Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 35
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیْنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ١ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا
اِنَّ : بیشک الْمُسْلِمِيْنَ : مسلمان مرد وَالْمُسْلِمٰتِ : اور مسلمان عورتیں وَالْمُؤْمِنِيْنَ : اور مومن مرد وَالْمُؤْمِنٰتِ : اور مومن عورتیں وَالْقٰنِتِيْنَ : اور فرمانبردار مرد وَالْقٰنِتٰتِ : اور فرمانبردار عورتیں وَالصّٰدِقِيْنَ : اور راست گو مرد وَالصّٰدِقٰتِ : اور راست گو عورتیں وَالصّٰبِرِيْنَ : اور صبر کرنے والے مرد وَالصّٰبِرٰتِ : اور صبر کرنے والی عورتیں وَالْخٰشِعِيْنَ : اور عاجزی کرنے والے مرد وَالْخٰشِعٰتِ : اور عاجزی کرنے والی عورتیں وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ : اور صدقہ کرنے والے مرد وَالْمُتَصَدِّقٰتِ : اور صدقہ کرنے والی عورتیں وَالصَّآئِمِيْنَ : اور روزہ رکھنے والے مرد وَالصّٰٓئِمٰتِ : اور روزہ رکھنے والی عورتیں وَالْحٰفِظِيْنَ : اور حفاظت کرنے والے مرد فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں وَالْحٰفِظٰتِ : اور حفاظت کرنے والی عورتیں وَالذّٰكِرِيْنَ : اور یاد کرنے والے اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ : اور یاد کرنے والی عورتیں اَعَدَّ اللّٰهُ : اللہ نے تیار کیا لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةً : بخشش وَّاَجْرًا عَظِيْمًا : اور اجر عظیم
بیشک اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں، ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں، فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، اللہ کے آگے جھکنے والے مرد اور جھکنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور اجرِعظیم تیار کر رکھا ہے
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰـنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصِّٰئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَالذّٰکِرٰتِ لا اَعَدَّاللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا۔ (الاحزاب : 35) (بےشک اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں، ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں، فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، اللہ کے آگے جھکنے والے مرد اور جھکنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور اجرِعظیم تیار کر رکھا ہے۔ ) معاشرے کے اجزائے ترکیبی اور مردو عورت میں عنداللہ مساوات ازواجِ مطہرات کو دی جانے والی ہدایات کے بعد متصلاً تمام امت کے لیے ان ہدایات کا ذکر شاید اس لیے فرمایا گیا ہے تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جاسکے کہ گزشتہ ہدایات ازواجِ مطہرات کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ مسلم معاشرہ میں سے خواتین کی اصلاح کے لیے جن ہدایات کی ضرورت ہے ان میں سے ان ہدایات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ البتہ مسلم معاشرے کی بالعموم اصلاح کے لیے جو ہدایات مطلوب ہیں ان کو ایک جامع اسلوب کے تحت پیش نظر آیت کریمہ میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ پیراگراف میں جو ہدایات دی گئی ہیں ان میں بعض کا انداز منفی ہے اور بعض کا مثبت۔ اگر ان کو شمار کیا جائے تو ان کی تعداد تقریباً اتنی ہے جتنی پیش نظر آیت میں متفرق صفات کی ہے۔ گزشتہ پیرا گراف میں چونکہ خطاب ازواجِ مطہرات سے تھا جو تمام مسلمان عورتوں کی نمائندہ اور رہنما ہیں۔ پیش نظر آیت میں اسلامی معاشرہ کے اجزائے ترکیبی جو ذکر فرمائے گئے ہیں، قرآن کریم کے عمومی اسلوب کے مطابق ان کا خطاب مردوں سے ہونا چاہیے تھا لیکن گزشتہ پیراگراف کی رعایت سے عورتوں کا ذکر ضمناً نہیں بلکہ مردوں کے پہلو بہ پہلو مستقلاً فرمایا گیا ہے تاکہ یہ بات واضح ہوسکے کہ معاشرہ کے بنائو سنوار میں عورتوں کا حصہ مردوں کے برابر ہے۔ اس لیے ان کی ذمہ داریاں مردوں سے کم نہیں البتہ دونوں کا دائرہ عمل جدا جدا ہے۔ اس آیت کریمہ میں مسلمان معاشرہ کے افراد کی جن خصوصیات کا ذکر فرمایا گیا ہے ان کا ذکر فعل کی صورت میں نہیں بلکہ صفت کے صیغوں سے کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صیغہ فعل وقوع فعل پر دلالت کرتا ہے چاہے وہ وقوع ایک دفعہ ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ صفت کا صیغہ عادت اور استمرار پر دلالت کرتا ہے۔ اس کا وقوع ایک دفعہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی حیثیت ایک خصلت کی ہوتی ہے جو اپنے فاعل سے کبھی جدا نہیں ہوتی۔ جس طرح سورج جب طلوع ہوتا ہے تو ضرور کرنیں بکھیرتا ہے، چاند نکلتا ہے تو روشنی بکھیرتا اور حلاوت لٹاتا ہے، دریا کبھی اپنے بہائو سے الگ نہیں رہ سکتا، چشمے سے ابلنے کے تصور کو الگ نہیں کیا جاسکتا اور آبشار کبھی مسلسل گرنے کی صفت سے محروم نہیں رہ سکتی۔ کیونکہ یہ تمام صفات ہیں جو اپنے موصوف سے کبھی جدا نہیں ہوتیں۔ اسی طرح پیش نظر آیت کریمہ میں جن صفات کا ذکر کیا گیا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک کلمہ گو کبھی کبھی ان صفات سے بھی متصف ہوتا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صفات کبھی اس سے منقطع نہیں ہوتیں۔ جس طرح ایک مور جہاں پَر پھیلاتا ہے وہاں چمن کھل جاتا ہے۔ اسی طرح ایک کلمہ گو جس ماحول میں بھی ہوتا ہے ان صفات کا اس سے مسلسل صدور ہوتا ہے اور ان صفات کا رنگ اس ماحول پر چھایا رہتا ہے۔ یہ صفات تعداد میں دس ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔ 1 اسلام، 2 ایمان، 3 قنوت، 4 صدق، 5 صبر، 6 خشوع، 7 صدقہ، 8 روزہ، 9 عفت و حیاء، 0 اذکراللہ۔ اسلام : اس کا معنی ہے مطیع ہوجانا، اپنے آپ کو سپرد کردینا اس اسلام سے متصف شخص کو مسلم کہتے ہیں۔ یعنی ایسا شخص جس نے اپنی زندگی اسلامی ضابطہ حیات کے سپرد کردی ہے اور اس نے یہ طے کرلیا ہے کہ وہ اب اسی کی پیروی میں زندگی گزارے گا۔ یعنی اس کا طریقہ فکر اور طرززندگی اسلام کے دیے ہوئے تصورات اور احکام کے تابع ہے۔ وہ کہیں بھی اس کی اطاعت اور اتباع میں کوتاہی نہیں کرتا۔ ایمان : مان لینے اور دل سے تصدیق کرنے کو کہتے ہیں جس کا حاصل یقین اور ایقان ہے۔ یعنی جو شخص مسلم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ صرف اسلامی ضابطہ حیات ہی کی پابندی نہیں کرتا بلکہ وہ دل سے بھی اس کے صحیح اور سچا ہونے کا یقین رکھتا ہے اور وہ اسی میں دنیوی اور اخروی فلاح اور کامیابی سمجھتا ہے۔ وہ تمام معیارات سے ہاتھ اٹھا کر صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ارشادات کو معیارِحق سمجھتا ہے۔ اسلام درحقیقت دین کا ظاہر ہے اور ایمان اس کا باطن ہے۔ اور یہ دونوں بیک وقت مطلوب ہیں۔ قنوت : اس کا معنی تو اطاعت اور فرماں برداری ہے۔ لیکن اس سے مراد وہ فرماں برداری ہے جو دل کی پوری یکسوئی، پوری نیازمندی اور اخلاص کے ساتھ زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہے۔ دماغ اور دل کے کسی گوشے میں بھی اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے بارے میں شک و شبہ لاحق نہ ہو۔ نہ کسی حکم کی تعمیل بوجھ محسوس ہو اور نہ کسی نہی کی طبیعت میں طلب پیدا ہو۔ اس کا آخری مقام یہ ہے کہ شریعت کے مقتضیات طبعی مقتضیات کی صورت اختیار کرلیں۔ صدق : قول، فعل، ارادہ اور عقیدہ میں کامل ہم آہنگی، مطابقت اور استواری کا نام ہے۔ اس کیفیت کے پیکر نہ تو کبھی جھوٹ بولتے ہیں اور نہ معاملات میں فریب دیتے ہیں۔ نہ کبھی ان کی نیت میں فتور آتا ہے۔ ان کی زبان اور ان کا ضمیر ہمیشہ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ وہ زندگی کے کسی معاملے میں چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی کبھی راستی اور صداقت کے خلاف نہیں چلتے۔ دیانت و امانت ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ بدعہدی کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ ایک مومن اعمال کی مختلف خرایبوں میں مبتلا ہوسکتا ہے لیکن وہ جھوٹا کبھی نہیں ہوتا۔ صبر : اڑ جانے اور ڈٹ جانے کو کہتے ہیں۔ استقامت، استقلال اور پامردی کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔ علماء نے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ 1 صبرعلی الطاعات۔ یعنی وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی تعمیل میں نہایت ثابت قدم اور اطاعت کی روش پر قائم رہنے والے ہیں۔ وہ اشتعال یا کسی تحریص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کبھی نہیں کرتے۔ 2 صبرعن المعصیات، کہ وہ نافرمانی اور گناہوں سے صبر کرتے ہیں۔ خواہشاتِ نفس کا کوئی تقاضا بھی ان کو نافرمانی کے راستے پر نہیں ڈال سکتا۔ اللہ تعالیٰ اور رسول کی نافرمانی انھیں ایسے معلوم ہوتی ہے جیسے دہکتے انگاروں میں ہاتھ ڈالنا۔ 3 صبرعلی المصائب، یعنی کیسی ہی مشکلات پیش آئیں، کوئی خوف اندر سے سر اٹھائے یا باہر سے، خوف جان کا ہو یا مال و دولت کے ضیاع کا، وہ ان مصیبتوں پر صبر کرنے والے ہیں۔ دین کے راستے میں وہ سر کٹوا سکتے ہیں لیکن جھکا نہیں سکتے۔ غیر اللہ کی بڑی سے بڑی طاقت بھی ان سے اپنی بات منوا نہیں سکتی۔ وہ ہر خطرے کا بڑی پامردی سے مقابلہ کرتے ہیں۔ خشوع : کا معنی فروتنی اور انکساری ہے۔ لیکن یہ ایسی فروتنی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور اس کی عظمت و جلال کے صحیح تصور سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی سے ان کے اندر اطاعت کا صحیح جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہی چیز انھیں اپنے رب کے آگے جھکاتی بھی ہے اور اس سے جوڑتی بھی ہے۔ عاجزی کا احساس تکبر اور استکبار سے بچاتا ہے۔ اور بندوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایسے لوگ حق کے مقابلے میں نہایت عاجز، لیکن باطل کے مقابلے میں نہایت سخت ہوتے ہیں۔ تخت و تاج پر فائز لوگ ان کی نگاہوں میں پتلیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا کوئی مسکین بھی ان کے یہاں عزت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ ان خصوصیات کی ترتیب کو دیکھتے ہوئے یہ گمان گزرتا ہے کہ یہاں خشوع سے مراد شاید نماز ہو۔ کیونکہ نماز کی اصل شناخت خشوع ہے۔ اور نماز کی فرضیت کا اصل مقصد بھی خشوع پیدا کرنا ہے۔ اور اس کے بعد چونکہ صدقے اور روزے کا ذکر آرہا ہے اس سے بھی اس گمان کی تائید ہوتی ہے۔ صدقہ : کا معنی خیرات اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں کچھ دینا ہے۔ اور تصدق کا معنی صدقہ کرنا ہے۔ مراد اس سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں انفاق کرنا ہے جسے قرآن کریم نے متقین کی خصوصی صفات میں ذکر فرمایا ہے۔ اس کا تعلق حقوق العباد سے بھی ہے اور تبرع اور احسان سے بھی۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس سے مراد زکوٰۃ ادا کرنا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مالی مدد کرنا بھی۔ کوئی یتیم، کوئی بیمار، کوئی مصیبت زدہ، کوئی ضعیف و معذور، کوئی غریب و محتاج ان کی بستیوں میں دستگیری سے محروم نہیں رہتا۔ اور اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے ہمیشہ ان کی تجوریوں کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ دین کی ضرورتیں بھی ان سے پوری ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کی ضروریات کے بھی وہی کفیل ہوتے ہیں اور وہ کسی حال میں بھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ روزہ : صوم کا معنی ہے رکنا۔ اسی کو اردو زبان میں روزہ کہتے ہیں۔ یہ صبر کی تربیت کا خاص ذریعہ ہے۔ اس لیے حضور ﷺ نے رمضان کو شھرالصبر قرار دیا ہے۔ اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے شامل ہیں۔ اس میں حلال اور طیب نعمتوں پر پابندی لگا کر ایک مومن کو اس بات کا خوگر بنایا جاتا ہے کہ ہر چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی اختیارِ کامل رکھتا ہے۔ وہ جس چیز کو چاہے حرام کردے اور جس چیز کو چاہے حلال کردے۔ جس چیز کی چاہے اجازت دے دے اور جس چیز کو چاہیے ممنوع قرار دے دے۔ اختیار اسی کے پاس ہے، تم اس کے بےاختیار بندے ہو۔ تمہارا کام ہر صورت اس کے احکام کی کامل اطاعت اور اس کی ذات کی کامل بندگی ہے۔ روزہ اسی بندگی کی تربیت دیتا ہے۔ عفت و حیاء : معاشرے میں خرابی پیدا کرنے اور قوت ارادی کو کمزور کرنے اور انسان کو شرفِ انسانیت سے محروم کرکے جنسی حیوان بنا دینے کا سب سے بڑا ذریعہ عفت اور حیاء کے احساس کو کم کرنا ہے۔ یہی وہ پاکیزہ جذبہ ہے جو انسان کو بےپناہ قوت دیتا اور اسے بلند اخلاق سے وابستہ رکھتا ہے۔ جیسے ہی یہ پردہ کمزور ہوتا اور حفاظت کا جذبہ ماند پڑتا ہے تو پھر شیطانی قوتیں پر اپیگنڈے کے زور سے سفلی جذبات کو انسانی زندگی کی معراج اور تسکین کا سب سے ہم ذریعہ قرار دینے لگتی ہیں۔ اور بالآخر انسان اپنے بلند منصب سے گر کر بلیوں اور کتوں کی سطح پر آگرتا ہے۔ ذکر اللہ : اس سے مراد صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی تکرار نہیں بلکہ زبان کا وظیفہ بننے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی یاد کا دل میں اتر جانا ہے۔ یہ صفت مذکورہ بالا تمام صفت کا منبع اور ان کی محافظ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی یاد انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لاشعور تک پہنچ جاتی ہے تو تب اس کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ وہ ہر کام کرنے سے پہلے اور ہر بات بولنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے۔ ہر کام سے فارغ ہو کر اس کی تعریف کرتا اور اس کا شکر بجالاتا ہے۔ وہ سونے سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور نیند کھلنے پر بھی اللہ تعالیٰ ہی کا نام لیتا ہے۔ بول چال میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ، الحمدللہ، ان شاء اللہ، ماشاء اللہ اور اس طرح کے دوسرے الفاظ نکلتے رہتے ہیں۔ محتاج ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے۔ مصیبت آنے پر اللہ تعالیٰ سے رحمت طلب کرتا ہے۔ ہر برائی کے وقت اسی سے ڈرتا ہے، ہر قصور سرزد ہونے پر اسی سے معافی مانگتا ہے۔ غرضیکہ اٹھتے بیٹھتے اور دنیا بھر کے کام کاج کرتے ہوئے اس کا وظیفہ اللہ تعالیٰ ہی کا ذکر ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مومن اگر اس نے شعور کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا راستہ اختیار کیا ہے تو وہ کبھی اس کی یاد سے غافل نہیں رہ سکتا۔ تمام عبادات اسی کی یاد دلاتی ہیں۔ اور تمام دینی کاموں میں اسی سے قوت پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے بڑی سے بڑی نیکی کی اساس بھی ذکر اللہ کو ٹھہرایا۔ معاذ بن انس الجھنی رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، یارسول اللہ جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو ان میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے۔ اس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سے سب سے زیادہ اجر کون پائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والا ہے۔ پھر اس شخص نے اسی طرح نماز، زکوٰۃ، حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا۔ تو حضور ﷺ نے ہر ایک کا یہی جواب دیا کہ جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو۔ (مسنداحمد) ممکن ہے اس میں بھی نماز کی طرف اشارہ ہو۔ کیونکہ نماز اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی کا دوسرا نام ہے۔
Top