Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 56
اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰى عَلٰى مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَۙ
اَنْ تَقُوْلَ : کہ کہے نَفْسٌ : کوئی شخص يّٰحَسْرَتٰى : ہائے افسوس عَلٰي : اس پر مَا فَرَّطْتُّ : جو میں نے کوتاہی کی فِيْ : میں جَنْۢبِ اللّٰهِ : اللہ کا حق وَاِنْ كُنْتُ : اور یہ کہ میں لَمِنَ : البتہ۔ سے السّٰخِرِيْنَ : ہنسی اڑانے والے
ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کہے، ہائے افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں اللہ تعالیٰ کی جناب میں کرتا رہا، اور بیشک میں مذاق اڑانے والوں میں سے بنا رہا
اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰی عَلٰی مَافَرَّطْتُّ فِیْ جَنْبِ اللّٰہِ وَاِنْ کُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَ ۔ (الزمر : 56) (ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کہے، ہائے افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں اللہ تعالیٰ کی جناب میں کرتا رہا، اور بیشک میں مذاق اڑانے والوں میں سے بنا رہا۔ ) اَنْ … سے پہلے مضاف محذوف ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنی طرف لوٹنے اور قرآن پاک کا اتباع کرنے کا حکم دیا ہے یہ اس لیے ہے کہ ایسا نہ ہو کہ محاسبہ کا وقت آجائے اور جو لوگ غفلت سے وقت گزار رہے ہیں انھیں پچھتانا پڑے اور وہ تأسف کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہیں کہ ہائے افسوس اللہ تعالیٰ کے بارے میں مجھ سے بڑی کوتاہی ہوئی کہ میں حُبِ دنیا میں ایسا ڈوبا کہ مجھے کبھی اس بات کا ہوش نہ آیا کہ آخرت میں اگر جواب دہی کرنا پڑی اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تو وہاں میں کیا جواب دوں گا۔ میری خدا فراموشی تو یہاں تک پہنچی کہ جو لوگ مجھے آخرت سے متعلق متوجہ کرتے اور مجھے اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے کہتے تو میں ان کا مذاق اڑاتا۔ لیکن اس وقت اظہارِافسوس کے سوا کچھ نہیں ہوسکے گا۔
Top