بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 1
تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ
تَنْزِيْلُ : نازل کیا جانا الْكِتٰبِ : یہ کتاب مِنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے الْعَزِيْزِ : غالب الْحَكِيْمِ : حکمت والا
یہ کتاب اتاری گئی ہے اللہ زبردست اور حکیم کی جانب سے
تَنْزِیْلُ الْـکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِالْحَکِیْمِ ۔ (الزمر : 1) (یہ کتاب اتاری گئی ہے اللہ زبردست اور حکیم کی جانب سے۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی اور منکرین کو تنبیہ اس کتاب کو تھوڑا تھوڑا دھیرے دھیرے نازل کیا گیا ہے جو اس کے خصوصی اہتمام پر بھی دلالت کرتا ہے اور اس بات پر بھی کہ مخالفین کے رویئے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ دعوت کی ضرورت میں بھی تبدیلی آتی ہے، جس کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں نئی ہدایت، نئی رہنمائی اور نئے احکام دیئے جائیں۔ اور مخالفین کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا بروقت جواب دیا جائے اور مخالفت سے جو ایک نفسیاتی فضا پیدا ہوتی ہے اس میں حوصلہ دینے کے لیے نئی نصیحت کا نزول ہو۔ چناچہ ان حقائق کی طرف اشارہ کرنے کے لیے تنزیل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اور اس میں یہ بھی تأثر دیا گیا کہ اس کلام کے لکھنے والے یا مرتب کرنے والے نبی کریم ﷺ نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے۔ اس کی تبلیغ و دعوت آنحضرت ﷺ پر ایک فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ ﷺ ذمہ دار ٹھہرائے گئے ہیں۔ اور چونکہ اس کا مقصد انسانوں کی ہدایت ہے اس لیے قریش اور دیگر مخالفین کو اس کا نزول چاہے کتنا ہی برا لگے وہ ایک اٹل حقیقت ہے جسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ اور جس ذات نے اسے اتارا ہے وہ عزیز بھی ہے اور حکیم بھی۔ نبی کریم ﷺ اس ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے کیسے بھی ناموافق حالات سے دوچار ہوں اس میں ناکامی اور مایوسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ جس ذات عزیز نے اسے اتارا ہے اس کے ارادوں میں کوئی حائل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح مخالفین کو بھی یہ یقین رکھنا چاہیے کہ چونکہ اس کا نازل کرنے والا عزیز ہے اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے رسول اور اس کی نازل کردہ کتاب کی مخالفت کے انجام سے دیر تک مامون نہیں رہ سکتے۔ انھیں ایک نہ ایک دن اپنی مخالفت کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کرنا پڑے گی۔ رہی یہ بات کہ اس سلسلے میں مزاحمتیں پیش آرہی ہیں اور آئندہ بھی آئیں گی تو انھیں خدا کی حکمت پر محمول کرنا چاہیے۔ کیونکہ کوئی بات اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر وجود میں نہیں آتی اور اس کا ہر کام حکمت کا نتیجہ ہوتا ہے۔
Top