Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 30
اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ٘
اِنَّكَ : بیشک تم مَيِّتٌ : مرنے والے وَّاِنَّهُمْ : ار بیشک وہ مَّيِّتُوْنَ : مرنے والے
اے پیغمبر ! بیشک آپ بھی مرنے والے ہیں اور یقینا وہ لوگ بھی مرنے والے ہیں
اِنَّـکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ ۔ ثُمَّ اِنَّـکُمْ یَوْمَ الْقِیٰـمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ ۔ (الزمر : 30، 31) (اے پیغمبر ! بیشک آپ بھی مرنے والے ہیں اور یقینا وہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔ پھر تم لوگ قیامت کے دن اپنے رب کے حضور اپنا مقدمہ پیش کرو گے۔ ) مَیِّتٌ ” یا “ کی تشدید کے ساتھ، اس کو کہتے ہیں جو زمانہ مستقبل میں مرنے والا ہو اور مَیْت ” یا “ کے سکون کے ساتھ اس کو کہتے ہیں جو مرچکا ہو۔ نبی کریم ﷺ کو تسلی اور مخالفین کو تنبیہ اس آیت کریمہ میں نبی کریم ﷺ کو تسلی ہے اور مخالفین کے لیے تہدید اور تنبیہ ہے۔ آنحضرت ﷺ سے یہ فرمایا جارہا ہے کہ آپ جس طرح نہایت سادہ اور عام فہم انداز میں توحید کی دعوت لوگوں کے سامنے پیش کررہے ہیں اس سے کسی بھی صاحب فہم آدمی کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن ان کج فہموں کا حال یہ ہے کہ یہ اسے قبول کرنے کی بجائے آپ کی دعوت کے مقابلے اور اذیت رسانی کے عمل میں اور تیز ہوگئے اور اس اٹھتی ہوئی صداقت کو دبانے کے لیے ہر طریقہ آزمانے پر تل گئے۔ لیکن آپ اس سے پریشان نہ ہوں۔ نہ آپ کو اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے اور نہ یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے۔ ایک نہ ایک دن آپ بھی موت سے دوچار ہوں گے اور یہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ کیونکہ موت سے کسی کو رستگاری نہیں، جو آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن جانا بھی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا اٹل قانون ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے عظیم پیغمبر بھی بےنیاز نہیں۔ امیر مینائی نے ٹھیک کہا : جو زندہ ہے وہ موت کی تکلیف سہے گا جب احمد مرسل ﷺ نہ رہے کون رہے گا آخرت میں جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری ہوگی تو یہ جو آج توحید اور شرک کی بحث چل رہی ہے اور آپ جن صداقتوں کو اللہ تعالیٰ کے دین کے حوالے سے ان کے سامنے پیش کررہے ہیں اور یہ ہر ممکن طریقے سے ان کو دبانے کے لیے کوشاں ہیں یہ سارے معاملات آپ لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کریں گے اور وہاں سے اس کا فیصلہ صادر ہوگا۔ اس روز سرخرو وہی ہوگا جو حق پر قائم رہا۔ حضرت ابن عباس ( رض) نے الفاظ کو حالت جمع میں دیکھ کر یہ گمان فرمایا ہے کہ یہاں مقدمات و نزاعات خاص نہیں بلکہ تمام مراد ہیں جو لوگ اپنے رب کی عدالت میں پیش کریں گے۔ لیکن سیاق کلام سے جو بات مترشح ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ جو بحث توحید اور شرک کے حوالے سے چل رہی تھی اور یہی آنحضرت ﷺ کی دعوت کا اصل موضوع تھا اسی کا مقدمہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ فرمائیں گے کہ کون حق پر تھا اور کون حق کے راستے میں روڑے اٹکا رہا تھا۔
Top