Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 57
اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَۙ
اَوْ : یا تَقُوْلَ : وہ کہے لَوْ : اگر اَنَّ اللّٰهَ : یہ کہ اللہ هَدٰىنِيْ : مجھے ہدایت دیتا لَكُنْتُ : میں ضرور ہوتا مِنَ : سے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
یا کوئی شخص یہ کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت عطا فرماتا تو میں بھی ڈرنے والوں میں سے ہوتا
اَوْتَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰہَ ھَدٰنِیْ لَـکُنْتُ مِنَ الْمَتَّقِیْنَ ۔ (الزمر : 57) (یا کوئی شخص یہ کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت عطا فرماتا تو میں بھی ڈرنے والوں میں سے ہوتا۔ ) انسان جب کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے تو پھر اس کے پچھتاو وں کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ اپنی کوتاہیوں میں سے کبھی کسی کا ذکر کرتا ہے اور کبھی کسی کا۔ اسی طرح اس مصیبت سے بچنے کے جو اسباب ہوسکتے تھے ان میں سے بھی کبھی کسی کی بات چھیڑتا ہے اور کبھی کسی کی۔ یہاں ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ ہورہا ہے کہ یہ لوگ اگر اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر قرآن کریم کی پیروی نہیں کریں گے تو ممکن ہے کہ کل کو جب اپنے انجام میں پکڑے جائیں تو ان کے پچھتاو وں کا یہی عالم ہو۔ چناچہ انھیں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ان میں سے کوئی شخص یہ بھی کہے گا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت دے دیتا تو میں بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں میں سے ہوتا۔ اور پھر ظاہر ہے کہ میں اس مصیبت میں کبھی گرفتار نہ ہوتا۔ حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنے رسول بھیج کر اور کتابیں اتار کر ہدایت ہی کا سامان کیا تھا۔ لیکن انھوں نے کبھی اس کو مان کر نہ دیا۔ لیکن آج وہ اسے اپنی کوتاہی سمجھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے شکوہ کریں گے کہ اس نے ہمیں ہدایت کیوں نہ دے دی۔ حالانکہ نہ وہ کسی کو زبردستی ہدایت دیتا ہے اور نہ زبردستی گمراہ کرتا ہے۔
Top