Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 135
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ١ۚ اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا١۫ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْا١ۚ وَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے)
كُوْنُوْا
: ہوجاؤ
قَوّٰمِيْنَ
: قائم رہنے والے
بِالْقِسْطِ
: انصاف پر
شُهَدَآءَ لِلّٰهِ
: گواہی دینے والے اللہ کیلئے
وَلَوْ
: اگرچہ
عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ
: خود تمہارے اوپر (خلاف)
اَوِ
: یا
الْوَالِدَيْنِ
: ماں باپ
وَ
: اور
الْاَقْرَبِيْنَ
: قرابت دار
اِنْ يَّكُنْ
: اگر (چاہے) ہو
غَنِيًّا
: کوئی مالدار
اَوْ فَقِيْرًا
: یا محتاج
فَاللّٰهُ
: پس اللہ
اَوْلٰى
: خیر خواہ
بِهِمَا
: ان کا
فَلَا
: سو۔ نہ
تَتَّبِعُوا
: پیروی کرو
الْهَوٰٓى
: خواہش
اَنْ تَعْدِلُوْا
: کہ انصاف کرو
وَاِنْ تَلْوٗٓا
: اور اگر تم زبان دباؤ گے
اَوْ تُعْرِضُوْا
: یا پہلو تہی کروگے
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
بِمَا
: جو
تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے ہو
خَبِيْرًا
: باخبر
(اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے بنو اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے اگرچہ یہ شہادت تمہارے اپنے نفسوں کے خلاف ہو یا تمہارے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہو۔ کوئی امیر ہو یا غریب اللہ ہی دونوں کا سب سے زیادہ خیرخواہ ہے۔ پس تم خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ حق سے ہٹ جائو۔ اور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ موڑو تو بیشک اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اچھی طرح باخبر ہے
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْعَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یُّـکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِہِمَا قف فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَاِنْ تَلْوٗٓااَوْتُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ” اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے بنو اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے اگرچہ یہ شہادت تمہارے اپنے نفسوں کے خلاف ہو یا تمہارے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہو۔ کوئی امیر ہو یا غریب اللہ ہی دونوں کا سب سے زیادہ خیرخواہ ہے۔ پس تم خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ حق سے ہٹ جاؤ۔ اور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ موڑو تو بیشک اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔ “ (النسآء : 135) کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ کا مفہوم اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو اس فریضہ منصبی کا احساس دلایا جا رہا ہے جس پر بنی اسرائیل کی معزولی کے بعد انھیں فائز کیا گیا۔ ” قَوَّامٌ“ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ ” قِسْطٌ“ عدل اور انصاف کو کہتے ہیں۔ یعنی صاحب حق کو ٹھیک ٹھیک اس کا حق ادا کرنا۔ اس لحاظ سے اس آیت کریمہ کے پہلے جملے کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ مضبوطی سے انصاف پر قائم رہنے والے بنو۔ اور دوسرا معنی یہ کہ تم دنیا میں انصاف کے علمبردار بنو۔ اگر پہلا معنی کریں تو پھر آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ معاملہ یتیموں کا ہو یا بیوگان کا ‘ بیوی کا ہو یا کسی اور کا ‘ مسلمانوں کو ہر صورت میں انصاف کا ترازو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کیونکہ ان کے دین نے ان کی پہچان ہی یہ قائم کی ہے کہ وہ کسی معاملے اور کسی حالت میں بھی ناانصافی کبھی نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ انصاف کو مستحکم کرنے یا کسی صاحب حق کا حق دلوانے کے لیے انھیں گواہی دینے کی بھی ضرورت پڑے تو وہ یہ سمجھ کر گواہی دیتے ہیں کہ ہم یہ گواہی کسی شخص کے لیے نہیں ‘ بلکہ اللہ کے لیے دے رہے ہیں۔ وہ ہماری گواہی کے ایک ایک لفظ کو سن رہا ہے ‘ گواہی کے پیچھے مخفی جذبے کو جانتا ہے اور ہماری صحیح یا غلط گواہی پر قیامت کے دن ہمارے انجام کا فیصلہ ہوگا۔ اس لیے وہ کبھی بھی غلط گواہی دینے کی جرأت نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ اگر ان کی گواہی یا انصاف کا قیام ان کی اپنی ذات کے لیے نقصان کا باعث بنے یا اس کی زد والدین یا قریبی عزیزوں پر پڑے دوسرا فریق چاہے امیر ہو یا غریب وہ کسی حال میں بھی انصاف سے سر مو انحراف نہیں کرتے اور کبھی گواہی میں جانبداری یا جھوٹ بولنے کا تصور نہیں کرسکتے۔ اس رویے کو مسلمانوں کی شناخت قرار دے کر مزید اس کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ اور اگر ترجمہ دوسرا کیا جائے تو پھر اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ یہاں قسط سے مراد حق و عدل کی وہ میزان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی شکل میں عطا فرمائی ہے۔ مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار بنایا جا رہا ہے کہ ان کا کوئی قول یا عمل اس میزان سے ہٹا ہوا نہیں ہونا چاہیے۔ وہ زندگی کے ہر معاملے میں اسی حق کی میزان کو جاری وساری اور قائم و نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ انفرادی زندگی پر بھی اسی کا غلبہ ہو اور اجتماعی زندگی پر بھی یہی حکمران ہو۔ اور پھر اسی پر بس نہیں کہ انھیں اپنی زندگیوں میں اس کتاب سے راہنمائی لینا ہے اور اسے وہ حاکمانہ حیثیت دینی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کا کوئی معاشرہ اس سے انحراف نہ کرسکے۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں سے جہاں تک ممکن ہو سکے وہ اللہ کی اس کتاب ‘ اس دین اور اس میزان کے حق ہونے کی گواہی دیں۔ غیر مسلموں کے سامنے علمی دلائل اور اپنے اجتماعی رویے سے ثابت کردیں کہ حقوق و معاملات میں اگر کوئی چیز انسانوں کو عدل اور انصاف پر قائم رکھتی ہے اور انسانی معاشرہ جس کی وجہ سے آسودہ زندگی گزارتا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے دکھی ہونے اور الجھنے کے بجائے ایک دوسرے کے ہمدرد و غمگسار بن جاتے ہیں اور جرائم کا بیج تک ان کے معاشرے اور سماج میں مارا جاتا ہے تو وہ یہی کتاب اور میزانِ حق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ حق و باطل کے اس میزان کو انفرادی و اجتماعی عمل کی شکل میں اگلی نسلوں تک منتقل کریں تاکہ جب ان کے پاس اللہ کے نبی کی دعوت ‘ اس کا اسوہ اور اللہ کی کتاب پہنچے تو وہ اس خلجان میں مبتلا نہ ہوں کہ ممکن ہے آج کے دور میں اس کتاب پر عمل کرنا ممکن نہ ہو۔ یہ اپنی افادیت کی عمر گزار چکی ہو ‘ آج کی مشکلات اور مسائل کا حل اس کی وسعتوں میں ناپید ہو۔ کیونکہ جب بھی کوئی نظام تھیوری کی شکل میں کسی بھی قوم کے سپرد کیا جاتا ہے وہ اگر اس تھیوری کی صداقت پر ایمان بھی رکھتی ہے تب بھی اس کے قابل عمل ہونے کے بارے میں ہمیشہ شش و پنج میں مبتلا رہتی ہے جب تک کہ اسے عمل کی شکل میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے دیکھ نہیں لیتی۔ اس لیے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس نظام حق پر اس طرح مخلصانہ زندگی گزاریں اور اس کے ایک ایک حکم کو انفرادی و اجتماعی زندگی کو اس طرح کامیابی سے ہمکنار کر کے دکھائیں اور زندگی کا ایک ایک شعبہ اس کی رہنمائی میں اس طرح کامیابی سے چلا کردکھائیں کہ یہ تسلسل و تعامل جب اگلی نسل تک منتقل ہو تو انھیں اس کے قابل عمل ہونے میں کوئی شک و شبہ لاحق نہ ہو۔ قانون یا نظام کوئی سا بھی ہو جب تک اس کے چلانے والے ہاتھ مضبوط ‘ غیر جانبدار اور مخلص نہ ہوں اور ان کے اندر اس کے اجراء و تنفیذ کا بےپناہ جذبہ کارفرما نہ ہو اور وہ اس راستے میں پیش آنے والے موانع پر قابو پانے کی ہمت نہ رکھتے ہوں اس وقت تک کوئی سا قانون یا نظام چل نہیں سکتا۔ اس آیت کریمہ میں بھی اختصار سے ان رکاوٹوں کو ذکر فرمایا گیا جو بالعموم ناکامی کا سبب بنا کرتی ہیں۔ کسی بھی گواہی اور انصاف کے کسی پہلو کے اجراء میں بھی سب سے پہلی رکاوٹ آدمی کی اپنی ذات ہوتی ہے۔ وہ حق اور انصاف کے بارے میں بہت بلند آہنگ ہوتا ہے۔ لیکن جیسے ہی اس کی زد اس کی اپنی ذات ‘ اس کی اولاد یا اس کے کسی مفاد پر پڑتی نظر آتی ہے تو پھر وہ بچ نکلنے کے راستے تلاش کرتا ہے۔ تاویلیں ڈھونڈی جاتی ہیں ‘ چور دروازے تلاش کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر اس انصاف کی زد والدین یا قریبی رشتہ داروں پر پڑتی ہو تو تب بھی آدمی کا حق پر قائم رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ والدین ‘ قریبی عزیز یا احباب کا دبائو بعض دفعہ اس قدر خطرناک صورت اختیار کرجاتا ہے کہ آدمی اس کے سامنے بالکل بےبس دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح امیر اور غریب کا فرق بھی ہر معاشرے کے ترازو کو متاثر کرنے کا ایک معمول رکھتا ہے۔ امیر اگر کوئی جرم کرتا ہے تو عموماً قانون مکڑی کا جالا بن جاتا ہے اور اگر غریب پکڑا جاتا ہے تو یہ لوہے کی زنجیر میں ڈھل جاتا ہے۔ اور بعض دفعہ غریبوں کی ناروا ہمدردیاں بھی بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہیں۔ جس طرح دنیا میں بااثر لوگوں نے ہر سطح پر خرابیاں پیدا کی ہیں اسی طرح کمز ور طبقوں کی یونینز نے ہماری قریبی تاریخ میں بڑے بڑے مسائل پید اکیے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا ہے کہ جب انہی کمزوروں اور مظلوموں کو اقتدار ملتا ہے تو وہ طبقہ امراء سے بھی بڑھ کر ظالم ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ اصل چیز تو اس کلمہ حق اور میزانِ حق سے وابستگی ہے۔ جس طبقے کا تعلق بھی اس سے ٹوٹ جاتا ہے وہی طبقہ معاشرے کے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔ اقبال نے شاید اسی سے متاثر ہو کر کہا ؎ زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی مقصود صرف یہ ہے کہ کسی طرح بھی ہوائے نفس کی پیروی مت کرو۔ ایسی پیروی جو تمہیں عدل اور انصاف سے منحرف کر دے۔ یہ ہے وہ حکم جو بطور خاص حق سے وابستگی کو باقی رکھنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ اتباع ہواء وہ برائی ہے جس سے باقی ساری برائیاں پھوٹتی ہیں۔ کوئی شخص یا کوئی معاشرہ جب ہوائے نفس کے اتباع میں مبتلا ہو کر حق سے پہلو تہی کرتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظام حق کو جو اس کی کتاب اور پیغمبر کی سنت میں محفوظ ہوتا ہے بگاڑنے اور مسخ کرنے کی کوشش کی جائے ‘ ترمیم اور تحریف کا راستہ کھولا جائے ‘ ایسی حرکتیں کی جائیں جس سے اس کی اصل شکل بدل جائے ‘ اس کے بعد یہ مطالبہ خود بخود ختم ہوجاتا ہے کہ اس حق پر قائم رہا جائے اور اللہ کے لیے اس کی گواہی دی جائے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ اسے بگاڑنے کی کوشش تو نہ کی جائے ‘ البتہ زندگی کے معاملات سے اسے خارج کردیا جائے۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ مذہب اور دین کا ہمارے دنیوی کاموں سے کیا رشتہ ؟ مذہبی معاملات ‘ مذہبی رسوم ‘ پوجا پاٹ اور دعا و مناجات کے طریقے تو مذہب سے لیے جائیں ‘ لیکن نظام تعلیم ‘ نظام عدالت ‘ اصول معاشرت ‘ طریق سیاست اور طریق حکومت کا مذہب اور دین سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ آج کے دور میں سب سے بڑا افسون جس نے دماغوں کو معطل کر کے رکھ دیا ہے وہ یہی ہے۔ پڑھے لکھے لوگ یکسو ہیں کہ ہم مذہب کی چند رسمیں اور مذہبی تہوار ‘ مذہب کے طریقے کے مطابق مناتے ہیں بس اس کے علاوہ اور کیا چاہیے ؟ عیسائیوں کے پاس چونکہ چند رسوم عبادت کے سوا مذہب کی اور کوئی چیز موجود نہیں تھی اس لیے انھوں نے مذہب کو اجتماعی اداروں سے خارج کرنا اپنی ضرورت بھی سمجھا اور اسی سے انھوں نے مذہب کی اجتماعی گرفت سے نجات حاصل کرلی۔ اور یہی وہ فتنہ ہے جس میں آج پورا عالم اسلام گرفتار ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ جس امت مسلمہ کو حق کی گواہ بنا کر نظام حق پر قائم رہنے کا حکم دیا گیا تھا اور جس نے یہ روشنی پوری دنیا تک پہچانی تھی وہ اپنے گھر کا دیا بجھا کر گہری نیند سو رہی ہے اور اسے بالکل احساس نہیں کہ مجھے اللہ نے اتنا عظیم منصب عطا فرمایا تھا اس منصب سے روگردانی کرنے کے بعد ذلت و نکبت میرا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ حالانکہ اللہ کی قانون کے نفاذ اور میزانِ حق کی پاسداری پر قرآن کریم کے ساتھ ساتھ آنحضرت ﷺ نے اتنا زور دیا تھا اور اپنے عمل سے جس طرح اس کی نزاکتوں کو واضح کیا تھا اس کی ایک مختصر مثال اس ایک واقعے میں ملتی ہے جسے بخاری اور مسلم دونوں نے روایت کیا ہے۔ (جب ایک مخزومیہ عورت نے چوری کی تو اس کے معاملے کی قریش کو بڑی فکر ہوئی۔ لوگوں نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ کون ایسا شخص ہوسکتا ہے جو رسول اللہ ﷺ سے اس کی سفارش کرے۔ بالآخر یہ طے پایا کہ اس کی جرأت صرف اسامہ بن زید ( رض) کرسکتے ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے بڑے چہیتے ہیں۔ لوگوں کے کہنے پر اسامہ ( رض) نے حضور ﷺ سے اس کی سفارش کی۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” اسامہ تم اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود میں سے ایک حد کے معاملے میں سفارش کرنے آئے ہو ؟ “ پھر آپ ﷺ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا ” لوگو ! تم سے پہلے قوموں کو اسی چیز نے تباہ کیا کہ ان کا حال یہ ہوگیا تھا اگر ان میں کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور اگر کوئی معمولی آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ خدا کی قسم ! میں ایسا نہیں کرنے کا۔ میں تو اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرتی تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ “ )
Top