Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 102
وَ اِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْۤا اَسْلِحَتَهُمْ١۫ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِكُمْ١۪ وَ لْتَاْتِ طَآئِفَةٌ اُخْرٰى لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْا حِذْرَهُمْ وَ اَسْلِحَتَهُمْ١ۚ وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَ اَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْكُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَنْ تَضَعُوْۤا اَسْلِحَتَكُمْ١ۚ وَ خُذُوْا حِذْرَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا
وَاِذَا : اور جب كُنْتَ : آپ ہوں فِيْهِمْ : ان میں فَاَقَمْتَ : پھر قائم کریں لَھُمُ : ان کے لیے الصَّلٰوةَ : نماز فَلْتَقُمْ : تو چاہیے کہ کھڑی ہو طَآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْھُمْ : ان میں سے مَّعَكَ : آپ کے ساتھ وَلْيَاْخُذُوْٓا : اور چاہیے کہ وہ لے لیں اَسْلِحَتَھُمْ : اپنے ہتھیار فَاِذَا : پھر جب سَجَدُوْا : وہ سجدہ کرلیں فَلْيَكُوْنُوْا : تو ہوجائیں گے مِنْ وَّرَآئِكُمْ : تمہارے پیچھے وَلْتَاْتِ : اور چاہیے کہ آئے طَآئِفَةٌ : جماعت اُخْرٰى : دوسری لَمْ يُصَلُّوْا : نماز نہیں پڑھی فَلْيُصَلُّوْا : پس وہ نماز پڑھیں مَعَكَ : آپ کے ساتھ وَلْيَاْخُذُوْا : اور چاہیے کہ لیں حِذْرَھُمْ : اپنا بچاؤ وَاَسْلِحَتَھُمْ : اور اپنا اسلحہ وَدَّ : چاہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ تَغْفُلُوْنَ : کہں تم غافل ہو عَنْ : سے اَسْلِحَتِكُمْ : اپنے ہتھیار (جمع) وَ : اور اَمْتِعَتِكُمْ : اپنے سامان فَيَمِيْلُوْنَ : تو وہ جھک پڑیں (حملہ کریں) عَلَيْكُمْ : تم پر مَّيْلَةً : جھکنا وَّاحِدَةً : ایک بار (یکبارگی) وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر اِنْ : اگر كَانَ : ہو بِكُمْ : تمہیں اَذًى : تکلیف مِّنْ مَّطَرٍ : بارش سے اَوْ كُنْتُمْ : یا تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَنْ تَضَعُوْٓا : کہ اتار رکھو اَسْلِحَتَكُمْ : اپنا اسلحہ وَخُذُوْا : اور لے لو حِذْرَكُمْ : اپنا بچاؤ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اَعَدَّ : تیار کیا لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابًا : عذاب مُّهِيْنًا : ذلت والا
اور اے نبی ! جب آپ مسلمانوں کے درمیان ہوں اور (حالت جنگ میں) نماز پڑھانے کھڑے ہوں تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور اسلحہ لیے رہے ‘ پھر وہ جب سجدہ کرلے تو پیچھے چلا جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے آکر تمہارے ساتھ پڑھے اور وہ بھی چوکنا رہے اور اپنا اسلحہ لیے رہے۔ کیونکہ کافر یہ چاہتے ہیں کہ اگر تم غافل ہوجائو اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان کی طرف سے تو وہ تم پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں۔ اور تم پر کوئی حرج نہیں اگر تمہیں بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا بیمار ہوجائو تو تم اپنے ہتھیار اتار کر رکھ دو اور اپنے بچائو کو ملحوظ رکھو۔ یقین رکھو کہ اللہ نے کافروں کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے
وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْخُذُوْٓااَسْلِحَتَہُمْ قف فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِکُمْ ص وَلْتَاْتِ طَآئِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ وَلْیَاْخُذُوْا حِذْرَہُمْ وَاَسْلِحَتَہُمْ ج وَدَّالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَ اَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَّیْلَۃً وَّاحِدَۃً ط وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ کَانَ بِکُمْ اَذًی مِنْ مَّطَرٍ اَوْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَنْ تَضَعُوْٓا اَسْلِحَتَکُمْ ج وَخُذُوْا حِذْرَکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّہِیْنًا ” اور اے نبی ! جب آپ مسلمانوں کے درمیان ہوں اور (حالت جنگ میں) نماز پڑھانے کھڑے ہوں تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور اسلحہ لیے رہے ‘ پھر وہ جب سجدہ کرلے تو پیچھے چلا جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے آ کر تمہارے ساتھ پڑھے اور وہ بھی چوکنا رہے اور اپنا اسلحہ لیے رہے۔ کیونکہ کافر یہ چاہتے ہیں کہ اگر تم غافل ہوجاؤ اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان کی طرف سے تو وہ تم پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں۔ اور تم پر کوئی حرج نہیں اگر تمہیں بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا بیمار ہوجاؤ تو تم اپنے ہتھیار اتار کر رکھ دو اور اپنے بچائو کو ملحوظ رکھو۔ یقین رکھو کہ اللہ نے کافروں کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ “ (النسآء : 102) وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ ( اے پیغمبر جب آپ ان میں ہوں اور پھر ان کو نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوں) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آگے نماز کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے وہ نبی کریم ﷺ کی موجودگی کی وجہ سے ضروری تھا۔ کیونکہ آپ ﷺ کی موجودگی میں کسی دوسرے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جاسکتی اور خود مسلمانوں کا جو آپ ﷺ سے عقیدت و محبت کا رشتہ تھا اس کی وجہ سے ہر سپاہی کی شدید خواہش ہوتی تھی کہ میں آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھوں۔ اور حالت جنگ میں اس خواہش میں اس لیے بھی اور اضافہ ہوجاتا تھا کیونکہ ہر سپاہی یہ سمجھتا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ اس جنگ میں مجھے شہادت نصیب ہو اور زندگی کی یہ میری آخری نماز ہو تو میں کیوں نہ اسے آنحضرت ﷺ کے پیچھے پڑھوں۔ لیکن آج جبکہ جنگ کے حالات بدل گئے ہیں اور پھر آنحضرت ﷺ بھی فوج میں موجود نہیں ہوں گے تو اب جس طریقے سے بھی نماز پڑھی جاسکتی ہو نماز پڑھنی چاہیے۔ الگ الگ جماعتیں مختلف آئمہ کے پیچھے حالات کے مطابق پڑھی جاسکتی ہیں۔ الگ الگ کمپنیاں اور بٹالینز الگ الگ جماعت کا اہتمام کریں۔ اور اگر جماعت نہ ہوسکتی ہو تو اپنے اپنے مورچوں میں الگ الگ نماز پڑھ لیں لیکن نماز پڑھنا بہرحال ضروری ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ خود اس بات سے ہوتا ہے کہ اللہ نے عین جنگ کے دوران صلاۃ الخوف پڑھنے کا حکم دیا اور جنگ خندق میں شدید تیر اندازی کے باعث آپ ﷺ نماز نہیں پڑھ سکے تھے تو آپ ﷺ اس پر اس قدر دل گرفتہ تھے کہ آپ ﷺ نے دشمنوں کے حق میں بددعا دیتے ہوئے فرمایا ” اللہ ان کے گھر انگاروں سے بھر دے انھوں نے ہماری نماز قضاء کردی۔ “ البتہ بعض لوگ اس آیت سے یہ سمجھتے ہیں کہ صلاۃ الخوف کا جواز صرف آنحضرت ﷺ کی موجودگی کی وجہ سے تھا اب سرے سے اس نماز کا کوئی جواز نہیں ہے ‘ یہ بات سراسر غلط ہے۔ کیونکہ حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ صحابہ کرام نے آپ ﷺ کی وفات کے بعد مختلف مواقع پر صلاۃ الخوف پڑھی۔ رہی یہ بات کہ صلاۃ الخوف پڑھنے کا طریقہ کیا ہے ؟ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے اور اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے نماز پڑھائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طریقے سے حالات کے مطابق نماز پڑھنا ممکن ہو اسی طرح امام کو نماز پڑھانی چاہیے۔ اس سلسلے میں نماز کے کئی طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن ان میں جو زیادہ معروف ہیں وہ چار ہیں۔ 1 ایک طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ امام کی ساتھ نماز پڑھے اور دوسرا حصہ دشمن کے مقابلہ پر رہے۔ پھر جب ایک رکعت پوری ہوجائے تو پہلا حصہ سلام پھیر کر چلا جائے اور دوسرا حصہ آ کر دوسری رکعت امام کے ساتھ پوری کرے۔ اس طرح امام کی دو رکعتیں ہوں گی اور فوج کی ایک رکعت۔ لیکن اس طریقے کو اکثر آئمہ نے دو وجہ سے قبول نہیں کیا ایک تو یہ کہ اس طرح سے امام اور مقتدی کی نیت میں موافقت نہیں رہتی۔ امام دو رکعت پڑھتا ہے اور ظاہر ہے اسی کی نیت کرتا ہے اور مقتدی ایک رکعت پڑھے گا اور ایک ہی رکعت کی نیت کرے گا۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک رکعت کی نماز سلام میں مشروع نہیں۔ مزید یہ کہ اس آیت کریمہ کے الفاظ اس کے متحمل نہیں ہوتے۔ اس میں فرمایا گیا ہے ” فاذا سجدوا “ کہ جب پہلے گروہ کے لوگ ایک رکعت پڑھ چکیں تو وہ پیچھے چلے جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی ان کی نماز باقی ہے۔ اگر ان کی نماز کے اختتام کی طرف اشارہ کرتا ہوتا تو ” فاذا سجدت “ ہونا چاہیے تھا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کر چلا جائے پھر دوسرا حصہ حصہ آ کر ایک رکعت امام کے پیچھے پڑھے ‘ پھر دونوں حصے باری باری سے آ کر اپنی چھوٹی ہوئی ایک ایک رکعت بطور خود ادا کریں۔ اس طرح دونوں کی ایک ایک رکعت امام کے پیچھے ادا ہوگی اور ایک ایک رکعت انفرادی۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور جب امام دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو تو مقتدی بطور خود ایک رکعت مع تشہد پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ پھر دوسرا حصہ آ کر اس حال میں امام کے پیچھے کھڑا ہو کہ ابھی امام دوسری ہی رکعت میں ہو اور یہ لوگ بقیہ نماز امام کے ساتھ ادا کرنے کے بعد ایک رکعت خود اٹھ کر پڑھ لیں۔ اس صورت میں امام کو دوسری رکعت میں طویل قیام کرنا ہوگا۔ یہ دونوں طریقے یعنی نمبر دو اور نمبر تین قرآن کریم میں دی گئی تفصیل کے مطابق معلوم ہوتے ہیں۔ البتہ دوسرے طریقے کو حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) نے اختیار کیا ہے اور احناف بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ چوتھا طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ امام کے ساتھ دو رکعتیں ادا کرے اور تشہد کے بعد سلام پھیر کر چلا جائے۔ پھر دوسرا حصہ تیسری رکعت میں آ کر شریک ہو اور امام کے ساتھ سلام پھیرے۔ اس طرح امام کی چار اور فوج کی دو رکعتیں ہوں گی۔ لیکن اس طریقے میں بھی وہی سقم موجود ہے جس کا ہم پہلے طریقے میں ذکر کرچکے ہیں۔ کہ اس طریقے میں امام اور مقتدی کی نیت اور نماز میں موافقت نہیں رہتی۔ امام چار کعت کی امامت کرتا ہے اور مقتدی دو رکعت میں اقتدا کر کے فارغ ہوجاتے ہیں۔ ہم نے روایات سے جو طریقے ثابت ہیں ان میں سے مشہور چار طریقوں کا ذکر کردیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ صلاۃ الخوف کا یہ حکم اس صورت میں ہے کہ دشمن کے حملہ کا خطرہ تو ہو لیکن عملاً معرکہ قتال گرم نہ ہو۔ یعنی ابھی لڑائی چھڑی نہ ہو۔ لیکن اگر لڑائی چھڑ چکی ہو ‘ تیر اندازی ہو رہی ہو ‘ یا گولیاں چل رہی ہوں تو اس صورت میں حنفیہ کے نزدیک نماز موخر کردی جائے گی۔ نبی کریم ﷺ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے غزوہ خندق کے موقع پر چار نمازیں قضا فرمائیں اور پھر موقع پا کر علی الترتیب انھیں قضا کیا۔ حالانکہ غزوہ خندق سے پہلے صلاۃ الخوف کا حکم آچکا تھا۔ مزید یہ بات بھی یاد رہے کہ جس طرح حالت جنگ میں صلاۃ الخوف پڑھنے کی اجازت ہے اسی طرح اگر خوف کی کوئی اور صورت پیدا ہوجائے مثلاً کوئی شیر یا اژدھا راستہ روک لے یا قزاق اور ڈاکو راستہ روک کر بیٹھ جائیں اور کسی وقت بھی قافلے پر حملے کا اندیشہ ہو یا اس کے علاوہ خوف کی کوئی اور صورت پیدا ہوجائے تو ایسی حالت میں بھی صلاۃ الخوف پڑھی جاسکتی ہے۔ آیت میں نماز اور مسلح رہنے پر زور دیا گیا ہے اس آیت کریمہ میں آپ نے دیکھا کہ دو باتوں پر زور دیا جا رہا ہے۔ ایک تو یہ بات کہ حالات کیسے بھی شدید ہوجائیں اور خطرہ سر پر کیوں نہ آپہنچے اگر کسی حد تک بھی نماز پڑھنے کی گنجائش ہو تو نماز پڑھنا ضروری ہے۔ اگر جماعت ہوسکتی ہو تو جماعت کا اہتمام واجب ہے اور اگر جماعت ممکن نہ ہو تو الگ الگ نماز پڑھنا ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی نگاہ میں نماز چونکہ تعلق باللہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اللہ سے وفاداری کا اظہار ہے اس لیے نہایت خطرناک حالات میں بھی اسے چھوڑا نہیں جاسکتا۔ مزید برآں خطرے کی حالت میں انسان سب سے زیادہ مدد کا محتاج ہوتا ہے اور ایک مسلمان ہمیشہ اپنے اللہ سے مدد مانگتا ہے۔ نماز میں جب وہ قیام میں ہوتا ہے تو وہ اللہ سے درخواست کرتا ہوا کہتا ہے ” اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن “ ( ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) قیام کی حالت اللہ کے سامنے اظہارِ غلامی کی حالت ہے۔ ایسی صورت میں اللہ سے جو مدد مانگی جائے گی وہ بےنیازذات اپنے غلاموں کو مایوس نہیں کرے گی۔ تو نماز اس لیے بھی ضروری ٹھہرائی گئی تاکہ ایسے خطرے کی حالت میں مسلمان اللہ سے مدد مانگ سکیں۔ دوسری بات جو اس آیت میں تاکید سے کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ تمہیں نماز کی حالت میں بھی مسلح رہنا چاہیے۔ ہتھیار اتارنے کی کبھی غلطی نہ کرنا۔ حتیٰ کہ اگر بارش یا بیماری کے باعث تمہیں ہتھیار اٹھانے سے زحمت ہوتی ہو اور اسے تکلیف کا باعث محسوس کرو تو پھر تمہیں اجازت ہے کہ ہتھیار اتار دو ۔ لیکن ” حذر “ سے غافل پھر بھی نہ ہونا۔ حذر سے مراد دفاعی آلات جنگ بھی ہیں اور ہر ممکن احتیاط بھی۔ ہتھیار اتار کر بھی تمہاری ہوشیاری اور بےدار مغزی میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔ حالات کو سونگھتے رہو اور ہتھیاروں کو اپنے اتنا قریب رکھو کہ جیسے ہی خطرہ محسوس کرو فوراً ہتھیار اٹھا لو۔ اس تاکید کی وجہ یہ ہے کہ کافر اس انتظار میں ہیں کہ جیسے ہی تم نماز میں مشغول ہو کر حالات سے بیخبر اور اسلحہ سے خالی ہوجاؤ تو وہ اچانک یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ غیر مسلح آدمی فوری طور پر مسلح نہیں ہوسکتا اور غیر مسلح ‘ مسلح آدمی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ نماز کی پابندی اور اسلحہ کی پابندی کا حکم پہلو بہ پہلو دیا جا رہا ہے۔ نماز کے ساتھ ساتھ بار بار مسلح رہنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔ اسلام تدبیر اور توکل کا حسین امتزاج اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسلام دراصل تدبیر اور توکل کے حسین امتزاج کا نام ہے۔ وہ ایک طرف تو مومن کو یہ عقیدہ دیتا ہے کہ تمہارے تمام معاملات کا سررشتہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا ارادہ اسباب پر حکمرانی کرتا ہے۔ اسباب سے تعلق ٹوٹ جائے لیکن اللہ سے تعلق ٹوٹنے نہ پائے۔ وہی تمہاری مدد کرتا ہے اور وہی تمہیں فتح و نصرت سے نوازتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ آلات جنگ کی بہم رسانی تمہاری ذمہ داری ہے۔ یہ تمہارے فرائض میں سے ایک فرض ہے۔ اس میں کوتاہی کرو گے تو اللہ کے ہاں جوابدہی کرنا پڑے گی اور ممکن وسائلِ جنگ ساتھ لے کر میدانِ جنگ میں اترو۔ جنگ کے جو بظاہر اسباب ہوسکتے ہیں ان سے غفلت مت کرو۔ لیکن بھروسہ وسائل جنگ پر نہیں اللہ پر رکھو۔ تمہاری حقیقی کامرانی اسی کے ہاتھ میں ہے لیکن وسائل جنگ کی فراہمی بھی اسی کا حکم ہے۔ حکم بجا لائو گے تو اس کی نصرت آئے گی اور نافرمانی کرو گے تو اس کی تائید و نصرت سے محروم ہوجاؤ گے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمان اللہ کی تائید و نصرت حاصل کرنے کے لیے ان دونوں باتوں کے پابند ہیں۔ وہ امکانی حد تک حالات کے تقاضوں کے مطابق آلات جنگ تیار کریں ” اَعِدُّوْا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ “ کے حکم کے تحت امت مسلمہ ہر دور میں آلات جنگ تیار کرنے کی پابند ہے۔ تلوار کے دور میں تلوار تیار کرنا ضروری تھا ‘ گھوڑوں کے زمانے میں گھوڑے پالنا فرض تھا اور آج کے دور میں ایٹمی طاقت بننا اور ٹینک تیار کرنا مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری ہے۔ یہ اسی طرح فرض ہے جیسے نماز پڑھنا فرض ہے۔ اس میں کوتاہی کا خمیازہ دنیا میں بھی بھگتنا پڑے گا اور آخرت میں بھی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر نماز کا اہتمام کرنا ہوگا۔ اور نماز چونکہ منکرات سے روکتی ہے اس لیے تمام منکرات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ یہ دو باتیں ہر دور میں فتح و نصرت کی ضمانت رہی ہیں اور آج بھی یہی ضمانت ہیں۔ اللہ کے قوانین ہر دور میں یکساں ہیں۔ سچ کہا ظفر علی خان نے : ؎ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی آخر میں فرمایا کہ اطمینان کے طور پر یہ بات یاد رکھو کہ تم اگر اپنی مستعدی نماز کی پابندی اور اللہ کی اطاعت میں کوئی کمی نہ آنے دو تو یقینا تمہیں اللہ کی نصرت شامل حال ہوگی۔ جہاں تک کافروں کا تعلق ہے ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب اللہ نے پہلے ہی تیار کر رکھا ہے۔ وہ تو اس عذاب سے اس وقت تک بچے رہتے ہیں جب تک امت مسلمہ اپنا فرض انجام نہیں دیتی۔ لیکن جیسے ہی امت اپنا فرض انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور اپنے فرض کے تقاضوں کو بروئے کار لاتی ہے تو کافروں کے لیے اللہ کا عذاب حرکت میں آجاتا ہے۔ یہ امت مسلمہ کے لیے ایک ایسی حوصلہ افزائی ہے جس پر جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
Top