Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 57
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١٘ وَّ نُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک سَنُدْخِلُھُمْ : عنقریب ہم انہیں داخل کریں گے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِھَا : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْھَآ : اس میں اَبَدًا : ہمیشہ لَھُمْ : ان کے لیے فِيْھَآ : اس میں اَزْوَاجٌ : بیبیاں مُّطَهَّرَةٌ : پاک ستھری وَّنُدْخِلُھُمْ : اور ہم انہیں داخل کریں گے ظِلًّا : چھاؤں ظَلِيْلًا : گھنی
اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے ہم ان کو داخل کریں گے باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے لیے وہاں پاکیزہ عورتیں ہوں گی اور ہم ان کو گھنی چھائوں میں رکھیں گے
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَـآ اَبَدً ط لَھُمْ فِیْھَـآ اَزْوَاجٌ مَّطَھَّرَۃٌ ز وَّنُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِیْلاً (اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے ہم ان کو داخل کریں گے باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے لیے وہاں پاکیزہ عورتیں ہوں گی اور ہم ان کو گھنی چھائوں میں رکھیں گے) (النسآء : 57) ایمان لانے والوں پر انعام اللہ کے رسول کی دعوت کا انکار کرنے والوں اور اس کی تکذیب کرنے والوں کے انجام کا ذکر کرنے کے بعد اب ان لوگوں کا ذکر کیا جارہا ہے جو اللہ کے رسول پر ایمان لائے اور جن کی زندگی کا ایک ایک عمل اس کی لائی ہوئی شریعت کے عین مطابق وجود میں آیا۔ یعنی ان کا اصل سرمایہ نہ حسب و نسب ہے اور نہ مال و دولت بلکہ ایمان وعمل وہ دولت ہے جس سے وہ مالامال ہیں اور یہی وہ سکہ ہے جو قیامت کے دن چلے گا۔ جس کے پاس یہ دولت ہوگی وہ اس دن نوازا جائے گا اور جس کے پاس یہ دولت نہیں ہوگی اس کے لیے وہ ناکامی اور خسران کا دن ہوگا۔ اس سے اس بات کی طرف بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل جو ایمان وعمل سے محروم ہوئے اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ انھوں نے اپنے حسب ونسب اور اپنے انتسابات کو آخرت میں کامیابی کا ذریعہ سمجھا۔ اسی گمراہی نے ان سے سیرت و کردار کی عظمت چھین لی اور اسی پندار نے نبی آخرالزمان پر ایمان لانے سے محروم رکھا۔ مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ تم ایسی کسی ایسی گمراہی میں مبتلا نہ ہونا۔ اسلام کے آجانے کے بعد تمام غلط دعوے اور تمام غلط انتسابات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے۔ اب یہاں کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہیں، سب انسان، انسان ہونے کے اعتبار سے برابر ہیں۔ اب تعارف اپنے قبیلوں اور اپنے آبائو اجداد کے حوالے سے نہیں ہوگا بلکہ آدمی کی ذاتی صلاحیت اس کا اصل تعارف ہوگی۔ دنیا اور آخرت میں ایمان وعمل یعنی تقویٰ عزت کا معیار ٹھہرے گا۔ جس آدمی کے پاس یہ دولت زیادہ ہوگی وہ یہاں بھی سرافراز ہوگا اور قیامت کے دن بھی شاد کام ہوگا۔ وہاں ایسے لوگوں کو ایسے باغوں میں داخل کیا جائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ ایک انسان اپنی رہائش کے لیے اس سے بہتر تصور نہیں کرسکتا کہ اس کے محل کے اردگرد باغات پھیلے ہوئے ہوں اور اس کے جمالیاتی ذوق کی تسکین اور احساس کی ٹھنڈک کے لیے اس کے نیچے اور دائیں بائیں نہریں بہتی ہوں۔ ازواج مطہرۃ کا مفہوم اور تنہائیوں کی آبادی کے لیے ایسی رفیقہ حیات میسر ہو جو ہر لحاظ سے طہارت و نظافت کا پیکر ہو۔ جس طرح اس کا جسم اور اس کالباس ہر گندگی سے محفوظ اور ہر بدذوقی سے دور ہو اسی طرح اس کے اخلاق مکارمِ اخلاق کی تصویر، اس کا احساس محبت کا عکاس، اس کے افکار ذہنی الجھنوں سے آزاد اور اس کارویہ انسانی آسودگی سے سیراب ہو۔ یہ وہ ہمہ نوعی تطہیر ہے جو شاید یہاں مراد لی جارہی ہے اور ان اہل جنت کی چہل قدمی کے لیے ایسے سایہ دار درخت ہوں گے جن کے سائے کو کبھی دھوپ متاثر نہیں کرسکے گی۔ ظِلًّا ظَلِیْلاً : ظل کے بعد ظلیل کا لفظ ایسے ہی ہے جیسے کہا جاتا ہے : شَمسٌ شَامِسٌ، لَیلٌ لَئِیلٌ، اس کا معنی ہے ” ہمیشہ رہنے والا سایہ “۔ حضرت ابوہریرہ ( رض) روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ان فی الجنۃ لشجرۃ یسیر الراکب فی ظلھامائۃ عام مایقطعھا اقرأ و ان شئتم وظل ممدود۔ (جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے سایہ کو ایک سوار سو سال میں بھی طے نہ کرسکے گا۔ اگر آپ چاہیں تو یہ آیت وَظِلِّ مَّمْدُوْدٍ پڑھیں) ، (یعنی اس سے معنی واضح ہوجائے گا) ۔ حضرت ربعی ابن انس فرماتے ہیں کہ ظِلًّا ظَلِیْلاً سے مرادعرشِ الٰہی کا سایہ ہے جو کبھی زائل نہیں ہوگا۔
Top