سے نوازا جا رہا ہے تو وہ جہاں ایک اعزازو اکرام ہے وہیں ایک آزمائش بھی ہے اور آزمائش بھی اتنی وسیع ہے جس کا دائرہ پوری نوع انسانی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس لیے بنی اسرائیل کو اگر اپنی بقا عزیز ہے تو اسے اپنی کوتاہیوں کی اصلاح کرنی چاہیے اور اپنے فخر و نخوت کے سارے سرمائے کو نبی آخر الزماں کے قدموں میں ڈھیر کردینا چاہیے اور بنی اسماعیل اگر چاہتے ہیں کہ وہ واقعی اس اعزازو اکرام کے مستحق رہیں اور ان کا انجام کبھی بنی اسرائیل جیسا نہ ہو تو انھیں اس انعام پر اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے اور آگے بڑھ کر اس کا حق ادا کرنے کے لیے جان و تن کو کھپا دینا چاہیے۔
Top