Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 59
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے (ایمان والے) اَطِيْعُوا : اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو الرَّسُوْلَ : رسول وَاُولِي الْاَمْرِ : صاحب حکومت مِنْكُمْ : تم میں سے فَاِنْ : پھر اگر تَنَازَعْتُمْ : تم جھگڑ پڑو فِيْ شَيْءٍ : کسی بات میں فَرُدُّوْهُ : تو اس کو رجوع کرو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَالرَّسُوْلِ : اور رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور روز الْاٰخِرِ : آخرت ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر وَّاَحْسَنُ : اور بہت اچھا تَاْوِيْلًا : انجام
اے لوگوجو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی ‘ اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں ‘ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ ‘ اگر تم واقعی اللہ اور روزآخرت پر ایمان رکھتے ہو ‘ یہ ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے) ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْ ئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِـکَ خَیْرٌوَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً ع (اے لوگوجو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی ‘ اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں ‘ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ ‘ اگر تم واقعی اللہ اور روزآخرت پر ایمان رکھتے ہو ‘ یہ ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے) (النسآء : 59) تمہیدی کلمات اسلام اپنے ماننے والوں کو جن بنیادوں پر اسلامی ریاست کی تعمیر کا حکم دیتا ہے اور جن بنیادی اصولوں پر تمدن اور سیاسی نظام کی تشکیل کرتا ہے ‘ نہایت اختصار اور ایجاز کے ساتھ ان بنیادی باتوں اور اساسی اصولوں کو اس آیت کریمہ میں ذکر فرما دیا گیا ہے۔ ان اصولوں کو ذکر کرنے سے پہلے میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہیدی طور پر چند باتیں عرض کردوں۔ جن کے سمجھ لینے کے بعد اسلام کے ان اساسی اصولوں کو سمجھ لینا آسان ہوجاتا ہے۔ اسلام کے نزدیک سب سے اہم سوال جس کے حل پر انسان کی فلاح وبقاکا دارومدار ہے ‘ وہ یہ ہے کہ انسان کی اطاعت کا اصل مرکز اور اقتدار کا اصل سرچشمہ کون ہے۔ یعنی وہ کون سی ذات یا وہ کون سی قوت ہے جس کی اطاعت کرنا اور احکام بجالانا انسانوں کے لیے ضروری ہے اور اسی بات پر انسانوں کی فلاح کا دارومدار ہے۔ اس لیے کہ یہ بات سمجھنا تو کوئی مشکل بات نہیں کہ انسان اجتماعیت چاہتا ہے۔ وہ جنگل کا باسی نہیں بلکہ آبادیوں میں رہنے والی مخلوق ہے۔ وہ اپنا گھر بنا کر کسی کے پڑوس میں ‘ کسی محلے میں ‘ کسی آبادی میں محفوظ حالت میں رہنا چاہتا ہے۔ اس کے علاقات ہیں۔ اس کی قرابت کے رشتے ہیں۔ اس کے مفاداتی روابط ہیں۔ اس کے تعلقات میں ایک وسیع تنوع ہے ‘ جس کی وجہ سے وہ اجتماعیت کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے کہ جہاں بھی اجتماعیت ہوگی ‘ اس اجتماعیت میں رہنے والوں کے کچھ حقوق و فرائض بھی ہوں گے۔ ان کی کچھ حدود ِکار بھی ہوں گی۔ ان کے رہنے سہنے اور میل جول کے آداب بھی ہوں گے۔ یہیں سے یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ اگر انہی پابندیوں پر اجتماعیت کا دارومدار ہے تو ان پابندیوں پر عمل کرانے کے لیے کون سی چیزیں ضروری ہیں۔ اگر آپ غور فرمائیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ دو چیزیں ان میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں ‘ ایک یہ کہ اجتماعیت میں شریک لوگوں میں ایک ایسا آئین اور دستور نافذ ہو ‘ جو تمام کے حقوق و فرائض کی آگاہی دے اور ہر فرد اور ہر ادارے کے سامنے ان کے حدودکار کا تعین کرے۔ ہر شخص کو اندازہ ہو کہ اس کے فرائض کیا ہیں اور اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کے انفرادی اور اجتماعی حقوق کی حدود کیا ہیں۔ وہ انفرادی زندگی میں کہاں تک آگے بڑھ سکتا ہے ‘ جس سے اجتماعیت مجروح نہ ہو۔ تین نظام ہائے حکومت دوسری چیز جو ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح آئین اور دستور اجتماعی اور انفرادی زندگی کی اساس ہے۔ اسی طرح ایک قوت حاکمہ کی بھی ضرورت ہے جو اس بات کی نگرانی کرے کہ کیا آئین اور دستور کی پابندی کی جارہی ہے یا نہیں۔ کیا افراد اور ادارے اپنی حدود سے تجاوز تو نہیں کر رہے۔ کیا عدالتوں میں ان لوگوں کو انصاف مل رہا ہے یا نہیں ‘ جن کے ساتھ قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے زیادتی ہوئی ہے۔ اور اسی طرح اس اجتماعیت نے اپنے لیے زندگی گزارنے کے جو اصول وضع کیے ہیں ‘ کیا اس کی روح سمیت اس کا احترام کیا جارہا ہے۔ ان دو بنیادی چیزوں کی پابندی کے بغیر کوئی اجتماعیت بھی وجود میں نہیں آسکتی اور اگر آجائے تو باقی نہیں رہ سکتی۔ یہاں آکر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین وضع کرنے والی طاقت کون سی ہے اور وہ کون سی قوت حاکمہ ہے جس کا دیا ہوا آئین غیرمشروط اور واجب الاطاعت ہے اور اسی کے نام پر بننے والی حکومت اس آئین کی پابندی کرانے کی پابند ہے۔ دنیا نے آج تک اس کے مختلف جوابات دیے ہیں اور اسی کے نتیجے میں دنیا نے ہمیشہ مختلف نظاموں کا تجربہ کیا ہے۔ ایک وقت تھا جب دنیا میں صرف بادشاہت کا نظام چلتا تھا۔ بادشاہ ایک ایسا فرد ہوتا ہے جو کسی کا انتخاب نہیں ہوتا۔ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتا ہے اور پھر یہ حکومت وہ اپنے خاندان اور اولاد میں چھوڑ جاتا ہے۔ اس نظام کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس میں کوئی ایسا آئین نافذ نہیں ہوتا جسے لوگ اپنی مرضی سے بناتے ہوں بلکہ بادشاہ کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ آئین کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر لوگوں سے وہ آئین کی تسوید و ترتیب میں کام لیتا بھی ہے تو اوراق کے اس مجموعے کی اہمیت اس وقت تک ہوتی ہے جب تک بادشاہ کی اسے تائید حاصل رہتی ہے۔ لوگوں کا کام بادشاہ کی غیرمشروط اطاعت کرنا ہے۔ اس میں لوگوں کے حقوق و فرائض درحقیقت بادشاہ کی عطا اور دین ہوتے ہیں۔ جب عسکریت کا دور آیا۔ جرنیلوں کو اپنی طاقت کا احساس ہونے لگا تو آمریت وجود میں آئی۔ کہنے کو تو یہ بادشاہت سے ایک مختلف چیز ہے کیونکہ اس میں میراث نہیں چلتی لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس میں اور بادشاہت میں کوئی اساسی فرق نہیں ہوتا۔ بادشاہت میں لوگ بادشاہ کی اطاعت کرتے ہیں اور آمریت میں آمر اور ڈکٹیٹر کی اطاعت کرتے ہیں۔ دونوں میں آئین اور قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ تیسرا نظام حکومت جمہوریت کہلاتا ہے۔ یوں تو اسے عوام کی حکومت کہا جاتا ہے اور عوام کے نمائندے اپنی آزادانہ مرضی سے اپنا آئین بناتے ہیں اور حکومت اسی آئین کے مطابق نظام حکومت چلانے کی پابند ہوتی ہے۔ لیکن اکثر ممالک میں جمہوریت برسراقتدار گروہ یا وہ گروہ جسے طاقت کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے ‘ کی لونڈی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ وہ آئین کو بھی موم کی ناک بنائے رکھتے ہیں اور جمہوریت کا نام لے لے کر اپنی خواہشات اور اپنی اغراض کے مطابق نظام حکومت چلاتے ہیں۔ اصل خرابی انسان کو غیر معمولی اختیارات کا مل جانا ہے ہم نے تین نظام ہائے حکومت کا ذکر کیا۔ ان تینوں میں ایک نقطہ اشتراک پایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ چاہے بادشاہت ہو ‘ آمریت ہو یا جمہوریت۔ ہر صورت میں اطاعت انسانوں کی کی جاتی ہے۔ انسان ‘ انسان کی چاکری کرنے پر مجبور ہے۔ غلامی کا دور بظاہر ختم ہوگیا لیکن حقیقت میں غلامی کی شکلیں بدل گئیں لیکن اس کی روح پوری طرح زندہ ہے۔ بادشاہت اور آمریت میں تو یہ غلامی صاف نظرآتی ہے لیکن جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے ‘ اس میں بھی سرچشمہ اقتدار عوام کو کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی مرضی سے چنے جانے والے لوگ انہی کی خواہشات کے مطابق قانون سازی کریں گے اور اسی قانون کی اطاعت تمام ملک کے رہنے والوں کو کرنی پڑے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک انسانوں نے جو نظام ہائے حکومت تشکیل دیے ہیں ‘ ان کی بنیادی روح انسان کی غلامی یا اطاعت ہے۔ جہاں مکمل طور پر آج جمہوریت نافذ ہے ‘ وہاں یہ دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ عوام کے نام سے انسان کے سفلی جذبات اور خواہشات کی پیروی کی جارہی ہے۔ اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ ان جرائم کو سندجواز عطا کردی گئی ہے ‘ جن پر کبھی اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے۔ انسانی زوال کے بدترین ادوار میں بھی جن برائیوں کو کبھی جائز قرار نہیں دیا جاسکا۔ آج باقاعدہ تالیوں کی گونج میں انھیں سندجواز دی جارہی ہے۔ مردو عورت کا ناجائز تعلق اور ناجائز اولاد قانونی اور اخلاقی طور پر عزت کے زینے چڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور نکاح اور اس کے نتیجے میں حلال اولاد آہستہ آہستہ مغرب میں بوجھ سمجھی جانے لگی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جب مذہب نظر انداز ہوتا ہے تو اخلاقی حدود کا پامال ہونا یقینی ہوجاتا ہے اور جیسے جیسے اخلاقیات کا احترام ختم ہوجاتا ہے ‘ ویسے ویسے لوگوں کی اکثریت خواہشات اور سفلی جذبات کی اسیر ہوتی جاتی ہے۔ جمہوریت میں فیصلے چونکہ اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی آئینی کاوشیں ‘ تہذیبی اظہار ‘ سماجی رسوم اور ثقافتی علامتیں اخلاقی سطح سے گرتی چلی جارہی ہیں۔ اس پوری تفصیل سے ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر انسان کی عظمت انسانیت کی بقا میں ہے اور انسانیت اخلاقیات کی پابندی کا دوسرا نام ہے ‘ تو پھر ہمیں ایک ایسے نظام کو اختیار کرنا ہوگا ‘ جس میں سرچشمہ اقتدار اور سرچشمہ آئین و قانون عوام نہ ہوں بلکہ وہ ذات ہو جو انسانوں کی خالق ہے۔ جس نے انسانی فطرت وجبلت کو پیدا فرمایا۔ جو انسانی طبیعت اور اس کے مزاج کو سمجھتی ہے۔ وہ خوب جانتی ہے کہ انسانی زندگی کی اصلاح کن اصولوں کی پاسداری میں ہے۔ اور وہ کیا پابندیاں ہیں ‘ جن کو اختیار کرلینے کے بعد انسانیت کا محفوظ سفر جاری رہ سکتا ہے۔ انسانوں کو حقوق بھی میسر آتے ہیں اور انسانی تہذیب بھی ترقی کرتی ہے۔ چونکہ خرابی کی ساری بنیاد انسانوں کے چند گروہوں کو غیرمعمولی اختیارات کا مل جانا ہے اور یا تمام اچھے اور برے انسانوں کو ایک ہی سطح پر رکھ کر ان کی رائے کو یکساں وزن دے کر بنیادی فیصلوں میں انھیں شریک کرنا ہے۔ اسلام نے برائی کی اس بنیاد کو ختم کرنے کے لیے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے۔ حضرت ربعی ابن عامر ( رض) نے رستم کے دربار میں نہایت اختصار کے ساتھ اسے تین باتوں کی صورت میں بیان فرمایا تھا۔ اللہ کے اس عظیم بندے نے ان تین باتوں کی شکل میں قرآن وسنت کاست نکال لیا ہے۔ رستم نے پوچھا کہ آپ ہمارے ملک پر حملہ کرنے کے ارادے سے کیوں آئے اور وہ کیا دعوت ہے جو آپ پیش کررہے ہیں۔ آپ نے پہلی بات کے جواب میں جو کچھ کہا ‘ وہ اس وقت پیش نظر نہیں۔ البتہ دوسری بات کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہم تین کام کرنا چاہتے ہیں۔ رستم نے کہا وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ انسان کو انسان کی غلامی سے آزاد کرایا جائے۔ تمام انسان ایک خدا کی مخلوق اور ایک باپ کی اولاد ہیں۔ کسی انسان کو کسی انسان پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ رنگ ‘ جغرافیہ ‘ نسل اور قوم یہ شناختیں ہیں۔ حقیقتِ انسان نہیں ‘ ان کی وجہ سے انسان کو ادنیٰ و اعلیٰ میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ تم جس طرح تخت پر خدا بن کر بیٹھے ہو اور تمہارے درباری غلاموں کی طرح ہاتھ باندھ کر تمہارے سامنے کھڑے ہیں اور تمہاری ہر خواہش اور تمہاری زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ ان کے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے ‘ اسلام اس تقسیم کو قبول نہیں کرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے کردار ‘ اپنے حسن عمل اور اپنی جدوجہد کے نتیجے میں اپنا مقام پیدا کرو۔ کوئی آدمی یا کوئی طبقہ پیدائشی طور پر نہ بڑا ہوسکتا ہے اور نہ چھوٹا ‘ تو ہم انسانوں کو انسانوں کی غلامی اور بندگی سے آزاد کرکے حریت اور آزادی کا وہ ماحول دینا چاہتے ہیں ‘ جس میں انسان اپنی جدوجہد کے لیے ایک وسیع میدان پائے۔ اس کے سامنے کسب اور اکتساب کے تمام مواقع کھلے ہوں۔ جہدوعمل کے تمام امکانات موجودہوں۔ اس آزادی کے نتیجے میں ہر انسان ہر گروہ اپنا مقام و مرتبہ کا جو تعین کرے گا وہی اس کا حقیقی مرتبہ ہوگا اور اسی سے انسانیت برگ وبار پیدا کرے گی۔ مزید فرمایا کہ ہم دوسرا کام یہ کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح ارباب اقتدار نے اور اقتدار پر فائز ایک طبقہ نے باقی انسانوں کو اپنا غلام بنالیا ہے اور اپنے لیے کچھ مخصوص حقوق خاص کرلیے ہیں ‘ جس سے باقی انسان محروم ہیں ‘ اسی طرح ایک مذہبی طبقہ بھی ہے جو تقدس کا دعویدار ہے جس نے اپنے لیے کچھ حقوق خاص کرلیے ہیں اور لوگوں کو اس فریب میں مبتلا کردیا ہے کہ زمین و آسمان کے خالق کے ساتھ ہمارا کوئی خاص رشتہ ہے۔ ہماری رضا اور خوشنودی اس کی رضا ہے اس لیے ہمیں خوش کرنے کے لیے تمہیں نذرونیاز اور ایک خاص قسم کا مذہبی ٹیکس ادا کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں ہم تمہارے گناہوں کو بخشیں گے اور تم جنت میں داخل ہو سکوگے۔ حضرت ربعی بن عامر ( رض) نے فرمایا : ہم اس لیے آئے ہیں کہ ہم اس غلط مذہب کے ظلم وجور سے اور اس مذہبی طبقے کے تسلط سے انسان کو آزاد کریں اور انسانوں کو یہ بات سمجھائیں کہ یہاں کوئی پر یسٹ کلاس نہیں ہے ‘ یہاں کوئی مذہبی طبقہ نہیں ہے ‘ یہاں کوئی برہمن نہیں کہ جو کوئی نسلی تفوق رکھتا ہو اور جسے کوئی خاص حقوق حاصل ہوں اور خدا کا کلام صرف انہی کی زبانوں پر جاری رہتا ہو اور مذہبی رسومات صرف انہی کے ذریعے انجام پاسکتی ہوں اور ان کے حضور قربانی اور دان کیے بغیر انسان اپنے خالق ومالک کی رضا حاصل نہ کرسکتا ہو۔ یہ مذہبی غلامی انسانوں نے خود پیدا کی ہے جس کے نتیجے میں ایک مذہبی طبقے کو ظلم کرنے کا حق ملا ہے اور باقی لوگ اس کے نتیجے میں مذہبی آزادی سے محروم ہوگئے ہیں۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ اس مذہبی ظلم اور جور سے انسان کو نکال کر اسلام کے سایہ عدل و احسان میں داخل کردے۔ مزید فرمایا کہ تیسرا کام ہم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ انسان کو اس دنیا کی تنگی سے نکال کر آخرت کی فراخی میں داخل کردیں۔ انسان کو اللہ نے عظیم مقاصد کے حصول کی آزادی بخشی تھی۔ اس کو وہ بلند پرواز عطا کی تھی ‘ جس کے سامنے دنیا اپنی تمام وسعتوں کے باوجود ہیچ تھی۔ وہ حقیقت میں آزادی رکھتا تھا ‘ جس کی منزل آخرت تھی لیکن جب اسے دنیا کے تنگ نائے میں محصور کردیا گیا تو اس کے نتیجے میں اس کی خوشیاں اس کے غم حتی کہ اس کے مقاصد بھی مختصر ہوتے چلے گئے۔ وہ اس بچے کی طرح ہوگیا جو کھلونا ملنے سے خوش ہوتا اور کھلونا چھن جانے سے غمزدہ ہوجاتا ہے ‘ کیونکہ اس کی نگاہ میں کھلونا ہی اس کی دنیا ہے۔ ایک دنیا دار آدمی جب دنیا ہی کو اپنی معراج سمجھ لیتا ہے اور اسی کا حصول اس کا مقصد بن جاتا ہے اور اس کی تمام توجہ اس گنبد میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور اسی کا حصول اس کا مقصد بن جاتا ہے اور اس کی تمام توجہ اس گنبد میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے تو یہ وہ غلامی ہے جو اس کو انسانیت کے حقیقی جوہر سے محروم کردیتی ہے۔ یہاں کبھی وہ چند ٹکوں کے لیے لڑتا ہے۔ کبھی ایک قطعہ زمین کے لیے خون بہاتا ہے۔ کبھی عہدہ ومنصب کے لیے دوسروں کی لاشیں گرانے سے بھی دریغ نہیں کرتا ‘ کیونکہ وہ انہی چیزوں کو حقیقی مقاصد سمجھتا ہے۔ حضرت ربعی بن عامر ( رض) نے بتایا کہ یہ وہ چیزیں ہیں جس نے دنیا کو تاریک سے تاریک تر بنادیا ہے۔ جب انسان کو اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ میری آزادی کا اصل مقصد آخرت ہے تو اس کے لیے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی ہر نعمت کو چھوڑ دینا آسان ہوجائے گا۔ وہ آخرت کی خوشی کے لیے یہاں کی ہر خوشی قربان کرسکے گا۔ وہ جب یہ جانے گا کہ آخرت کی خوشی ایثار کرنے سے ملتی ہے ‘ دوسروں کے گھروں میں چراغ جلانے سے ملتی ہے ‘ کچھ چھین کر نہیں بلکہ کچھ دے کر ملتی ہے۔ حقیقی عظمت منصب واقتدار میں نہیں بلکہ اس اقتدار کو آخرت کا ذریعہ بنانے میں ہے تو پھر ایسے آدمی کی نگاہوں میں آخرت کے مقصد کو اپنانے کا شعور اس طرح ابھرے گا کہ اسے یقین ہوجائے گا کہ میرا یہ مقصد میری زندگی سے بھی طویل ہے۔ ظاہر ہے کہ باقی تمام چیزیں زندگی سے قدروقیمت میں کم ہیں۔ جب زندگی اس مقصد پر قربان کی جاسکتی ہے تو باقی چیزوں کی کیا حقیقت ہے۔ اقبال ( رح) نے شاید اسی کی طرف اشارہ کیا تھا : یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند بتانِ وہم و گمان لا الہ الا اللہ میری ان گزارشات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ انسانی زندگی کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سرچشمہ اقتدار کون ہے ؟ غیرمشروط اطاعت کس کا حق ہے ؟ کس کا آئین ہے جس کے مقابل میں کسی آئین کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کو اللہ نے انسانی بندگی سے آزاد پیدا فرمایا ہے کیونکہ اللہ کی بندگی ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کو حقیقی آزادی اور حقیقی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ اس حقیقی آزادی اور آسودگی کو یقینی بنانے کے لیے اس آیت کریمہ میں چند اصول دیے گئے ہیں جو اسلامی تہذیب اور اسلامی تمدن کی بنیاد بھی ہیں اور اسلامی ریاست کی پہلی دفعہ بھی۔ اسلام میں امر و اطاعت کے مراکز 1 اسلام میں حقیقی حاکمیت اور اطاعتِ کاملہ کا حق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے۔ وہی غیر مشروط مطاع ہے جس کی اطاعت کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کریم نے ایک سے زیادہ جگہوں میں اس حقیقت کو دہرایا ہے۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (حکم اور اطاعت صرف اللہ کے لیے ہے) ۔ دوسری جگہ فرمایا اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ (خبردار جس کی مخلوق ہے اسی کا امر ہے) ۔ اس لیے مسلمانوں کی انفرادی زندگی اور اجتماعی نظام کا محور و مرکز خدا کی فرمانبرداری اور وفاداری کے سوا اور کچھ نہیں۔ جس طرح سر صرف اسی کے سامنے جھکتا ہے اور دلوں کی دنیا اسی سے آباد ہوتی ہے اسی طرح تمام معاملات میں راہنمائی کا سرچشمہ اور اطاعت کا آستانہ صرف اسی کی ذات ہے۔ زندگی کی ضرورتوں کے تحت انسان کو اور اطاعتوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ لیکن ان میں لازمی شرط یہ ہے کہ ان میں سے کوئی اطاعت بھی اللہ کے احکام سے متصادم نہ ہو۔ بلکہ اپنی حقیقت میں غیر خدا کی تمام اطاعتیں اللہ کی اطاعت کی مرہونِ منت اور اس کی تابع ہیں۔ اور اگر کسی حلقہ اطاعت میں شب ہے کی گنجائش بھی پیدا ہو کہ اس میں غیر خدا کی اطاعت کو اہمیت مل سکتی ہے تو ایسا حلقہ اطاعت توڑ کر پھینک دیا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : لاَ طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقٍ (خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے) ۔ 2 اسلامی نظام کی دوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے۔ رسول کی اطاعت کوئی مستقل بالذات اطاعت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ خود بھی اللہ ہی کا مطیع و فرمانبردار ہے۔ اس کی اطاعت تو اس لیے کرنا ضروری ہے کہ دنیا میں اللہ کی اطاعت کی عملی صورت پیغمبر کی اطاعت کے سوا اور کوئی نہیں۔ اسی کی زبان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے احکام کیا ہیں ؟ اسی کے عمل سے یہ راہنمائی ملتی ہے کہ اللہ کے احکام پر عمل کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟ بندوں تک اللہ کے احکام اور فرامین پہنچنے کا کوئی مستند ذریعہ رسول اللہ کے سوا موجود نہیں۔ اور احکام کی عملی صورت ‘ اس کے مبہمات کی وضاحت ‘ اس کے مجملات کی تفصیل اور اس کے قول کی عملی شکل صرف پیغمبر ہی کی ذات سے معلوم ہوسکتی ہے۔ اس لیے جو شخص بھی اللہ کی اطاعت کرنا چاہتا ہے اس کے لیے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ وہ اللہ کے رسول کی اطاعت کرے۔ یہ بات کہ نماز فرض ہے یہ بھی ہمیں اللہ کے رسول کے واسطے سے معلوم ہوئی ہے۔ اور نماز پڑھنے کا طریقہ کیا ہے ؟ نمازوں کی تعداد کیا ہے ؟ اس کے فرائض ‘ واجبات اور سنن کیا ہیں ؟ اس کے اوقات کیا ہیں ؟ پورا نظام صلوٰۃ کیا ہے ؟ رسول کی راہنمائی کی بغیر ان میں سے کسی بات کے جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس لیے پروردگار نے ارشاد فرمایا مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (جو شخص رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے) ۔ اور خود آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مَنْ اَطَاعِنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ (جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی) ۔ تاریخی حقیقت بھی یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی کبھی کسی مذہب کو نقصان پہنچا ہے اور مذہب کے ماننے والوں نے اللہ کی اطاعت میں کمزوری دکھائی ہے اور آہستہ آہستہ خواہشات کے پیروکار بنتے چلے گئے اور اپنے دین کو انھوں نے موم کی ناک بنادیا۔ اور اللہ کی کتابیں ان کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئیں۔ اس المیہ کا آغاز اس وقت ہوا جب ان کا تعلق اللہ کے رسول سے کمزور پڑا ‘ رسول سے جذباتی رشتہ ٹوٹا ‘ اس کی اطاعت اور پیروی تاویلوں کی نذر ہوگئی ‘ رفتہ رفتہ اس کی سنت مٹتی چلی گئی۔ پھر ایک وقت آیا کہ جب اللہ کی کتاب میں من مانی تاویلات کو روکنے کے لیے کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی۔ عبادات تک کا نظام بدل ڈالا گیا ‘ تصورات بگاڑ دیئے گئے ‘ عقائد کو حقیقی روح سے بیگانہ کردیا گیا۔ پوری انسانی زندگی کے نظام کا مرکز و محور اگرچہ اللہ کی اطاعت ہے لیکن اس کی ظاہری شکل و صورت اور اس کی حقیقی روح کو باقی رکھنے کے لیے پیغمبر کی سنت کا محفوظ رہنا اور اس کی اطاعت کے جذبے کا باقی رہنا بےحد ضروری ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کی اطاعت اور اتباع پر یہاں تک زور دیا کہ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْـکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَـکُمْ ذُنُوْبَـکُمْ (اے پیغمبر ان سے کہہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو پھر میری پیروی کرو ‘ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا) ۔ 3 مذکورہ بالا دونوں اطاعتوں کے بعد ان کے ماتحت تیسری اطاعت جو اسلامی نظام میں مسلمانوں پر لازم ہے وہ اولو الامر کی اطاعت ہے جو خود مسلمانوں میں سے ہو۔ اس آیت کریمہ میں غور فرمایئے اللہ اور رسول کے ساتھ تو مستقلاً اطیعواکا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت مستقل بالذات ہے لیکن اولو الامر کے ساتھ مستقل اطیعوکا ذکر نہیں کیا گیا اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اولو الامر کی اطاعت مستقل بالذات نہیں ہے ‘ بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ماتحت ہے۔ وہ کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتے جو اللہ اور رسول کے احکام سے متصادم ہو یا ان کے مزاج اور روح سے ہٹا ہوا ہو۔ اسے ہر حکم دیتے ہوئے یہ بتانا ہوگا کہ میں جو حکم دے رہا ہوں اس کے لیے قرآن و سنت کی سند کیا ہے ؟ اولوالامر سے کیا مراد ہے ؟ اس بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اولو الامر سے کیا مراد ہے اسے سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ایک تمہیدی بات سمجھ لیجیے۔ جب بھی ہم اللہ اور رسول کی اطاعت کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ہم سب سے پہلے قرآن کریم کو دیکھتے ہیں۔ اگر ہمیں واضح طور پر قرآن کریم میں کوئی حکم مل جاتا ہے تو ہم اس کی اطاعت میں سر جھکا دیتے ہیں۔ اور اگر قرآن کریم میں ہمیں واضح حکم نہیں ملتا تو پھر ہم احادیث پاک اور سنت رسول ﷺ کو دیکھتے ہیں۔ تو اگر تو حدیث یا سنت میں ہمیں کوئی واضح حکم مل جاتا ہے جس کے سمجھنے اور جس پر عمل کرنے میں کوئی دشواری حائل نہیں ہوتی تو ہم اس پر بہ صمیم قلب عمل کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر اس میں کوئی واضح حکم نہیں ملتا تو پھر ہمارے لیے مشکل پیدا ہوجاتی ہے۔ یعنی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ایک حکم تو موجود ہے لیکن وہ اس قدر واضح نہیں کہ ایک عام پڑھا لکھا آدمی اسے سمجھنے پر قادر ہو۔ کیونکہ قرآن کریم کا طریقہ یہ ہے کہ بعض دفعہ ایک آیت دوسری آیت کی تشریح کرتی ہے یا کسی حدیث سے آیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آیت قرآنی کی ظاہری عبارت سے بات واضح نہیں ہوتی۔ البتہ اہل علم اور اہل بصیرت دلالۃ النص یا اقتضاء النص یا اشارۃ النص سے اس بات کو پالیتے ہیں۔ لیکن عام قاری کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ اور حدیث کے معاملے میں کبھی اس طرح کی صورت حال پیش آتی ہے کہ ایک ہی حکم سے متعلق ذخیرہ احادیث میں متضاد روایات ملتی ہیں۔ اب ان میں یہ معلوم کرنا کہ کونسی روایت ناسخ ہے اور کونسی منسوخ ؟ یا کونسی روایت اور درایت کے اعتبار سے قابل قبول ہے اور کونسی نہیں ؟ ایسے تمام مواقع پر ہمیں مجتہدین اور قرآن و سنت کے ماہرین کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور ایسے لوگوں کو تلاش کرنا پڑتا ہے جنھوں نے قرآن و سنت کو سمجھنے اور اس کی ایک ایک مشکل کو سلجھانے میں زندگیاں کھپا دی ہوں۔ ایسی صورت حال میں اولو الامر سے مجتہدین قرآن و سنت اور ماہرعلوم اسلامیہ مراد ہونگے۔ اگر تو حکومت کے اندر خود ایسے ماہرین موجود ہیں جو اس ضرورت کو پورا کرسکتے ہوں ‘ پارلیمنٹ کا کوئی ذیلی ادارہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہو یا نظریاتی کونسل جیسی کوئی کمیٹی نہایت اخلاص سے اس طرح کی خدمت انجام دینے میں لگی ہوئی ہو تو وہ آزادانہ اپنی رائے کا ایسے معاملات میں اظہار کریں اور امت کے ثقہ اہل علم آزادانہ بحث و مباحثہ کے بعد ان معاملات پر پارلیمنٹ کو فیصلے تک پہنچنے میں مدد دیں۔ اس تفصیل سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہاں اولو الامر سے مراد یہ لوگ ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا۔ اگرچہ یہ علماء کی کاوشیں فقہی فتاویٰ کہلاتی ہیں اور علماء ہی کی طرف منسوب کی جاتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ قرآن و سنت سے ماخوذ ‘ مستنبط اور مستفاد ہیں۔ قرآن و سنت سے علیحدہ نہیں۔ زندگی کے بہت سارے معاملات ایسے ہیں جس میں اسلامی شریعت نے کوئی پابندی لگائی ہے اور نہ ان کے بارے میں کوئی حکم جاری فرمایا ہے۔ بلکہ ان پر عمل کرنے والوں کو اختیار ہے کہ جس طرح چاہیں کریں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایسے معاملات کو ” مباحات “ کہا جاتا ہے۔ دفاتر کے انتظامی معاملات ‘ مختلف اداروں کی تشکیلات ‘ انسانی ضرورتوں کے نئے نئے منصوبے مثلاً میونسپیلٹی ‘ ریلوے اور ڈاکخانہ کے قوائد و ضوابط ‘ پولیس اسٹیشنوں کی تعداد ‘ آبادکاری کے انتظامی معاملات … یہ سب مباحات ہیں۔ ان میں سے ایک ایک ادارے کو چلانے کے لیے ظاہر ہے انتظامی ڈھانچہ استوار کرنا ہوگا اور اس کے سربراہ بھی مقرر کرنے ہوں گے۔ اسی طرح عدالتی فیصلوں کے لیے جج یا تمدنی اور معاشرتی امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلوں کی سربراہی کرنے والے شیوخ اور سردار ‘ غرضیکہ پورے ملک میں درجہ بدرجہ اجتماعی معاملات کو سنبھالنے والے تمام صاحب امر کہلاتے ہیں۔ علماء اور مجتہدین دینی معاملات کے حوالے سے اولو الامر ہیں اور باقی تمام ذمہ دار لوگ انتظامی حوالے سے اولو الامر کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ اگر ایک طرف ملکی نظام کی پابندی کرنے کے پابند ہیں تو ساتھ ہی اپنے سیرت و کردار اور مقاصد حیات کے حوالے سے اسلامی آداب زندگی اختیار کرنے کے مکلف ہیں۔ ان تمام کا سررشتہ پارلیمنٹ اور کابینہ سے ہوتے ہوئے چیف ایگزیکٹو اور صدر مملکت سے وابستہ ہوتا ہے۔ اپنے بنیادی کردار کے حوالے سے وہ بھی باقی لوگوں کی طرح اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے پابند ہیں اور اجتہادی معاملات میں علماء کے اجتماعی فیصلوں کے مکلف ہیں۔ ان کا براہ راست تعلق اگرچہ مباحاتی امور سر انجام دینے سے ہوتا ہے لیکن دینی امور کا نفاذ بھی بہرصورت انہی کی ذمہ داری ہے اس لیے ان کے سیرت و کردار میں اگر کوئی ایسی کمزوری ہو جو پوری ریاست کے مزاج پر اثر انداز ہوسکتی ہو تو اسلام اسے کسی طرح بھی گوارا نہیں کرتا۔ نبی کریم ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادات کو دیکھئے اس سے بات کو سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی : السمع والطاعۃ علی المرء المسلم فی ما احب وکرہ مالم یومر بمعصیۃ فاذا امر بمعصیۃ فلاسمع ولا طاعۃ (بخاری ومسلم) (مسلمان کو لازم ہے کہ وہ اپنے اولو الامر کی بات سنے اور مانے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند ہو تاوقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اسے نہ کچھ سننا چاہیے نہ ماننا چاہیے) لاطاعۃ فی معصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف (بخاری ومسلم) (خدا اور رسول کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت جو کچھ بھی ہے ” معروف “ میں ہے) یکون علیکم امراء تعرفون وتنکرون فمن انکر فقد بریٔ ومن کرہ فقد سلم ولکن من رضی وتابع فقالوا افلا نقاتلھم ! قال لاما صلوا (مسلم) (حضور ﷺ نے فرمایا تم پر ایسے لوگ بھی حکومت کریں گے جن کی بعض باتوں کو تم معروف پائو گے اور بعض کو منکر۔ تو جس نے ان کے منکرات پر اظہار ناراضی کیا وہ بری الذمہ ہوا اور جس نے ان کا ناپسند کیا وہ بھی بچ گیا مگر جو ان پر راضی ہوا اور پیروی کرنے لگا وہ ماخوذ ہوگا۔ صحابہ نے پوچھا پھر جب ایسے حکام کا دو رآئے تو کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں ؟ آپ نے فرمایا نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں) یعنی ترک نماز وہ علامت ہوگی جس سے صریح طور پر معلوم ہوجائے گا کہ وہ اطاعتِ خدا اور رسول سے باہر ہوگئے ہیں اور پھر ان کے خلاف جدوجہد کرنا درست ہوگا۔ شرار ائمتکم الذین تبغضونہم ویبغضونکم وتلعنونھم ویلعنونکم قلنا یارسول اللہ افلا ننابذھم عند ذلک ؟ قال لاما افاموافیکم الصلوۃ الاما اقاموفیکم الصلوۃ (مسلم) (حضور ﷺ نے فرمایا تمہارے بدترین سردار وہ ہیں جو تمہارے لیے مبغوض ہوں اور تم ان کے مبغوض ہو۔ تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ ! جب یہ صورت ہر تو کیا ہم ان کے مقابلہ پر نہ اٹھیں ؟ فرمایا : نہیں ! جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں نہیں۔ـجب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں) اس حدیث میں اوپر والی شرط کو اور زیادہ واضح کردیا گیا اوپر کی حدیث سے گمان ہوسکتا تھا کہ اگر وہ اپنی انفرادی زندگی میں نماز کے پابند ہوں تو ان کے خلاف بغاوت نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ حدیث بتاتی ہے کہ نماز پڑھنے سے مراددراصل مسلمانوں کی جماعتی زندگی میں نماز کا نظام قائم کرنا ہے یعنی صرف یہی کافی نہیں ہے کہ وہ لوگ خود پابند نما زہوں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے تحت جو نظام حکومت چل رہا ہو وہ کم ازکم اقامت صلوٰۃ کا انتظام کرے۔ یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ ان کی حکومت اپنی اصولی نوعیت کے اعتبار سے ایک اسلامی حکومت ہے ورنہ اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ حکومت اسلام سے منحرف ہوچکی ہے اور اسے الٹ پھینکنے کی سعی مسلمانوں کے لیے جائز ہوجائے گی۔ اسی بات کو ایک اور روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ نبی ﷺ نے ہم سے من جملہ اور باتوں کے ایک اس امر کا عہد بھی لیا کہ ان لاتنازع الامر اھلہ الاان ترواکفرا بواحاعندکم من اللّٰہ فیہ برھان (ہم اپنے سرداروں اور حکام سے نزاع نہ کریں گے الایہ کہ تم ان کے کاموں میں کھلاکھلا کفر دیکھو جس کی موجودگی میں ان کے خلاف تمہارے پاس خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے دلیل موجود ہو) (بخاری ومسلم) اختلاف کی صورت میں آخری مرجع اور سند 4 چوتھی بات جو آیت زیر بحث میں ایک مستقل اور قطعی اصول کے طور پر طے کردی گئی ہے یہ ہے کہ اسلامی نظام میں خدا کا حکم اور رسول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند (Final authority) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلہ میں بھی نزاع واقع ہوگی اس میں فیصلہ کے لیے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہوگا اس کے سامنے سب سرتسلیم خم کردیں گے۔ اس طرح تمام مسائلِ زندگی میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو سند اور مرجع اور حرف آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصوصیت ہے جو اسے کافرانہ نظام زندگی سے ممیز کرتی ہے، جس نظام میں یہ چیز نہ پائی جائے وہ بالیقین ایک غیر اسلامی نظام ہے۔ اسی لیے اس آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْ ئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہَ وَالرَّسُوْلِ الخ تنازع کے معنی اختلاف رائے کے آتے ہیں۔ یعنی کسی معاملے میں کسی کی رائے کچھ ہو ‘ کسی کی کچھ ‘ موقع دلیل ہے کہ یہاں اس سے مراد وہ اختلاف رائے ہے جو کسی معاملے میں حکم شریعت معین کرنے کے باب میں ہوسکتا ہے۔ مثلاً کسی نص شرعی کی تعبیر و تاویل میں اختلاف رائے ہوجائے۔ یا کسی امر اجتہادی میں اختلاف پیدا ہوجائے۔ یہ اختلاف قرآن کی کسی آیت یا رسول کی کسی سنت کی تاویل میں بھی ہوسکتا ہے اور غیر منصوص معاملات میں کتاب و سنت سے اوفق کے تعین میں بھی۔ علی ہذا القیاس یہ اولو الامر اور عوام کے درمیان بھی ہوسکتا ہے اور خود اولوالامر کے اندر آپس میں بھی ہوسکتا ہے۔ اس طرح کا جب کوئی اختلاف واقع ہو تو اس کے حل کے لیے امت کو یہ ہدایت ہوئی کہ اس معاملے کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹائو۔ ” اللہ و رسول کی طرف لوٹائو “ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کتاب و سنت کے نصوص میں اس معاملے کے لیے کوئی قطعی راہنمائی موجود نہیں ہے تو ان کے اشارات ‘ مقتضیات ‘ فحویٰ اور امثال نظائر کو پیش نظر رکھ کر اس میں اوفق بالـکتب والسنۃ کا تعین کرو اور اس کو اختیار کرو۔ فرمایا کہ یہ طریقہ تاویل کے پہلو سے سب سے زیادہ بہتر و اعلیٰ ہے۔ اس لیے کہ ظن غالب یہی ہے کہ یہ بات اللہ و رسول کی بات کے موافق ہوگی اور اختلاف کا فیصلہ اس قانون کے مطابق ہوگا جو اسلام میں اصل قانون اور تمام فقہ و اجتہاد کا مرکز و مرجع ہے اور یہی طریقہ ہے نظام اجتماعی و سیاسی میں حاکمیت الٰہی کے پوری مضبوطی کے ساتھ پکڑنے اور اعتصام بحبل اللّٰہ کا اور یہی حقیقی توحید ہے۔
Top