Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 142
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ١ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى١ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ
: بیشک منافق
يُخٰدِعُوْنَ
: دھوکہ دیتے ہیں
اللّٰهَ
: اللہ
وَھُوَ
: اور وہ
خَادِعُھُمْ
: انہیں دھوکہ دے گا
وَاِذَا
: اور جب
قَامُوْٓا
: کھڑے ہوں
اِلَى
: طرف (کو)
الصَّلٰوةِ
: نماز
قَامُوْا كُسَالٰى
: کھڑے ہوں سستی سے
يُرَآءُوْنَ
: وہ دکھاتے ہیں
النَّاسَ
: لوگ
وَلَا
: اور نہیں
يَذْكُرُوْنَ
: یاد کرتے
اللّٰهَ
: اللہ
اِلَّا قَلِيْلًا
: مگر بہت کم
(بےشک منافقین اللہ سے چالبازی کرنا چاہتے ہیں حالانکہ چال وہ ان سے چل رہا ہے۔ اور جب یہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کھڑے ہوتے ہیں کاہل بن کر محض لوگوں کو دکھانے کے لیے اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُہُمْ ج وَاِذَا قَامُوْٓا اِلٰی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی لا یُرَآئُ وْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًا ز لا مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ صلے ق لَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآئِ وَلَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآئِ ط وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ سَبِیْلاً ” بیشک منافقین اللہ سے چالبازی کرنا چاہتے ہیں حالانکہ چال وہ ان سے چل رہا ہے۔ اور جب یہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کھڑے ہوتے ہیں کاہل بن کر محض لوگوں کو دکھانے کے لیے اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔ ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں کفر اور ایمان کے درمیان ‘ نہ ادھر ہیں نہ ادھر۔ اور جسے اللہ گمراہ کر دے تم ہرگز اس کے لیے کوئی راستہ نہیں پاسکتے۔ “ (النسآء : 142 تا 143) ربطِ کلام سلسلہ کلام منافقین سے متعلق ہے۔ انہی کی علامتیں اور خصوصیات بیان کی جا رہی ہیں۔ ان آیات کے نزول کے وقت مسلمان حق و باطل کی شدید کشمکش سے گزر رہے تھے۔ مشرکین مکہ اڑوس پڑوس کے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ کرتے رہتے تھے اور یہود سے بھی ان کی مراسلت جاری رہتی تھی۔ اور یہود اپنے طور پر بھی مسلمانوں کے بدترین دشمن تھے۔ وہ مختلف طریقوں سے اسلام کے راستے میں روڑے اٹکانے اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کی سازشیں کرتے رہتے تھے۔ ان سازشوں کا ایک اہم عنصر مسلمانوں کی صفوں میں منافقین کا وجود تھا جو یہود ہی سے آئے تھے یا یہود کے زیر اثر تھے۔ حق و باطل کی یہ کشمکش چونکہ مسلح تصادم کی صورت اختیار کرتی جا رہی تھی اس لحاظ سے شدید ضرورت تھی کہ مسلمان اپنی صفوں میں چھپے ہوئے آستین کے سانپوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہ رہیں۔ اس لیے منافقین کی شناخت کے لیے ان کی علامتوں اور صفات کو وقتاً فوقتاً بیان کیا جا رہا تھا ‘ لیکن ساتھ ہی یہ کوشش بھی جاری تھی کہ وہ کمزور مسلمان جو یہود کے آلہ کار نہیں ‘ لیکن ابھی تک ان کے ایمان میں وہ استحکام پیدا نہیں ہوسکا جو حق و باطل کی کشمکش میں کام آنے والا سرمایہ ہے۔ ان کے ایمان کی کمزوری کو دور کرنے کے لیے ان علامتوں کے ذریعے بالواسطہ انھیں سمجھایا جا رہا ہے کہ تمہارے اندر اگر یہ کمزوریاں باقی ہیں تو یہ نفاق کی علامتیں ہیں۔ تمہیں پہلی فرصت میں ان کمزوریوں کو دور کرنا چاہیے۔ اور مسلمانوں میں ایک معتدبہ تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی جو منافقین کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ انھیں منافقین کی علامتوں کے ساتھ ساتھ منافقین کے عزائم کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ بھی منافقین کے بارے میں یکسو ہوجائیں۔ منافقین کی جسارت چناچہ اس آیت کریمہ میں سب سے پہلی بات ان کے عزائم کے حوالہ سے ہی کہی جا رہی ہے کہ یہ منافق لوگ ایسے نہیں ہیں کہ جو سادگی میں دوسروں کے ہاتھوں میں استعمال ہو رہے ہوں۔ بلکہ ان کی جسارتوں کا عالم تو یہ ہے کہ یہ اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ چالبازی کر رہے ہیں۔ نہ جانے انھوں نے یہ کیسے گمان کرلیا ہے کہ اللہ کو ان کی خفیہ کاروائیوں کا علم نہیں ہوتا اور وہ ان کے سینے میں چھپے ہوئے رازوں سے واقف نہیں۔ اگر انھیں اس بات کا یقین ہوتا کہ اللہ تو ہر وقت ‘ ہرحال میں ان کی ایک ایک بات سے آگاہ رہتا ہے تو پھر وہ اللہ کو دھوکا دینے کا تصور بھی کیسے کرسکتے تھے ؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب کسی شخص یا کسی گروہ کی آنکھوں پر دنیا کے مفادات اور ہوس اقتدار کی پٹی باندھ دی جاتی ہے تو وہ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں جانتا۔ مسلمانوں میں طبقہ امراء ‘ سیاستدانوں اور ارباب حل و عقد کو دیکھ لیجیے ‘ یہ تمام لوگ بفضلہ تعالیٰ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی ایک ایک حرکت اللہ کے سامنے ہے اور انھیں اس سے بھی انکار نہیں کہ قیامت آئے گی اور اللہ کے سامنے ایک ایک بات کا جواب دینا ہوگا۔ با ایں ہمہ وہ سیاست کے کھیل اور ہوس زر میں مبتلا ہو کر اور اقتدار کی مصلحتوں کی خاطر جو کچھ کر گزرتے ہیں اس کی کسی مسلمان سے توقع نہیں ہوسکتی۔ ان کے اس رویے کو دیکھ کر اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال کے پس پردہ جو محرکات رکھتے ہیں ‘ اللہ کو ان کی کیا خبر ؟ اور یہی بیخبر ی کا تصور انھیں ہر غلط کام کرنے پر اکساتا اور ہمت دیتا ہے ‘ کچھ ایسا ہی حال منافقین کا بھی تھا کہ وہ جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کر رہے تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ خدع اللہ کا مفہوم اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ اللہ کو کیا دھوکا دیں گے اور اس کے ساتھ کیا چال بازی کریں گے ‘ البتہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ چال چل رہا ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب ” خدع “ کے لفظ کا انتساب اللہ کی طرف ہو تو اس کا معنی دھوکا دینا نہیں ہوتا بلکہ اس کا لازمی معنی مراد ہوتا ہے۔ لازمی معنی سے مراد یہ ہے کہ اللہ ان سے دھوکا نہیں کرتا بلکہ ان کے دھوکے کی سزا دیتا ہے کہ وہ ان کی ایک ایک بات کو محفوظ کر رہا ہے ‘ ان کا نامہ عمل ان کی ان حرکتوں سے لبریز ہو رہا ہے۔ وہ قیامت کے دن اپنے اس نامہ عمل سمیت اللہ کی عدالت میں حاضر ہوں گے تو تب انھیں ایک ایک کرتوت کی سزا دی جائے گی۔ اور انھیں اپنے ایک ایک عمل کا بدلہ ملے گا۔ اور دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ وہ تو اپنی تدبیروں اور حرکتوں سے اللہ کے ساتھ چالبازی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ‘ لیکن اللہ کی چال یہ ہے کہ وہ ان کی ڈور ڈھیلی چھوڑتا جا رہا ہے۔ وہ جیسے جیسے اپنے برے ارادوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اللہ ان کے لیے راستے کھولتا چلا جا رہا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے ارادوں میں کامیاب ہو رہے ہیں ‘ حالانکہ وہ اس انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں جو جہنم کی صورت میں ان کے انتظار میں ہے۔ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ مچھلی کا شکار ی کنڈی کی نوک پر گوشت کا ٹکڑا لگا کنڈی پانی میں پھینکتا ہے۔ مچھلی گوشت کھانے کے لیے لپکتی ہے۔ وہ یہ سمجھتی ہے کہ میری ضیافت کی گئی ہے۔ چناچہ جیسے ہی کنڈی کو منہ مارتی ہے شکاری ڈور ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ مجھے کھلایا جا رہا ہے۔ حالانکہ شکاری یہ چاہتا ہے کہ کانٹا اچھی طرح اس کے حلق میں اتر جائے تو پھر میں ڈور کھینچوں۔ چناچہ جب یہ کانٹا اس کے حلق میں اتر جاتا ہے تو شکاری ڈور کھینچ لیتا ہے۔ لیکن مچھلی آخر وقت تک یہی سمجھتی رہتی ہے کہ یہ میرے کھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ؎ مچھلی نے ڈھیل پائی ہے لقمہ پہ شاد ہے صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی اللہ تعالیٰ بھی ان کی رسی دراز کرتا جاتا ہے تاکہ کانٹا اچھی طرح ان کے حلق میں اتر جائے اور جب وقت آئے گا تو وہ رسی کھینچ لے گا۔ پھر انھیں تڑپنے کی بھی مہلت نہیں ملے گی۔ یہ ہے وہ اللہ کی چال جسے منافقین اور اہل دنیا سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہتے ہیں۔ نماز اسلام کی علامت ہے اپنے نفاق کو چھپانے کے لیے منافقین ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد جو سب سے پہلا فرض ایک مسلمان کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ نماز ہے اور جو علامت بنا رہتا ہے اس بات کی کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے والا اپنے دعوے میں سچا ہے یا جھوٹا ؟ کیا وہ واقعی اللہ کا وفادار ہے یا محض دکھاوے کے لیے دعویٰ کر رہا ہے ؟ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں اذان سننے کے بعد کسی شخص کا گھر میں بیٹھ رہنا اور بغیر کسی عذر شرعی کے جماعت میں شامل نہ ہونا ایک ایسا گناہ تھا جس کا تصور بھی مسلمانوں کے لیے مشکل تھا۔ چناچہ جب وہ دیکھتے کہ کوئی شخص جماعت میں مسلسل شریک نہیں ہوتا تو انھیں خیال ہوتا کہ وہ بیمار ہوگا۔ چناچہ وہ عیادت کے لیے اس کے گھر کا رخ کرتے۔ لیکن اگر انھیں محسوس ہونے لگتا کہ غیر حاضر ہونے والا شخص بغیر کسی عذر کے غیر حاضر ہوتا ہے تو مسلمانوں کو اس کے نفاق کا یقین ہوجاتا تھا۔ یہ نماز تھی جو مخلص اور غیر مخلص میں فرق کرتی تھی۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے نماز کے بارے میں فرمایا ” الصلوٰۃ فارق بین الحق والباطل “ (نماز حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی ہے) تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ صدیوں میں مسلمانوں میں بہت سی کمزوریاں پیدا ہوئیں ‘ ہر طرح کے عیوب ان میں پیدا ہوگئے ‘ لیکن مسلمان ملکوں میں استعمار آنے سے پہلے کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ مسلمان بےنماز بھی ہوسکتا ہے۔ کوئی مسلمان ماں بےنماز بچہ نہیں جنتی تھی۔ مسلمان گھروں میں اور مسلمان آبادیوں میں بےنماز آدمی پنپ نہیں سکتا تھا۔ یہ ایک ایسا عیب تھا جو مسلمان کو نکو بنا دیتا تھا۔ لیکن اس بات پر جنتا بھی صدمے کا اظہار کیا جائے کم ہے کہ وہ بد عملی یعنی ترک نماز جس کے ارتکاب کا کسی عام مسلمان سے بھی تصور نہیں ہوسکتا تھا آج مسلمانوں کے رہنما اور سیاسی لیڈر کھلم کھلا ترک نماز میں مبتلا ہیں۔ اور وہ اس کو محسوس ہی نہیں کرتے کہ نماز کی پابندی بھی کوئی ضروری چیز ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمان نہ صرف انھیں برداشت کرتے ہیں بلکہ انھیں اپنا رہنما بھی سمجھتے ہیں۔ لیکن حضور ﷺ کے زمانے میں منافقین نہ چاہتے ہوئے بھی نماز پڑھنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے تھے۔ البتہ مخلص مسلمانوں کی نمازوں اور ان کی نمازوں میں فرق یہ تھا کہ وہ خوش دلی اور آمادگی سے نماز کے لیے نہیں آتے تھے ‘ بلکہ وہ اس طرح آتے جیسے خود نہیں آرہے بلکہ انھیں کوئی کھینچ کے لا رہا ہے۔ وہ نماز کے لیے اٹھتے تو کاہل بن کر ‘ ڈھیلے ڈھالے ‘ الکساتے ہوئے ‘ جیسے آدمی کسی ایسے کام کو کرتا ہے جسے وہ کرنا چاہتا نہ ہو۔ عین وقت پر مسجد میں پہنچتے ‘ جماعت میں شامل ہوتے اور جیسے ہی جماعت ختم ہوتی جوتے اٹھا کر باہر نکل آتے۔ نماز میں خاموشی سے امام کے پیچھے کھڑے رہتے لیکن نہ وہ نماز سے پہلے پہنچتے تاکہ کوئی تسبیحات کرسکیں اور نہ بعد میں ٹھہرتے تاکہ اللہ کی یاد میں کچھ وقت گزاریں۔ مجبوراً اگر اللہ کو یاد کرتے بھی تو بہت معمولی سا۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے آج مسلمانوں کا طرز عمل منافقین سے بھی بدتر ہے۔ وہ تو نماز کے لیے آتے تھے ‘ آج مسلمانوں کی اکثریت بےنماز ہے۔ اور جو مسجدوں میں آتے بھی ہیں ضروری نہیں کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اور اگر جماعت میں شامل ہوں تو امام صاحب کے سلام پھیرتے ہی باہر کا رخ کرتے ہیں اور ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی فکر میں ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث مبارکہ میں اس رویے کو ” نفاق “ فرمایا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ” المؤمن فی المسجد کالسمک فی الماء والمنافق فی المسجد کالطیر فی القفس “ ( مومن مسجد میں ایسا ہوتا ہے جیسے مچھلی پانی میں اور منافق مسجد میں ایسے ہوتا ہے جیسے پرندہ پنجرے میں) مچھلی کبھی پانی سے نکلنا پسند نہیں کرتی۔ وہ جانتی ہے کہ باہر موت ہے۔ اور منافق مسجد میں ایسے ہوتا ہے جیسے پرندہ پنجرے پھڑپھڑاتا ہے اور موقعے کے انتظار میں ہوتا ہے کہ کہیں دروازہ کھلا رہ جائے تو میں نکل بھاگوں۔ منافق کی نماز محض دکھاوا ہے اس کے بعد منافقین کی نماز پڑھنے کی اصل وجہ بھی بیان فرما دی گئی کہ وہ نماز محض مسلمانوں کو دکھانے کے لیے پڑھتے ہیں۔ مقصود اللہ کا ذکر نہیں ہوتا بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان انھیں دیکھیں اور حاضری لگا دیں تاکہ انھیں اطمینان ہوجائے کہ ہم مسلمان ہیں منافق نہیں۔ آگے ان کی بےبسی کی تصویر کھینچی گئی ہے کہ اس رویے نے انھیں کس قدر اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے کہ اسلام اور کفر کے درمیان ڈانواں ڈول اور ہچکولے کھاتے پھر رہے ہیں۔ نہ ادھر کے ہیں ‘ نہ ادھر کے۔ کبھی مسلمانوں میں آ کے یقین دلاتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اور کبھی کافروں کو جا کے اطمینان دلاتے ہیں کہ ہماری ساری ہمدردیاں تمہارے ساتھ ہیں۔ سنت اللہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی کی موجودگی اور صحابہ کا ہر وقت کا ساتھ ان بدنصیبوں کو اسلام کے بارے میں مطمئن کیوں نہیں کردیتا ؟ اور یہ اطمینان کے ساتھ ایک راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیوں نہیں کرلیتے ؟ آیت کے آخر میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ جو شخص سوچ سمجھ کر اپنی مرضی اور ارادے کے ساتھ ایک راستے پر چلنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ زبردستی اسے اپنی مرضی پر نہیں چلاتا۔ اس نے اپنے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں اتار کر حق کا ایک ایک گوشہ واضح کردیا ہے۔ اور خیر و شر کا ایک ایک پہلو واضح کردیا ہے۔ اس کے بعد بھی جو آدمی خیر اور اسلام سے منہ پھیر کر باطل کے راستے پر چلنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ زبردستی اسلام کے راستے پر کبھی نہیں ڈالتا۔ کیونکہ ہر شخص کا امتحان اس آزادی اور اختیار میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کے فیصلے میں اسے عطا کر رکھا ہے اس لیے نہ تو وہ کسی کو زبردستی مسلمان بناتا ہے اور نہ زبردستی کافر بناتا ہے۔ اور جب کوئی شخص اللہ سے کفر اور انحراف کا راستہ اختیار کرلیتا ہے اور پیغمبر کی دعوت اور کتاب کا اعجاز بھی اسے اپیل نہیں کرتا اور وہ اپنے راستے پر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے تو پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ ہدایت سے اس کی محرومی کا فیصلہ فرما دیتے ہیں۔ اس فیصلے کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ اب اس کی گمراہی جسے اس نے خود اختیار کیا تھا اس کے اپنے اختیار میں نہیں رہی بلکہ اللہ کا فیصلہ بن گئی ہے۔ تو اللہ کے فیصلے کو نہ تو وہ خود بدل سکتا ہے نہ کوئی اور بدل سکتا ہے۔ تو یہاں اسی سنت اللہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے کرتوتوں سے اپنے آپ کو اللہ کے فیصلے کے حوالے کردیا ہے ‘ اس لیے اب ان کے لیے ہدایت کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔
Top