Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 81
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗ١ؕ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْ١ؕ قَالُوْۤا اَقْرَرْنَا١ؕ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا اللّٰهُ : اللہ مِيْثَاقَ : عہد النَّبِيّٖنَ : نبی (جمع) لَمَآ : جو کچھ اٰتَيْتُكُمْ : میں تمہیں دوں مِّنْ : سے كِتٰبٍ : کتاب وَّحِكْمَةٍ : اور حکمت ثُمَّ : پھر جَآءَ : آئے كُمْ : تم رَسُوْلٌ : رسول مُّصَدِّقٌ : تصدیق کرتا ہوا لِّمَا : جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس لَتُؤْمِنُنَّ : تم ضرور ایمان لاؤ گے بِهٖ : اس پر وَ : اور لَتَنْصُرُنَّهٗ : تم ضرور مدد کرو گے اس کی قَالَ : اس نے فرمایا ءَ : کیا اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَخَذْتُمْ : اور تم نے قبول کیا عَلٰي : پر ذٰلِكُمْ : اس اِصْرِيْ : میرا عہد قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَقْرَرْنَا : ہم نے اقرار کیا قَالَ : اس نے فرمایا فَاشْهَدُوْا : پس تم گواہ رہو وَاَنَا : اور میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مِّنَ : سے الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
اور یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب اور حکمت سے دوں پھر تمہارے پاس کوئی رسول اس کی تصدیق کرنے والا آئے جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس رسول پر ایمان لانا اور ضرور اس کی نصرت کرنا۔ پھر فرمایا کیا تم اقرار کرتے ہو ؟ اور اس پر میرا عہد قبول کرتے ہو ؟ وہ بولے ہم اقرار کرتے ہیں۔ فرمایا تم گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں
وَاِذْ اَخَذَاللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُـکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّـہٗ ط قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ ط قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ط قَالَ فَاشْہَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ ۔ فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۔ (اور یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب اور حکمت سے دوں پھر تمہارے پاس کوئی رسول اس کی تصدیق کرنے والا آئے جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس رسول پر ایمان لانا اور ضرور اس کی نصرت کرنا۔ پھر فرمایا کیا تم اقرار کرتے ہو ؟ اور اس پر میرا عہد قبول کرتے ہو ؟ وہ بولے ہم اقرار کرتے ہیں۔ فرمایا تم گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں تو جو لوگ اس عہد کے بعد پھرجائیں گے وہی لوگ نافرمان ٹھہریں گے) (81 تا 82) سابقہ آیات کریمہ میں اہل کتاب پر ہر پہلو سے تنقید کی گئی ہے۔ کتاب اللہ کے بارے میں ان کا رویہ زیر بحث لایا گیا ہے۔ حقوق العباد کے حوالے سے ان کی خیانت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ کے دین کو جس طرح انھوں نے بازیچہ اطفال بنایا ان میں سے بعض باتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ پھر انھوں نے جس طرح دین پر دنیا کو ترجیح دی حتیٰ کہ بندہ درہم و دینار ہو کر رہ گئے اس پر بھی انھیں ملامت کی گئی ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ کی موجودگی میں وہ جس طرح کتاب اللہ کے بارے میں گستاخانہ طرز عمل اختیار کرتے تھے اور مسلمانوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے تھے اس کا بھی احتساب فرمایا گیا ہے۔ پھر آخری آیت میں نبوت کے بارے میں اہل کتاب جو تصورات رکھتے تھے ان کو بنیاد بنا کر اہل کتاب کے مزعومہ عقائد کے حوالے سے بعض عقلی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس طرح سے اہل کتاب کو دلائل کی دنیا میں ایسا بےبس کیا گیا ہے کہ جو شخص بھی عہد نبوت میں قرآن کریم کی تنقید اور اہل کتاب کا کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے کے عمل کو دیکھتا تھا اس سے یہ بات مخفی نہیں رہتی تھی کہ اہل کتاب دلیل کی دنیا میں بری طرح پسپا ہوچکے ہیں۔ اب اس رکوع کی پہلی آیت میں جو ہمارے پیش نظر ہے اہل کتاب کی تاریخِ نبوت و حکمت کے حوالے سے ایک ایسے عہد اور میثاق کا ذکر کیا جا رہا ہے جس سے یہ بات پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اہل کتاب کو ہر دور کے پیغمبر اور بالخصوص نبی آخر الزماں ﷺ پر ایمان لانے اور آپ کی تائید و نصرت کرنے کا پابند ٹھہرایا گیا تھا۔ جس سے بتانا یہ مقصود معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انتہائی گری ہوئی قومیں بھی باہمی جو معاہدے کرلیتی ہیں تو انھیں ہمیشہ یاد رکھتی ہیں اور اگر کوئی معاہدہ انبیاء کے واسطے سے پروردگار سے کیا گیا ہو تو اس کی اہمیت کو تو کسی طرح بھی نظر انداز کرنے کا گناہ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ان اہل کتاب کا عجیب حال ہے کہ وہ اپنے آپ کو انبیائِ کرام کی اولاد اور وحی الٰہی کا تنہا مھبط و مورد سمجھتے ہیں اور انھیں بجا طور پر اللہ تعالیٰ سے اپنے خصوصی رشتے کا دعویٰ ہے اور وہ خوب جانتے ہیں کہ مختلف وقتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کے نبیوں سے یہ عہد لیا تھا۔ لیکن جب اس کے ایفاء کا وقت آیا تو انھوں نے من حیث القوم نہ صرف اسے پورا کرنے سے انکار کیا بلکہ خم ٹھونک کر اس کے مقابل آ کھڑے ہوئے۔ اس آیت کریمہ کے پہلے جملے ہی میں ارشاد فرمایا گیا ہے وَاِذْ اَخَذَاللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَاہلِ علم نے اس کا ترجمہ دو طرح سے کیا ہے ایک تو یہ (کہ اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا تھا) اور دوسرا یہ کہ (اس وقت کو یاد کرو کہ جب اللہ تعالیٰ نے تم سے نبیوں کے بارے میں عہد لیا تھا) پہلے ترجمے کی صورت میں اَلنَّبِیِّیْنَفاعل ہوگا اور میثاق اس کی طرف مضاف ہوگا اور دوسرے ترجمے کی صورت میں النبیین مفعول ہوگا اور میثاق مفعول کی طرف مضاف ہوگا۔ پہلے ترجمے کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیائِ کرام سے یہ عہد لیا تھا کہ نبی آخر الزماں ﷺ تمہاری زندگی میں تشریف لے آئیں تو تمہیں ان پر ایمان لانا ہوگا اور ان کی مدد کرنا ہوگی اور یہی بات تمہیں اپنی اپنی قوم تک پہچانی ہوگی۔ دوسرے ترجمے کی صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ اے اہل کتاب ! یہ عہد تمام تر تم سے لیے گئے تھے اور تمہیں اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ تمہارے زمانے میں جو نبی بھی تشریف لائیں تمہیں ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنی ہوگی اور اگر نبی آخر الزماں ﷺ تشریف لے آئیں تو تمہیں بڑھ چڑھ کر ان کی تائیدو نصرت سے کام لینا ہوگا۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں ترجمے اور دونوں مفہوم صحیح ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے دوسرے نبیوں کی تائید و نصرت کا عہد لیا تھا اس کا ذکر سورة مائدہ میں کیا گیا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے : وَلَقَدْ اَخَذَاللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ ج وَ بَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْـنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ط وَقَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَـکُمْ لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ … الخ (اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیب مقرر کیے اور اللہ نے فرمایا میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز کا اہتمام کرتے اور زکوۃ دیتے رہے اور میرے رسولوں پر ایمان لائے اور ان کی عزت کی اور اللہ کو قرض حسن دیتے رہے تو میں تمہارے گناہ تم سے جھاڑ دوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جس نے اس کے بعد تم میں سے کفر کیا اس نے سواء السبیل گم کردی) (المائدہ : 12) اس آیت میں غور کیجیے اس میں واضح طور پر بنی اسرائیل سے عہد لینے کا ذکر ہے۔ اس عہد میں سب سے پہلے حقوق اللہ کا ذکر فرمایا گیا ہے اور اسی سلسلے میں اپنے رسولوں پر ایمان لانے کا تذکرہ بھی فرمایا ہے۔ رسُل رسول کی جمع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عہد و اقرار تمام رسولوں کے بارے میں ہے۔ بنی اسرائیل کو چونکہ حامل دعوت امت بنایا گیا ہے اور اللہ کے دین کی سربلندی اور اعلائے کلمتہ الحق کی ذمہ داری ان کے سر پر ڈالی گئی ہے۔ اس لیے ان کی ذمہ داری ہے کہ جو رسول بھی دنیا میں تشریف لائیں یہ آگے بڑھ کر ان کا استقبال کریں۔ ہر ممکن طریقے سے سے ان کی مدد کریں اور ان کے ساتھ مل کر ان تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کریں جن سے انھیں گراں بار کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے رسول کا آناان کے لیے کوئی ابتلاء یا آزمائش نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے تائید و نصرت ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ افراد اور قوموں میں زوال آتا ہے۔ وہ ایمان کی کمزوری اور عمل کی خرابی کا شکار ہوتے ہیں۔ کتاب اللہ سے تعلق کمزور پڑجاتا ہے اور نئی نئی بدعات و رسومات کو اپنا دین بنا لیا جاتا ہے۔ رسول کے آنے سے دین نکھر کر اپنی اصل شکل میں آجاتا ہے۔ بدعات و رسومات ختم ہوجاتی ہیں اور امت کا شیرازہ ایک وحدت میں پرو دیا جاتا ہے۔ جہاں تک دوسرے ترجمے کا تعلق ہے اس کا ذکر سورة اعراف میں کیا گیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے اللہ سے اس کی رحمت کے لیے درخواست کی۔ اس کے جواب میں پروردگار نے فرمایا : فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکَاۃَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ ۔ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَـہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ…الخ (پس میں اپنی رحمت کو ان لوگوں کے لیے لکھ رکھوں گا جو تقویٰ اختیار کریں گے، زکوۃ دیتے رہیں گے اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے، یعنی ان لوگوں پر جو اس رسول اور نبی امی کی پیروی کریں گے۔ جس کو وہ اپنے ہاں توراۃ اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ جو انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال ٹھہراتا ہے اور ان پر گندی چیزوں کو حرام کرتا ہے اور ان پر سے اس بوجھ اور ان پابندیوں کو دور کرتا ہے جو ان پر اب تک رہی ہیں تو جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کی توقیر اور مدد کی اور اس روشنی کی پیروی کی جو اس پر اتاری گئی وہی فلاح پانے والے ہیں) ان آیات میں غور فرمایئے ! صاف معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل یعنی اہل کتاب سے نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کا