Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 57
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول لَعَنَهُمُ : ان پر لعنت کی اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابًا مُّهِيْنًا : رسوا کرنے والا عذاب
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت دونوں میں لعنت کی ہے اور ان کے لیے اس نے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّلَہُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا۔ (الاحزاب : 57) (بےشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت دونوں میں لعنت کی ہے اور ان کے لیے اس نے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ) اللہ تعالیٰ کو ایذا پہنچانے کا مفہوم اس آیت میں ان لوگوں کا انجام بیان ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت پہنچاتے یا اس کا سبب بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس بات سے بہت بلند ہے کہ اسے ایذا پہنچائی جائے۔ کوئی شخص اپنے اندر یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی تکلیف پہنچا سکے۔ اور خود اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہر تأثروانفعال سے بالاتر ہے۔ اس لیے کسی کی ہر زہ سرائی یا نافرمانی سے اس کا اس طرح اثر قبول کرنا کہ اسے اس سے ایذا محسوس ہو، یہ اس کی شان کے خلاف ہے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایذا پہنچانے سے مراد وہ افعال و اقوال ہیں جو عادتاً ایذا کا سبب بنا کرتے ہیں۔ بعض آئمہ تفسیر نے ان افعال و اقوال کو اس کا مصداق ٹھہرایا ہے جنھیں نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی ایذا کا سبب قرار دیا ہے۔ مثلاً حوادث و مصائب کے وقت زمانہ کو برا کہنا حالانکہ فاعلِ حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، تو جب لوگ زمانہ کو فاعل سمجھ کر گالیاں دیتے ہیں تو درحقیقت وہ فاعلِ حقیقی تک پہنچتی ہیں۔ اور بعض روایات میں ہیں کہ جاندار چیزوں کی تصویریں بنانا بھی اللہ تعالیٰ کی ایذا کا سبب ہے۔ بعض آئمہ تفسیر کا خیال ہے کہ یہاں ایذائے رسول کو اللہ تعالیٰ کی ایذا سے تعبیر کردیا گیا ہے۔ کیونکہ جس چیز سے اللہ تعالیٰ کے رسول کو تکلیف پہنچتی ہے اسی سے اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوتا اور اس سے اس کو ایذا پہنچتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کا کوئی ٹان کہ ٹوٹتا ہے، اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی مخالفت ہوتی ہے، آنحضرت ﷺ کی سنت توڑی جاتی ہے، دین کی نشرواشاعت اور اس کی تنفیذ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، شعائرِاسلام کی توہین کی جاتی ہے اور یا آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق صحابہ کرام ( رض) سے بغض رکھا جاتا ہے اور ان پر ناروا تنقید کی جاتی ہے تو اس سے آنحضرت ﷺ کو ایذا پہنچتی ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوتے ہیں۔ اس کی سزا اللہ تعالیٰ نے یہ مقرر فرمائی ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت میں بھی ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار ہے۔ آج جس طرح اس ملک خداداد میں کلمہ گو مسلمانوں کا خون پانی سے ارزاں کردیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو انسانی غلامی میں تبدیل کردیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کی شریعت کے پرزے اڑا دیے گئے ہیں، اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کا دین لاوارث ہو کر رہ گیا ہے۔ ان میں سے ایک ایک چیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے غضب کو دعوت دینے والی ہے۔ اندیشہ ہے کہ کہیں دنیا ہی میں کوئی عذاب نہ ٹوٹ پڑے۔ اگرچہ عذاب کی مختلف صورتیں پہلے ہی نگاہوں کے سامنے ہیں۔ ملک میں شدید بدامنی اور خانہ جنگی کی کیفیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ وہ عذاب ہے جس کی قرآن کریم بار بار دھمکی دیتا ہے۔ یہ مملکتِ خداداد بری طرح اس کا شکار ہورہی ہے۔ (والی اللّٰہ المشتکی وھوالمستعان)
Top