Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 53
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُ١ۙ وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ١٘ وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ١ؕ وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١ؕ وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتَ : گھر (جمع) النَّبِيِّ : نبی اِلَّآ : سوائے اَنْ : یہ کہ يُّؤْذَنَ : اجازت دی جائے لَكُمْ : تمہارے لیے اِلٰى : طرف (لیے) طَعَامٍ : کھانا غَيْرَ نٰظِرِيْنَ : نہ راہ تکو اِنٰىهُ ۙ : اس کا پکنا وَلٰكِنْ : اور لیکن اِذَا : جب دُعِيْتُمْ : تمہیں بلایا جائے فَادْخُلُوْا : تو تم داخل ہو فَاِذَا : پھر جب طَعِمْتُمْ : تم کھالو فَانْتَشِرُوْا : تو تم منتشر ہوجایا کرو وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ : اور نہ جی لگا کر بیٹھے رہو لِحَدِيْثٍ ۭ : باتوں کے لیے اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : یہ تمہاری بات كَانَ يُؤْذِي : ایذا دیتی ہے النَّبِيَّ : نبی فَيَسْتَحْيٖ : پس وہ شرماتے ہیں مِنْكُمْ ۡ : تم سے وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَسْتَحْيٖ : نہیں شرماتا مِنَ الْحَقِّ ۭ : حق (بات) سے وَاِذَا : اور جب سَاَلْتُمُوْهُنَّ : تم ان سے مانگو مَتَاعًا : کوئی شے فَسْئَلُوْهُنَّ : تو ان سے مانگو مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ۭ : پردہ کے پیچھے سے ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات اَطْهَرُ : زیادہ پاکیزگی لِقُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں کے لیے وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ : اور ان کے دل وَمَا كَانَ : اور (جائز) نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تُؤْذُوْا : کہ تم ایذا دو رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول وَلَآ : اور نہ اَنْ تَنْكِحُوْٓا : یہ کہ تم نکاح کرو اَزْوَاجَهٗ : اس کی بیبیاں مِنْۢ بَعْدِهٖٓ : ان کے بعد اَبَدًا ۭ : کبھی اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات كَانَ : ہے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک عَظِيْمًا : بڑا
اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو، مگر یہ کہ تم کو کسی کھانے پر آنے کی اجازت دی جائے، نہ کہ انتظار کرتے ہوئے کھانے کی تیاری کی، لیکن جب تم کو بلایا جائے تو ضرور آئو، پھر جب تم کھانا کھا چکو تو منتشر ہوجائو، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو، تمہاری یہ حرکتیں نبی کریم ﷺ کو تکلیف دیتی تھیں لیکن وہ تمہارا لحاظ کرتے تھے اور اللہ حق کے اظہار میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا، اور جب تم کو نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے، تمہارے لیے ہرگز جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچائو اور نہ یہ جائز ہے کہ تم اس کی بیویوں سے اس کے بعد نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّآ اَنْ یُّؤذَنَ لَـکُمْ اِلٰی طَعَامٍ غَیْرَنٰظِرِیْنَ اِنٰـہُ لا وَلٰـکِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلاَ مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ ط اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْـکُمْ ز وَاللّٰہُ لاَ یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ ط وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ط ذٰلِکُمْ اَطْھَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِھِنَّ ط وَمَا کَانَ لَـکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَآ اَنْ تَنْـکِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْ م بَعْدِہٖٓ اَبَدًا ط اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ عِنْدَاللّٰہِ عَظِیْمًا۔ (الاحزاب : 53) (اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو، مگر یہ کہ تم کو کسی کھانے پر آنے کی اجازت دی جائے، نہ کہ انتظار کرتے ہوئے کھانے کی تیاری کی، لیکن جب تم کو بلایا جائے تو ضرور آئو، پھر جب تم کھانا کھا چکو تو منتشر ہوجاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو، تمہاری یہ حرکتیں نبی کریم ﷺ کو تکلیف دیتی تھیں لیکن وہ تمہارا لحاظ کرتے تھے اور اللہ حق کے اظہار میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا، اور جب تم کو نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے، تمہارے لیے ہرگز جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچائو اور نہ یہ جائز ہے کہ تم اس کی بیویوں سے اس کے بعد نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ ) اسلامی معاشرت کے چند آداب پیشِ نظر آیت کریمہ میں مسلمانوں کے ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے اور اسلامی معاشرت سے متعلق چند آداب و احکام بیان کیے گئے ہیں۔ سببِ نزول کے اعتبار سے چونکہ اس کا تعلق آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی اور آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات سے ہے اس لیے بیوت النبی کا ذکر فرمایا گیا ہے لیکن ان احکام میں عموم پایا جاتا ہے۔ کیونکہ شریعت کا یہ مسلمہ اصول ہے العبرۃ لعموم اللفظ لالخصوص السبب ” یعنی اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے سبب کے اختصاص کا نہیں۔ “ آداب کی تعلیم میں چار احکام دیے گئے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ چار ادب سکھائے گئے ہیں۔ پہلا ادب یہ ہے کہ جب تک تمہیں گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے یعنی تمہیں کھانے کی دعوت نہ دی جائے اس وقت تک نبی کریم ﷺ کے گھروں میں تمہیں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ اس میں دو ادب سکھائے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ گھروں میں داخل ہونے کے لیے اجازت طلبی ضروری ہے اور اگر اجازت نہ دی جائے تو واپس پلٹ جاؤ۔ اور دوسری یہ بات کہ کسی دعوت میں بن بلائے مت جاؤ۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب انھیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ کھانے کی تقریب ہے تو وہ بن بلائے پہنچ جاتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس سے روکا گیا۔ اور بعد میں نبی کریم ﷺ نے مختلف مواقع پر اپنے عمل سے اس کی وضاحت فرمائی۔ تیسرا ادب یہ سکھایا گیا ہے کہ اگر کسی دعوت میں بلایا جائے تو اسے بہانہ بنا کر کھانے کی تیاری کے انتظار میں وہیں دھونی رما کر مت بیٹھ رہو۔ جس دین نے اپنے ماننے والوں کو قناعت اور کفایت کی تعلیم دی ہے اور فقیری اور ناداری کی حالت میں بھی خودداری کا ادب سکھایا ہے ان کے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں کہ وہ کسی طماعی اور سفلہ پن کا اظہار کریں۔ اور ساتھ ہی یہ بات بھی کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں لوگوں کا رہن سہن نہایت سادہ تھا، زنانہ مکانوں کے ساتھ مردانہ بیٹھکیں نہیں تھیں۔ ایسے میں قبل از وقت لوگوں کا جمع ہوجانا اہل خانہ کے لیے اذیت کا باعث ہوتا تھا۔ اس لیے اس بات سے روکا گیا کہ کھانے کے پکنے کے انتظار میں مت بیٹھو۔ آیت میں ناظرین، منتظرین کے معنی میں ہے اور اِنٰـہُ میں اِنَاکھانا پکنے کو کہتے ہیں۔ اس کے بعد گھروں اور تقریبات میں آنے کے لیے صحیح طریقہ ارشاد فرمایا گیا۔ وہ یہ ہے کہ جب تمہیں بلایا جائے تو کھانے کے وقت پہنچو تاکہ میزبان کو کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اور جب کھانا کھا چکو تو وہاں سے منتشر ہوجاؤ، طویل باتیں چھیڑ کر وہاں نہ بیٹھے رہو۔ کیونکہ بعض دفعہ مہمانوں کا کھانے کے بعد دیر تک بیٹھے رہنا میزبان کے لیے باعث کلفت ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ میزبان کے لیے اس کے بعد کچھ اور ضروری مصروفیات ہوں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جگہ کی تنگی کے باعث مہمانوں کو باری باری کھلایا جارہا ہو۔ ظاہر ہے کہ پہلے مہمانوں کے جانے کے بعد دوسرے مہمانوں کو کھانے پر بلایا جاسکے گا۔ اور اگر پہلے مہمانوں میں سے کچھ لوگ باتوں میں لگے بیٹھے رہیں تو میزبان کو بھی تکلیف ہوگی اور مہمان بھی اذیت محسوس کریں گے۔ ہاں اگر یہ اندازہ ہوسکے کہ میزبان کی خواہش ہے کہ مہمان دیر تک تشریف رکھیں تاکہ اس کی تقریب کے لیے رونق کا سامان بنیں اور جگہ کی کشادگی کے باعث کسی تنگی کا بھی اندیشہ نہ ہو۔ تو پھر دیر تک بیٹھنے اور باتوں میں لگے رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ کی کریم النفسی اور مروت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو بہت بلند وبالا خصلتوں اور عادتوں کا پیکر بنایا ہے۔ اس لیے تمہارا وقت سے پہلے آبیٹھنا اور پھر دیر تک بیٹھ کر باتیں کرتے رہنا اور اجازت لیے بغیر اندر چلے آنا اس سے انھیں جگہ کی تنگی اور مردانہ اور زنانہ حصہ ایک ہونے کی وجہ سے جو اذیت پہنچتی تھی وہ اپنی کریم النفسی کے باعث اس کا اظہار نہیں فرماتے تھے۔ تکلیف برداشت کرلیتے تھے لیکن مہمانوں سے کچھ کہنا لحاظ اور مروت کے خلاف سمجھتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ حق کے اظہار میں کسی کا لحاظ نہیں فرماتا۔ یہ باتیں اسلامی معاشرت کے نقطہ نگاہ سے بہت نقصان دہ ہیں اور ان ہی سے بہت سے مفاسد بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ تمہیں ان باتوں سے آگاہ فرما رہا ہے تاکہ اسلامی معاشرہ انسانی خصائلِ حمیدہ کا صحیح ترجمان ثابت ہو۔ صحابہ کرام ( رض) کا معاشرہ جو ہمہ جہت تربیت کے بعد تمام نوع انسانی کے لیے ایک نمونے کا معاشرہ بنا۔ یہ صرف آنحضرت ﷺ کی تربیت کا اعجاز اور اسلامی اخلاق کا اثر تھا ورنہ اہل عرب اپنے عادات واطوار میں اس وقت کی دنیا میں سب سے زیادہ اجڈ اور غیرشائستہ تھے۔ وہ معاشرے کے بنیادی آداب سے بھی تہی دامن تھے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کی تربیت میں جس طرح نہایت حکیمانہ طریقہ اختیار کیا اسی طرح اپنے مزاج کے خلاف ان کی بہت سی ناشائستہ باتوں کو بھی برداشت کیا۔ اور جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں آپ اپنی کریم النفسی کے باعث لوگوں کی غلط باتوں پر ٹوکنا اور خاص طور پر گھر آئے ہوئے مہمانوں کو کسی بات پر تنبیہ کرنا خلاف مروت سمجھتے تھے اس لیے آپ اذیت برداشت کرتے تھے لیکن کہنا پسند نہ تھا۔ آپ کے خادم خاص حضرت انس ابن مالک ( رض) کی روایت ہے کہ حضرت زینب ( رض) کے ولیمے میں سب لوگ تو کھانے سے فارغ ہو کر رخصت ہوگئے مگر دو تین حضرات بیٹھ کر باتیں کرنے میں لگ گئے۔ تنگ آکر حضور ﷺ اٹھے اور ازواجِ مطہرات کے یہاں ایک چکر لگایا۔ واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ پھر پلٹ گئے اور حضرت عائشہ ( رض) کے حجرے میں جا بیٹھے۔ اچھی خاص رات گزر جانے کے بعد جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ چلے گئے ہیں تب آپ حضرت زینب ( رض) کے مکان میں تشریف لائے۔ اس کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں اور اصلاحِ معاشرت کے ساتھ ساتھ پردے کے بھی چند احکام دیے گئے۔ اور سورة النور میں ان احکام کی تکمیل کی گئی۔ پردے کے بارے میں چند احکام سب سے پہلے جیسا کہ آیت کے آغاز میں گزرا گھروں میں بلا اجازت داخلے پر پابندی لگائی گئی۔ لیکن سبب نزول چونکہ حضرت زینب ( رض) کا واقعہ ہوا اس لیے نبی کریم ﷺ کے گھروں کا ذکر فرمایا گیا۔ اور مزید یہ بات کہ آپ کا گھر چونکہ تمام امت کے لیے ایک نمونہ تھا اس لیے ہر مسلمان یہ بات سمجھتا تھا کہ جو پابندی آنحضرت ﷺ کے گھرانے پر لگے گی وہی سارے مسلمانوں کی روش بن جائے گی۔ چناچہ اس حکم کے بعد جیسے ہی ازواجِ مطہرات کے گھروں میں دروازوں پر پردے لٹکائے گئے تو اس کی تقلید میں تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے۔ پردے کے سلسلے میں دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ جب غیر مردوں کو عورتوں سے کوئی چیز مانگنے کی ضرورت پڑے تو وہ دندناتے ہوئے ان کے سامنے نہ چلے جائیں بلکہ پردے کی اوٹ سے مانگیں۔ بظاہر یہ بات بہت پابندی کی معلوم ہوتی ہے کہ معمولی معمولی بات کے لیے بھی پردے کا اہتمام کیا جائے۔ لیکن یہ کوئی تکلف نہیں بلکہ دل کو آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک نہایت ضروری تدبیر ہے۔ آج کے لوگ انسانی احساسات کے حوالے سے کیسے ہی مفروضوں پر بات کریں لیکن جس نے دلوں کو پیدا کیا ہے وہ ان کی حقیقت کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک بات تو یہ ارشاد فرمائی الا ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسدکلہ واذا فسدت الجسد کلہ الا وھی القلب ” خبردار انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ تندرست ہے تو سارا جسم تندرست ہے، اور جب اس میں فساد پیدا ہوجاتا ہے تو سارا جسم فاسد ہوجاتا ہے، خبردار وہ دل ہے۔ “ یہی احساسات کا مرکز اور یہی انفعالات کا مورد ہے۔ یہیں سے جذبات ابھرتے اور یہیں جذبات بسیرا کرتے ہیں۔ اس لیے اسلام نے دل کی صحت پر بہت زور دیا ہے۔ اور اسی پر تمام اخلاقی صحت کو منحصر ٹھہرایا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ ہمارے آج کے تہذیب خوردہ لوگ اپنے کپڑوں کی صفائی کا تو بڑا اہتمام رکھتے ہیں۔ کہیں ایک شکن یا دھبہ بھی پڑجائے تو برداشت نہیں ہوتا۔ لیکن ان کے دل بداخلاقی اور سفلی جذبات کی گندگی میں اٹے رہیں تو انھیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ لیکن اسلام چونکہ کردار کی تعمیر اور اخلاق کی تطہیر کے لیے دل کی اصلاح کو بنیاد بناتا ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کن کن راستوں سے دل میں برائی داخل ہوتی ہے اور وہ کون سی برائیاں ہیں جن کا اثر دل قبول کرتا ہے۔ اس لیے اس نے ضروری سمجھا کہ مرد اور عورت کے درمیان پردہ کرایا جائے۔ بےحجاب عورت اور بےباک نگاہیں دل کی بربادی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ مردوزن کا اختلاط قلبی زندگی کی تمام دیواروں کو گرا دیتا ہے۔ دل انسانی جسم میں جس طرح جسمانی حیات کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، اسی طرح اخلاقی طہارت کے لیے بھی سب سے زیادہ قدر و قیمت رکھنے والا اور سب سے زیادہ حساس ہے۔ اس لیے اس کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مردوں کے لیے گھروں میں آنے پر پابندی لگائی اور پھر مرد و عورت کے درمیان ایک اوٹ کھڑی کردی کہ اگر ضروری بات بھی کہنے کا موقع آئے تو اوٹ کے پیچھے کھڑے ہو کر کی جائے۔ اور کوئی چیز مانگنی ہو تو حجاب کے پیچھے سے مانگی جائے۔ پردے کے سلسلہ میں تیسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے یہ بات زیبا نہیں کہ جن باتوں سے روکا گیا ہے ان میں سے کسی کے ارتکاب سے آنحضرت ﷺ کو اذیت پہنچائے اور نہ آپ ﷺ کے بارے میں اور آپ کی ازواجِ مطہرات کے بارے میں کوئی ایسی بات دل میں لائے اور یا کوئی ایسی بات دلچسپی سے سنے جس سے آنحضرت ﷺ کی عزت و حرمت میں فرق آتا ہو۔ اور جسے منافقین اور دشمنانِ دین آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کا اخلاقی تفوق ختم کرنے کے لیے خود گھڑتے اور ادھر ادھرپھیلاتے تھے۔ اس سے منافقین کو تنبہ فرمایا گیا اور مسلمانوں کو بھی اور زیادہ محتاط رہنے کی ترغیب دی گئی۔ اس عبارت میں نہایت اہم نکتہ قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اس آیت کریمہ میں اس سے پہلے دو دفعہ آنحضرت ﷺ کے لیے نبی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ لیکن جب ایذائے رسول سے رکنے کا حکم دیا تو رسول کا لفظ استعمال فرمایا۔ اس سے شاید یہ تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ رسول اپنی قوم کے لیے خدا کی عدالت ہوتا ہے۔ اس کی تشریف آوری اتمامِ حجت اور نیکوں اور بدوں میں فیصلہ کردینے کے لیے ہوتی ہے۔ اس لیے منافقین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کو کسی طرح کی ایذا پہنچانا بھی کوئی معمولی بات نہیں۔ اس سے ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ان کا حدود سے تجاوز ان کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ چوتھا حکم یہ دیا گیا کہ ازواجِ مطہرات کا آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد کسی سے نکاح جائز نہیں۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج کی حیثیت امت کی مائوں کی ہے۔ اور ان کے ساتھ تعلق کی یہی نوعیت فطری بھی ہے اور عقلی بھی۔ فطری اس وجہ سے کہ حضور ﷺ کی ازواج کے لیے ہر امتی کے دل کے اندر احترام و عقیدت کا جذبہ اپنی حقیقی ماں کے مقابلے میں بدرجہا زیادہ ہوتا ہے۔ کوئی گیا گزرا شخص بھی اپنی ماں کے ساتھ نکاح کا تصور نہیں کرسکتا، چہ جائیکہ ازواجِ رسول ﷺ کے ساتھ کوئی سوچنے کی زحمت بھی کرے۔ ازواجِ مطہرات کے ساتھ تعلق کی دوسری نوعیت عقلی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ امت کی ماں ہونے کے ساتھ ساتھ امت کے سب ذکورواناث کی معلمات بھی ہیں۔ اور اس منصب پر انھیں خود اللہ تعالیٰ نے مامور فرمایا ہے۔ اس منصب کا عقلی تقاضا یہ ہے کہ انھیں مائوں ہی کے درجہ میں رکھا جائے۔ اور اسی درجے میں وہ اپنے فریضہ ٔ منصبی کو صحیح طور پر ادا کرسکتی ہیں۔ آخر میں فرمایا کہ جن باتوں سے ان آیات میں روکا گیا ہے ان میں سے ہر بات آنحضرت ﷺ کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل ہے اور ان میں سے کسی ایک بات کا ارتکاب بھی نہایت خطرناک نتائج کا سبب ہوسکتا ہے۔
Top