Ruh-ul-Quran - Faatir : 4
وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ
وَاِنْ : اور اگر يُّكَذِّبُوْكَ : وہ تجھے جھٹلائیں فَقَدْ كُذِّبَتْ : تو تحقیق جھٹلائے گئے رُسُلٌ : رسول (جمع) مِّنْ قَبْلِكَ ۭ : تم سے پہلے وَ اِلَى اللّٰهِ : اور اللہ کی طرف تُرْجَعُ : لوٹنا الْاُمُوْرُ : تمام کام
اے پیغمبر ! اور اگر یہ تمہیں جھٹلاتے ہیں (تو کوئی تعجب کی بات نہیں) آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے گئے ہیں اور اللہ ہی کی طرف سارے معاملے لوٹائے جاتے ہیں
وَاِنْ یُّـکَذِّبُوْکَ فَقَدْکُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ۔ (فاطر : 4) (اے پیغمبر ! اور اگر یہ تمہیں جھٹلاتے ہیں (تو کوئی تعجب کی بات نہیں) آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے گئے ہیں اور اللہ ہی کی طرف سارے معاملے لوٹائے جاتے ہیں۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر قریش اور دوسرے لوگ آپ کی تکذیب کررہے ہیں اور آپ کی نبوت کو ماننے سے انکاری ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ نہ آپ پہلے رسول ہیں، نہ آپ کی مخالفت پہلا تجربہ ہے۔ اس سے پہلے بہت سے رسول آچکے اور بہت سے رسولوں کی امتوں نے ان کی تکذیب کی۔ ان کے حُسنِ سیرت کے اعتراف کے باوجود ان کی نبوت کو ماننے سے انکار کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قومیں بگاڑ کا شکار ہوجاتی ہیں تو وہ اس طرح اپنے غلط مقاصد، نفسانی اغراض اور غلط طرزعمل کی گرفت میں آجاتی ہیں کہ انھیں کے اندر کا بہترین فرد جسے وہ سب سے بہتر خیال کرتے ہیں جب وہ ان کی اصلاح کے لیے نبوت و رسالت کا داعی بن کر اٹھتا ہے تو ان کے سارے اعترافات دھرے رہ جاتے ہیں اور وہ محض اس لیے پیغمبر کی بات سننا گوارا نہیں کرتے کہ انھیں اپنے طرزعمل کو بدلنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔ یہ ایک ایسی تاریخی صداقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ آپ کے مخاطب بھی اگر اسی راستے پر چل نکلے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس میں آپ کی کسی کوتاہی کا دخل ہے، بلکہ یہ اسی مخصوص ذہنیت کا اظہار ہے جو ہر رسول کے دور میں اس کی امت کی جانب سے ہوتا رہا ہے۔ اس کے بعد تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ نفسانی اغراض کے مارے ہوئے لوگوں کی جانب سے کسی کی تکذیب کوئی معنی نہیں رکھتی، کیونکہ یہ تو اپنے غلط جذبات کی گرفت میں آئے ہوئے لوگ ہیں۔ اصل فیصلہ تو وہاں سے ہوگا جہاں تمام معاملات کے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ وہ جگہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ ہے جہاں تمام معاملات لوٹائے جاتے ہیں۔ اس کی بارگاہ سے کبھی خلاف عدل فیصلہ نہیں ہوتا۔ آپ اسی کے بھروسے پر اپنا کام جاری رکھئے اور اپنے معاملے کو اس کے سپرد کردیجیے۔ وہ وقت دور نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا فیصلہ آئے گا جس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ سچا کون تھا اور جھوٹا کون ؟ اور جھوٹے آخر اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
Top