Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 54
اُولٰٓئِكَ جَزَآؤُهُمْ اَنَّ عَلَیْهِمْ لَعْنَةَ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَۙ
اُولٰٓئِكَ : ایسے لوگ جَزَآؤُھُمْ : ان کی سزا اَنَّ : کہ عَلَيْهِمْ : ان پر لَعْنَةَ : لعنت اللّٰهِ : اللہ وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالنَّاسِ : اور لوگ اَجْمَعِيْنَ : تمام
ان لوگوں کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر اللہ کی اور اس کے فرشتوں کی اور سارے لوگوں کی لعنت ہوتی ہے
اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمْ اَنَّ عَلَیْہِمْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ۔ لا خٰلِدِیْنَ فِیْہَا لاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلَا ہُمْ یُنْظَرُوْنَ ۔ لا اِلَّاالَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا قف فاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (ان لوگوں کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر اللہ کی اور اس کے فرشتوں کی اور سارے لوگوں کی لعنت ہوتی ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کا عذاب ہلکا کیا جائے گانہ ان کو مہلت دی جائے گی۔ مگر وہ لوگ جنھوں نے اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلی تو بیشک اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ) (87 تا 89) یعنی جن لوگوں نے دل کے یقین اور ہدایت کے دلائل دیکھ لینے کے بعد بھی من حیث القوم ایمان لانے سے انکار کردیا۔ ایسے لوگ ہدایت کے نہیں بلکہ لعنت کے مستحق ہیں اور لعنت بھی ایسی گھمبیر قسم کی کہ اللہ کی طرف سے بھی لعنت برسے، فرشتوں کی طرف سے بھی اور تمام انسانوں کی طرف سے بھی۔ در حقیقت سزاؤں کی بھی ایک نو عیت ایسی ہوتی ہے کہ حکمران جب کسی کو سزا دیتا ہے تو وہ سزا دینے میں اگرچہ حق بجانب ہوتا ہے۔ لیکن عام دیکھنے والی نگاہیں اسے سزا میں مبتلا دیکھ کر اپنے دل میں اس کے لیے رحم کے جذبات محسوس کرتی ہیں اور ان کا جی چاہتا ہے کاش یہ عذاب سے چھوٹ جائے لیکن بعض مجرم ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو ملنے والی سزا ہر ایک کی نگاہ میں ایسی حقیقی اور واقعی ہوتی ہے کہ کوئی اس پر رحم نہیں کھاتا بلکہ ہر ایک اپنے حصے کی نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ یہ لوگ جن کا تذکرہ کیا جارہا ہے یہ بھی ایسے ہی لوگ ہیں ان پر جب اللہ کی لعنت برسے گی تو ساتھ فرشتے بھی ان پر لعنت کریں گے اور تمام لوگ بھی درجہ بدرجہ پھٹکار بھیجیں گے کیونکہ ان کے جرم کی شناعت اتنی واضح اور اتنی مکروہ ہوگی کہ بےساختہ ہر ایک کی زبان سے نفرت اور لعنت کے الفاظ نکلیں گے اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ الناس سے مراد لوگ ہیں اور لوگوں میں صاحب ایمان بھی ہیں اور کافر بھی۔ صاحب ایمان تو یقینا اس طرح کے لوگوں پر لعنت بھیجیں گے لیکن کافروں کی لعنت بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن کافر دو طرح کے ہوں گے۔ ایک تو وہ جو کافروں کے امام ہوں گے اور دوسرے وہ جو ان کے پیچھے چلنے والے ہوں گے۔ جب یہ دونوں جہنم میں پھینکے جائیں گے تو دونوں ایک دوسرے پر لعنت ملامت کریں گے۔ پیچھے چلنے والے اپنے لیڈروں پر لعنت بھیجیں گے کہ تمہاری رہنمائی نے ہمیں یہ برے دن دکھائے اور آگے چلنے والے پیچھے چلنے والوں کو خود ان کی شامت اعمال کا ذمہ دار قرار دیں گے۔ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاسے مراد بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ لعنت میں گرفتار رہیں گے۔ لیکن حقیقت میں یہاں جہنم مراد ہے کیونکہ لعنت کا معنی ہوتا ہے رحمت سے دوری اور رحمت سے دوری کی حقیقی جگہ جہاں کبھی رحمت کی توقع بھی نہیں ہوسکتی وہ جہنم ہے۔ ان میں جو لوگ لعنت کے مستحق ہوں گے وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور وہاں ان کے عذاب میں نہ تخفیف کی جائے گی نہ کبھی ایک لمحے کی مہلت ملے گی۔ ہاں جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کرلی اور آج تک جن جرائم میں پیش پیش رہے ہیں ان کی تلافی کی اور اپنے پیدا کردہ بگاڑ کی اصلاح کی کوشش کی تو اللہ اتنا کریم ہے کہ یہ لوگ اس قابل تو نہیں کہ ان کے ساتھ کسی طرح کی نرمی کی جائے۔ لیکن پھر بھی اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ کوئی بڑی بات نہیں کہ اللہ ان کے ساتھ بخشش اور رحمت کا معاملہ کرے کیونکہ اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
Top