Ruh-ul-Quran - Faatir : 2
مَا یَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا١ۚ وَ مَا یُمْسِكْ١ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
مَا يَفْتَحِ : جو کھول دے اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے مِنْ رَّحْمَةٍ : رحمت سے فَلَا مُمْسِكَ : تو بند کرنے والا انہیں لَهَا ۚ : اس کا وَمَا يُمْسِكْ ۙ : اور جو وہ بند کردے فَلَا مُرْسِلَ : تو کوئی بھیجنے والا نہیں لَهٗ : اس کا مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ : اس کے بعد وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ جس رحمت کا دروازہ لوگوں کے لیے کھول دے تو کوئی اسے روکنے والا نہیں اور جسے وہ روک دے تو اس کے بعد کوئی اس کو کھولنے والا نہیں اور وہ زبردست اور حکمت والا ہے
مَایَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلاَ مُمْسِکَ لَھَا ج وَمَا یُمْسِکَ لا فَلاَ مُرْسِلَ لَـہٗ مِنْ م بَعْدِہٖ ط وَھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ ۔ (فاطر : 2) (اللہ جس رحمت کا دروازہ لوگوں کے لیے کھول دے تو کوئی اسے روکنے والا نہیں اور جسے وہ روک دے تو اس کے بعد کوئی اس کو کھولنے والا نہیں اور وہ زبردست ہے حکمت والا ہے۔ ) توحید پر ایک اور دلیل مشرکین جس طرح فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی قدرت میں دخیل سمجھتے تھے، اسی طرح جنات اور بعض دوسری قوتوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے شریک کے طور پر پکارتے اور ان کی بندگی بجالاتے تھے۔ اور انھیں گمان یہ تھا کہ ان قوتوں کے خوش رہنے سے انھیں زندگی کی ہر چیز اور ہر راحت میسر آسکتی ہے۔ اور اگر قیامت آئی تو یہی قوتیں ان کے لیے شفیع ثابت ہوں گی۔ چناچہ عقیدہ توحید کے ضمن میں بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان سے فرمایا گیا ہے کہ عطا و بخشش اور دادودہش اور محرومی اور نامرادی میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں۔ وہ جس پر رحمت کا دروازہ کھولتا ہے، کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کو بند کرسکے۔ اور جس کے لیے رحمت کا دروازہ بند کردیتا ہے، کوئی ایسی ذات نہیں جو اسے کھول سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ زبردست، سب پر غالب اور کامل اقتدارِاعلیٰ کا مالک ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ زبردست ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم بھی ہے۔ یہ کھولنا اور باندھنا تمام تر اس کی حکمت کے تقاضوں کے تحت ہوتا ہے۔ وہ جو فیصلہ بھی کرتا ہے سراسر حکمت کی بناء پر کرتا ہے۔ جب وہ کسی کو دیتا ہے تو حکمت اس کی مقتضی ہوتی ہے۔ اگر وہ کسی سے روکتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اسے دینا حکمت کے خلاف ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ آیت کریمہ میں رحمت کا جو لفظ آیا ہے وہ عام ہے، اس میں دینی و اخروی سب نعمتیں شامل ہیں۔ مثلاً ایمان، علم، عمل صالح اور نبوت و ولایت جیسی نعمتیں بھی اس سے مراد ہیں۔ اور دنیوی نعمتیں بھی جیسے رزق، اسبابِ رزق، آرام و راحت، صحت و تندرستی اور رفاہیت و عزت وغیرہ پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ ایک حدیث سے اس مفہوم کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ( رض) نے حضرت معاویہ ( رض) کو ایک حدیث لکھ کے بھیجی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جب آپ نماز سے فارغ ہوئے یہ کلمات پڑھتے ہوئے سنا : اَللّٰھُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَاالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ ” یا اللہ ! جو چیز آپ کسی کو عطا فرما دیں اس کو کوئی روکنے والا نہیں، اور جس کو آپ روک دیں اس کو کوئی دینے والا نہیں، آپ کے ارادے کے خلاف کسی کوشش کرنے والے کی کوشش نہیں چلتی۔ “ مقصود اس طرح کی آیات سے چونکہ دلوں میں عقیدہ توحید کو پختہ کرنا اور اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد کو راسخ کرنا ہے تو ہم صحابہ ( رض) کو دیکھتے ہیں کہ وہ ان آیات سے یہی سبق سیکھتے تھے اور اسی سے ان کی زندگیاں عبارت تھیں۔ حضرت عامر بن قیس ( رض) فرماتے ہیں کہ میں صبح کو اگر یہ چار آیتیں تلاوت کرلوں تو پھر مجھے یہ فکر نہیں رہتی کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ وہ آیتیں یہ ہیں : مَایَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلاَ مُمْسِکَ لَھَا وَمَایُمْسِکُ فَلاَ مُرْسِلَ لَـہٗ مِنْ م بَعْدِہٖ دوسری آیت اسی کے ہم معنی یہ ہے : اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَـہٗ اِلاَّھُوَ ، وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرِ فَلاَ رَٓادَّلِفَضْلِہٖ ، تیسری آیت : سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا، چوتھی : وَمَا مِنْ دَٓابَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلاَّعَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (اخرجہ ابن المنذر، روح المعانی)
Top