اور ان کی تائید و نصرت کرنے کا عہد لیا گیا تھا اور یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اہل کتاب سے جب یہ عہد لیا گیا تھا اس وقت نبی کریم ﷺ ابھی مبعوث نہیں ہوئے تھے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ عہد بنی اسرائیل سے براہ راست تو نہیں لیا گیا تھا یقینا ان کے پیغمبروں کے واسطے سے لیا گیا تھا تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا تقاضا ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اس کی زمین پر رہنے والے اس کے فرمانبردار بندے بن کر زندگی گزاریں۔ اس کی زمین پر اسی کی حکومت قائم کریں، اسی کے احکام کو نافذ کریں اور یہی وہ طریقہ ہے جس سے زمین فتنہ اور فساد سے محفوظ رہ سکتی ہے اور زمین پر بسنے والے آسودہ زندگی گزار سکتے ہیں۔ چناچہ اسی غرض کے لیے پروردگار نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو خلافتِ ارضی سے نوازا اور انھیں نبوت دے کر زمین پر اتارا۔ پھر ہر دور میں جب بھی انسانوں کی رہنمائی کے لیے کسی نہ کسی مصلح یا نبی کی ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر بھیجتا رہا اور ہر پیغمبر کے واسطے سے لوگوں کو یہ بات سمجھائی جاتی رہی کہ تمہاری زندگی کا مقصد اولین اللہ کی زمین پر اور اللہ کے بندوں پر اللہ کے قانون کو نافذ کرنا اور اللہ کے دین کو غالب کرنا ہے۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر نبی اور اس کی امت آنے والے نبی کے لیے چشم براہ رہے، اس پر ایمان لایا جائے اور غلبہ دین کے لیے اس کی نصرت کی جائے تاکہ خلافتِ ارضی جو اللہ کے تمام بندوں کا ورثہ ہے اور جن کا کام زمین کو فتنہ و فساد سے محفوظ رکھنا اور اللہ کی دھرتی پر اللہ کے نظام کو غالب کرنا ہے، اس میں کہیں جھول نہ پیدا ہو۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اہل کتاب نے اس میثاق کو بری طرح توڑا، ان کی اصلاح کے لیے جو مختلف اوقات میں اللہ کے نبی آتے رہے، انھوں نے حتیٰ الامکان نبیوں پر ایمان لانے سے گریز کیا اور پوری کوشش کی کہ وہ اپنے نیک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکیں حالانکہ ہر نبی کی تائید و نصرت کا ان سے عہد لیا گیا تھا اور پھر اس عہد کا سب سے زور دار اور مؤثر حصہ وہ تھا جس کا تعلق آخری نبی ﷺ سے تھا۔ باوجودیکہ تمام رسولوں پر ایمان لانے کے عہد میں بھی آپ ﷺ پر ایمان لانا شامل تھا لیکن آپ ﷺ پر ایمان لانے کی اہمیت کی وجہ سے آپ ﷺ پر ایمان لانے کا الگ عہد لیا گیا اور آسمانی صحیفوں میں ہر دور میں آپ ﷺ کی علامات کا تذکرہ فرمایا گیا۔ آپ ﷺ کا نام، آپ ﷺ کا خاندان، آپ ﷺ کا وطن، آپ ﷺ کا دارالہجرت، آپ ﷺ کے کارنامے، آپ ﷺ کے معجزات اور آپ ﷺ کی کامیابیوں کا ہر کتاب خداوندی میں مناسب حد تک ذکر فرمایا گیا ہے تاکہ اہل کتاب آپ ﷺ کی پہچان میں غلطی نہ کریں اور انسانی اصلاح اور غلبہ دین کی آخری کاوش اچھی طرح اپنی کامیابی و کامرانی تک پہنچے کیونکہ اس کی ناکامی انسانیت کی ناکامی ہوگی۔ آپ ﷺ کے بعد چونکہ کوئی دوسرا آنے والا نبی نہیں اس لیے آپ ﷺ کی ناکامی سے انسانی اصلاح کا یہ سلسلہ مستقل طور پر رک جائے گا۔ جو اللہ کی مشیت کے سراسر خلاف ہے۔ اہل کتاب سے فرمایا جا رہا ہے کہ تمہیں بھی اس عظیم مقصد کے لیے اٹھایا گیا تھا اور اسی مقصد کی سربلندی اور کامیابی کے لیے تم سے عہد و پیمان لیے گئے تھے۔ اس آیت کریمہ میں آنے والے آخری نبی ﷺ کے بارے میں مصدق کا لفظ بول کر اسی سلسلہ اصلاح کی وحدت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ آنے والا نبی جب آئے گا تو وہ ایسی تعلیم، ایسی تہذیب اور ایسا نسخہ شفا لے کے نہیں آئے گا جو اس سے پہلے اللہ کی جانب سے آئی ہوئی کتابوں سے یکسر مختلف ہو بلکہ اس کی ذات اور اس پہ نازل ہونے والی کتاب دو طرح سے پہلے کے سلسلہ اصلاح کی مصدق ہوں گی۔ ایک تو اس طرح سے کہ اہل کتاب کے پاس جو آسمانی کتابیں ہیں، وہ ان کے سچا ہونے کی تصدیق کرے گا۔ وہ تسلیم کرے گا کہ توراۃ، زبور اور انجیل اللہ ہی کی طرف سے نازل ہونے والی کتابیں ہیں۔ جتنے آسمانی صحیفے اللہ کی طرف سے نازل ہوئے وہ سب سچے تھے اور جن جن رسولوں پر یہ صحیفے اور کتابیں اتاری گئیں وہ سب اللہ کے سچے رسول اور نبی تھے۔ کتابوں میں اگرچہ ترمیم و تحریف ہوئی، لیکن وہ منزل من اللہ ہونے کے اعتبار سے بالکل سچی کہلانے کی مستحق ہیں اور دوسرا مصدق ہونے کا معنی یہ ہے کہ توراۃ و انجیل اور بعض دیگر صحف آسمانی میں نبی آخرالزماں ﷺ کے بارے میں جو تعارفی باتیں ارشاد فرمائی گئیں، جو علامات بیان کی گئیں اور آپ کی کامیابیوں کا جو کچھ تذکرہ ہوا یہ پیغمبر اس کے مصدق بن کر آئے یعنی ان کو دیکھو، ان کی سیرت و کردار کو دیکھو، ان کے طوراطوار کو دیکھو، ان کے مخلص اور جاں نثار صحابہ کو دیکھو، ان پر نازل ہونے والی کتاب کو دیکھو، ان کی ہجرت اور دارالہجرت کو دیکھو، ان میں سے ایک ایک بات خود گواہی دے رہی ہے کہ میں وہی ہوں جس کا تمہاری کتابوں میں ذکر کیا گیا تھا۔ صحفِ آسمانی میں جو جو صفات بیان کی گئی تھیں غور سے دیکھو ! میں ان میں سے ایک ایک صفت کا حامل اور ایک ایک ادا کا امین ہوں۔ اس طرح سے میں نے ان کی کتابوں کی سچائی اور ان کے دین کی صداقت کو اپنی ذات، اپنی صفات اور اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب اور اپنے کارناموں اور اپنی خدمات سے سچائی اور صحت کی سند عطا کی ہے۔ یہ ان پر اللہ کا ایک خاص احسان ہے، اس کا کم از کم شکر یہ ہونا چاہیے کہ یہ سر اٹھا کر چلیں اور آگے بڑھ کر اسلام کا جھنڈا اٹھا لیں اور آنحضرت ﷺ کی قیادت میں اپنی اصلاح بھی کریں اور لوگوں کی اصلاح کے لیے دست وبازو بنیں۔ مصدق صَدَّقَ سے اسم فاعل ہے۔ کسی حقیقت کو اپنے عمل سے ثابت کرنا عربی میں ہمیشہ اس کے لیے یہی لفظ استعمال ہوتا رہا ہے۔ حماسی شاعر کا شعر ہے ؎ فَدَتْ نَفْسِیْ وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنِیْ فَوَارِسَ صَدَّقُوْا فِیْہِمْ ظُنُوْنِیْ (میری جان اور میرا مال قربان ہو، ان شاہسواروں پر جنھوں نے اپنے بارے میں میرے گمان سچے کر دکھائے) یعنی میں ان کے بارے میں جس طرح جان لڑانے اور بہادری دکھانے کی امید رکھتا تھا اور لوگوں سے اس کا اظہار بھی کرتا تھا انھوں نے ویسی ہی بہادری کا اظہار کر کے اور جان لڑا کر میرے ایک ایک گمان کو سچا ثابت کر دکھایا۔ اس کے لیے صَدَّقُوْا کا لفظ استعمال کیا گیا یہاں آیت کریمہ میں بھی مصدق یعنی تصدیق کرنے والا اسی معنی و مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی آنحضرت ﷺ اور دعوت الیٰ اللہ کے لیے آپ ﷺ کی کاوشوں، پھر آپ ﷺ کی ہمہ گیر کامیابیوں کو غیر جانبدار ہو کر گہری نظر سے دیکھا ہے وہ کبھی آپ ﷺ پر ایمان لائے بغیر نہ رہ سکے۔ کیونکہ اہل کتاب سے عہد و پیمان لینے اور آنحضرت ﷺ کا مصدق بن کے آنے سے مقصد صرف یہ تھا کہ اہل کتاب کو آپ کی پہچان میں دشواری پیش نہ آئے اور وہ اپنے عہد و پیمان کی بجا آوری میں تأمل کا شکار نہ ہوں۔ اسی لیے اس عہد و پیمان میں صاف صاف فرمایا گیا تھا کہ تمہیں اس آخری نبی پر ایمان لانا ہوگا اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اس کی ہر ممکن مدد کرنا ہوگی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یوں تو ہر نبی اور رسول کی تشریف آوری کے بعد ان لوگوں پر جن کی طرف وہ مبعوث ہوا ہے دونوں فرائض عائد ہوتے ہیں۔ لیکن نبی آخر الزماں ﷺ چونکہ اس مقصد اعلیٰ کی تکمیل کے لیے آخری پیغمبر ہیں اس لیے بطور خاص تمام نوع انسانی کو عموماً اور اہل کتاب کو خصوصاً یہ حکم دیا گیا کہ تم اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے اس پر ایمان لائو اور دنیا کی اصلاح کے لیے اس کے دست وبازو بنو اور ہر طرح سے اس کی مدد کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو نبی آخر الزماں ﷺ سے بڑھ کر کوئی عزیز نہیں۔ اور یہ بھی امر واقعہ ہے کہ آپ تمام تر انسانی عظمتوں کے تاجدار ہیں۔ اور کائنات میں آپ ﷺ سے بڑھ کر کسی کو کمال، عظمت اور بزرگی حاصل نہیں۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ کی قدرتیں ایسی بےپناہ ہیں کہ وہ انسانی اصلاح کے لیے کسی کی مدد کی محتاج نہیں۔ شر کے بڑے بڑے جتھوں کو توڑ دینا اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ اور دلوں کو قبولیتِ حق کے لیے کھول دینا اس کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس نے جس طرح دنیا کے تکوینی نظام کو اسباب کے ماتحت چلایا ہے اور اسباب ہی کی کارفرمائی ہمیں چاروں طرف دکھائی دیتی ہے، اسی طرح اس نے دعوت و اصلاح کے عمل اور نظام تشریع میں میں بھی اسباب ہی کو لازم ٹھہرایا ہے۔ اللہ کا رسول جب دعوت الیٰ اللہ کا کام شروع کرتا ہے تو وہ فرشتوں کے حصار میں ہوتا ہے۔ عناصرِ قدرت اس کے ہمرکاب ہوتے ہیں۔ اسے اپنی ذات کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن اللہ کے قانون کے تحت غلبہ دین کے لیے وہ انسانوں کو اپنی مدد اور نصرت کے لیے پکارتا ہے۔ کبھی عمر ( رض) جیسے بہادر اور جی دار لوگوں کے لیے نام لے لے کر دعائیں کرتا ہے اور کبھی انسانی گروہوں کو اپنی مدد کے لیے اکساتا ہے۔ چناچہ اسی سنت الٰہی کے تحت اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو حکم دیا تھا کہ تمہیں اس آخری رسول کی مدد کرنا ہوگی اور پھر یہ عہد ان سے اس طرح لیا گیا جس میں باقاعدہ اقرار اور شہادت کے پر اسس کو بروئے کار لایا گیا۔ توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی کسی اہم بات پر بنی اسرائیل سے عہد لینا مقصود ہوتا تھا تو آپ بنی اسرائیل کے ذمہ دار لوگوں کو خیمہ عبادت کے سامنے جمع کرتے، تابوتِ سکینہ ان کے سامنے ہوتا، آپ پہلے ان کے سامنے عہد کی اہمیت واضح فرماتے، نصیحت سے ان کے دلوں کو مائل کرتے پھر اللہ کا حکم انھیں پڑھ کے سناتے اور پھر سب سے اس حکم کی اطاعت کا اقرار لیتے اور سب کے اقرار کے بعد لوگوں کو اس کا گواہ رہنے کی تاکید کرتے اور اللہ کو اس پر گواہ ٹھہراتے اور پھر آخر میں اس مجلس کے اختتام پر بنی اسرائیل کو اس حکم کی نافرمانی کی صورت میں دنیوی اور اخروی عواقب و نتائج سے بھی آگاہ فرما دیتے۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا حکم اللہ تعالیٰ اور بنی اسرائیل کے درمیان ایک عہد و میثاق کی حیثیت اختیار کرلیتا۔ چناچہ اس سے بڑھ کر اہتمام کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ نبی آخر الزماں ﷺ کی نصرت و تائید کا ان سے عہد لیا گیا تھا اور پھر یہ عہد ایک بار نہیں لیا گیا بلکہ کبھی عام انبیاء کے عہد کے ساتھ اور کبھی صرف آپ ﷺ کے لیے ہر پیغمبر کے دور میں لیا جاتا رہا۔ اور ہر نسل دوسری نسل کو یہ امانت سپرد کرتی رہی۔ اور ان کی کتابوں میں اس اہم ترین حکم کا ہمیشہ چرچا ہوتا رہا۔ اب جب حضور ﷺ تشریف لے آئے تو یہ عہد اور بنی اسرائیل کی طرف سے اس پر اقرار پوری تفصیل کے ساتھ ان کی کتابوں میں موجود تھا کیونکہ مدینہ کے یہود اوس و خزرج کے لوگوں کو اسی حوالے سے آنے والے کی خبر دیتے اور اس کے ساتھ مل کر ان کو فتح کرنے اور ان کی زیادتیوں کا مزہ چکھانے کی دھمکیاں دیتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے بھی مدینہ طیبہ تشریف لا کر ایک سے زیادہ مرتبہ اہل کتاب کو ان کا وعدہ یاد دلایا اور قرآن کریم نے انھیں ایمان لانے کی صورت میں دوہرے اجر وثواب کی نوید بھی سنائی۔ لیکن یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ انھوں نے آنحضرت ﷺ کو خوب پہچانا۔ قرآن کریم کو اللہ کی کتاب سمجھا اور ان کے اہل علم آپس میں ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں اقرار کرتے تھے کہ یہ واقعی وہی نبی ہے جس کا ہماری کتابوں میں ذکر ہے۔ لیکن باایں ہمہ ! انھوں نے من حیث القوم آنحضرت ﷺ کی مخالفت کا فیصلہ کیا اور آپ ﷺ کو ناکام کرنے کے لیے ہر وہ جتن کیا جو ان کے بس میں تھا۔ چناچہ ان کے اسی رویے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ (پھر جو لوگ اس کے بعد پھرگئے) بَعْدَ ذٰلِکَ پر غور کیجیے کہ جس قوم کو موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے تک ہر پیغمبر نے نبی آخر الزماں ﷺ پر ایمان اور ان کی نصرت کے لیے تیار کیا اور اس پر ہمیشہ ان سے عہد و پیمان لیا جاتا رہا اور وہ اپنی مشکلات کے دور میں ہمیشہ اس آنے والے نبی کا انتظار کرتے رہے تاکہ اپنے مخالفین سے انتقام لے سکیں۔ لیکن اس سارے اہتمام کے بعد بھی جن لوگوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا اور اسلام کو جھوٹا مذہب قرار دیا، ان کے بارے میں اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت یہ لوگ فاسق ہیں۔ یہاں فاسق کا لفظ فقہی معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ یہ قرآن کریم کی اصطلاح ہے۔ فقہ کی زبان میں فاسق گنہگار کو کہا جاتا ہے جو کافر سے بہت نچلا درجہ ہے۔ جو قیامت میں اپنی نافرمانی کی سزا بھگت کر اگر اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا تو کبھی نہ کبھی جنت میں چلا جائے گا۔ لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں فسق کا معنی ہے ایمان و اطاعت کی ہر حد سے گزر جانا۔ شرافت کی ہر قدر کو توڑ پھینکنا، عہد و پیمان کی دھجیاں اڑا دینا۔ عربوں میں ایک محاورہ مشہور ہے فَسَقَتِ الرُّطْبَۃُ عَنِ الْقِشْرَۃِ (اگر کھجور کو انگشتِ شہادت کے پور پر رکھ کر انگوٹھے کے پور سے دبایا جائے تو کٹھلی کھجور کے چھلکے سے پھدک کر نکل جاتی ہے) اس وقت عرب یہ محاورہ بولتے ہیں کہ گٹھلی کھجور کے چھلکے سے پھدک کر نکل گئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فسق ہر حکم کو توڑ کر، ہر حد کو عبور کر کے شرافت کی ہر قدر کو پامال کرتے ہوئے پھلانگتے ہوئے نکل جانا فسق ہے اور ایسا کرنے والے کو فاسق کہا جاتا ہے۔ چناچہ شیطان کے بارے میں فرمایا گیا فَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ ( وہ اپنے رب کے حکم سے نکل بھاگا) بنی اسرائیل کے لیے بھی فاسق کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے اگرچہ وہ اس میں تحریف اور ترمیم کرچکے ہیں، لیکن فی الجملہ وحی الٰہی کی قدروقیمت سے واقف ہیں۔ نبی اور رسول بھی ان کی طرف مسلسل آتے رہے اور نبی آخر الزماں ﷺ کے بارے میں وہ پوری طرح باخبر ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اسلام کی بیخ کنی میں پوری طرح سرگرمِ عمل ہوچکے ہیں تو اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے :
Top