Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 50
قَدْ قَالَهَا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
قَدْ قَالَهَا : یقینا یہ کہا تھا الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ : سے قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَمَآ اَغْنٰى : تو وہ نہ دور کیا عَنْهُمْ : ان سے مَّا : جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کرتے تھے
یہی بات ان لوگوں نے بھی کہی جو ان سے پہلے گزرے ہیں، ان کے کسی کام نہ آیا جو وہ کماتے تھے
قَدْ قَالَھَا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَمَآ اَغْنٰی عَنْھُمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ۔ (الزمر : 50) (یہی بات ان لوگوں نے بھی کہی جو ان سے پہلے گزرے ہیں، ان کے کسی کام نہ آیا جو وہ کماتے تھے۔ ) گزشتہ آیت کریمہ میں انسان کی جس گمراہی کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، اور جب اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف دور کرکے اسے نعمتوں سے نوازتا ہے تو وہ تکلیف کو بھی بھول جاتا ہے اور نعمتیں دینے والے کو بھی۔ بلکہ ان نعمتوں اور خوشحالیوں کے بارے میں یہ دعویٰ کرنے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کی ذہنی صلاحیت اور قوت بازو کا نتیجہ ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج یہی بات قریش بھی کہہ رہے ہیں اور اس سے پہلے یہی بات ہر دور کے بگڑے ہوئے مترفین کہتے رہے ہیں۔ اور قرآن کریم نے قارون کا اس حوالے سے خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ جب اس کی قوم نے اسے اس کے بگاڑ کی طرف توجہ دلائی اور اسے یاد دلایا کہ یہ دولت تیرے اللہ کا احسان ہے، اسے یاد رکھو اور زمین میں فساد پھیلانے والے مت بنو۔ لیکن اس نے جواب دیا کہ یہ سب کچھ میرے علم کی بدولت حاصل ہوا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا کیا دخل۔ لیکن جب اس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا اور اس کی پکڑ آئی تو وہ مال و دولت اور وہ غیرمعمولی خزانے اس کے کسی کام نہ آئے۔ وہ اپنے آپ کو تجارت اور مالیات کا بہت بڑا ماہر سمجھتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا پکڑا کہ اس کا سارا خزانہ اس کے سمیت زمین میں دھنسا دیا اور پھر اس کی کوئی تدبیر اس کو بچا نہ سکی۔
Top