Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 25
كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ
كَذَّبَ : جھٹلایا الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَاَتٰىهُمُ : تو ان پر آگیا الْعَذَابُ : عذاب مِنْ حَيْثُ : جہاں سے لَا يَشْعُرُوْنَ : انہیں خیال نہ تھا
ان لوگوں نے بھی جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے، تو ان پر عذاب وہاں سے آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ جاسکتا تھا
کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَاَتٰـھُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَشْعُرُوْنَ ۔ فَاَذَا قَھُمُ اللّٰہُ الْخِزْیَ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ م لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۔ (الزمر : 25، 26) (ان لوگوں نے بھی جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے، تو ان پر عذاب وہاں سے آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ جاسکتا تھا۔ پھر اللہ نے ان کو دنیا ہی کی زندگی میں رسوائی کا مزہ چکھایا اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑی چیز ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔ ) قریش کو تنبیہ نبی کریم ﷺ جب قریش اور دیگر مخالفین کو دیکھتے کہ وہ کسی طرح بھی راہ راست پر آنے کے لیے تیار نہیں تو آپ انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے کہ تم نے اگر اپنا رویہ نہ بدلا تو کسی وقت بھی تم پر عذاب نازل ہوسکتا ہے۔ لیکن وہ بےجھجھک اور بےدریغ آپ کا مذاق اڑاتے اور یہ کہتے کہ ہماری سطوت و عظمت اور ہماری دولت و حشمت کے ذرائع نہایت محفوظ ہیں، ہمیں کسی طرف سے بھی ایسی تباہی کا خطرہ نہیں جو ہمیں تباہ کردے۔ اس لیے ہم اس عذاب کو ایک دھمکی کے سوا کچھ نہیں سمجھتے، آپ محض اپنی دھونس جمانے کے لیے اس طرح کی باتیں کرتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے فرمایا جارہا ہے کہ ان سے پہلے بھی جو قومیں گزری ہیں انھوں نے بھی اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو جھٹلایا، ان کی دعوت پر کان دھرنے کے لیے بھی تیار نہ ہوئے، انھوں نے ہرچند کوشش کی لیکن یہ ان کی تکذیب پر اڑے رہے اور نہایت تکبر کے ساتھ ان کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتے رہے۔ حتیٰ کہ جب ہر لحاظ سے اتمامِ حجت ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا ہی میں انھیں رسوائی کے عذاب کا مزہ چکھایا۔ اور وہاں سے عذاب آیا جہاں سے انھیں سان گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ بھی تمہاری طرح یہی سمجھتے تھے کہ ان پر کسی عذاب کے آنے کا کوئی امکان نہیں۔ ان کی بستیاں نہایت محفوظ، ان کے لیے حالات نہایت مناسب اور ان کی حکومتیں نہایت مستحکم تھیں۔ لیکن جب ان پر عذاب آیا تو ان کو ایسا تباہ کیا کہ وہ اپنے پیچھے رسوائی کی داستان چھوڑ گئے۔ تمہیں ان کی تباہی اور بربادی سے سبق سیکھنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی اس صورتحال سے دوچار ہوجاؤ۔ اور پھر آخر میں فرمایا کہ مت سمجھو کہ اس عذاب دنیا کے بعد آخرت کا عذاب نہیں ہوگا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عذاب اس عذاب کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا، وہ عذاب سب سے بڑا اور سب سے عظیم ہے۔ کاش یہ لوگ اس بات کو سمجھتے اور اپنی تباہی سے بچنے کی کوشش کرتے۔
Top