Ruh-ul-Quran - Faatir : 32
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا١ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ١ۚ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ
ثُمَّ : پھر اَوْرَثْنَا : ہم نے وارث بنایا الْكِتٰبَ : کتاب الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اصْطَفَيْنَا : ہم نے چنا مِنْ : سے۔ کو عِبَادِنَا ۚ : اپنے بندے فَمِنْهُمْ : پس ان سے (کوئی) ظَالِمٌ : ظلم کرنے والا لِّنَفْسِهٖ ۚ : اپنی جان پر وَمِنْهُمْ : اور ان سے (کوئی) مُّقْتَصِدٌ ۚ : میانہ رو وَمِنْهُمْ : اور ان سے (کوئی) سَابِقٌۢ : سبقت لے جانے والا بِالْخَيْرٰتِ : نیکیوں میں بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ : حکم سے اللہ کے ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ (یہی) الْفَضْلُ : فضل الْكَبِيْرُ : بڑا
پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا، پس ان میں سے کوئی تو اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی ان میں سے بیچ کی راس ہے اور کوئی ان میں سے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْـکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاج فَمِنْھُمْ ظَالِمٌ لِّـنَـفْسِہٖ ج وَمِنْھُمْ مُّقْتَصِدٌ ج وَمِنْہُمْ سَابِقٌ م بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ ھُوَالْفَضْلُ الْـکَبِیْرُ ۔ (فاطر : 32) (پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا، پس ان میں سے کوئی تو اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی ان میں سے بیچ کی راس ہے اور کوئی ان میں سے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے۔ ) کتاب اللہ کے منتخب وارث ثُمَّحرفِ عطف ہے اور ترتیب پر دلالت کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حرف سے پہلے اور بعد کی دونوں چیزیں اصل وصف میں مشترک ہونے کے باوجود تقدیم و تاخیر رکھتی ہیں۔ اور یہ تقدیم و تاخیر زبانی بھی ہوسکتی ہے اور رتبہ و درجہ کے اعتبار سے بھی۔ سوال یہ ہے کہ اس آیت میں ثُمَّ کس تقدیم و تاخیر کی طرف اشارہ کر رہا ہے ؟ اس سے پہلے ہم پڑھ چکے ہیں کہ تمام سابقہ آسمانی کتابوں کے محرّف اور مبدّل ہوجانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آخری کتاب نازل فرمائی، جس کے بارے میں فرمایا کہ یہ وہ حق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے۔ اس میں غیرحق کی کوئی آمیزش نہیں۔ اس کا ہر حکم قطعی اور اس کی ہر پیش گوئی پتھر پر لکیر ہے۔ اسی سے قوموں کی قسمتیں وابستہ ہیں۔ اس پر عمل کرنے والی قومیں سرفراز ہوں گی اور اس کو چھوڑ کر مسلمان دنیا میں ذلیل اور آخرت میں ناکام ہوں گے۔ اسی کتاب کا دیا ہوا نظام زندگی افراد اور اقوام اور اسلامی ریاستوں کا دستورالعمل ہوگا۔ چناچہ لوگوں تک اسے پہنچانے، اس پر عمل کرکے دکھانے اور اس کی بنیاد پر ایک ریاست کو وجود دینے اور پھر ریاست کے ہر شعبے کو اس نظام کا نمائندہ بنانے اور ریاست کے ہر ادارے میں اس کے احکام کو جاری وساری کرنے کی ذمہ داری آنحضرت ﷺ کے سپرد کی گئی۔ چناچہ آپ نے 23 سال کے عرصہ میں ان تمام ذمہ داریوں کو باحسن طریق پورا فرمایا۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اعوان و انصار اور اپنے جانشینوں کی ایک مضبوط جماعت تیار فرمائی جنھیں اس کام کی تکمیل کی ذمہ داری سونپی اور دنیا سے جاتے ہوئے ارشاد فرمایا : ” میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کے جارہا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور میری سنت ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ کا وہ دین جسے اس نے ادیانِ باطلہ پر غالب کرنے کی ذمہ داری آنحضرت ﷺ کے سپرد فرمائی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے وہی ذمہ داری اپنے بعد اس مضبوط جماعت کے سپرد فرمائی جس کے لیے جزیرہ عرب کو بنیاد بنایا گیا تھا اور ہدایت کی گئی تھی کہ باقی نوع انسانی کو اس آب حیات سے جس سے تمہیں زندگی ملی ہے سیراب اور زندہ کرنا ہے۔ چناچہ اسی بات کو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ اصل ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے دین کو غالب اور جاری وساری کرنے کی جو نبی کریم ﷺ پر عائد کی گئی تھی آپ ﷺ نے اپنے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسے اپنی امت کے یہ کہہ کر سپرد فرمائی : وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے جن لوگوں کے یہ کام سپرد کیا گیا اللہ تعالیٰ نے ان کی حیثیت کو بیان فرماتے ہوئے اِصْطَفَیْنَاکا لفظ استعمال فرمایا جس کا معنی ہے کہ ہم نے چن لیا، ہم نے انتخاب کرلیا۔ یعنی دنیا میں قوموں اور امتوں کی کمی نہیں۔ اس سے پہلے بنی اسرائیل جس کام کے لیے چنے گئے تھے، لیکن رفتہ رفتہ وہ نااہل ثابت ہوئے۔ ان کے علاوہ ایشیا کے مختلف ملکوں اور یورپ میں کسی کو بھی چنا جاسکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ عزت اور سعادت براہ راست بنی اسماعیل اور اہل عرب کو عطا کی۔ کیونکہ بہت سی خصوصیات کے باعث وہی اس قابل تھے کہ اس عظیم ذمہ داری کا بوجھ اٹھا سکیں۔ ملکوکیت کے زیراثر مفلوج قومیں طبقات کے زخموں سے نڈھال بکھری ہوئی اولادِ آدم، شہری اور تمدنی زندگی میں اصلی سادگی کھو دینے والی بیمار اکثریت اور فطری زندگی سے کوسوں دور نام نہاد تہذیب کے زخم خوردہ انسانی گروہ اس قابل نہ تھے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کے دین کی بالادستی کا بوجھ ڈالا جاتا۔ جزیرہ عرب میں رہنے والے اپنے اندر ایسی خصوصیات رکھتے تھے کہ اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو وہ اس عظیم ذمہ داری کا بوجھ اٹھا سکتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس ذمہ داری کے لیے ان کو منتخب فرمایا۔ چونکہ اس عظیم کام کے لیے انتخاب اللہ تعالیٰ کے نبیوں کا ہوتا رہا ہے، اس امت کے انتخاب کے لیے بھی وہی لفظ استعمال کیا گیا جو ان کے انتخاب کے لیے کیا جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ایک ایسی عزت سے نوازا جو انھیں انبیائے کرام۔ کے برابر تو نہیں لیکن ان کے قریب کرنے والی تھی۔ منتخب حاملین کے تین طبقات جو امت بھی اس عظیم منصب پر فائز کی جائے گی فطری طور پر اس کے تین ہی طبقات ہوں گے۔ لیکن یہاں ان تین طبقات کے تعین کی ایک صورت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صحابہ ( رض) کی صورت میں جو جماعت اپنے پیچھے چھوڑی تھی اس میں یہ تینوں طرح کے لوگ تھے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے تیار کردہ لوگ تو ایک ہی طرح کے تھے جنھیں سَابِقٌ م بِالْخَیْرٰتِ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن تابعین کے دور میں پہنچ کر ان کے معیار میں کمی آئی اور ان میں وہ طبقہ پیدا ہوگیا جنھیں یہاں مُقْتَصِدٌ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور تبع تابعین کے زمانے میں پہنچ کر وہ تیسرا طبقہ پیدا ہوا جسے ظَالِمٌ لِّـنَـفْسِہٖکہا گیا ہے۔ اس ناچیز کے نزدیک یہ دوسرا امکان زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر پہلی بات کو بھی قبول کرلیا جائے تو جب بھی اس کی سطح یقینا اس سطح سے مختلف ہوگی جو ان الفاظ کے مصداق کے حوالے سے بعد میں ہمیں امت میں دکھائی دیتی ہے۔ جس طرح قرآن کریم انبیائے کرام کی لغزشوں کو بھی گناہ قرار دے دیتا ہے حالانکہ شریعت کی نظر میں وہ گناہ نہیں ہوتا کیونکہ بعض دفعہ ابرار کی نیکیاں بھی مقرب لوگوں کے گناہ شمار ہوتے ہیں۔ کیونکہ دونوں کی سطح میں بےحد تفاوت پایا جاتا ہے۔ اسی طرح صحابہ میں جس کو ظَالِمٌ لِّـنَـفْسِہٖ کہا گیا ہے اس کی سطح یقینا وہ نہیں ہوگی جو امت کے عام گناہ گاروں کی ہے۔ لیکن ہم اپنی رائے پر اصرار کی بجائے امام ابن کثیر کی رائے کو ان الفاظ کی تفسیر میں پیش کررہے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ظالم سے مراد وہ آدمی ہے جو بعض واجبات میں کوتاہی کرتا ہے۔ اور بعض محرمات کا بھی ارتکاب کرلیتا ہے اور مقتصد یعنی درمیانی چال چلنے والا وہ شخص ہے جو تمام واجبات شرعیہ کو ادا کرتا ہے اور تمام محرمات سے بچتا ہے۔ مگر بعض اوقات بعض مستحبات کو چھوڑ بھی دیتا ہے اور بعض مکروہات میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور سَابِقٌ م بِالْخَیْرٰتِ وہ شخص ہے جو تمام واجبات اور مستحبات کو ادا کرتا ہے اور تمام محرمات اور مکروہات سے بچتا ہے۔ اور بعض مباحات کو اشتغالِ عبادت یا شبہ ِ حرمت کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔ جمہور مفسرین بھی اس بات میں امام ابن کثیر کے ہم خیال ہیں۔ لیکن ایک بات واضح رہے کہ یہ تینوں گروہ اعمال کے اعتبار سے تو ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان میں تفاوت پایا جاتا ہے۔ لیکن ان میں کوئی بھی دانستہ معصیت کرنے والا نہیں۔ اور اگر معصیت ہوجائے تو توبہ کرنے میں تاخیر نہیں کرتے۔ اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کے دین کے فروغ اور نفاذ کی ذمہ داریوں کا تعلق ہے اس میں پہلے طبقے کے لوگوں میں ممکن ہے کوئی تساہل پایا جاتا ہو۔ لیکن لاپروائی یا بےنیازی ان میں سے کسی میں بھی نہیں پائی جاتی۔ درجات میں فرق ہوسکتا ہے، لیکن دین سے وابستگی اور دین کے حوالے سے ذمہ داریوں کے احساس کے حوالے سے ان میں کوئی فرق نہیں۔ اور یہی وہ دولت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے فضلِ کبیر قرار دیا ہے۔ اور اسی کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ پہلے گروہ کو بھی اسی طرح جنت کا استحقاق بخشے گا جیسے دوسرے دونوں گروہوں کو۔ البتہ جنت میں تینوں گروہوں کے درجات یقینا ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے۔ چناچہ اس کی تائید نبی کریم ﷺ کی اس حدیث سے ہوتی ہے جسے حضرت ابوالدرداء ( رض) نے روایت کیا ہے۔ اور امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی، بیہقی اور دوسرے محدثین نے نقل کیا ہے۔ اس میں حضور ﷺ فرماتے ہیں : فاما الذین سبقوا فاولئک الذین یدخلون الجنۃ بغیرحساب، واما الذین اقتصدوا فاولئک الذین یحاسبون حسابا یسیرا، واما الذین ظلموا انفسہم فاولئک یحبسون طول المحشر ثم ھم الذین تتلقا ھم اللہ برحمتہ فہم الذین یقولون الحمدللہ الذی اذھب عنا الحزن۔ ” جو لوگ نیکیوں میں سبقت لے گئے ہیں وہ جنت میں کسی حساب کے بغیر داخل ہوں گے، اور جو بیچ کی راس رہے ہیں ان سے محاسبہ ہوگا مگر ہلکا محاسبہ، رہے وہ لوگ جنھوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے تو وہ محشر کے طویل عرصے میں روک رکھے جائیں گے۔ پھر انھیں اللہ اپنی رحمت میں لے لے گا اور یہ لوگ ہیں جو کہیں گے کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کردیے۔ “ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اس آیت کی پوری تفسیر بیان کردی اور اہل ایمان کے تینوں طبقوں کا انجام الگ الگ بیان فرما دیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے انھیں مطلق سزا نہیں ہوسکتی۔ قرآن اور حدیث میں متعدد ایسے جرائم ذکر کیے گئے ہیں جن کے مرتکب کو ایمان بھی جہنم میں جانے سے نہیں بچا سکتا۔ مثلاً مومن کا قتل عمد، قانوناً میراث کی پامالی، اور ایسے ہی بعض دیگر قواعد کا ارتکاب جیسے سودخوری، جہنم میں جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ لیکن اس کی سزا بھگتنے کے بعد یقینا وہ لوگ اپنے ایمان کی وجہ سے جنت میں جائیں گے۔
Top