Ruh-ul-Quran - As-Saaffaat : 114
وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَۚ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق مَنَنَّا : ہم نے احسان کیا عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ : موسیٰ پر اور ہارون پر
ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان کیا
وَلَقَدْ مَنَـنَّا عَلٰی مُوْسٰی وَھٰـرُوْنَ ۔ وَنَجَّیْنٰـھُمَا وَقَوْمَھُمَا مِنَ الْـکَرْبِ الْعَظِیْمِ ۔ وَنَصَرْنٰـہُمْ فَکَانُوْا ھُمُ الْغٰلِبِیْنَ ۔ (الصآفات : 114 تا 116) (ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان کیا۔ اور ان کو اور ان کی قوم کو کرب عظیم سے نجات دی۔ ہم نے ان کو نصرت بخشی، تو وہی غالب آنے والے بنے۔ ) حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد میں سے دو رسولوں کی سرگزشت کے بعض اہم گوشوں کا تذکرہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد میں یوں تو بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے اور انھیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی عظمت سے نوازا۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ نمایاں قدوقامت کی حامل دو شخصیتیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بنادیا اور جنھوں نے بنی اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ اپنا وزن محسوس کرایا، وہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) تھے۔ یہ دونوں ایک ایسی قوم میں پیدا ہوئے جو غلامی کی طویل رات کی وجہ سے آزادی کی سحر طلوع ہونے کی امید کھو چکے تھے۔ اور حکمرانوں کے بدترین ظلم اور قابل نفرت رویے کی وجہ سے ان کے اندر آزادی کی تڑپ، خاندانی خصوصیات اور اجتماعی علامات اپنا توازن کھو چکی تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان دونوں بھائیوں کو شخصیت کا ایسا حُسن، اللہ تعالیٰ کے دین پر ایسی استقامت اور اپنی خصوصی تائید و نصرت سے اس طرح نوازا تھا کہ چند ہی سالوں میں فرعون اور آل فرعون جیسے جبار دشمن کو شکست دے کر بنی اسرائیل کو اس عظیم ابتلاء سے نجات دینے میں کامیاب ہوگئے جس میں وہ صدیوں سے مبتلاء تھے۔ ان کی غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں اور غلاموں سے بدتر جو ان کے ساتھ سلوک ہورہا تھا اسے ختم کر ڈالا۔ اور بنی اسرائیل اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ان دو بزرگوں کی نگرانی اور تربیت سے ایک ایسی عظیم امت بن کر اٹھے جس نے صدیوں تک اپنی عظمت کے جھنڈے لہرائے۔ تیسری آیت میں فرمایا کہ ہم نے ان کی مدد کی۔ اس مدد سے مراد وہ تمام آزمائشیں بھی ہوسکتی ہیں جن سے فرعون اور آل فرعون کو ہراساں کیا گیا۔ اور انھیں باور کرایا گیا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے دین کا راستہ روکنے سے باز نہ آئے تو کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوسکتا ہے۔ اس سے وہ نصرت بھی مراد لی جاسکتی ہے جس سے بنی اسرائیل مصر سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اور پھر جب بحرقلزم نے ان کا راستہ روکا اور فرعون کی فوجیں سر پر پہنچ گئیں تو محض اللہ تعالیٰ کی نصرت سے قلزم کا پانی سمٹ گیا اور بنی اسرائیل کو دریا پار کرنے کے لیے راستہ مل گیا۔ اسی طرح اس سے مراد وہ نصرتیں بھی ہوسکتی ہیں جو صحرائے سینا میں مصر سے نکلنے کے بعد من حیث القوم بنی اسرائیل کو وقتاً فوقتاً میسر آتی رہیں۔ حتیٰ کہ وہ اردن اور فلسطین پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
Top