Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 23
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ١ۖ٘ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاۙ
مِنَ : سے (میں) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) رِجَالٌ : ایسے آدمی صَدَقُوْا : انہوں نے یہ سچ کر دکھایا مَا عَاهَدُوا : جو انہوں نے عہد کیا اللّٰهَ : اللہ عَلَيْهِ ۚ : اس پر فَمِنْهُمْ : سو ان میں سے مَّنْ : جو قَضٰى : پورا کرچکا نَحْبَهٗ : نذر اپنی وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو يَّنْتَظِرُ ڮ : انتظار میں ہے وَمَا بَدَّلُوْا : اور انہوں نے تبدیلی نہیں کی تَبْدِيْلًا : کچھ بھی تبدیلی
ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا، ان میں سے بعض تو اپنا عہد پورا کرچکے اور بعض ان میں سے منتظر ہیں اور انھوں نے ذرا بھی تبدیلی نہیں کی ہے
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَـہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً ۔ لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِہِمْ وَیُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنْ شَآئَ اَوْیَتُوْبَ عَلَیْہِمْ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔ (الاحزاب : 23، 24) (ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا، ان میں سے بعض تو اپنا عہد پورا کرچکے اور بعض ان میں سے منتظر ہیں اور انھوں نے ذرا بھی تبدیلی نہیں کی ہے۔ تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزاء دے، اور منافقوں کو اگر چاہے تو سزا دے، اور اگر چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے، بیشک اللہ غفورورحیم ہے۔ ) نَحْبَ ، عہدوپیمان اور نذر کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ امام بخاری کے نزدیک یہاں عہد کے معنی میں آیا ہے۔ اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔ مردانِ خاص کا طرزعمل گزشتہ آیت میں ہم نے پڑھا ہے کہ مسلمان راہ حق میں پیش آنے والے بڑے سے بڑے واقعہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش سمجھتے ہیں۔ اور بجائے اس کے کہ اس سے متأثر ہو کر کمزوری دکھائیں وہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامیابی و کامرانی کا ذریعہ سمجھ کر اس کا زیادہ سے زیادہ حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ چیز ان کے ایمان و تسلیم میں اضافے کا باعث ثابت ہوتی ہے۔ یہ کیفیت یوں تو تمام صاحب ایمان لوگوں کی ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانوں کا بہتر سے بہتر گروہ بھی بلند صفات میں یکساں نہیں ہوتا۔ چناچہ ان مسلمانوں میں بھی اپنی تمام تر اعلیٰ صفات کے باوجود کچھ نمونے کے لوگ ایسے ہیں جنھیں رجال کہہ کر ان کے بلند مرتبہ ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مراد اس سے مردانِ خاص ہیں، کہ ان کی جرأت و بسالت کا عالم یہ ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو سچا ثابت کر دکھایا۔ اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اس کی صداقت و حقانیت پر مہرتصدیق ثبت کرگئے اور اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد سچا ثابت کردیا۔ اور جن لوگوں کو ابھی تک جان کا نذرانہ پیش کرنے کا موقع نہیں ملا وہ اس کے منتظر ہیں کہ کب ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں سر کٹوا کر اپنے کندھوں کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔ لیکن اس انتظار کی کیفیت میں ان کے ایفائے عہد کے جذبے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ لوگ نہ جانے احزاب کے اس حملے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے شاید اہل عرب کی دشمنی کا ایک بہت بڑا اظہار سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ طوفان اس لیے اٹھایا تاکہ راست بازوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز کی ایک کسوٹی بن جائے۔ جو لوگ راست بازی کا ثبوت دیتے ہوئے جان پر کھیل جائیں اور یا جان ہاتھ پر رکھے انتظار میں کھڑے ہوں انھیں ان کی راست بازی کا صلہ دیا جائے۔ اور منافق اگر اپنی غلطیوں کو محسوس کرکے توبہ کی طرف آجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے۔
Top