Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ
: اور اگر
خِفْتُمْ
: تم ڈرو
اَلَّا
: کہ نہ
تُقْسِطُوْا
: انصاف کرسکوگے
فِي
: میں
الْيَتٰمٰى
: یتیموں
فَانْكِحُوْا
: تو نکاح کرلو
مَا
: جو
طَابَ
: پسند ہو
لَكُمْ
: تمہیں
مِّنَ
: سے
النِّسَآءِ
: عورتیں
مَثْنٰى
: دو ، دو
وَثُلٰثَ
: اور تین تین
وَرُبٰعَ
: اور چار، چار
فَاِنْ
: پھر اگر
خِفْتُمْ
: تمہیں اندیشہ ہو
اَلَّا
: کہ نہ
تَعْدِلُوْا
: انصاف کرسکو گے
فَوَاحِدَةً
: تو ایک ہی
اَوْ مَا
: یا جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: لونڈی جس کے تم مالک ہو
ذٰلِكَ
: یہ
اَدْنٰٓى
: قریب تر
اَلَّا
: کہ نہ
تَعُوْلُوْا
: جھک پڑو
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کرسکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہارے لیے جائز ہوں ان سے دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کرلو اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی پر بس کرویا پھر کوئی لونڈی جو تمہاری ملک میں ہو۔ یہ طریقہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تم بےانصافی سے بچ جائو
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِیْ الْیَتٰمٰی فَانْـکِحُوْا مَاطَابَ لَـکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ط فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْمَامَلَـکَتْ اَیْمَانُـکُمْ ط ذٰلِکَ اَدْ نٰٓی اَلَّا تَعُوْلُوْا ط (اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کرسکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہارے لیے جائز ہوں ان سے دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کرلو اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی پر بس کرویا پھر کوئی لونڈی جو تمہاری ملک میں ہو۔ یہ طریقہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تم بےانصافی سے بچ جاؤ) (النسآء : 3) یتیم بچیوں پر ظلم کی مختلف صورتیں اس کے تین مفہوم اہل تفسیر نے بیان کیے ہیں : 1 حضرت عائشہ اس کی تفسیر میں فرماتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں ان کے مال اور ان کے حسن و جمال کی وجہ سے اس خیال سے کہ ان کا کوئی سردھرا تو ہے نہیں جس طرح ہم چاہیں گے دبا کررکھیں گے وہ ان کے ساتھ خود نکاح کرلیتے تھے اور پھر ان پر ظلم کیا کرتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتیں دنیا میں موجود ہیں ان میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان کے ساتھ نکاح کرلو۔ اسی سورة میں انیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے۔ 2 ابن عباس اور ان کے شاگرد عکرمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حد نہ تھی۔ ایک ایک شخص دس دس بیویاں کرلیتا تھا اور جب اس کثرت ازدواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں، بھانجوں اور دوسرے بےبس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کردی اور فرمایا کہ ظلم وبے انصافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو۔ 3 سعیدبن جبیر اور قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے اہل جاہلیت بھی ان کے ساتھ بےانصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ لیکن عورتوں کے معاملہ میں ان کے ذہن عدل و انصاف کے تصور سے خالی تھے۔ جتنی چاہتے تھے شادیاں کرلیتے تھے اور پھر ان کے ساتھ ظلم اور جور سے پیش آتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بےانصافی کرنے سے ڈرو۔ اول تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھوجن کے ساتھ انصاف کرسکو۔ (ماخوذ از تفہیم القرآن) مندرجہ بالاتینوں مفاہیم پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عرب معاشرے میں یتیم بچیوں پر دو طرح کے مظالم ہوتے تھے۔ ایک تو یہ کہ یتیم بچیاں جس عمر میں بھی ہوتیں یہ دیکھ کر کہ ان کا کوئی سردھرا تو ہے نہیں ان کے ولی ان کے ساتھ نکاح کرلیتے اور اس بہانے سے ان کے حصے کی جائیداد پر قبضہ کرلیتے اور حق مہر کو اپنے لیے ویسے ہی ضروری نہیں سمجھتے تھے کیونکہ وہ ایسی بچیوں سے نکاح کرنا بجائے خود ایک ایسی نیکی سمجھتے تھے جو حق مہر کی ادائیگی سے بڑھ کر ہے۔ ظلم کی دوسری صورت یہ تھی کہ عرب چونکہ غیر محدود حدتک نکاح کرنے کو جائز سمجھتے تھے اس لیے نکاح پر نکاح کرتے چلے جاتے۔ لیکن جب بیویوں کے مصارف ادا نہ ہوتے تو پھر یتیم بچوں اور بچیوں کے حقوق پر دست درازی کرتے۔ ظلم کے انسداد کے لیے ہدایات اسلام نے ان مظالم کو روکنے کے لیے دو پابندیاں لگائیں۔ ایک تو یہ کہ چونکہ تم یتیم بچیوں سے نکاح کرنے کی صورت میں ان کے حقوق کی نگہداشت نہیں کرتے ہو بلکہ ہر طرح کے ظلم کو روا رکھتے ہو۔ اس لیے آئندہ تم یتیم بچیوں سے نکاح کرنے کی بجائے دوسری عورتوں سے نکاح کرو اور دوسری پابندی یہ لگائی کہ عورتوں پر تمہارے ظلم کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تم غیر محدود کثرت ازواج کے قائل ہو۔ جس کی وجہ سے مصارف میں تنگی کا شکار ہوتے ہو تو پھرا یک طرف یتیموں کے حقوق تلف کرتے ہو اور دوسری طرف بیویوں پر ظلم ڈھاتے ہو اس لیے آئندہ تم زیادہ سے زیادہ بیک وقت چار تک بیویاں ر کھ سکتے ہو اس سے زیادہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ تم ان کے درمیان عدل کرنے کا تہیہ کرو۔ بعض اہل علم نے یتامیٰ سے یتیم بچیاں مراد لینے پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یتامیٰ کا لفظ نابالغ لڑکوں یا لڑکیوں پر بولا جاتا ہے۔ صرف نابالغ لڑکیوں کے لیے اس کا استعمال نہ عربی زبان میں معروف ہے نہ قرآن کریم اور حدیث میں۔ قرآن کریم میں یہ لفظ کم از کم پندرہ جگہ جمع کی صورت میں استعمال ہوا ہے لیکن کسی جگہ بھی صرف یتیم بچیوں کے مفہوم میں استعمال نہیں ہوا۔ میری عاجزانہ درخواست یہ ہے کہ مقصود ان آیات کریمہ سے یتیموں پر ہونے والے مظالم اور ان کی حق تلفیوں اور حق شکنیوں کا سد باب کرنا ہے۔ اس میں یتیم بچے بھی شامل ہیں اور یتیم بچیاں بھی۔ پہلی آیت کریمہ میں یتامیٰ کے لفظ سے ہر طرح کے یتیم مراد لیے گئے اور اسی سیاق کلام میں دوسری آیت کریمہ میں اگر یتامیٰ سے مراد یتیم بچیاں مراد لے لی جائیں تو اس میں عربی لغت کے اعتبار سے کیا اشکال ہے۔ اگر اس آیت کریمہ میں نساء کے لفظ سے یتیموں کی مائیں مراد لی جاسکتی ہیں، صرف اس لیے کہ اس آیت کے مضمرات اس کے لیے قرائن کا کام دے سکتے ہیں۔ تو اسی طرح یہاں یتامیٰ سے یتیم بچیاں مراد لی جاسکتی ہیں۔ کیونکہ یتیموں کے ساتھ ہونے والی حق تلفیوں کا زیادہ تر تعلق وراثت اور نکاح کے حوالے سے یتیم بچیوں ہی کے ساتھ تھا اور مزید یہ بات بھی ہے کہ اگر یتامیٰ کے لفظ میں صرف یتیم بچیوں کا معنی لینے کی بالکل کوئی گنجائش نہ ہوتی تو حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) اور ان کے شاگرد حضرت عکرمہ ( رض) جیسے لوگ یہ کیونکر مراد لے لیتے۔ البتہ یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ جس طرح اس آیت کے مفہوم میں مندرجہ بالا مفاہیم شامل ہیں اور وہ تمام کے تمام یتیم بچیوں سے متعلق ہیں اسی طرح اس آیت سے یہ مفہوم بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ یتامیٰ سے مراد یتیم بچے ہیں۔ اس طرح سے آیت کی تفسیر ایک ایسی مکمل شکل اختیار کرلے گی جس میں یتیم بچوں اور بچیوں پر ہونے والی زیادتیوں کا استقصاء ہوجائے گا۔ یتامیٰ سے اگر یتیم بچے مراد لیے جائیں تو پھر آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے یتیموں کے سرپرستو ! اگر تمہیں یہ اندیشہ ہے کہ تم اپنے طور پر یتیموں کے مال اور ان کے واجبی حقوق کی صحیح نگہداشت نہیں کرسکتے ہو کیونکہ ان کے حقوق میں صرف کھلانا پلانا ہی نہیں ان کی مناسب تربیت بھی شامل ہے۔ اور تمہارے اپنے بچوں کی موجودگی میں یہ بھی ضروری ہے کہ انھیں احساس کہتری اور احساسِ محرومی سے بچایا جائے اور یہ تمام ذمہ داری یقینا تم تنہا نہیں اٹھا سکو گے اور تم یہ سمجھتے ہو کہ اس ذمہ داری کو بتمام و کمال انجام دینا اسی صورت میں ممکن ہے کہ یتیم بچوں کی مائیں بھی اس ذمہ داری میں تمہارے ساتھ شریک ہوں تو اس صورت میں مناسب یہ ہے کہ تم ان بچوں کی مائوں کے ساتھ نکاح کرلو۔ جب ان کی مائیں ان کی ذمہ داری میں تمہارے ساتھ شریک ہوجائیں گی تو وہ چونکہ اپنے بچوں کے ساتھ قلبی تعلق رکھتی ہیں اور شوہر کے مرجانے کے بعد اس تعلق میں یقینا اضافہ بھی ہوگیا ہے تو وہ یقینا اس ذمہ داری کو پورے احساسِ ذمہ داری اور دل کی بیداری کے ساتھ ادا کریں اور اس نازک ذمہ داری کی ادائیگی میں اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہاری ضرورت ایک سے زیادہ بیویاں ہیں تو تم زیادہ عورتوں سے نکاح کرسکتے ہو بشرطیکہ ان کی تعداد کسی صورت میں چار سے زیادہ نہ ہونے پائے اور مزید یہ کہ تم ان کے درمیان عدل قائم بھی رکھ سکو اور اگر تمہیں اپنا جائزہ لے کر یہ اندیشہ ہو کہ عدل نہیں قائم رکھ سکو گے تو پھر ایک سے زیادہ نکاح نہ کرو۔ اس طرح سے اس بات کا بےحد امکان ہے کہ تم پر جو زمہ داریاں آپڑی ہیں تم ان کو اس طرح ادا کرسکو کہ جس میں حق و انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہونے پائیں۔ مَاطَابَ لَـکُمْ کا مفہوم آگے بڑھنے سے پہلے ہم اس آیت کے بعض الفاظ کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ ان الفاظ کی وضاحت میں بعض لوگوں نے بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَـکُمْ مِنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ” مَاطَابَ لَـکٔمْ کا ترجمہ حضرت حسن بصری اور بعض دوسرے بزرگوں نے کیا ہے ماحلَّ لکم کہ تم ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے حلال ہیں اور دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ جو تمہیں پسند ہوں۔ اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ جو عورتیں تمہارے لیے حلال ہوں لیکن ساتھ ساتھ سیرت و صورت کے اعتبار سے پسندیدہ بھی ہوں چونکہ اسلام میاں بیوی میں خوشگوار تعلقات دیکھنا چاہتا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں ایک دوسرے کے لیے قابل قبول ہوں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو عیاشی کی تعلیم دے رہا ہے بلکہ وہ اپنے ماننے والوں کو عقدہ نکاح اور میاں بیوی کے نازک تعلق کے حوالے سے ایسی تعلیم دے رہا ہے جس میں انسانی زندگی کی مشکلات کم سے کم ہوجائیں اور ایک بہتر انسانی معاشرت کی ابتداء کی جاسکے۔ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ کا مفہوم اس کے بعد فرمایا مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ اس میں ” و “ عطف کا نہیں تخییر کا ہے یعنی اَو کے مترادف ہے جس کا معنی ہے کہ جو عورتیں تمہارے لیے حلال ہوں ان سے نکاح کرلو۔ دو دو، تین تین، چارچار۔ یعنی تم ایک وقت میں دو بیویاں رکھ سکتے ہو، تین رکھ سکتے ہو یا چار رکھ سکتے ہو اس سے زیادہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ خود قرآن مجید میں ” و “ کے اس معنی میں استعمال کی مثالیں متعدد ملتی ہیں۔ مثلاً فرشتوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کے پر ہیں مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۔ کسی کے دو ہیں کسی کے تین کسی کے چار۔ یعنی دو دو، تین تین، چارچار پروں والے فرشتے ہیں۔ لیکن بعض گمراہ لوگوں نے دو اور تین اور چار کے عدد کو جوڑ کر اس آیت سے نو بیویوں کے جواز کا استدلال کیا ہے اور بعض ظالموں نے اس تعداد کو اٹھارہ تک پہنچادیا ہے اس پر اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ اس طرح کی باتیں زبان عرب اور سنت رسول دونوں سے جہالت کے مترادف ہیں۔ اگر نو ہی کی تعداد منظور ہوتی تو صاف ہی ارشاد فرمادیا جاتا اس قدر گھوم پھر کر بات کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ قرآن وسنت کی وضاحت کے باعث فقہائِ امت کا اجماع ہے کہ اس آیت کی رو سے تعدد ازواج کو محدود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کردیا گیا ہے۔ کیونکہ اسلام سے پیشتر نہ صرف متعدد بیویاں رکھنا دنیا کے تمام مذاہب میں جائز سمجھا جاتا تھا بلکہ اکثر ملکوں میں کسی عدد پر بھی اس کو محدود نہیں کیا جاتا تھا۔ اسلام نے کثرت ازواج کو رواج نہیں دیا بلکہ پہلے سے دنیا میں ایک مروج چیز کو محدود کرکے مہذب بنایا ہے۔ خود عربوں کا حال یہ تھا کہ ان کے ہاں بیویوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں تھی۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ طائف کا رئیس غیلان بن اسلمہ جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے اسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لو باقی کو چھوڑ دو ۔ قیس بن الحارث اسدی ( رض) فرماتے ہیں کہ میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں میں نے رسول کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا ان میں سے چار رکھ لو باقی کو طلاق دے دو ۔ اسی طرح ایک دوسرے شخص نوفل بن معاویہ کی پانچ بیویاں تھیں۔ آپ نے حکم دیا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دو ۔ تعددِ ازواج دنیا میں ہمیشہ ایک حقیقت کے طور پر زندہ رہا، اس کی مخالفت مغرب کی طرف سے اور ان کے زیر اثر مغرب زدہ مسلمانوں کی جانب سے ایک ایسی نئی چیز ہے جس کا تاریخ میں کوئی وجود نہیں اور حقیقت میں یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس پر شرماکر تاویلیں کرنے کی ضرورت ہو۔ مرد کے قویٰ اس کی جسمانی ساخت اور ترکیب ہی اس نوعیت کی ہے کہ بہ کثرت عورتوں میں ایک بیوی اس کی طبعی خواہش کی تشفی کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ مرد اور عورت کے اتحاد و تناسل کا جہاں تک تعلق ہے مرد کا عمل چند منٹ میں ختم ہوجاتا ہے اور اس کے بعد مرد پر جسمانی حیثیت سے کوئی ذمہ داری ہی نہیں بخلاف اس کے عورت کے لیے اس کے نتائج کا سلسلہ دنوں اور ہفتوں نہیں حمل اور رضاعت کی مدت ملا کر ڈھائی ڈھائی سال تک پھیلا ہوارہتا ہے۔ پھر حمل کے بغیر بھی ہر جوان اور تندرست عورت کے لیے ہر مہینہ ایک ایک ہفتہ کی معذوری ایک امر طبعی ہے اور وہ قانونی نظام کامل نہیں ناقص ہے جو مرد کی طبعی ضرورتوں کی طرف سے آنکھ بند کرلے اور عورت کی طبعی معذوریوں کا لحاظ کرکے مرد کے لیے کوئی سہولت جائز نہ رکھے۔ پھر یورپ کے بڑے بڑے ڈاکٹروں اور ماہرین ِ حیاتیات کی شہادتیں اس تجربہ اور مشاہدہ کی تائید میں ہیں کہ طبعی ضرورت سے قطع نظر مرد کی شہوانی جبلت تنوع پسند بھی ہے۔ اس لیے جو شریعت اس کی اس جبلت کی کوئی رعائت اپنے نظام میں نہیں رکھتی وہ اور کچھ بھی ہو بہرحال خدائی اور مطابقِ فطرت نہیں کہی جاسکتی۔ یہی سبب ہے کہ تاریخ جب سے ساتھ دیتی ہے داعیانِ توحید نے اس دستور کو نہ صرف جائز رکھا ہے بلکہ اس پر عمل کرکے اور زیادہ قوت پہنچادی ہے۔ حضرت ِ ابراہیم حضرت یعقوب، حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان (علیہم السلام) میں سے کسی کے ہاں بھی یک زوجی کی سند نہیں ملتی۔ بلکہ بعض کی حرم سرا تو کثرت تعداد کے لیے بھی مشہور ہے۔ ہند قدیم میں اکابرِ ہنود کی بابت بھی روایتیں وحدت کی نہیں تعدد کی ہیں۔ کرشن جی کے بارے میں تو کئی بیویوں کی روایت کی جاتی ہے اور یورپ اور امریکہ میں آج رسم نکاح کو درمیان میں لائے بغیر جو اندھیر کھلے بندوں ہورہا ہے اس کی نقل وحکائت کی تاب بھی ان صفحات میں کہاں سے لائی جائے۔ اسلام میں ایک طرف تو یک زوجی کی قید اڑا کر تعدد کو سند جواز دے دی اور دوسری طرف اس کی مناسب حد بندیاں بھی کئی کئی طرح کردیں۔ یہی اس کی حکمت کا کمال رہا۔ (ماخوذ از تفسیر ماجدی) یہ جو کچھ اب تک عرض کیا گیا ہے اس کا تعلق انسان کی فطرت، جبلت اور اس کی انفرادی زندگی سے ہے۔ لیکن جہاں تک اجتماعی زندگی اور اس کے حوالے سے بعض دفعہ پیدا ہونے والی ضرورتوں کا تعلق ہے وہ تو اور بھی زیادہ قابل توجہ ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں بالعموم عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ رہی ہے۔ اور آج بھی یہی حال ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو عورتیں مردوں سے زیادہ ہیں ان کی صنفی ضرورت، اخلاق کی حفاظت، نسب کی بقا، اور نسلی خصوصیات کے تحفظ کے حوالے سے ہمارا آج کا علم و دانش کیا کہتا ہے۔ کیا اس کا وہی حل قبول کرلیاجائے ؟ جو دنیا کے مادہ پرست بے خدا تہذیب کے ماننے والے اور مذہب بےزار لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے کہ اخلاقی اقدا رکو قصہ پارینہ سمجھو۔ گھروں میں ایک ایک بیوی رکھ کر باقی سب کو داشتائوں کی صورت میں زندگی گزارنے پر مجبور کردو اور اس طرح سے ایک ایسی دنیا بسادوجس میں شرم وحیاعفت وصفا اور غیرت وحمیت کا نام تک نہ ہو۔ رشتے اپنا تقدس کھو بیٹھیں، ماں باپ کی اہمیت اس سے زیادہ نہ ہو کہ وہ انسانی جسم کو Produce کرنے والی ایک مشین ہیں۔ مذہب نے جو ان کے گرد تقدس اور بزرگی کا ہالہ بنایا ہوا ہے اس کا وجود باقی نہ رہے۔ اولاد پیداواری تسلسل کے سوا اور کوئی حیثیت نہ رکھتی ہو رہی شفقت اور وراثتِ پدری کی حفاظت محض دقیانوسی باتیں ہو کر رہ جائیں ان رشتوں کے ٹوٹنے سے گھر ٹوٹیں، خاندان بربادہوں، معاشرہ تباہ ہوجائے، حتی کہ سیاسی انارکی پیدا ہوجائے ان نام نہاد دانشوروں کو ان باتوں میں سے کسی بات سے غرض نہیں۔ یہ دنیا دو دفعہ جنگ عظیم کا شکا رہوچ کی ہے اس میں بیشمار لوگ کام آئے، بیشمار گھراجڑے، ان گنت عورتیں بیوہ ہوئیں، عورتوں کی تعداد بڑھ گئی، مرد کم ہوگئے۔ لیکن ان دانشوروں کی دانش میں غیرت نام کی کوئی چیزپیدا نہ ہوئی اٹلی اور جرمن میں ایسی نسل تک تیار ہوگئی جن کے باپ کا کوئی پتہ نہیں، جس کا رفتہ رفتہ نتیجہ یہ ہوا کہ ایسا فلسفہ وجود میں آیا جس نے حرام کے بچے کو حلال کے بچے کے نہ صرف برابر قرار دے دیا بلکہ اب اسے آگے بڑھانے کی فکر میں ہیں۔ اسلام نے ایک سیدھا سادھا انفرادی اور اجتماعی زندگی میں پیدا ہونے والی جنسی اور صنفی الجھنوں کا حل محدود تعدد ازواج کی صورت میں پیش کیا اور پھر ان کو مناسب پابندیوں کے ساتھ ایسا مہذب بنایا کہ جس سے مزید بہتر قانون کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ صاف صاف حکم دیا کہ دوسری بیوی کی اسی صورت میں اجازت ہے جب تم بیویوں کے درمیان عدل کرو اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرسکو گے یعنی جو بیویوں کے حقوق ہیں ان کی ادائیگی میں مساوات نہیں رکھ سکو گے پھر تمہیں دوسری بیوی کی ہرگز اجازت نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنی صحت، اپنی مالی حالت اور اپنی وڈیروں والی تربیت کے باعث ایک بیوی سے بھی انصاف نہیں کرسکتا تو اس کے لیے ایک خاتون سے نکاح کرنا بھی جائز نہیں کیونکہ عورت کوئی کھلونا نہیں، جسے محض جنسی ضرورت پورا کرنے کے لیے استعمال میں لایا جائے۔ اس کے ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مرد کے حقوق ہیں اور وہ بھی اپنی ذات کا ایسا ہی احترام رکھتی ہے جیسا مرد۔ اس لیے اسلام عدل کی شرط سے کسی طور بھی دست بردار نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے کہ اگر تم ایک آزاد عورت سے نکاح کرنے کے بعد اس کے تقاضے پورے نہیں کرسکتے تو پھر تمہیں لونڈی سے نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ اس کے حقوق میں وہ وسعت نہیں جو آزاد عورت کے حقوق میں ہے۔ غلامی اسلام کے پروگرام کا حصہ نہیں یہ یاد رہے کہ غلامی اسلام کے پروگرام کا حصہ نہیں اسے تو اسلام نے اسیرانِ جنگ کے اہم معاملے کے حل کے طور پر قبول کیا تھا کیونکہ اسیرانِ جنگ کا معاملہ ہمیشہ ایک اہم اور دشوار معاملہ رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جو مرد اور عورتیں شکست خوردہ غنیم کے ہاں سے گرفتارہوکر آئیں ان کیساتھ کیا برتائو کیا جائے اور انھیں کہاں رکھا جائے۔ کسی نے اس کا حل جبری مزدوری Forced Labour یا بےگار کو نکالا، کسی نے کچھ اور کہا۔ اسلامی شریعت نے حکم دیا کہ بجائے اس کے کہ ایک بڑی آبادی کا بار حکومت پر ڈالا جائے اس تعداد کو افراد میں تقسیم کردیاجائے۔ ہر فرد اس نووارد کو اپنے خاندان کا ایک جز بنائے، اس سے کام ہر طرح کا یقینا لے لیکن اس کے آرام کا بھی ہر طرح لحاظ رکھے اور ان میں جو عورتیں ہوں ان سے ہم بستری کا حق بھی حاصل رہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ غلام یا لونڈی بننے کا تعلق جیسا کہ پہلے عرض کیا اسیرانِ جنگ سے ہے اور جنگ بھی وہ جسے قتال فی سبیل اللہ کہا جاتا ہے اور پھر یہ بات بھی نہیں کہ جس سپاہی کے ہاتھ کوئی دشمن کا سپاہی لگ جائے وہ اسے غلام بنالے اور جس کے ہاتھ دشمن کی کوئی لڑاکا خاتون لگ جائے تو وہ اسے لونڈی بنالے۔ اگر کوئی آدمی اس طرح سے خود فیصلہ کرے تو پکڑا جانے والا غلام نہیں ہوگا اور پکڑی جانے والی لونڈی نہیں ہوگی۔ بلکہ اس کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ تمام جنگی قیدی مرد ہوں یا عورت سالارِ جنگ کے پاس جمع کیے جائیں۔ وہ اگر اپنی حکومت کی اجازت سے انھیں آزاد کرنا چاہے تو آزاد کرسکتا ہے قیدیوں کے تبادلے میں چھوڑنا چاہے تو چھوڑ سکتا ہے، زرِ فدیہ لے کر رہا کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، لیکن اگر دشمن ان باتوں میں سے کسی پر راضی نہ ہو اور وہ کسی بھی معاہدے سے اپنے قیدیوں خصوصاً قیدی عورتوں کو واپس نہ لینا چاہے ( کیونکہ مشرق میں عموماً اسے غیرت کا معاملہ بنالیا جاتا ہے) تو پھر سب سے بہتر حل یہ ہے کہ سپہ سالار باقاعدہ اسیرانِ جنگ کو حکومت کے فیصلے اور دینی مصلحت کے تحت اپنے سپاہیوں میں ایک ایک کرکے تقسیم کرے۔ سپہ سالار کا اس طرح سے قیدیوں کو تقسیم کرنا اور مسلمان سپاہیوں کا انھیں قبول کرنا یہ نکاح کے ایجاب و قبول کی مانند ہے جس کی وجہ سے قیدی عورتوں سے میاں بیوی کے تعلقات رکھنے کی اجازت ہوجاتی ہے۔ مزید کسی ایجاب و قبول کی ضرورت نہیں ہوتی۔ البتہ اگر کوئی شخص لونڈی کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو آنحضرت ﷺ نے اسے بےحد فضیلت کا عمل قرار دیا ہے۔ اسی طرح لونڈیوں اور غلاموں کو آزاد کرنے کی فضیلتوں اور ترغیبات سے قرآن وسنت معمور ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ایسے صاف سیدھے شریفانہ اور حکیمانہ قانون سے شرمانے اور اسے غیروں سے چھپانے کی تجدد زدہ مسلمان ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ شائد اس لیے کہ ان کا ذہن معاً انگریزی کے لفظ Slave اور ان ساری سختیوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے جو اس لفظ کے تخیل کے ساتھ وابستہ ہیں اور جو خاص طور پر رومی حکومت کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ لیکن اسلام نے غلاموں کے حقوق کا جس تاکید کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور پھر جس طرح آنحضرت ﷺ اور صحابہ نے اس پر عمل کرکے دکھایا ہے اور جس طرح غلاموں کو گھر میں رکھ کر تربیت کا سامان کیا اور اس تربیت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دل و دماغ اسلام کے لیے کھول دئیے وہ تو اسلام اور مسلمانوں کے لیے فخر کی چیز ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے احساسِ کمتری اور محرومیوں کو دور کرنے کے لیے مسلمانوں نے گراں بہا خدمات انجام دی ہیں۔ شائد اسی کا نتیجہ تھا کہ ہمارے یہاں خاندانِ غلاماں تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ کتنے غلاموں اور غلام زادوں نے بادشاہتیں کی ہیں اور امرا تو ان میں کثرت سے ہوئے ہیں اور دینی حیثیت سے بڑے بڑے علماء، فقہاء اور ائمہ فن کی کتنی بڑی تعداد تابعین کے زمانے میں غلاموں سے اٹھی۔ کنیز اور لونڈی کا ذکر ایک ضرورت کے تحت یہاں کرنا ناگزیر ہوگیا تھا۔ ورنہ اصل بحث تو یتیموں کے حقوق کی چل رہی ہے اور عربوں میں یتیم بچیوں کے ساتھ چونکہ بڑ اظلم ہورہا تھا اس لیے قرآن کریم نے متعدد جگہ اس کو موضوع بنایا ہے اور یہاں بطور خاص اس موضوع کے اہم پہلو بیان کیے جارہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی زیادہ بیویوں کی صورت و حکمت لیکن ہم ان کا ذکر کرنے سے پہلے تعدد ازدواج کے حوالے سے آنحضرت ﷺ کی چار سے زیادہ ازواجِ مطہرات کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ معاندینِ اسلام نے جس طرح اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں وہ تو یقینا قابل توجہ نہیں البتہ مستشرقین نے ریسرچ اور تحقیق کے نام سے جس طرح استعماری مصلحتوں کی خدمت انجام دی ہے اور اس سلسلے میں آنحضرت ﷺ کے تعددازدواج کو موضوع بنا کر آپ کی پاکدامنی اور شرم وحیا پر جس طرح چھینٹے اڑائے ہیں اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان نام نہاد تحقیق اور ریسرچ کرنے والوں کا اندرون کس قدر بھیانک ہے اور یہ تحقیق کے نام پر کس طرح یا وہ گوئی اور خبث باطن کا اظہار کرتے ہیں۔ چناچہ اپنے اسی اندھے حسد کے باعث انھوں نے اس بات پر شدید تنقید کی کہ مسلمانوں کو جب چار سے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت نہیں تھی تو خود مسلمانوں کے پیغمبر نے نو بیویاں اپنے نکاح میں کیسے رکھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا پیغمبر جنسی جذبات اور ہیجانات سے مغلوب شخصیت رکھتا تھا۔ اس لیے نہایت اختصار سے ہم اس سلسلے میں کچھ عرض کرتے ہیں۔ جو آدمی بھی غیر جانب دار ہو کر آپ کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہے وہ اس بات کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آنحضرت ﷺ پورے مکہ میں نہایت شرم وحیا والے عفت مآب اور پاک دامن مشہور تھے۔ آپ کی آنکھوں میں کنواری لڑکیوں سے بڑھ کر حیا تھی۔ نبوت کے بعد بھی دشمنوں نے آپ پر ہر طرح کے الزامات لگائے کبھی آپ کو شاعر قرار دیا کبھی کاہن، کبھی جادو گر، لیکن ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں دشمنوں نے آپ کی سیرت و کردار کے بارے میں ایک حرف تک کہنے کی جسارت کی ہو۔ آپ کے بلند اخلاق، حسن کردار، اور اعلیٰ انسانی صفات کے دشمن بھی ہمیشہ معترف رہے۔ جہاں تک شادیوں کا تعلق ہے، آنحضرت کی زندگی کے اس پہلو کو جب ہم غور سے دیکھتے ہیں تو آپ پر کبھی کبھی تارک الدنیا کا گمان ہونے لگتا ہے۔ ذرا اندازہ کیجیے کہ آپ نے پچیس سال کی عمر میں ایک سن رسیدہ، صاحب اولاد بیوہ سے جس کے دو شوہر فوت ہوچکے تھے عقد کرکے عمر کے پچیس سال تک انھیں کے ساتھ گزارہ کیا۔ جب تک حضرت خدیجہ زندہ رہیں باوجود اس کے کہ بڑھاپے سے ان کے متعدد دانت بھی نکل چکے تھے آپ نے کسی دوسری شادی کے بارے میں سوچاتک نہیں۔ جب آپ کی عمر پچاس سال کی ہوگئی اور حضرت خدیجہ کے وفات پاجانے کے باعث گھر میں جوان بیٹیوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ رہا آپ کو بیوی کی شدید ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے حضرت سودہ سے نکاح فرمایا۔ آپ کو یہ معلوم کرکے تعجب ہوگا کہ حضرت سودہ نہایت سن رسیدہ خاتون تھیں انھوں نے محض آنحضرت کی دلجوئی، خدمت اور بیٹیوں کی دیکھ بھال کے لیے آنحضرت سے نکاح کیا ورنہ اس عمر میں انھیں نکاح کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ پھر حضرت عائشہ ( رض) کے ساتھ آپ نے نکاح کیا لیکن کم سنی کے باعث ان کی رخصتی اس وقت عمل میں آئی جب کہ آپ کی عمر شریف چون 54 برس کی ہوچکی تھی۔ غور فرمائیے ! آپ پر اترنے والی کتاب نے مسلمانوں کو چار بیویاں کرنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن خود حضور چون سال کی عمر میں دو بیویاں رکھتے ہیں ان میں بھی ایک شادی کی عمر سے گزر جانے والی اور دوسری نہایت کم سن جس کی ابھی رخصتی عمل میں نہیں آسکتی۔ اس کے ایک سال بعد آنحضرت ﷺ نے حضرت حفصہ ( رض) سے نکاح کیا پھر ایک ماہ بعد حضرت زینت بنت خزیمہ سے نکاح ہوا جو صرف اٹھارہ ماہ آپ کے نکاح میں رہ کر وفات پاگئیں اور ایک قول کے مطابق صرف تین ماہ آپ کے نکاح میں رہیں۔ پھر چار ہجری میں حضرت ام سلمہ ( رض) سے نکاح ہوا۔ پھر پانچ ہجری میں حضرت زینب بنت جحش ( رض) اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کے نکاح میں آئیں۔ اس وقت آپ کی عمر شریف اٹھاون سال کی ہوچکی تھی۔ اس کے بعد چھ ہجری میں حضرت جویریہ ( رض) اور سات ہجری میں حضرت ام حبیبہ ( رض) اور حضرت صفیہ ( رض) اور حضرت میمونہ ( رض) سے نکاح ہوا۔ خلاصہ یہ ہے کہ چون سال کی عمر تک آپ نے صرف ایک بیوی کے ساتھ گزارہ کیا یعنی پچیس سال حضرت خدیجہ کے سات اور چار پانچ سال حضرت سودہ کے ساتھ گزارے جو حضرت خدیجہ ہی کی طرح سن رسیدہ خاتون تھیں۔ اس طرح سے اٹھاون سال کی عمر میں چار بیویاں آپ کے حرم میں جمع ہوئیں اور باقی ازواجِ مطہرات دو تین سال کے اندر مسلمانوں کی مائوں کی حیثیت سے آپ کے گھر میں داخل ہوئیں۔ معمولی عقل کا آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اگر آپ پر جنسی جذبات کا غلبہ ہوتایا ذراسا بھی جنسی میلان رکھتے ہوتے تو کیا چون سال آپ دو عمر رسیدہ عورتوں کے ساتھ گزار دیتے۔ اور مزید حیران کن بات یہ ہے کہ جب آپ نے مزید شادیاں فرمائیں بھی تو سوائے ایک خاتون کے کوئی بھی کنواری نہیں تھی۔ بعض تو ان میں ایسی تھیں جو اس سے پہلے دو دو شوہر گزار چکی تھیں۔ ممکن ہے آپ کو یہ خیال آئے کہ آپ کو اصل میں کوئی کنواری خاتون نکاح کرنے کے لیے میسر نہ آسکی تھی۔ اس لیے آپ نے بیوگان سے نکاح کیا اور مزید یہ بات بھی کہ آپ نے بڑھاپے تک دو بیویوں سے صرف اس لیے گزارہ کیا کہ کوئی اور خاتون آپ کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے تیار نہ ہوسکی۔ ایسا خیال ایک عقل کا اندھا ہی کرسکتا ہے۔ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ جس قدر محبت اور جاں نثاری آپ کے لیے صحابہ نے دکھائی ہے دوسری کسی اور امت میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کیا صحابہ کے گھروں میں بیٹیاں نہیں تھیں ان کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اعزاز نہیں ہوسکتا تھا کہ ان کی بیٹی حرم نبوت میں داخل ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نبی کا کوئی کام اللہ کے حکم کے بغیر نہیں ہوتاچنانچہ جب اللہ کا حکم آجاتا ہے تو اللہ کا رسول اس کی تعمیل میں لگ جاتا ہے سورة احزاب پڑھ کر دیکھ لیجیے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ حضرت زید بن حارثہ کی مطلقہ حضرت زینب بنت جحش ( رض) سے بالکل شادی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کیونکہ وہ حضرت زید کی بیوی رہ چکی تھیں اور زید حضور کے متبنیٰ رہ چکے تھے۔ اور عرب معاشرے میں متبنیٰ یعنی منہ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کرنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ یہ چاہتے تھے کہ اس رسم بد کا خاتمہ خود آنحضرت ﷺ کی ذات سے ہو۔ اس لیے حضور کو بادل نخواستہ تعمیل حکم میں نکاح کرنا پڑا اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ آنحضرت کے نکاح اگر جنسی ضرورت کے تحت ہوتے تو وہ اس عمر میں ہوتے جب جنسی جذبات زندہ تھے۔ لیکن تعلیمِ امت، تبلیغِ دین اور معاند قبائل کو قریب لانے کی مصلحت جیسے متعدد عوامل تھے جنھوں نے آنحضرت ﷺ کو عمر کے آخری سالوں میں نکاح کرنے پر مجبور کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) سے لڑکپن میں نکاح اس لیے کیا گیا کہ کوئی ایسی خاتون ہونی چاہیے جس کی زندگی کے تمام مراحل اور جسم اور احساسات میں ہونے والی تبدیلیاں حضور کے سامنے گزریں اور ان کے ذریعے سے امت کی عورتوں کو ان نازک مسائل کا ادراک ہوسکے جو ایک مسلمان عورت کے لیے ضروری ہیں۔ اسی طرح نوعمری سے لے کر جوانی تک چونکہ صلاحیتیں پوری طرح بیدار ہوتی ہیں، قوت اخذ اور قوت حفظ عروج پر ہوتی ہیں۔ آنحضرت کی ازواجِ مطہرات میں اس عمر کی بیوی کا ہونا ضروری تھا تاکہ وہ آنحضرت کے ارشادات کو یا دبھی رکھ سکے اور دین میں استنباط اور اجتہاد کا ملکہ حاصل کرکے آنحضرت کے وصال کے بعد امت کی رہنمائی بھی کرسکے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کو اس کام کے لیے چن لیا۔ انھوں نے بائیس سو دس 2210 احادیث امت تک پہنچائیں۔ ایک بہت بڑی تعداد آپ کے فتاویٰ کی ہے۔ سینکڑوں آپ کے شاگرد ہیں جن کے واسطے سے حضرت عائشہ کا علم امت تک منتقل ہوا۔ جن میں احکام ومسائل، اخلاق وآداب، اور سیرت نبوی کا ایک خزانہ موجود ہے۔ حضرت ام سلمہ ( رض) سے اس لیے آنحضرت نے نکاح فرمایا کہ وہ غیر معمولی طور پر ذہین خاتون تھیں۔ تین سو اٹھہتر احادیث انھوں نے روایت کی ہیں۔ حافظ ابن قیم نے اعلام الموقعین میں لکھا ہے کہ اگر حضرت ام سلمہ ( رض) کے فتاویٰ جمع کیئے جائیں جو انھوں نے آنحضرت کی وفات کے بعد دیئے ہیں تو ایک رسالہ مرتب ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک اور حکمت بھی اس نکاح میں پنہاں تھی جو ہم جیسے بےبصر لوگوں کو بھی نظر آتی ہے اہل نظر تو نجانے کیا کیا دیکھتے ہوں گے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت ام سلمہ ( رض) کے شوہر حضرت ابو سلمہ نے اپنی شہادت پر بچے بھی یتیم چھوڑے تھے۔ جن میں ان کے بیٹے بھی تھے آپ نے ان یتیم بچوں کو نہایت شفقت اور پیار سے پالا اور پروان چڑھایا۔ حضرت ام سلمہ کے صاحبزادے عمر بن ابی سلمہ سے کئی اس طرح کی روایات مروی ہیں، جس میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ حضور نے کس طرح ان کی تربیت فرمائی۔ کس طرح پیار دیا اور کس طرح ہمیشہ نہایت شفقت سے غلط بات پر ٹوکتے اور رہنمائی فرماتے تھے۔ حضرت ام سلمہ کی اولاد کے ساتھ آپ کی شفقت اور نگرانی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نرینہ اولاد کی تربیت کیسے کی جاتی ہے۔ اس طرح حضرت جویریہ ( رض) بنوالمصطلق کے سردار کی بیٹی تھیں وہ ایک جہاد میں قید ہو کر آئیں۔ چناچہ ان کے ساتھ بھی باقی قیدیوں جیسا سلوک کیا گیا لیکن جب آنحضرت ﷺ نے انھیں آزاد کرکے اپنی بیوی بنالیا تو ان کی قوم کے سینکڑوں افرادجو گرفتاری کے بعد صحابہ کی ملکیت میں آچکے تھے، وہ سب آزاد ہوگئے کیونکہ جب صحابہ کو پتہ چلا کہ جویریہ آپ کے نکاح میں آگئی ہیں تو آنحضرت ﷺ کے احترام کے پیش نظر سب نے اپنے اپنے غلام، باندی آزاد کردیئے۔ ایک طرف تو صحابہ کا ادب اور محبت ملاحظہ کیجیے کہ جب انھیں معلوم ہوا کہ بنوالمصطلق آنحضرت کے سسرال بن گئے ہیں تو انھوں نے تمام لوگوں کو آزاد کردیا کیونکہ حضور کے سسرال کو غلام نہیں رکھا جاسکتا تھا اور دوسری طرف اس مصلحت کی طرف نظر ڈالیے کہ جیسے ہی آنحضرت کی ان کے ساتھ قرابت داری ہوئی تو وہ قبیلہ جو حضور کو کسی طرح بھی نبی ماننے کو تیار نہیں تھا اس احسان کے بعد مسلمان ہوگیا۔ حضرت ام حبیبہ ( رض) حضرت ابو سفیان کی صاحبزادی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئیں وہاں نجانے کیا افتاد پڑی کہ ان کا شوہر پہلے مرتد ہوا پھر بیمار رہ کر مرگیا۔ امِ حبیبہ پردیس میں بیوہ ہوگئیں۔ اس روح فرسا غم سے اس عفیفہ خاتون کو نجات دلانے کے لیے حضور نے انھیں پیغامِ نکاح بھیجا۔ اس طرح انھوں نے آنحضرت ﷺ سے نکاح کرلیا۔ تاریخ پر گہری نظر رکھنے والا آدمی جانتا ہے کہ ابوسفیان کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو بےاختیار اس کی زبان سے الفاظ نکلے ھُوَا الْفَحْلُ لَایُجدَعُ اَنْفُہ ” محمد ﷺ ایک ایسے جواں مرد ہیں جن کی ناک نہیں کاٹی جاسکتی “۔ مراد یہ تھی کہ وہ نہایت معزز شخصیت کے مالک ہیں اس لیے ان کے ساتھ میری بیٹی کا نکاح ہوجانا ہمارے لیے ذلت کا نہیں عزت کا مقام ہے۔ چناچہ اس کے بعد ابو سفیان جو قریش کے سردار تھے ان کی دشمنی میں وہ زور اور وہ تیزی باقی نہ رہی جو پہلے نظر آتی تھی۔ مختصر یہ کہ آنحضرت ﷺ نے جب نکاح کی عمر تھی تو بڑھاپے تک یک بعد دیگرے دو بوڑھی عورتوں کے ساتھ گزارہ کیا، لیکن جب نبوت کی ذمہ داریاں، حکومت کے مشاغل، اصلاح و تربیت کا نازک کام باہر سے آنے والے وفود سے ملاقاتیں اور ان کے لیے مناسب ہدایات اندرون اور بیرونِ ملک میں اٹھنے والے فتنوں سے آگاہی اور ان کا سدباب ایک ہجومِ کار ہے جس میں کوئی فرصت کے لمحات نظر نہیں آتے۔ ایسے حالات میں بیویوں سے نکاح صرف اس لیے تھا تاکہ تبلیغ و دعوت، تفہیم دین، بطور خاص عورتوں کے مسائل کا عورتوں تک پہنچنا اور ان کی مناسب تربیت جیسی ذمہ داریاں تقاضا کرتی تھیں کہ آپ کا گھر چونکہ دین و ہدایت کا سرچشمہ ہے اس میں ایسی معلمات اور مبلغات کی شدید ضرورت تھی جو عورتوں تک اللہ کا دین پہنچاسکیں اور انھیں بتاسکیں کہ اچھی ماں، اچھی بیٹی، اچھی بہن اور اچھی بیوی بننے کے لیے تمہیں کیا کچھ کرنا چاہیے۔ یہ چند مصلحتیں اور حکمتیں ہیں جو آنحضرت ﷺ کے تعدد ازدواج کے حوالے سے سرسری طور پر سمجھ میں آتی ہیں ورنہ سیرت پر عبور رکھنے والے اور اسلام کا اجتماعی مزاج سمجھنے والے لوگ اس معاملے میں اس سے بہت زیادہ حکمتوں کا ادراک رکھتے ہیں۔ جنھیں بعض بزرگوں نے سپرد قلم بھی کیا ہے۔ لیکن ہم نے جو چندگذارشات پیش کی ہیں انہیں بھی اگر غور سے پڑھ لیا جائے تو ملحدین اور مستشرقین کے دام تزویر کو بڑی آسانی سے کاٹا جاسکتا ہے۔ بہرحال یہ ایک جملہ معترضہ تھا اصل سلسلہ بیان تو یتیموں کے حقوق سے متعلق ہے۔ اسی سلسلے میں چار بیویوں کی اجازت دی گئی، لیکن اس کو عدل کے ساتھ مشروط ٹھہرایا گیا۔ ہم اس سے پہلے اس کا تذکرہ کرچکے ہیں، یہاں اسی سلسلے میں ایک غلط فہمی کو دور کرنا پیش نظر ہے۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے : وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَائِ ” تم ہرگز طاقت نہیں رکھتے ہو کہ عورتوں کے درمیان عدل کرسکو “۔ اس آیت کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ زیر بحث آیت میں تو یہ کہا گیا ہے کہ تم کو ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کی اس صورت میں اجازت ہے کہ تم ان کے درمیان انصاف کرو۔ اور محولہ بالا آیت میں صاف فرمایا گیا ہے کہ تم عورتوں میں انصاف کرنے کی ہرگز طاقت نہیں رکھتے ہو۔ تو جس بات پر عمل کرنے کی آدمی میں طاقت نہ ہو اس کا اسے پابند کیسے کیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت دونوں آیتوں کا محمل اور مقام الگ الگ ہے۔ جہاں انصاف کا حکم دیا گیا ہے وہ وہ معاملات ہیں جو انسان کے اختیار میں ہیں۔ مثلاً نفقہ، شب باشی، عام ضروریاتِ زندگی، ظاہری رویہ، ان میں بہرصورت بیویوں میں مساوات رکھنا ضروری ہے۔ لیکن وہ معاملات جو انسان کے اختیار میں نہیں ان کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ تم ان میں مساوات اور انصاف کے پابند نہیں ہو۔ مثلاً ایک شخص اپنی تمام بیویوں کے ساتھ یکساں حسن سلوک کرتا ہے لیکن اس کے دل کا میلان کسی ایک کی طرف زیادہ ہے تو یہ دل کا میلان ایک ایسا غیراختیاری معاملہ ہے جس میں برابری رکھنا انسان کے اختیار میں نہیں۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے اپنی دعا میں اسی نازک حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اللھم ھذا قسمی فی ما املک فلا تلمنی فیما تملک ولا املک ” یا اللہ ! یہ میری برابر والی تقسیم ہے ان چیزوں میں جو میرے اختیار میں ہیں اور وہ چیز جو آپ کے قبضہ میں ہے اور میرے اختیار میں نہیں ہے اس پر مجھ سے مواخذہ نہ کرنا “۔ آیت کے اختتام پر ارشاد فرمایا : ذٰلِکَ اَدْ نٰٓی اَلاَّ تَعُوْلُوْا۔ اَدْنٰی دُنُـوٌّ سے ہے۔ جس کا معنی ہے ” قریب “ اور لاَ تَعُوْلُوْا، عال یعول مال یمیل کے معنی میں ہے۔ جس کے معنی ” میلان “ کے ہیں۔ یہاں ناجائز میلان اور بےانصافی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں جن احتیاطوں کا حکم دیا گیا ہے اور جن مصلحتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اگر تم ان کی پابندی کرو تو پھر اس بات کا بہت امکان ہے کہ تم بےانصافی سے بچ جاؤ۔ اس میں ایک نہایت نازک بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بےانصافی اس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی شخص دوسرا نکاح کرتا ہے۔ یہاں فرمایا جارہا ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات میں خرابی کا حقیقی سبب ایک سے زیادہ بیویاں ہونا نہیں ہے بلکہ حقیقی سبب بےانصافی ہے۔ یہ بےانصافی جس طرح ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان مسائل پیدا کرتی ہے اسی طرح اگر ایک بیوی کے ساتھ بھی بےانصافی کی جائے تو تب بھی میاں بیوی کے درمیان مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر تم چاہتے ہو کہ میاں بیوی کے درمیان خوشگوار تعلقات ہوں تو اپنے اندر اللہ کا خوف پیدا کرو اور بےانصافی سے بچو تاکہ اللہ کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔
Top