Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 11
هُنَالِكَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا
هُنَالِكَ : یہاں ابْتُلِيَ : آزمائے گئے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) وَزُلْزِلُوْا : اور وہ ہلائے گئے زِلْزَالًا : ہلایا جانا شَدِيْدًا : شدید
اس وقت اہل ایمان امتحان میں ڈالے گئے اور بری طرح ہلا دیے گئے
ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالاً شَدِیْدً ۔ (الاحزاب : 11) (اس وقت اہل ایمان امتحان میں ڈالے گئے اور بری طرح ہلا دیے گئے۔ ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے اسی قانون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب تک وہ اپنے چاہنے والوں کی اچھی طرح آزمائش نہیں کرلیتا اس وقت تک اس کی طرف سے نصرت نہیں اترتی۔ اور یہ آزمائش اس لیے نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید نہیں جانتا بلکہ آزمائش سے مقصود کردار کو پختہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کے توکل کو دلوں میں راسخ کرنا ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی جب بھی کوئی شخص یا گروہ اللہ تعالیٰ سے اپنی وابستگی کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ ایک ایسی محبت کا دعویٰ ہے جس سے زیادہ بلند مرتبہ اور پاکیزہ محبت اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اور محبت ہمیشہ آزمائی جاتی ہے۔ ٹھیک کہا کسی نے : محبت کے مقدر میں کہاں آرام اے ہمدم کہیں شعلہ، کہیں بجلی، کہیں سیماب ہوتی ہے مسلمان بھی اس آزمائش میں بری طرح جھنجھوڑ دیے گئے۔ ایک طرف ہر جانب سے دشمنوں کی یورش۔ دوسری طرف اپنی صفوں میں منافقین کا وجود۔ اور تیسری طرف بنو قریظہ کا بدعہدی اور غداری پہ تل جانا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ سامنے ایک ایسا عظیم دشمن ہے جس کی قوت کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔ اور پیچھے ایک دشمن بیٹھا ہے جو کسی وقت بھی پیٹھ میں خنجر گھونپ سکتا ہے۔ اور منافقین کی صورت میں شہر کے اندر ایسے مارآستین موجود ہیں جو کسی وقت بھی فضا کو زہرناک کرسکتے ہیں۔ لیکن مسلمان اس آزمائش میں اس طرح پورے اترے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نصرت کے لیے اپنا استحقاق ثابت کردیا۔
Top