Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آئو میں تمہیں دے دلا کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّـاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْـتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَھَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلاً ۔ وَاِنْ کُنْـتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ وَالدَّارَالْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْـکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۔ (الاحزاب : 28، 29) (اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آئو میں تمہیں دے دلا کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دارآخرت کی طالب ہو تو اللہ نے تم میں سے خوبی سے نباہ کرنے والیوں کے لیے بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ ) آیات کا پس منظر انسان اپنے علم و فضل، حُسنِ اخلاق، پختگی کردار اور زہدوقناعت میں کتنا بھی بلند کیوں نہ ہو کبھی نہ کبھی دل میں یہ خیال آئے بغیر نہیں رہتا کہ اگر حلال طریقے سے اللہ تعالیٰ سہولت کے وسائل عطا کردے اور زندگی میں آسانی کے امکانات پیدا ہوں تو اس سے فائدہ اٹھانے میں کیا حرج ہے۔ دو وقت پیٹ بھر کے کھانا اور کھانے میں کسی حد تک لطف و لذت کو ملحوظ رکھنا اور پہننے اوڑھنے میں مناسب کپڑوں کی خواہش، یہ ایسے داعیات ہیں جو انسان کی فطرت کا تقاضا ہیں۔ لیکن نبی کریم ﷺ کے گھر میں جس طرح زندگی بسر ہورہی تھی اس کا معمول احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دو وقت کا کھانا پابندی کے ساتھ ازواجِ مطہرات کو نہیں ملتا تھا۔ ایک وقت اگر کھانے کو ملتا تو دوسرے وقت فاقہ ہوتا۔ سہولت اور آرام کی کوئی چیز میسر نہ تھی۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ فرائضِ نبوت کی ادائیگی کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اور نبوت کی ذمہ داری ایسی تھی کہ جس نے آپ ﷺ کے اوقات اور آپ ﷺ کے وسائل کو پوری طرح نچوڑ لیا تھا۔ اس حال میں نہایت زاہدانہ زندگی آپ ﷺ بھی گزار رہے تھے اور یہی آپ کو مرغوب بھی تھی۔ اور آپ کی بیویاں بھی ایسے ہی حالات میں گزر بسر کررہی تھیں۔ لیکن فطرت کے اپنے تقاضے ہیں جنھیں بلند عزائم کے تحت دبایا تو جاسکتا ہے لیکن ختم نہیں کیا جاسکتا۔ غزوہ احزاب اور غزوہ بنی قریظہ کے ختم ہونے کے بعد جیسے ہی مسلمانوں کو بنونضیر کے بعد بنی قریظہ کی زمینیں، ان کے باغات اور ان کے مکانات سے حصہ ملا اور اس سے ان میں کسی حد تک آسودگی پیدا ہوئی تو آنحضرت ﷺ کے گھر میں بھی ایک احساس سا ابھرنے لگا۔ اس وقت آپ ﷺ کی چار بیویاں تھیں۔ حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت سودہ اور حضرت ام سلمہ ( رض) ۔ ان کی فطرت نے تقاضا کیا کہ اس آسودگی سے ہمیں بھی کچھ حصہ ملنا چاہیے۔ ممکن ہے ان چاروں نے باہمی مشورے سے آنحضرت ﷺ سے اپنی گزربسر میں آسانی کے لیے درخواست کی ہو۔ چناچہ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ ( رض) سے یہ روایت مروی ہے کہ ایک روز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ( رض) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپ ﷺ کی ازواج آپ ﷺ کے گرد بیٹھی ہیں اور آپ خاموش ہیں۔ آپ نے حضرت عمر ( رض) کو خطاب کرکے فرمایا ھُنَّ کَمَاتَرٰی یَسْئَلُنِیْ النَفْقَۃَ ” یہ میری بیویاں مجھ سے خرچ کے لیے روپیہ مانگ رہی ہیں، جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ “ اس پر دونوں صاحبوں نے اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ کو کیوں تنگ کرتی ہو، اور آپ سے وہ چیز مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت نبی کریم ﷺ کیسی مالی مشکلات میں مبتلا تھے۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ بعض لوگوں نے اس شان نزول کو قبول کرنے میں تردد کا اظہار کیا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آسودگی کا زمانہ خیبر کی فتح سے شروع ہوتا ہے جبکہ ان آیات کا نزول ذیقعد یا ذی الحج پانچ ہجری میں ہوا ہے جبکہ حضرت زینب ( رض) سے ابھی نکاح نہیں ہوا تھا۔ اور خیبر اس وقت تک مسلمانوں کے زیرنگیں نہیں آیا تھا تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ دوسروں کی آسودگی کو دیکھ کر ازواجِ مطہرات کے دل میں بھی خیال پیدا ہوا۔ لیکن ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ ان آیات کا نزول یقینا پانچ ہجری میں ہوا ہے اور اس وقت خیبر ابھی فتح نہیں ہوا تھا۔ لیکن غلط فہمی کی بنیاد یہ ہے کہ آسودگی کا زمانہ فتح خیبر کے ساتھ منسلک کردیا گیا۔ حالانکہ بنوقریظہ کے قتل ہوجانے کے بعد ان کی تمام املاک کا مسلمانوں میں تقسیم ہوجانا کسی نہ کسی حد تک آسودگی اور خوشحالی کا سبب بنا تھا۔ اور اسی زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں۔ دوسرا خیال انھیں یہ ہے کہ ازواجِ مطہرات کے بارے میں یہ بدگمانی کرنا کہ وہ آنحضرت ﷺ سے دنیا کی زینت کے بارے میں سوال کریں گی، یہ ان کی شان کے لائق نہیں۔ بات یہ ہے کہ ازواجِ مطہرات کا جو مقام و مرتبہ ہے اس میں کوئی شبہ نہیں، لیکن فطرت کے بنیادی تقاضوں سے انھیں بےبہرہ سمجھنا یہ بھی زیادتی کی بات ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور بندیوں کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ پیٹ بھرنے کے لیے روٹی کا مطالبہ کریں اور تن پوشی کے لیے مناسب لباس کا۔ جس بات پر گرفت ہوئی ہے وہ یہ مطالبہ نہیں بلکہ گرفت اس بات پر ہے کہ آنحضرت ﷺ کی معیت ورفاقت کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ بنیادی ضرورتوں کا تقاضا یقینا برحق ہے۔ لیکن آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کے عظیم رسول ہونے کی وجہ سے جس بارگراں کو اٹھائے ہوئے تھے، اور پھر جس طرح آپ کا ایک ایک لمحہ اسی کے لیے وقف ہو کے رہ گیا تھا اس میں فطری مطالبات کی بھی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اور اگر آج اس کی اجازت دے دی جاتی تو یہی فطری مطالبات تکلفات میں بھی داخل ہوسکتے تھے۔ پیغمبر کا گھر دنیا میں بعض حوالوں سے منفرد ہوتا ہے۔ اس کے تقاضے بھی احساس و خیال سے بہت بالا ہوتے ہیں۔ ازواجِ مطہرات کو ان احساسات کا خوگر بنانے کی ہدایت کی جارہی ہے۔ لیکن معاملہ چونکہ بہت نازک تھا اس لیے ترغیب و ہدایت کے تیور ذرا تیکھے ہیں۔ اس میں صرف ترغیب سے ہی کام نہیں لیا گیا بلکہ اسے فیصلہ کن حیثیت دے کر ایک سوال ازواجِ مطہرات کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ ایک طرف حیات دنیا اور اس کی زینت ہے یعنی اس کی سہولتیں اور آرام و راحت۔ اور دوسری طرف آنحضرت ﷺ کی رفاقت، تم دونوں میں سے کسے اختیار کرتی ہو ؟ اگر تمہیں دنیا کی راحتیں مطلوب ہیں تو میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کردیتا ہوں۔ مراد یہ ہے کہ میں تمہیں طلاق دے دیتا ہوں۔ لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو اور دارآخرت کو ترجیح دیتی ہو تو ایسی نیکوکار، خوبکار اور نباہ کرنے والی خوش اطوار بیویوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ تم خود فیصلہ کرو کہ تم دونوں میں سے کیا چاہتی ہو۔ اصطلاح میں اسے تخییر کہا گیا ہے۔ یعنی شوہر بیوی کو اختیار دے دیتا ہے، ساتھ رہنے یا علیحدہ ہونے کا۔ اس کی تفصیلات فقہ کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ ﷺ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ ( رض) سے گفتگو کی۔ اور فرمایا ! میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، جواب دینے میں جلدی نہ کرنا۔ اپنے والدین کی رائے لینے کے بعد جواب دینا۔ اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھ کر انھیں سنائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) نے بغیر کسی توقف کے جواب دیا کہ مجھے اس معاملے میں کسی سے مشورے کی ضرورت نہیں۔ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ باقی ازواجِ مطہرات میں ایک ایک کے پاس گئے اور ہر ایک سے یہی بات فرمائی۔ اور سب نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ ( رض) نے دیا تھا۔ ازواجِ مطہرات کے اس جواب نے یہ بات ثابت کردی کہ انھیں دنیا طلبی سے کوئی غرض نہیں، وہ فطری داعیات کو بھی اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور آخرت کے اجروثواب پر قربان کرنے کو تیار ہیں۔ ہمیں اس کے لیے فاقے برداشت کرنا پڑیں یا زندگی کا ہر آرام قربان کرنا پڑے تو یہ کوئی بڑی قیمت نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی صحبت اور رفاقت ایک ایسی گراں قدر نعمت ہے کہ کوئی چیز اس کا بدل نہیں ہوسکتی۔
Top