Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 50
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِیْۤ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَ مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَیْكَ وَ بَنٰتِ عَمِّكَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَ بَنٰتِ خَالِكَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِیْ هَاجَرْنَ مَعَكَ١٘ وَ امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْكِحَهَا١ۗ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِیْۤ اَزْوَاجِهِمْ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَحْلَلْنَا : ہم نے حلال کیں لَكَ : تمہارے لیے اَزْوَاجَكَ : تمہاری بیبیاں الّٰتِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْتَ : تم نے دے دیا اُجُوْرَهُنَّ : ان کا مہر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ : مالک ہوا يَمِيْنُكَ : تمہارا دایاں ہاتھ مِمَّآ : ان سے جو اَفَآءَ اللّٰهُ : اللہ نے ہاتھ لگا دیں عَلَيْكَ : تمہارے وَبَنٰتِ عَمِّكَ : اور تمہارے چچا کی بیٹیاں وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ : اور تمہاری پھوپیوں کی بیٹیاں وَبَنٰتِ خَالِكَ : اور تمہاری ماموں کی بیٹیاں وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ : اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں الّٰتِيْ : وہ جنہوں نے هَاجَرْنَ : انہوں نے ہجرت کی مَعَكَ ۡ : تمہارے ساتھ وَامْرَاَةً : اور مومن مُّؤْمِنَةً : عورت اِنْ : اگر وَّهَبَتْ : وہ بخش دے (نذر کردے نَفْسَهَا : اپنے آپ کو لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے اِنْ : اگر اَرَادَ النَّبِيُّ : چاہے نبی اَنْ : کہ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ : اسے نکاح میں لے لے خَالِصَةً : خاص لَّكَ : تمہارے لیے مِنْ دُوْنِ : علاوہ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ : مومنوں قَدْ عَلِمْنَا : البتہ ہمیں معلوم ہے مَا فَرَضْنَا : جو ہم نے فرض کیا عَلَيْهِمْ : ان پر فِيْٓ : میں اَزْوَاجِهِمْ : ان کی عورتیں وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ : مالک ہوئے ان کے داہنے ہاتھ (کنیزیں) لِكَيْلَا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے عَلَيْكَ : تم پر حَرَجٌ ۭ : کوئی تنگی وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اے نبی ہم نے حلال کی ہیں آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں جنھیں آپ نے ان کے مہر ادا کیے اور وہ عورتیں جو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے آپ کی ملکیت میں آئیں، اور آپ کی چچا کی بیٹیوں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیوں اور آپ کے ماموں کی بیٹیوں اور آپ کی خالائوں کی بیٹیوں میں سے بھی ان کو حلال ٹھہرایا جنھوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور اس مومن عورت کو بھی جو اپنی ذات نبی کو ہبہ کردے بشرطیکہ پیغمبر اس کو اپنے نکاح میں لانا چاہیں یہ رعایت خالصتاً آپ کے لیے ہے، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں، ہمیں خوب معلوم ہے ہم نے جو کچھ ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں فرض کیا ہے تاکہ آپ پر کوئی تنگی نہ رہے اور اللہ غفورورحیم ہے
