Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 62
فَكَیْفَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ثُمَّ جَآءُوْكَ یَحْلِفُوْنَ١ۖۗ بِاللّٰهِ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّاۤ اِحْسَانًا وَّ تَوْفِیْقًا
فَكَيْفَ : پھر کیسی اِذَآ : جب اَصَابَتْھُمْ : انہیں پہنچے مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت بِمَا : اس کے سبب جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجا اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ ثُمَّ : پھر جَآءُوْكَ :وہ آئیں آپ کے پاس يَحْلِفُوْنَ : قسم کھاتے ہوئے بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنْ : کہ اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اِلَّآ : سوائے (صرف) اِحْسَانًا : بھلائی وَّتَوْفِيْقًا : اور موافقت
اس وقت کیا ہوگا جب ان کے اعمال کی پاداش میں ان کو بھی مصیبت پہنچے گی ‘ پھر یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آئیں گے کہ خدا کی قسم ہم نے تو صرف بہتری اور سازگاری چاہی۔
فَکَیْفَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ م بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ ثُمَّ جَـآئُ وْکَ یَحْلِفُوَنَ صلے ق بِاللّٰہِ اِنْ اَرَدْنَـآ اِلَّا اِحْسَانًاوَّتَوْفِیْقاً اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰہُ مَافِیْ قُلُوْبِھِمْ ق فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَعِظْھُمْ وَقُلْ لَّھُمْ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَوْلاً م بَلِیْغًا (اس وقت کیا ہوگا جب ان کے اعمال کی پاداش میں ان کو بھی مصیبت پہنچے گی ‘ پھر یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آئیں گے کہ خدا کی قسم ہم نے تو صرف بہتری اور سازگاری چاہی۔ ان لوگوں کے دلوں کے اندر جو کچھ ہے ‘ اللہ اس سے خوب واقف ہے ‘ ان سے اعراض کرو ‘ ان کو سمجھاؤ اور ان سے خود ان کے بارے میں دل میں دھنسنے والی بات کرو) (النسآء : 62 تا 63) منافقین کو تنبیہ اور آگاہی پروردگار منافقین کو آنے والے دنوں کا حوالہ دے کر اپنی حالت پر غور کرنے کی تلقین فرما رہے ہیں۔ آج تو ان کا حال یہ ہے کہ بڑھ چڑھ کر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنے معاملات اللہ اور رسول کے سامنے پیش کرو تو کسی نہ کسی بہانے سے پہلو بچا کے نکل جاتے ہیں اور حتی الامکان ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنا کوئی معاملہ اللہ کے رسول کی عدالت میں لے کر نہ جائیں۔ حالانکہ ان کے ایمان کا تقاضا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی ہر بات کو حرز جان بنائیں اور انہی کے فیصلوں کو آخری سند اور اتھارٹی سمجھیں۔ لیکن اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب ان کے کرتوت ان کے راز افشا کردیں گے اور ان کے عزائم بےنقاب ہوجائیں گے اور ان کی اصلیت واضح ہوجائے گی۔ تو پھر یہ دوڑے دوڑے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئیں گے کیونکہ وہی ایک دروازہ ایسا ہے ‘ جس میں رحمت کے سوا اور کچھ نہیں اور پھر جب ان سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اب تک جو رویہ اختیار کیا۔ آخر اس کا سبب کیا تھا کیونکہ تمہیں تو دعویٰ تھا مومن ہونے کا اور مومن ہو کر پھر طاغوت کے پاس اپنے معاملات لے کے جانا ان دونوں باتوں میں تو کوئی جوڑ نہیں تو پھر وہ دورازکار باتیں بنانے کی کوشش کریں گے ‘ کہ ہمارے پیش نظر صرف مسلمانوں کی بھلائی تھی۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ مسلمانوں اور یہود کے درمیان اختلاف کی خلیج بڑھتی چلی جائے۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کررہے تھے۔ یعنی ہمارے پیش نظر مصالحت اور موافقت کے سوا اور کوئی جذبہ نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس مصیبت اور اس طرح کے حالات پیش آنے کا مفہوم کیا ہے۔ بعض مفسرین کا گمان یہ ہے کہ جس طرح بشر صریحاً اللہ کے رسول کے فیصلے سے انکار کرکے حضرت عمر ( رض) کے غضب کا نشانہ بنا اور اپنے انجام کو پہنچا۔ باقی لوگ بھی کبھی نہ کبھی اپنے کرتوتوں کے باعث پکڑے جائیں گے۔ ان کی حرکتیں بھی کھل کے رہیں گی۔ وہ بھی بشر کی طرح اپنے برے انجام کو پہنچیں گے۔ لیکن ان آیات کریمہ پر گہرے تدبر سے اگر کام لیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مستقبل کی ایک دھندلی سی تصویر دکھائی جارہی ہے ‘ جس کی تعبیر اگرچہ پردہ غیب میں ہے لیکن اللہ تعالیٰ تو خوب جانتے ہیں۔ یہ ان کی کرم نوازی ہے کہ وہ منافقین کو قبل ازوقت مطلع فرما رہے ہیں اور جن لوگوں کی حالات پر نظر گہری تھی ‘ ان کے لیے یہ باتیں بعید ازقیاس نہ تھیں۔ بات یہ کہی جارہی ہے کہ آج تو تم یہود کی پشت پناہی کے باعث اسلام کو اور مسلمانوں کو وہ اہمیت نہیں دے رہے جو بجا طور پر دینی چاہیے۔ لیکن وہ وقت دور نہیں کہ جب اسلام کو غلبہ عمومی حاصل ہوگا اور یہود آہستہ آہستہ اپنا دم خم کھو بیٹھیں گے اور انہیں مدینے سے جانے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اور ساتھ ہی مسلمانوں کو یہ حکم دے دیا جائے گا کہ منافقین کے معاملہ میں وہ چشم پوشی اور اغماض کی روش بدل دیں اور جس طرح اب تک ان کو بہر صورت برداشت کرنے کی پالیسی چل رہی تھی ‘ اسے چھوڑ کر احتساب شروع کردیں۔ پھر منافقین کو اندازہ ہوگا کہ ہم جن کے بل بوتے پر شرارتیں کرتے رہے اور جن مسلمانوں کی کریم النفسی اور وسعت ظرف کے باعث مہلت سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ اب صورتحال ایسی تبدیل ہوئی ہے کہ مسلمانوں نے اپنی روش بدل لی ہے اور یہود پشت پناہی کے لائق نہیں رہے۔ تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوگا کہ وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آکر مختلف قسم کے عذر پیش کریں۔ قرآن کریم نے یہاں جس پیشگوئی کو ذکر فرمایا ہے۔ جنگ خندق کے بعد وہ وقت آگیا کہ جب یہ پیشگوئی حقیقت کی شکل اختیار کرکے سامنے آکھڑی ہوئی۔ بنونضیر اور بنو قینقاع کو پہلے شہر بدر کیا جا چکا تھا۔ بنوقریظہ قتل کردیے گئے۔ اب مدینے کے ماحول کو خالص اسلامی ماحول میں تبدیل کرنے کا وقت آگیا۔ اور حالات کا تقاضا ہوا کہ مدینہ میں اسلامی ریاست کا مکمل غلبہ ہو۔ فتح مکہ کا معرکہ قریب آرہا تھا۔ اس کی تیاری کے لیے آستین کے سانپوں کو برداشت نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے اب تیزی سے منافقین کا احتساب شروع ہوا اور اس وقت منافقین کو اندازہ ہوا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی کریم النفسی اور نرم خوئی سے فائدہ نہ اٹھا کر بہت سخت غلطی کی۔ لیکن یہ وہ باتیں ہیں جو تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں ‘ اس پیش گوئی میں ان باتوں کی تصویر دیکھی جاسکتی تھی۔ لیکن اس وقت آنحضرت ﷺ سے پروردگار فرما رہے ہیں کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ‘ آپ انھیں سن لیجیے لیکن ان کی حقیقت وہ نہیں جو کچھ کہا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے دلی ارادوں کو جانتا ہے۔ یہ تو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہم تو امت کی خیرخواہی اور سازگاری کے جذبے سے یہ سب کچھ کرتے رہے۔ حالانکہ یہ منافقت اور طاغوت پرستی کا فساد تھا جو انھیں اسلام کی طرف سے یکسو نہیں ہونے دیتا تھا اور یہ دل میں امید لگائے بیٹھے تھے کہ اسلام اور یہود کی اس کشمکش میں ہوسکتا ہے کہ یہود کا پلڑا بھاری ہوجائے تو پھر یہ ہماری پالیسی ہمارے کام آئے گی اور ہم انھیں اپنی موجودہ پالیسی کا حوالہ دے کر مفادات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور فرض کریں اگر مسلمان ہی غالب آتے ہیں تو تب بھی مسلمانوں میں ہمارا شامل رہنا ہمارے مفادات کی حفاظت کے لیے ضمانت بن جائے گا۔ لیکن آنحضرت ﷺ سے فرمایا جارہا ہے کہ آپ ابھی ان سے کچھ نہ کہئے ‘ البتہ انھیں نصیحت فرمائیے اور فہمائش کیجیے۔ البتہ اس نصیحت میں پہلے نرم روی اور شبنمی انداز کا غلبہ رہتا تھا ‘ اب تھوڑی سی لہجے میں تبدیلی پیدا کیجیے۔ اور ان پر یہ حقیقت واضح کردیجیے کہ ان سے جو کچھ کہا جارہا ہے یہ خود ان کے لیے بہتر ہے ‘ ان کی اس روش سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور ان کو یہ بات اس انداز میں فرمائیے جو دل میں دھنس جانے والی ہو ‘ یعنی دل میں وہ ایک چبھن محسوس کریں اور سمجھ لیں کہ اگر ہم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔
Top