Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 25
وَ رَدَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا١ؕ وَ كَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًاۚ
وَرَدَّ : اور لوٹا دیا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا (کافر) بِغَيْظِهِمْ : ان کے غصے میں بھرے ہوئے لَمْ يَنَالُوْا : انہوں نے نہ پائی خَيْرًا ۭ : کوئی بھلائی وَكَفَى : اور کافی ہے اللّٰهُ : اللہ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) الْقِتَالَ ۭ : جنگ وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ قَوِيًّا : توانا عَزِيْزًا : غالب
اللہ نے کافروں کو لوٹا دیا ان کے غصہ کے ساتھ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر، اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہوگیا، اور اللہ قوی اور غالب ہے
وَرَدَّاللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِغَیْظِھِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا ط وَکَفَی اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ ط وَکَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا۔ (الاحزاب : 25) (اللہ نے کافروں کو لوٹا دیا ان کے غصہ کے ساتھ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر، اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہوگیا، اور اللہ قوی اور غالب ہے۔ ) مسلمانوں کے ایمان و استقامت کا انعام مسلمانوں کے مستحکم ایمان، اتباعِ رسول، راہ حق میں جانثاری اور فداکاری اور توکل علی اللہ کا صلہ اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ دشمن کا لشکرعظیم جو مختلف احزاب پر مشتمل تھا اور جو نہایت ناپاک ارادوں کے ساتھ غیظ و غضب میں جلتا ہواحملہ آور ہوا تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے بےنیل و مرام غصے کی ہی حالت میں پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ وہ اپنے مذموم ارادوں میں سے کسی ارادے کو بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ وہ لوگ جتنی بڑی تعداد میں آئے تھے اور اسلحہ کی جو قوت ان کے پاس تھی اس کے پیش نظر انھیں ایک فیصد بھی امید نہ تھی کہ وہ ناکام لوٹیں گے۔ اپنی کامیابی کے یقین میں نہ جانے مدینہ اور اہل مدینہ کے ساتھ وہ کس طرح کا سلوک کرنے کا عزم لے کر آئے تھے۔ اور کیسے کیسے انھوں نے منصوبے باندھے ہوں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا اور وہ اپنے زخم چاٹتے ہوئے ذلت کی تصویر بنے واپس جانے پر مجبور ہوگئے۔ اور مزید احسان اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ دشمنوں کے دفاع کے لیے مسلمانوں کو کوئی لڑائی نہیں لڑنی پڑی، بلکہ لڑائی میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے کافی ہوگیا۔ اس نے اپنی بادتند اور اپنے ملائکہ کی افواج قاہرہ کے ذریعہ سے دشمنوں کے قدم اکھاڑ دیے۔ ملائکہ نے ان کے دلوں میں خوف اور رعب پیدا کیا۔ اور بادتند نے ان کے خیمے اکھاڑ دیے اور اس طرح ان کو جھنجھوڑا کہ ہر شخص نے اپنے سر پر عذاب کی بجلی کوندتی ہوئی محسوس کی اور وہ پائوں سر پر رکھ کر بھاگا۔ آخر میں فرمایا کہ دشمن کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جس طرح سے مسلمانوں کی حفاظت کی گئی، یہ صرف اس لیے ہوا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نہایت قوت والا اور نہایت غالب ہے۔ اس کے لیے بڑی سے بڑی طاقت کو فنا کردینا کوئی مشکل نہیں۔ چھوٹی جماعتوں اور کمزوروں کو غالب کردینا اس کی قدرت کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔ اور اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ جب اللہ والے اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور دین کے دشمنوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں کبھی بےیارومددگار نہیں چھوڑتا۔ وہ عناصرِکائنات اور اپنے ملائکہ کو ان کے ہمرکاب کردیتا ہے۔
Top