Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 54
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا
اَمْ
: یا
يَحْسُدُوْنَ
: وہ حسد کرتے ہیں
النَّاسَ
: لوگ
عَلٰي
: پر
مَآ اٰتٰىھُمُ
: جو انہیں دیا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْ
: سے
فَضْلِهٖ
: اپنا فضل
فَقَدْ اٰتَيْنَآ
: سو ہم نے دیا
اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ
: آل ابراہیم
الْكِتٰبَ
: کتاب
وَالْحِكْمَةَ
: اور حکمت
وَاٰتَيْنٰھُمْ
: اور انہیں دیا
مُّلْكًا
: ملک
عَظِيْمًا
: بڑا
یا یہ لوگوں پر حسد کررہے ہیں اس فضل پر جو اللہ نے ان کو بخشاتو ہم نے بخش دی آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت اور ہم نے بخش دی ان کو ایک عظیم سلطنت بھی
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَـآ اٰ تٰـھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ج فَقَدْ اٰ تَیَْنَـآ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ الْـکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاٰ تَیْنٰـھُمْ مُّلْـکًا عَظِیْمًا (یا یہ لوگوں پر حسد کررہے ہیں اس فضل پر جو اللہ نے ان کو بخشاتو ہم نے بخش دی آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت اور ہم نے بخش دی ان کو ایک عظیم سلطنت بھی) (النسآء : 54) یہود حسد کے مریض تھے یہود کی دشمنی کا اصل سبب یہ ہے جسے اس آیت میں منکشف فرمایا گیا ہے کہ ان کی تمام فتنہ پروری اور ان کی مسلمان دشمنی پر مبنی یہ تمام حرکتیں اور سازشیں اس سبب سے ہیں کہ ان کے اندر کے حسد کی آگ انھیں چین نہیں لینے دیتی۔ حسد زوال نعمت کی تمنا کرنے کو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی شخص کو کسی کمال سے نوازا ہے، کسی نعمت سے مالامال کیا ہے، کوئی خاص اس پر کرم فرمایا ہے، تو دوسرا آدمی یہ چاہتا ہے کہ یہ سب اس سے چھن جائے۔ اور یہ بالکل قلاش، نادار، اور حقیر آدمی ہوکررہ جائے۔ اس خواہش کا نام ” حسد “ ہے۔ اگر تو صرف یہ خواہش ہو کہ جو کچھ اللہ نے اسے دیا ہے وہ اس کے پاس بھی رہے اور مجھے بھی پروردگار عطا فرمائے تو اسے رشک کہتے ہیں۔ اسلام نے اس کی اجازت دی ہے، لیکن دوسرے کی نعمت پر جلنا اور اس کے زوال کی دعائیں یا تدبیریں کرنا یہ وہ کمینگی ہے جسے حسد کہا جاتا ہے اور جو اسلام کی نگاہ میں بدترین حرکت ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : ایاکم والحسد فان الحسد یا کل الحسنات کما تاکل النار الحطب (تم حسد سے بچو اس لیے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے ) حسد ایک ایسی کمینی عادت ہے کہ جس میں مبتلاشخص دوسروں کا کچھ بگاڑے یا نہ بگاڑے لیکن اپنا کردار اپنی صحت اور اپنا سکون ضرور غارت کرلیتا ہے۔ اس کی دنیا بھی تباہ ہوتی ہے اور آخرت بھی۔ ٹھیک کہا کسی نے ؎ حسد کی دنیا بری ہے اس کا ثمرہ ہے برا اس مرض والے کی یکساں ہے حیات و موت بھی یہود قوم اپنی اسی جبلت کے باعث صدیوں سے عبرت کا مرقع بنی ہوئی ہے۔ اس کی تمام کاوشیں ڈیڑھ ہزار سال سے دوسروں کی تباہی اور بربادی پر صرف ہورہی ہیں جو اس کارویہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں تھا وہی آج بھی ہے۔ اسی رویے کے باعث آنحضرت ﷺ کی نبوت کو وہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ انھیں زعم یہ تھا کہ نبوت بنی اسرائیل کا حق ہے، یہ جب بھی آتی ہے یا آئے گی بنی اسرائیل کے ہاں آئے گی۔ گویا وہ نبوت کو اپنی میراث سمجھتے تھے اور اس پر اپنا اختیار گمان کرتے تھے کہ یہ ہمارے ارادے اور اخیتار کے بغیر کسی کو نہیں مل سکتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ایک امی شخص کو جس کا تعلق آل اسماعیل سے تھا اس عظیم منصب سے بہرہ ور فرمایا تو انھیں آگ لگ گئی اور یہ صدمہ ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگیا۔ چناچہ انھوں نے من حیث القوم یہ فیصلہ کرلیا کہ ہم اس نبی کی نبوت چلنے نہیں دیں گے۔ میں گزشتہ کسی جگہ حضرت صفیہ ( رض) کے حوالے سے عرض کرچکا ہوں کہ ان کے والد نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا کہ یہ یقینا وہی نبی ہیں جن کا ذکر ہماری کتابوں میں آیا ہے لیکن اس کے باوجود جب تک میری جان میں جان ہے میں ان کی نبوت چلنے نہیں دوں گا۔ چناچہ اسی حسد کے باعث انھوں نے اپنی قومی زندگی کو تباہ کیا۔ دو قبیلوں کو مدینے سے نکلنا پڑا تیسرا قتل کے گھاٹ اتر گیا۔ دور فاروقی میں بالآخر انھیں جزیرہ عرب سے بھی نکال دیا گیا۔ لیکن ان کے حسد کی آگ برابر بھڑکتی رہی۔ اللہ تعالیٰ اس آیت کریمہ میں فرما رہے ہیں کہ تم اگر اس حسد کی آگ میں جلنے کا فیصلہ کرچکے ہو تو جلتے رہو ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت بھی دے دی اور انھیں ملک عظیم سے بھی نواز دیا۔ یہود اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ سلطنت اور حکومت کتاب اور نبوت کے لوازم میں سے ہے۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کسی قوم میں نبی اور رسول بھیجتے ہیں اور پھر انھیں کتاب اور حکمت سے نوازتے ہیں تو وہ قوم اگر رسول کے ہاتھ پر ایمان لاکر اور کتاب الٰہی کے احکام کے مطابق عمل کرکے اپنے آپ کو حزب اللہ بنالیتی ہے تو اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ ایسی امت کو حکومت اور سلطنت بھی عطا کرتا ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کے مختلف ادوار اس حقیقت کی شہادت دینے کے لیے کافی ہیں۔ چناچہ یہود مسلمانوں کی مخالفت صرف اس لیے نہیں کررہے تھے کہ وہ ایک نئی نبوت کو کیوں مان رہے ہیں بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھتے تھے کہ اس نبوت اور کتاب کے نتیجے میں مسلمانوں کو ایک ایسا اقتدارملنے والا ہے جس کے بعد ہمارا زوال اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔ آل ابراہیم سے کون مراد ہے ؟ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے کتاب و حکمت اور ملک عظیم دینے کا جو اعلان فرمایا ہے وہ آل ابراہیم کے لیے ہے اور آل ابراہیم جس طرح آل اسماعیل ہیں اسی طراح آل اسحاق اور بنی اسرائیل بھی ہیں۔ تو پھر اس میں مسلمانوں یا آل اسماعیل کی تخصیص کا کیا معنی ہے ؟ گر ان آیات پر معمولی تدبر سے بھی کام لیا جائے تو اس اعتراض کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا۔ ذرا غور فرمائیے ! ان آیات میں تنقید کس پر ہورہی ہے ؟ اور ان تمام تنبیہات کا ہدکون ہے ؟ ظاہر ہے وہ بنی اسرائیل ہیں۔ انھیں سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ تم اپنے حسد اور بغض کی آگ میں جلتے ہو تو جلتے رہو ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم سے نواز دیا ہے۔ جن کو یہ تنبیہ کی جارہی ہے اور جنھیں سرزنش کی جارہی ہے کیا یہ نعمتیں بھی انھیں دی جارہی ہیں ؟ یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جو بات کو سمجھنے کی صلاحیت سے بالکل محروم ہوچکاہو۔ بنی اسرائیل تو اس تنقید اور سرزنش کے باعث اس نعمت سے محروم ہوگئے اور آل ابراہیم کا دوسرا حصہ صرف آل اسماعیل ہے تو خود بخود یہ بات متحقق ہوجاتی ہے کہ یہاں آل ابراہیم سے آل اسمعٰیل ہی مراد ہیں۔ علاوہ ازیں ! گزشتہ آیت سے پیوستہ آیت میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ اللہ نے بنی اسرائیل پر لعنت فرمائی ہے۔ اور لعنت کا مفہوم کیا ہے ؟ اللہ کی رحمت اور نعمت سے دور کردینا “۔ تو جس قوم کو دو آیتیں پہلے رحمت سے دور کردیا گیا اور وہ لعنت کی مورد ٹھہری ہے کیا اب کتاب و حکمت اور ملک عظیم اسے دیا جائے گا ؟ یقینا ایسا نہیں ہوسکتا۔ تو پھر خود بخود یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ آل ابراہیم سے مراد اس آیت کریمہ میں آل اسماعیل ہیں۔ مزید برآں ! یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہود نے اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کی بجائے ہمیشہ حضرت اسحاق سے ہی منسوب کیا ہے۔ تورات میں ہے کہ ابراہیم کی اولاد اسحاق کے نام سے پکاری جائے گی۔ اس کے برعکس اہل عرب اپنے آپ کو ہمیشہ حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے اس انتساب پر فخر کیا اور اپنے آپ کو ملت ابراہیم کا وارث سمجھا۔ اور وہ یہ بھی بجا طور پر دعویٰ کرتے تھے کہ ہم جس گھر کے مجاور ہیں اسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بنایا تھا اور جس شہر کے رہنے والے ہیں وہ شہر حضرت ابراہیم کی دعائوں سے بسا تھا اور ایک مدت تک ان کا مسکن رہا۔ یہ تمام واضح شہادتیں ہیں جس سے اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ یہاں آل ابراہیم سے مراد اہل عرب، آل اسمعیل اور قریش ہیں۔ تورات کو پڑھتے ہوئے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پروردگار یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم نے جس آل ابراہیم کو نوازنے اور ترقی دینے کا وعدہ فرمایا تھا وہ آل ابراہیم آل اسمعیل ہی تھے اور جس طرح ایک وقت میں حضرت ابراہیم کی ایک شاخ آل اسحاق کو ہم نے فروغ دیا تھا اب وقت آگیا تھا کہ تورات کے وعدے کے مطابق آل اسمعیل کو ترقی دیں اور نوازیں۔ تورات کی کتاب پیدائش اور باب 22 میں یہ بات مندرجہ ذیل الفاظ میں مرقوم ہے۔ (اور خداوند کے فرشتے نے آسمان سے دوبارہ ابراہام کو پکارا اور کہا کہ خداوند فرماتا ہے کہ چونکہ تو نے یہ کام کیا کہ اپنے بیٹے کو بھی جو ترا اکلوتا ہے دریغ نہ رکھا اس لیے میں نے بھی اپنی ذات کی قسم کھائی کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند کردوں گا اور تیری اولاد دشمنوں کے پھاٹک کی مالک ہوگی اور تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی کہ تو نے میری بات مانی) تورات کے اس بیان کو غور سے پڑھئے ! صاف معلوم ہوتا ہے کہ برکت کا یہ وعدہ اس وقت کیا گیا جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی قربانی کے امتحان میں پوری طرح اپنے اخلاص کو ثابت کیا۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ یہ وعدہ حضرت اسماعیل اور ان کی نسل سے متعلق ہے۔ اس وعدے میں تین باتوں کا ذکر ہے۔ بنی اسماعیل سے اللہ کے تین وعدے 1 اللہ تعالیٰ ان کو ایک عظیم امت بنائے گا۔ 2 ان کو عظیم فتوحات سے نوازے گا اور دشمنوں کے پھاٹکوں پر ان کا قبضہ ہوگا۔ 3 اس نسل کے وسیلہ سے زمین کی قوتیں برکت پائیں گی۔ تاریخ آپ کے سامنے کھلی پڑی ہے، ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی دنیا پر نظر ڈالیے پھر دیکھئے کہ اللہ نے جو وعدہ تورات میں فرمایا تھا اور قرآن کریم کی صورت میں نبی امی ﷺ کی زبان سے جس کا اعلان کیا گیا وہ کس طرح پور اہوا۔ حضور کی تشریف آوری کے بعد وہ کون سی امت ہے جو مکہ معظمہ کی سرزمین سے اٹھی اور چند ہی سالوں میں پورے جزیرہ عرب پر غالب آگئی اور آج تک ہزاروں حوادث سے نبردآزماہونے کے باوجود اپنی انفرادیت پر قائم ہے اور ساری کوششوں کے باوجود جس کی شناخت کو دھندلایانھیں جاسکا۔ مزید دیکھئے ! وہ کون سی امت ہے کہ نبی امی کے ظہور کے بعد جس نے دنیا میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے اور جس نے دشمنوں کے پھاٹکوں پر قبضہ کیا۔ اس زمانے کی بڑی سلطنتیں قیصروکسریٰ اور یمن تھیں۔ گنتی کے چند سالوں میں وہ کون سی امت ہے جس نے ان تینوں کے پھاٹکوں پر قبضہ کرلیا۔ کسریٰ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرکے رکھ دیا، یمن مستقل اسلامی مملکت کا حصہ بن گیا اور قیصر مشرق وسطیٰ سے پائوں سمیٹنے پر مجبور ہوا اور پھر ایک وقت آیا جب ایشیا میں اس کا اقتدار گل ہوگیا۔ یورپ نے صلیبی لڑائیوں کا ڈول ڈالالیکن صلاح الدین ایوبی کی محدود قوت کے باوجود اسے بری طرح شکست کی ذلت اٹھانی پڑی اور عجیب بات یہ ہے کہ صحابہ کے ہاتھوں جو ممالک مفتوح ہوئے وہاں کا صرف جغرافیہ ہی اسلامی مملکت میں شامل نہیں ہوا بلکہ وہاں کی زبان، وہاں کی تہذیب، وہاں کا تمدن اور وہاں کا مذہب بھی ہمیشہ کے لیے بدل گیا اور وہ ممالک آج بھی مسلمانوں کے قبضے میں ہیں۔ البتہ اندلس اور ہندوستان جیسے ملک جو بعد میں مسلمانوں نے فتح کیے وہ اپنی غفلت اور اسلام سے دوری کی وجہ سے بالآخر ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ بتائیے یہ کس امت کی کہانی ہے ؟ اور دشمنوں کا کون ساپھاٹک ہے، جس پر اس امت نے قبضہ نہیں کیا ؟ جن ممالک پر مسلمان قابض ہوئے وہاں تو یقینا ایک نئی بہار آئی اور وہاں ایک نئی امت وجود میں آئی۔ لیکن جن ملکوں تک مسلمانوں کا تسلط نہ پہنچ سکا اور وہ مسلمانوں کے نظام زندگی سے محروم رہے ان میں جہاں کہیں بھی آپ حقوق کا تصور دیکھتے ہیں، عدل و احسان کا چرچا سنتے ہیں، انسان کی عظمت کے گن گائے جاتے ہیں۔ حقیقت ناشناسی اور کتمانِ حق کی بات اور ہے ورنہ تاریخ کا کوئی طالبعلم اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ جب تک مسلمان اندلس نہیں پہنچے تھے یورپ کن حالوں میں زندگی گزارتا تھا اور جب تک مسلمانوں کی کتابیں اصالتاً یاترجمے کی صورت میں یورپ میں نہیں پہنچیں اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے نظریات، خیالات اور کتابیں عام پڑھائی نہیں گئیں، اس وقت تک یورپ سائنس کی ابجد سے بھی واقف نہ تھا۔ مسلمان تاتاری حملے کی زد میں آکر اپنے بیشتر کتب خانوں سے محروم ہوگئے۔ اندلس ان کے ہاتھ سے کیا نکلا، علم کا سرمایہ ان کے ہاتھوں سے جاتارہا اور پھر ایک زوال پذیر امت کی طرح انھوں نے کئی صدیاں غفلت کی نذر کردیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا علم مسلمانوں کے دشمنوں کے کام آیا اور خود مسلمانوں کی اگلی نسلیں اس سے محروم رہ گئیں۔ اقبال نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا : حکومت کا کیا رونا یہ تو اک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارہ مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ غنی روز سیاہ پیرِکنعاں را تماشہ کن کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را اس آیت کریمہ کا آخری جملہ کہ ہم نے آل ابراہیم کو ملک عظیم دے دیا ہے بجائے خود قرآن کریم کی حقانیت اور نبی کریم ﷺ کی صداقت کی دلیل ہے۔ جب یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں تو کوئی شخص تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ مسلمان کبھی دنیا کی سب سے بڑی قوت ثابت ہوں گے اور اہل زمین کے فیصلے ان کی تائید کے بغیر ادھورے رہیں گے۔ ان کا لوہاہرلو ہے کو کاٹے گا اور ان کی علمی اور سیاسی وجاہت پوری دنیا میں مسلم ہوگی۔ لیکن چند ہی سالوں میں اللہ کا یہ وعدہ جس طرح پور اہوا اور پھر رفتہ رفتہ جس طرح اس نے وسعت پائی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور وقت سے بہت پہلے ایسی کسی حقیقت کا انکشاف صرف نبوت ہی کی زبان سے ہوسکتا ہے اور اللہ ہی کتاب ایسی حتمی بات کی خبر دے سکتی ہے۔
Top