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَحْلَلْنَا لَـکَ اَزْوَاجَکَ الَّتِیْٓ اٰ تَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ وَمَا مَلَـکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّآ اَفَـآئَ اللّٰہُ عَلَیْکَ وَبَنٰتِ عَمِّکَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَبَنٰتِ خَالِکَ وَبَنٰتِ خٰلٰـتِکَ الّٰتِیْ ھَاجَرْنَ مَعَکَ ز وَامْرَاۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّھَبَتْ نَفْسَھَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَالنَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَھَا ق خَالِصَۃً لَّـکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ط قَدْعَلِمْنَا مَافَرَضْنَا عَلَیْھِمْ فِیْٓ اَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ لِکَیْلاَ یَکُوْنَ عَلَیْکَ حَرَجٌ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔ (الاحزاب : 50) (اے نبی ہم نے حلال کی ہیں آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں جنھیں آپ نے ان کے مہر ادا کیے اور وہ عورتیں جو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے آپ کی ملکیت میں آئیں، اور آپ کی چچا کی بیٹیوں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیوں اور آپ کے ماموں کی بیٹیوں اور آپ کی خالائوں کی بیٹیوں میں سے بھی ان کو حلال ٹھہرایا جنھوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور اس مومن عورت کو بھی جو اپنی ذات نبی کو ہبہ کردے بشرطیکہ پیغمبر اس کو اپنے نکاح میں لانا چاہیں یہ رعایت خالصتاً آپ کے لیے ہے، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں، ہمیں خوب معلوم ہے ہم نے جو کچھ ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں فرض کیا ہے تاکہ آپ پر کوئی تنگی نہ رہے اور اللہ غفورورحیم ہے۔ ) منافقین کے آنحضرت ﷺ پر اعتراضات کا جواب اور آپ ﷺ کے بعض امتیازات پروردگار نے سورة النساء میں جب مسلمانوں کو تحدیدِ ازواج کا حکم دیا کہ ایک مسلمان چار سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتا اس وقت آنحضرت ﷺ کے نکاح میں بھی چار ہی بیویاں تھیں۔ حضرت سودہ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ اور حضرت ام سلمہ ( رض) ۔ لیکن جب پانچ ہجری میں آنحضرت ﷺ نے حضرت زینب بنت جحش ( رض) سے نکاح فرمایا تو منافقین نے مخالفت کا طوفان کھڑا کردیا کہ مسلمانوں کے لیے چار بیویوں سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت نہیں تو آپ ﷺ نے پانچویں بیوی کیسے کرلی ؟ کیا مسلمانوں کے لیے شریعت اور ہے اور آپ ﷺ کے لیے اور۔ اور دوسری یہ بات کہ آپ ﷺ نے اپنے متبنیٰ کی منکوحہ سے کیسے نکاح کرلیا جبکہ اہل عرب کی روایات اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ اس دوسرے اعتراض کا جواب تو پہلے گزر چکا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نکاح آنحضرت ﷺ نے اپنی خواہش سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا ہے۔ لیکن دوسرے اعتراض کا جواب پوری تفصیل کے ساتھ پیش نظر آیت کریمہ میں دیا گیا ہے۔ اور اس میں یہ بھی بتایا ہے کہ نبی کریم ﷺ چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اس لیے آپ ﷺ کا کوئی کام اپنی خواہش اور اپنی مرضی سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے۔ آپ ﷺ اہل عرب کی روایات کے پابند نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور منشاء کے پابند ہیں۔ اور دوسری بات یہ فرمائی کہ حلال و حرام کی اصل اتھارٹی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس کے سوا کسی اور کو تحلیل و تحریم کا حق نہیں پہنچتا۔ مسلمانوں پر چار کی قید لگانے والا اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ اسی کو یہ حق زیب دیتا ہے۔ اسی نے اپنے پیغمبر کے لیے بعض خصوصی احکام دیے ہیں جن میں پیغمبر پر بعض ایسی پابندیاں لگائی ہیں جو عام مسلمانوں پر نہیں۔ اور بعض ایسے احکام سے انھیں مستثنیٰ قرار دیا ہے جو عام مسلمانوں پر لازم ہیں۔ اور ایسا کرنا اس کا حق ہے کیونکہ وہی مطاع مطلق، وہی کبریائی کا مالک اور وہی جن و انس کو مطلقاً آئین و قانون دینے کا حق رکھتا ہے۔ چناچہ مسلمانوں پر اس نے اگر چار بیویوں کی قید لگائی ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ اور اسی نے اگر اپنے نبی کو چار سے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت دی ہے تو یہ بھی اس کا حق ہے۔ کوئی شخص اگر اس کے پہلے حق کو تسلیم کرتا ہے اور دوسرے حق کو تسلیم نہیں کرتا تو اسے اپنی عقل پر ماتم کرنا چاہیے۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں اس بنیادی بات پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جن بیویوں کے آپ ﷺ نے حق مہر ادا کیے ہیں اور وہ اس وقت پانچ تھیں وہ ہم نے حلال کی ہیں، کسی کو اگر اعتراض ہے تو اسے ہمارے اختیار پر ہونا چاہیے، آپ ﷺ تو اس کے اختیار کا اتباع کرنے والے ہیں اور اس کے حکم کی تعمیل کرنے والے ہیں آپ پر اعتراض کا کیا جواز ہے۔ اس میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ آپ کے لیے وہ بیویاں ہم نے جائز کردی ہیں جنھیں آپ نے حق مہر ادا کردیے ہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کے بعد ان مملوکات کا ذکر آرہا ہے جو غنیمت کے طور پر آپ کو ملنے والی تھیں، جنھیں لونڈیاں کہا جاتا ہے، ان کا چونکہ حق مہر نہیں ہوتا۔ تو پہلی بیویوں کو ان سے ممتاز کرنے کے لیے مہر کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اس آیت کریمہ میں ان عورتوں کو بھی جائز کیا ہے جو عورتیں جہاد میں قید ہو کر آئیں۔ عام لونڈیاں مراد نہیں جنھیں خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ جنگی اسیروں میں مرد بھی ہوتے تھے اور عورتیں بھی۔ مردوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا اور عورتوں کو لونڈیاں۔ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ اگر دشمن اپنے قیدیوں کا تبادلہ کرنے پر راضی ہو تو اپنے قیدیوں کے بدلے میں ان کے قیدی چھوڑ دیے جائیں۔ اس طرح غلامی تک نوبت نہیں پہنچتی۔ اور اگر دشمن فدیہ دے کر چھڑانا چاہے تو اسلام نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ اور اگر مسلمان دشمن قیدیوں کو بےضرر سمجھ کر یا دشمن پر احسان کرتے ہوئے چھوڑنا چاہیں تو اسلام اس کی بھی اجازت دیتا ہے۔ لیکن اگر ایسی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو پھر اس زمانہ کے جنگی رواج کے مطابق قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بنا لیا جاتا تھا۔ اور اس میں کوشش یہ ہوتی تھی کہ غلاموں کو گھروں میں رکھ کر مسلمانوں کے معاملات کو دیکھنے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ اسلام کی طرف راغب ہوں اور اسلام کی آغوش میں آجائیں۔ چناچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ بیشتر قیدی غلام بننے کے بعد مسلمان ہوگئے۔ اور مسلمانوں نے انھیں اسلامی خدمات کے لیے وقف کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں بڑے بڑے مفسر اور محدث پیدا ہوئے۔ جہاں تک اسیر عورتوں کا تعلق ہے ان کا معاملہ زیادہ احتیاط کا تقاضا کرتا تھا۔ دشمن بالعموم اپنی ان عورتوں کو واپس نہیں لیتا جو قید میں پکڑی جاتی ہیں۔ اب اگر مسلمان انھیں یونہی چھوڑ دیتے تو جنگ عظیم کے قیدیوں کی طرح بداخلاقی کا ایک طوفان اٹھتا جس سے نسب تباہ ہو کر رہ جاتے۔ اور اگر انھیں لونڈیاں بنا کر گھروں میں رکھا جاتا لیکن مالک کو تمتع کی اجازت نہ دی جاتی تو یہ ایک ایسی غیرانسانی حرکت ہوتی جس کا نتیجہ حرام کاری کے سوا اور کچھ نہ ہوتا۔ اور اگر مسلمانوں کو پابند کردیا جاتا کہ وہ ان سے ضرور نکاح کریں تو اس سے دو مسئلے پیدا ہوجاتے۔ ایک تو یہ کہ ہر گھر میں پہلی بیویاں اپنے حقوق کا مطالبہ لے کر کھڑی ہوجاتیں۔ اور دوسرا یہ کہ آئے دن کی جنگوں میں غلاموں اور لونڈیوں کی تعداد تو مقرر نہیں کی جاسکتی تھی اس لیے چار بیویوں کا قانون متأثر ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا۔ اس لیے اسلام نے آنحضرت ﷺ کو بھی اور دوسرے مسلمانوں کو بھی یہ اجازت دی کہ آپ اسیر عورتوں کو جو ایک ضابطے کے تحت آپ کے حصے میں آئیں انھیں لونڈیاں بھی بنا سکتے ہو اور ان سے نکاح بھی کرسکتے ہو۔ اور آنحضرت ﷺ کا معاملہ تو اور زیادہ اہم تھا۔ کیونکہ جنگ و جہاد میں بسا اوقات شریف خاندانوں اور سرداروں کی بہوئیں اور بیٹیاں بھی اسیر بن کر آتی تھیں۔ قبائلی نقطہ نگاہ سے اور حکمت دین کے حوالے سے ضروری تھا کہ ان کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا جائے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ایسی خاندانی عورتوں کے ساتھ عموماً نکاح فرمایا۔ حضرت جویریہ ( رض) غزوہ بنی المصطلق میں اور حضرت صفیہ ( رض) غزوہ خیبر کے موقع پر گرفتار ہوئیں اور دونوں سرداروں کی بیٹیاں تھیں۔ تو آپ نے ان کی خاندانی وجاہت کا لحاظ فرماتے ہوئے انھیں لونڈیوں کی حیثیت سے رکھنے کی بجائے اپنے حرم میں شامل فرما لیا۔ اور اگر آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کی اجازت نہ دی ہوتی تو پھر آپ انھیں لونڈیاں بنا کر رکھنے کے پابند ہوتے اور ان سے نکاح نہ کرسکتے۔ کیونکہ اس صورت میں ازواج کی تعداد اسلام کے عام ضابطہ سے متجاوز ہوجاتی۔ اور اس طرح سے مسلمان ان فوائد کو حاصل نہ کر پاتے جو ان سیدات کو عزت دینے سے حاصل کیے جاسکتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک اور قسم کی عورتوں کو بھی اپنے نکاح میں لانے کی آپ کو اجازت دی۔ یہ وہ عورتیں ہیں جو آپ کی نہایت قریبی رشتہ دار ہیں۔ یعنی آپ کے چچا، پھوپھیوں، ماموئوں اور خالائوں کی بیٹیوں میں سے اگر کسی نے دین کی خاطر اپنے خویش و اقارب اور خاندان و قبیلہ کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہجرت کی ہے تو ان کی دلجوئی، دلدہی، قدردانی اور حوصلہ افزائی کے لیے آپ کو اجازت دی گئی کہ آپ ان میں سے کسی کو اپنے عقدنکاح میں لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں۔ چناچہ اسی اجازت کے تحت آپ نے حضرت ام حبیبہ ( رض) سے نکاح فرمایا۔ حضرت ام حبیبہ ( رض) ابوسفیان کی صاحبزادی تھیں جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ انھوں نے حبشہ کی طرف اپنے شوہر کے ساتھ ہجرت کی۔ ان کا شوہر وہاں پہنچ کر عیسائی ہوگیا اور پھر مرگیا۔ آپ نے حالت غربت اور تنہائی میں جس بےکسی اور بےبسی کے ساتھ اپنے ایمان کی حفاظت کی اور وقت گزارا، یہ ایک ایسی خدمت تھی جس کی قدردانی بہت ضروری تھی۔ چناچہ آپ نے حضرت نجاشی کے واسطے سے انھیں پیغامِ نکاح بھیجا اور انھیں کو اپنا وکیل بنا کر حضرت ام حبیبہ ( رض) سے نکاح کیا۔ ننھیالی رشتوں میں اگرچہ حضور ﷺ کا کوئی نکاح ثابت نہیں، لیکن ان میں بھی اگر کوئی ضرورت پیش آتی تو اس آیت کے تحت آپ ان سے بھی نکاح کرسکتے تھے۔ اس آیت میں مزید آپ کو یہ اجازت دی گئی کہ اگر کوئی مومن عورت آپ کو اپنی ذات ہبہ کردے، یعنی وہ بلا مہر اپنے آپ کو حضور ﷺ کے نکاح میں دینے کی پیشکش کرے اور اپنے حقوق میں سے بھی کسی حق پر اصرار نہ کرے، یعنی اپنے ہر حق سے دستبردار ہو کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں رہنے کی خواہش رکھتی ہو تو آپ کو اس کی اجازت دی گئی کہ اگر آپ اس کو پسند فرمائیں تو ایسی عورت کو اپنی زوجیت میں لے سکتے ہیں۔ چناچہ اسی اجازت کے تحت آپ نے شوال 7 ہجری میں حضرت میمونہ ( رض) کو اپنی زوجیت میں لیا۔ لیکن آپ نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ مہر کے بغیر ان کے ہبہ سے فائدہ اٹھائیں۔ اس لیے آپ نے ان کی خواہش اور مطالبہ کے بغیر ان کو مہر عطا فرمایا۔ اور ان کے علاوہ کوئی اور موہوبہ بیوی آپ کے نکاح میں نہ تھیں حالانکہ صحابیات میں نہ جانے کتنی خواتین ایسی ہوں گی جو محض شرف نسبت حاصل کرنے کے لیے اس کی خواہش رکھتی ہوں، جبکہ انھیں بھی معلوم تھا کہ آپ کی گھریلو زندگی فقر و فاقہ کی زندگی ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ چار سے زیادہ بیویوں کی اجازت اور ایسی عورت سے بلامہر نکاح جو اپنے آپ کو اس کے لیے ہبہ کردے یہ صرف آنحضرت ﷺ کی خصوصیت ہے، دوسرے کسی کے لیے اس کی اجازت نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احکام میں نبی کریم ﷺ کی کچھ خصوصیات بھی ہیں۔ یعنی ان میں آپ امت کے ساتھ شریک نہیں ہیں۔ بعض احکام میں آپ کو استثناء دیا گیا ہے اور بعض میں آپ پر کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ مثلاً آنحضرت ﷺ پر نمازتہجد فرض کی گئی۔ آپ کے لیے اور آپ کے خاندان والوں کے لیے صدقہ لینا حرام قرار دیا گیا، آپ کی میراث تقسیم نہیں ہوتی کیونکہ آپ نے اپنے پیچھے کوئی میراث نہیں چھوڑی۔ آپ کے لیے چار سے زائد بیویاں حلال کی گئیں، بیویوں کے درمیان عدل آپ پر واجب نہیں کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ سے بڑھ کر بیویوں کے درمیان کسی نے عدل نہیں کیا۔ اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی عورت سے بلامہر آپ کو نکاح کرنے کی اجازت دی گئی اور آپ کی وفات کے بعد آپ کی تمام بیویاں امت پر حرام کردی گئیں۔ کیونکہ وہ ساری امت کی مائیں قرار دی گئیں۔ آپ کے لیے کتابیہ عورت سے نکاح کرنے پر پابندی عائد کی گئی جبکہ باقی امت کے لیے اسے حلال ٹھہرایا گیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہم کو خوب معلوم ہے جو کچھ ہم نے مسلمانوں کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں فرض کیا ہے۔ اس میں دراصل سورة النساء کی آیت 3 کی طرف اشارہ ہے جس میں مسلمانوں پر چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی پابندی لگائی گئی ہے۔ یعنی ہم مسلمانوں کو تحدیدِ ازواج اور لونڈیوں کے بارے میں جو احکام دے چکے ہیں وہ ہمارے پیش نظر ہیں۔ لیکن ہم نے اس آیت کریمہ میں جس طرح آپ کو چار سے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت دی ہے جبکہ آپ مہر انھیں ادا کردیں۔ اسی طرح اپنے قریبی رشتہ کی ایسی خاتون سے جس نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو، اور ایسی خاتون سے جو جہاد کے نتیجہ میں بطور غنیمت حاصل ہو اور ایسی کسی خاتون سے جو اپنی ذات کو آپ ﷺ کو ہبہ کردے اور آپ ﷺ اس سے نکاح کرنا پسند فرمائیں۔ آپ کو یہ سہولتیں اس لیے دی گئی ہیں تاکہ اس باب میں آپ پر کوئی تنگی نہ رہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تنگی نہ رہنے کا مفہوم کیا ہے۔ جو لوگ آنحضرت ﷺ کے بلند مقام سے آگاہ نہیں یا انھوں نے آپ کے سیرت و کردار کا مطالعہ نہیں کیا وہ بعض دفعہ اس سے غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور اس سے یہ مطلب نکالتے ہیں کہ آپ کو شاید خواہشاتِ نفسانی پورا کرنے کی کھلی اجازت دی گئی تھی۔ لیکن جن لوگوں نے آپ کے سیرت و کردار کا کچھ بھی مطالعہ کیا وہ کبھی بھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اب وہ جانتے ہیں کہ آپ جوانی میں ایسی حسین و جمیل شکل و صورت کے مالک تھے کہ کسی نگاہ نے آپ جیسا کوئی دوسرا جوان نہ دیکھا تھا اور مکہ بھر میں آپ سے زیادہ کوئی نیک نام نہ تھا۔ خاندانی شرافت کے اعتبار سے آپ کسی سے کم نہ تھے۔ اور پچیس سال کی عمر میں آپ ایک کامیاب تاجر کی شہرت حاصل کرچکے تھے۔ ان تمام صفات کی موجودگی میں آپ کے لیے کسی نوجوان دوشیزہ سے شادی کرنا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ باایں ہمہ آپ نے ایک ایسی خاتون سے شادی کی جو آپ سے پندرہ سال عمر میں بڑی تھیں۔ لیکن اپنی عفت مآبی اور حُسنِ کردار میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھیں۔ اور ان کی وفات تک جبکہ آپ کی عمر باون سال ہوچکی تھی نہایت خوشدلی سے ان کے ساتھ زندگی گزاری۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت سودہ ( رض) سے شادی فرمائی جو ایک عمر رسیدہ خاتون تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) آپ کے گھر میں اس وقت آئیں جب آپ کی عمر تقریباً پچپن سال کی ہوچکی تھی اور ستاون سال کی عمر تک آپ کے گھر میں چار بیویاں تھیں۔ اس تفصیل کو دیکھتے ہوئے کیا کوئی شخص اس وہم میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ پروردگار آپ کی جس تنگی کو دور کرنے کا ذکر فرما رہا ہے اس کا تعلق نفسانیت سے تھا۔ آپ کے لیے حرج اور تنگی کو دور کرنے کے دو حوالے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ایک ایسی قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے جس سے زیادہ ناتراشیدہ قوم کوئی نہ تھی۔ ایسی قوم کو من حیث المجموع بدل دینا آپ کے پیش نظر تھا۔ آپ نے ان کی معاشرت کو بدلا، معیشت کو سنوارا، اخلاق و عادات درست کیے، ان کی زندگی کی ترجیحات بدلیں، قبائلی تعصب سے نکال کر امت کا شعور ان میں پیدا کیا، نفسانی عوارض کو ملی اور نظریاتی عواطف و میلانات میں بدلا۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ مردوں ہی میں پیدا نہیں کیا، عورتوں میں بھی پیدا فرمایا۔ کیونکہ جس طرح مردوں کی تعلیم و تربیت آپ کی ذمہ داری تھی، اسی طرح عورتوں کی تعلیم و تربیت بھی آپ کے فرائض میں شامل تھی۔ اب مشکل یہ تھی کہ آپ نے مردوں میں انفرادی اور اجتماعی اصلاح و تربیت کے لیے تو اپنے اصحاب کو اپنی معاونت کے لیے ہمراہ رکھا۔ لیکن عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ کا کوئی معاون نہ تھا۔ اور آپ خود بھی آزادانہ ان کے اندر آجا نہیں سکتے تھے۔ کیونکہ اسلام نے مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ اگر آپ اس قاعدے کو توڑتے تو بعد کے آنے والے امت کے رہنما اور پیشوا اس سے نہ جانے کیسے فائدہ اٹھاتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ انتظام فرمایا۔ اور اس کے سوا اور کوئی صورت ممکن بھی نہ تھی کہ مختلف عمروں اور ذہنی صلاحیتوں کی متعدد خواتین سے آپ کا نکاح فرمایا۔ اور آپ نے انھیں براہ راست تعلیم و تربیت دے کر اپنی مدد کے لیے تیار کیا۔ چناچہ آپ کی ازواجِ مطہرات نے اللہ تعالیٰ کا دین پہنچانے، سکھانے اور اس کے مطابق تربیت دینے کے جو کارنامے انجام دیے ہیں وہ اگر جلیل القدر صحابہ سے بڑھ کر نہیں تو ان سے کسی طرح کم بھی نہیں۔ آنحضرت ﷺ کے سپرد ایک اور خدمت بھی کی گئی تھی کہ آپ نے صرف اللہ تعالیٰ کے دین کو بندوں تک پہنچانا ہی نہیں تھا بلکہ پرانے جاہلی نظام زندگی کو ختم کرکے اس کی جگہ اسلامی نظام زندگی کو عملاً قائم کرنا تھا۔ اور اسلامی قوتوں کے لیے ایک ایسا بیس اور مرکز فراہم کرنا تھا جو انقلاب کا سرچشمہ بنے اور وہاں سے دنیا کے ان علاقوں میں اللہ تعالیٰ کا دین پھیلانے کے لیے جماعتیں نکلتی رہیں جہاں اللہ تعالیٰ کا دین نہیں پہنچا تھا۔ اس خدمت کی انجام دہی میں جاہلی نظام کے علمبرداروں سے جنگ ناگزیر تھی۔ اور یہ کشمکش ایک ایسے ملک میں پیش آرہی تھی جہاں قبائلی روایات پوری طرح زندہ تھیں اور ہر قبیلہ اپنے اعتقادات کی حفاظت میں دوسرے قبیلوں کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ تھا۔ چناچہ ان تمام قوتوں کو توڑنے اور ان کے مقابلے میں حزب اللہ کو قائم اور مضبوط کرنے کے لیے ضروری تھا کہ آپ مختلف خاندانوں میں نکاح کرکے بہت سی دوستیوں کو پختہ اور بہت سے عداوتوں کو ختم یا کمزور کردیں۔ چناچہ اگر گہری نظر سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ جن خواتین سے آپ نے شادیاں فرمائیں ان کے ذاتی اوصاف کے علاوہ ان کے انتخاب میں یہ مصلحت بھی کم و بیش شامل تھی۔ حضرت عائشہ ( رض) اور حضرت حفصہ ( رض) کے ساتھ نکاح کرکے آپ نے حضرت ابوبکر صدیق ( رض) اور حضرت عمر ( رض) کے ساتھ اپنے تعلقات کو اور زیادہ گہرا اور مستحکم کردیا۔ حضرت ام سلمہ ( رض) اس خاندان کی بیٹی تھیں جس سے ابوجہل اور حضرت خالد بن ولید ( رض) جیسے لوگوں کا تعلق تھا۔ اور حضرت ام حبیبہ ( رض) حضرت ابوسفیان کی بیٹی تھیں۔ ان شادیوں نے بڑی حد تک ان خاندانوں کی دشمنی کے اشتعال کو مدھم کردیا۔ حضرت ام حبیبہ ( رض) سے نکاح کے بعد ابوسفیان پھر کبھی حضور ﷺ کے مقابلے میں نہ آئے۔ حضرت صفیہ، جویریہ اور ریحانہ یہودی خاندانوں سے تھیں۔ ان سے نکاح کے نتیجے میں یہودیوں کی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑگئیں۔ کیونکہ اس زمانے کی عربی روایات کے مطابق داماد سے لڑنا بڑے عار کی بات سمجھی جاتی تھی۔ غور فرمایئے کہ اگر پروردگار آپ کو چار سے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت نہ دیتا اور آپ کے لیے مزید کچھ آسانیاں پیدا نہ فرماتا، تو جو عظیم کام آپ کے سپرد کیا گیا تھا اس کی بجاآوری میں کس قدر دشواریاں پیش آتیں۔
Top