Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 20
یَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْهَبُوْا١ۚ وَ اِنْ یَّاْتِ الْاَحْزَابُ یَوَدُّوْا لَوْ اَنَّهُمْ بَادُوْنَ فِی الْاَعْرَابِ یَسْاَلُوْنَ عَنْ اَنْۢبَآئِكُمْ١ؕ وَ لَوْ كَانُوْا فِیْكُمْ مَّا قٰتَلُوْۤا اِلَّا قَلِیْلًا۠   ۧ
يَحْسَبُوْنَ : وہ گمان کرتے ہیں الْاَحْزَابَ : لشکر (جمع) لَمْ يَذْهَبُوْا ۚ : نہیں گئے ہیں وَاِنْ يَّاْتِ : اور اگر آئیں الْاَحْزَابُ : لشکر يَوَدُّوْا : وہ تمنا کریں لَوْ اَنَّهُمْ : کہ کاش وہ بَادُوْنَ : باہر نکلے ہوئے ہوتے فِي الْاَعْرَابِ : دیہات میں يَسْاَلُوْنَ : پوچھتے رہتے عَنْ : سے اَنْۢبَآئِكُمْ ۭ : تمہاری خبریں وَلَوْ : اور اگر كَانُوْا : ہوں فِيْكُمْ : تمہارے درمیان مَّا قٰتَلُوْٓا : جنگ نہ کریں اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : بہت کم
یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں، اگر وہ گروہ پھر آجائیں تو ان کی تمنا یہ ہوگی کہ کاش وہ جنگل میں دیہاتیوں کے پاس ہوتے اور وہاں سے تمہاری خبریں معلوم کرتے رہتے، اور اگر یہ تمہارے درمیان ہوتے بھی تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیتے
یَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْھَبُوْا ج وَاِنْ یَّاْتِ الْاَحْزَابُ یَوَدُّوْا لَوْاَنَّہُمْ بَادُوْنَ فِی الْاَعْرَابِ یَسْاَلُوْنَ عَنْ اَنْبَـآئِکُمْ وَلَوْ کَانُوْا فِیْکُمْ مَّاقٰـتَـلُوْٓا اِلاَّ قَلِیْلاً ۔ (الاحزاب : 20) (یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں، اگر وہ گروہ پھر آجائیں تو ان کی تمنا یہ ہوگی کہ کاش وہ جنگل میں دیہاتیوں کے پاس ہوتے اور وہاں سے تمہاری خبریں معلوم کرتے رہتے، اور اگر یہ تمہارے درمیان ہوتے بھی تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیتے۔ ) منافقین کی بزدلی کے ذکر کے سلسلے میں فرمایا گیا ہے کہ ان کی بزدلی کا عالم تو یہ ہے کہ دشمنوں کے جو گروہ بہت بڑی تعداد میں مدینہ پر حملہ آور ہوئے وہ ایک ماہ کے محاصرے کے بعد اپنے زخم چاٹتے ہوئے پسپا ہوگئے۔ اور اب تک وہ اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ چکے ہوں گے۔ لیکن یہ لوگ ابھی تک سمجھ رہے ہیں کہ وہ لوگ گئے نہیں، یہیں کہیں قریب ہی چھپ کے بیٹھے ہیں اور کسی وقت بھی حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ اب ان کی آرزو یہ ہے کہ اگر وہ دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہوں تو ہم مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدافعت نہیں کریں گے بلکہ مدینہ سے نکل بھاگیں گے اور صحرا میں بدوئوں کے درمیان جا بسیرا کریں گے۔ البتہ مسلمانوں کے بارے میں وہیں بیٹھ کر معلوم کرتے رہیں گے کہ وہ کس حال میں ہیں۔ اور یہ معلوم کرنا مسلمانوں کی ہمدردی میں نہیں ہوگا بلکہ اس خیال سے ہوگا کہ کب مدینے کی قوت کو زوال آتا ہے اور ہم دوبارہ مدینے میں اپنی پہلی زندگی گزارنے کا موقع پاتے ہیں۔ آخر میں مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اگر یہ لوگ ایسا کر گزریں تو اس میں آپ لوگوں کا کوئی نقصان نہیں، بلکہ اچھا ہوگا کہ آپ کو ایسے لوگوں سے نجات مل جائے گی جو کسی وقت بھی مار آستین ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور ان کا چلا جانا آپ کے لیے کسی نقصان کا باعث اس لیے بھی نہیں ہوگا کیونکہ یہ لوگ ایثار پیشہ نہیں بلکہ اگر یہ لوگ آپ میں رہیں گے بھی تو دشمن سے لڑائی میں یہ بہت کم آپ کا ساتھ دیں گے۔ ان کی کوشش یہ ہوگی کہ اس سے بچے رہیں۔ صرف اپنی حیثیتِ عرفی کو بچانے کے لیے آپ کی صفوں میں کھڑے رہیں گے لیکن قربانی و ایثار ان کا شیوہ نہیں۔
Top