Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 52
لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۢ بَعْدُ وَ لَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا۠   ۧ
لَا يَحِلُّ : حلال نہیں لَكَ : آپ کے لیے النِّسَآءُ : عورتیں مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَلَآ : اور نہ اَنْ تَبَدَّلَ : یہ کہ بدل لیں بِهِنَّ : ان سے مِنْ : سے (اور) اَزْوَاجٍ : عورتیں وَّلَوْ : اگرچہ اَعْجَبَكَ : آپ کو اچھا لگے حُسْنُهُنَّ : ان کا حسن اِلَّا : سوائے مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ ۭ : جس کا مالک ہو تمہارا ہاتھ (کنیزیں) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے رَّقِيْبًا : نگہبان
اس کے بعد آپ کے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ اس کی اجازت ہے کہ آپ ان کی جگہ دوسری بیویاں لے آئیں چاہے ان کا حسن آپ کو کتنا ہی اچھا لگے، سوائے لونڈیوں کے، اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے
لاَ یَحِلُّ لَکَ النِّسَآئُ مِنْ م بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِھِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُھُنَّ اِلاَّ مَامَلَـکَتْ یَمِیْنُکَ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ رَّقِیْبًا۔ (الاحزاب : 25) (اس کے بعد آپ کے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ اس کی اجازت ہے کہ آپ ان کی جگہ دوسری بیویاں لے آئیں چاہے ان کا حسن آپ کو کتنا ہی اچھا لگے، سوائے لونڈیوں کے، اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔ ) نکاح کے معاملے میں آنحضرت ﷺ پر بعض پابندیاں آیت پچاس میں خواتین کی جن اصناف کا ذکر فرمایا گیا ہے ان کے علاوہ تمام عورتیں نبی کریم ﷺ کے لیے حرام کردی گئیں۔ ہمارے اکثر آئمہ ٔ تفسیر کے ساتھ ساتھ علامہ ابن کثیر نے بھی یہی رائے نقل کی ہے کہ وَمَاسِوٰی ذَلِکَ مِنْ اَصْنَافِ النِّسَائِ فَلاَ یَحِلُّ لَکَ ” یعنی ان کے سوا دوسری اقسام کی جو خواتین ہیں وہ تمہارے لیے جائز نہیں جبکہ دوسرے مسلمانوں کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ چار کی حد کو ملحوظ رکھتے ہوئے محرمات کے دائرے سے باہر جس عورت سے چاہیں نکاح کریں۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا کہ آپ اپنی ازواج میں سے کسی کو الگ کرکے دوسری بیوی نہیں لاسکتے، اگرچہ وہ آپ کی نظروں میں کتنی ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو، جبکہ دوسرے مسلمانوں کو اس کی اجازت تھی کہ وہ اپنی منکوحات میں سے جس کو چاہیں طلاق دے کر اس کی جگہ کوئی دوسری بیوی اپنی پسند کی بیاہ لائیں۔ البتہ آپ کو دیگر مسلمانوں کی طرح ملک یمین کی اجازت دی گئی، یعنی آپ ان لونڈیوں سے تمتع کرسکتے تھے جو آپ کو جنگ و جہاد میں مال غنیمت کے نتیجے میں ہاتھ آئیں۔ ان میں بھی جو عورتیں بڑے گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں ان کو آپ نے آزاد کرکے مہردے کر ان سے نکاح کرلیا۔ صرف ایک حضرت ماریہ ( رض) ہیں جنھیں مقوقسِ مصر نے آپ کی خدمت میں تحفۃً بھیجا تھا، وہ آپ کے قبضہ میں آئیں اور ان سے آپ نے تمتع کیا اور ان کے بطن سے آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم ( رض) پیدا ہوئے۔ یہ یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں پر غلاموں اور لونڈیوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آئے دن کی جنگوں میں جو قیدی پکڑے جاتے انھیں غلام بنا لیا جاتا اور جو عورتیں پکڑی جاتیں ان کو لونڈیاں بنا لیا جاتا۔ تو نہ جنگوں کی تعداد مقرر کی جاسکتی تھی اور نہ جنگی اسیروں کی۔ تو غلاموں اور لونڈیوں کی تعداد کیسے مقرر کی جاتی۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح مالدار لوگوں کے لیے عیاشی کا ایک ذریعہ نکالا گیا ہے جس سے نفس پرست لوگوں نے بیجا فائدہ اٹھایا۔ ممکن ہے کسی زمانے میں ایسا ہوا ہو لیکن سوال یہ ہے کہ قانون تو لوگوں کی سہولت کے لیے بنایا جاتا ہے اور اس میں انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اس سے غلط فائدہ اٹھائے، تو اس میں قانون کا کیا قصور ہے۔ مثلاً شریعت ایک مرد کو چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دیتی ہے اور اسے یہ حق بھی دیتی ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لے آئے۔ اور یہ حق اسے انسانی ضروریات کے تحت دیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص محض عیاشی کی خاطر بیویوں کو بدلتا رہے تو یہ قانون کی گنجائشوں سے ناروا فائدہ اٹھانا ہے جس کی ذمہ داری خود اس شخص پر ہے، قانون پر نہیں۔ اور نبی کریم ﷺ نے ایسی رعایتوں سے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اور آپ نے جتنے نکاح بھی کیے حظ نفس کے لیے نہیں، تالیفِ قلب، دلداری اور مصالح ملت کی خاطر کیے۔ آپ پر اصلاحِ خلق کا جو عظیم بار ڈالا گیا تھا ازواجِ مطہرات نے آپ کے ساتھ شریک ہو کر اس بار میں اپنا حصہ ادا کرنے کی کوشش کی۔ جب کوئی شخص اس پہلو سے آنحضرت ﷺ کی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور ازواجِ مطہرات کے عمل کو دیکھے گا تو اسے آپ کا گھرانہ غیرمعمولی ہی نہیں فرشتوں کا گھر معلوم ہوگا۔ آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگران ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ آیت تذکیر و تنبیہ کے لیے ہے اور اس کے مخاطب آنحضرت ﷺ بھی ہیں اور ازواجِ مطہرات بھی۔ اور درجہ بدرجہ باقی لوگ بھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ہر شخص مسٔول ٹھہرایا گیا ہے اور جو جتنا بڑا ہے اتنا ہی زیادہ مسٔول ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی چونکہ ہر معاملے میں امت کے لیے نمونہ ہیں وہ باوجود اس کے کہ معصوم بھی ہیں اور محفوظ بھی۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں مسٔولیت کے حوالے سے ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہے ہیں۔ اور ان کا یہ محاسبہ بھی امت کے لیے ایک نمونہ بن گیا ہے۔
Top