Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 110
وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
وَمَنْ : اور جو يَّعْمَلْ : کام کرے سُوْٓءًا : برا کام اَوْ يَظْلِمْ : یا ظلم کرے نَفْسَهٗ : اپنی جان ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ : پھر بخشش چاہے اللّٰهَ : اللہ يَجِدِ : وہ پائے گا اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور جو کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنی جان پر ظلم ڈھائے ‘ پھر اللہ سے مغفرت چاہے۔ تو وہ اللہ کو بخشنے والا رحم کرنے والا پائے گا
وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ” اور جو کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنی جان پر ظلم ڈھائے ‘ پھر اللہ سے مغفرت چاہے۔ تو وہ اللہ کو بخشنے والا رحم کرنے والا پائے گا۔ “ (النسآء : 110) قرآن کریم کا حکیمانہ اسلوب سابقہ آیات میں درجہ بدرجہ تنقید کا حق ادا کرنے کے بعد ایک اصولی بات ارشاد فرمائی جو قرآن کریم کا عام حکیمانہ اسلوب ہے کہ وہ جب کسی برائی پر نکیر کرتا ہے اور پھر اس کے انجام سے ڈراتا ہے تو مخاطب کو مایوس نہیں ہونے دیتا۔ ساتھ ہی اسے مغفرت کا راستہ بھی دکھاتا ہے۔ یہاں بھی یہی فرمایا کہ تمہاری غلطیاں کو تاہیاں اور حدود سے تجاوز اپنی جگہ لیکن تمہیں اللہ کی بےپایاں رحمت کے حوالے سے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جو شخص کوئی بھی گناہ کرتا ہے اس کا تعلق چاہے حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے ‘ وہ اگر اپنے گناہ پر اصرار نہیں کرتا بلکہ اللہ سے مغفرت کا طلبگار ہوتا ہے تو وہ یقینا اپنے رب کو رحم کرنے والا اور درگزر کرنے والا پائے گا۔ یہ انسانوں کی ریت ہے کہ وہ زیادتی کرنے والوں کو جلدی معاف کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اللہ کی رحمت تو ایسی بےساختہ ہے کہ جب بھی کوئی اسے اپنی طرف اخلاص سے متوجہ کرتا ہے تو وہ گھٹا بن کر برس جاتی ہے۔ لیکن جو بدنصیب اس رحمت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا :
Top