Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 115
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يُّشَاقِقِ : مخالفت کرے الرَّسُوْلَ : رسول مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جب تَبَيَّنَ : ظاہر ہوچکی لَهُ : اس کے لیے الْهُدٰى : ہدایت وَ : اور يَتَّبِعْ : چلے غَيْرَ : خلاف سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کا راستہ نُوَلِّهٖ : ہم حوالہ کردیں گے مَا تَوَلّٰى : جو اس نے اختیار کیا وَنُصْلِهٖ : اور ہم اسے داخل کرینگے جَهَنَّمَ : جہنم وَسَآءَتْ : بری جگہ مَصِيْرًا : پہنچے (پلٹنے) کی جگہ
اور جو شخص مخالفت کرے رسول کی اس کے بعد کہ روشن ہوگئی اس کے لیے ہدایت اور پیروی کرے مسلمانوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی تو ہم اس کو اسی راہ پر ڈالیں گے جس پر وہ پڑا اور اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے)
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ م بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلَِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَط وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا ع ” اور جو شخص مخالفت کرے رسول کی اس کے بعد کہ روشن ہوگئی اس کے لیے ہدایت اور پیروی کرے مسلمانوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی تو ہم اس کو اسی راہ پر ڈالیں گے جس پر وہ پڑا اور اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ “ (النسآء : 115) کہا جاتا ہے کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی (جس کا ذکر گزشتہ رکوع میں ہوا) جس نے چوری کی تھی ‘ لیکن اپنے جرم کا اعتراف کرنے کی بجائے الزام ایک یہودی پر لگا دیا ‘ لیکن قرآن کریم نے جب اس واقعے کی اصل حقیقت کو ظاہر کردیا تو آنحضرت ﷺ نے یہودی کے حق میں اور اس شخص کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ اب بجائے اس کے کہ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ‘ اسے جاہلیت کا ایسا شدید دورہ پڑا کہ وہ مکہ معظمہ بھاگ گیا اور مشرکین مکہ کے ساتھ جا ملا۔ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اگر وہ اس سے پہلے مسلمان تھا تو مرتد ہوگیا اور اگر وہ منافق تھا تو اب کافر ہوگیا۔ اور وہیں پھر ایک گھر میں چوری کرتے ہوئے اس کے اوپر دیوار آگری اور اس کے نیچے آ کر وہ مرگیا۔ اور یہ انجام اس کا اس لیے ہوا کہ اس نے رسول کریم ﷺ کی مخالفت کی اور مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر کافروں کے راستہ پر چل پڑا۔ شانِ نزول سے قطع نظر اس آیت میں چند بنیادی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ایک تو یہ بات کہ اللہ کا رسول دنیا میں ہدایت کی شناخت بن کے آتا ہے۔ شناخت کیسی بھی مکمل ہو پہچاننے والوں کی نگاہیں یکساں نہیں ہوتیں اس لیے کوئی جلدی پہچان لیتا ہے اور کوئی دیر بعد پہچانتا ہے اور جس کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہو وہ ساری عمر بھی نہیں پہچان پاتا۔ لیکن جو شخص ہدایت واضح ہو چکنے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرتا ہے تو وہ درحقیقت اللہ کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ رسول اپنی بات نہیں کرتا اس کی ہر بات اللہ کی بات ہوتی ہے۔ اسی طرح جو رسول پر ایمان لاتے ہیں وہ جس راستے پر چلتے ہیں وہی راستہ رسول کا راستہ ہے اور وہی راستہ اللہ کی ہدایت کا راستہ ہے۔ اب جو شخص رسول کی مخالفت میں دھڑے بندی شروع کر دے اور بجائے انکا اتباع کرنے کے اپنے گروہ اور اپنے دھڑے کے ساتھ چلنا شروع کر دے اور مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنی الگ پارٹی بنا لے ایسا شخص اس قابل نہیں رہتا کہ وہ ہدایت قبول کرسکے۔ یا ہدایت کے راستہ پر چل سکے۔ اس کی مخالفت اسے اللہ اور اس کے رسول کے مقابل لا کھڑا کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے پوری طرح شیطان کو اپنا امام مان لیا ہے اور اس نے اپنی باگ ڈور شیطان کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسی صورت حال میں ہمارا قانونِ ہدایت و ضلالت حرکت میں آتا ہے تو پھر ہم اسے اسی راستے کی طرف پھیر دیتے ہیں جس پر وہ چلنا چاہتا ہے۔ کیونکہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو شخص ہدایت کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ دراصل اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے اور اللہ کو اپنا ولی بنا لیتا ہے۔ اللہ پھر اسے ہر طرح کی تاریکی سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور اسے ہر گمراہی سے بچاتا ہے۔ لیکن جو شخص اپنا ولی شیطان کو بنا لیتا ہے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے تو شیطان اس پر مسلط ہوجاتا ہے۔ وہ اس کا مستقل ساتھی بن جاتا ہے اور اسے ہر روشنی سے بچا کر تاریکی کی طرف لے کے جاتا ہے۔ دنیا کی ہر برائی اس کے لیے آسان ہوجاتی ہے اور ہر نیکی اسے بری لگنے لگتی ہے۔ اس کی یہ کیفیت بالآخر اسے جہنم کا مسافر بنا دیتی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ پھر ہم ایسے شخص کو جہنم میں ڈال دیتے ہیں اور جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔
Top