Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 65
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
فَلَا وَرَبِّكَ : پس قسم ہے آپ کے رب کی لَا يُؤْمِنُوْنَ : وہ مومن نہ ہوں گے حَتّٰي : جب تک يُحَكِّمُوْكَ : آپ کو منصف بنائیں فِيْمَا : اس میں جو شَجَرَ : جھگڑا اٹھے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر لَا يَجِدُوْا : وہ نہ پائیں فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں حَرَجًا : کوئی تنگی مِّمَّا : اس سے جو قَضَيْتَ : آپ فیصلہ کریں وَيُسَلِّمُوْا : اور تسلیم کرلیں تَسْلِيْمًا : خوشی سے
پس (اے پیغمبر) تیرے رب کی قسم یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ حاکم بنائیں آپ کو ہر اس جھگڑے میں جو پھوٹ پڑا ان کے درمیان۔ پھر نہ پائیں اپنے نفسوں میں تنگی اس سے جو فیصلہ آپ نے کیا اور تسلیم کرلیں دل و جان سے
فَلاَ وَ رَبِّـکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیمًا (پس (اے پیغمبر) تیرے رب کی قسم یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ حاکم بنائیں آپ کو ہر اس جھگڑے میں جو پھوٹ پڑا ان کے درمیان۔ پھر نہ پائیں اپنے نفسوں میں تنگی اس سے جو فیصلہ آپ نے کیا اور تسلیم کرلیں دل و جان سے) (النسآء : 65) وَ رَبِّـکَ کا معنی و مفہوم وَرَبِّـکَ میں وائو قسم کے لیے ہے۔ اس سے پہلے لا زائد کہا جاتا ہے ‘ لیکن یہ قسم کی تاکید کے لیے آتا ہے۔ ہمارے متقدمین اس کو اسی معنی میں لیتے ہیں۔ نفیِ ایمان پر دلالت کرنے کے لیے لا نفی کو دو بار ذکر کیا۔ ایک بار قسم سے پہلے اور دوسری مرتبہ قسم کے بعد۔ اس سے قسم کے ساتھ جو بات کہی جا رہی ہے اس کی انتہائی تاکید بھی مقصود ہے اور تحسین کلام بھی۔ سابقہ آیت کریمہ میں رسول کی حیثیت کو بیان کیا گیا تھا۔ رسول کو مان لینا یا اس سے عقیدت کا اظہار کرنا کافی نہیں بلکہ اس کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس مضمون کو پوری وسعت اور جامعیت کے ساتھ کھول دیا ہے۔ اس میں سب سے پہلے ایک قاری کی نگاہ قسم پر پڑتی ہے کہ ” اے پیغمبر ! تیرے رب کی قسم ہے۔ “ اور اس کے بعد منافقین کے بارے میں ان کے عدم ایمان کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قسم اس وقت کھائی جاتی ہے جب مخاطب کو بات کہنے والے کی بات کا اعتبار نہ ہو۔ اور اس کے نزدیک قائل کی حیثیت ایسی معتبر نہ ہو کہ اس کی ذات کا حوالہ باقی ہر چیز سے مستغنی کر دے۔ تو پھر بات کہنے والا اپنی بات کو موکد اور قابل اعتبار ٹھہرانے کے لیے قسم کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن جس کی ذات ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا ہو اسے ان سہاروں کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی۔ پروردگار کے بارے میں کوئی بدتر سے بدتر آدمی بھی تصور نہیں کرسکتا کہ اس کی کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ بھی ہوسکتا ہے۔ خود قرآن کریم نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ بات کہی ہے وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا (اللہ سے بڑھ کر کس کی بات سچی ہوسکتی ہے) ۔ لیکن یہاں پروردگار بات کہنے سے پہلے قسم کھا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ قسم کے ذریعے اپنی بات کا اعتبار پیدا کر رہا ہے۔ بلکہ یہاں دو وجہ سے قسم کھائی جا رہی ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ منافقین کو اس بات کا اچھی طرح یقین آجائے کہ اللہ کے نزدیک وہ ایمان کسی طرح بھی قابل اعتبار نہیں جس میں اللہ کے رسول کی اطاعت اور محبت میں کمی ہو۔ وہ ہزار ایمان کے دعوے کریں لیکن ایمان کے لیے لازمی سندوہ ہے جو اس آیت کریمہ میں آگے پیش فرمائی جا رہی ہے۔ اور دوسری وجہ قسم کھانے کی شاید یہ ہے کہ اس سے پہلے آیت نمبر 63 میں پروردگار نے منافقین کی قسم کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ آپ کو قسمیں کھا کھا کر یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے ایمان میں اور مسلمانوں کے ساتھ ہمارے رویے میں منافقت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ یہاں پروردگار نے منافقین کی اس جھوٹی قسم کی تردید سچی قسم کے ساتھ فرمائی ہے کہ وہ اپنا اعتبار جمانے کے لیے ہزار قسمیں کھائیں وہ سب جھوٹی ہیں۔ سچی قسم یہ ہے کہ وہ ہرگز مومن نہیں ہیں۔ اور مزید یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ وَرَبِّـکَکے خطاب میں جس طرح پروردگار نے اپنی اضافت رسول اللہ ﷺ کی ذات کی طرف فرمائی ہے اور جس طرح التفاتِ خاص کا ثبوت دیا ہے اس سے منافقین اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو یہ بات بتلانا مقصود ہے کہ جس پیغمبر کی اطاعت اور محبت کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ اس کا مقام و مرتبہ اللہ کی نگاہ میں کیا ہے ؟ قسم تو یقینا اللہ کے نام کی ہوتی ہے اس لیے پروردگار یہ بھی فرما سکتے تھے کہ ” مجھے اپنی قسم ہے “ لیکن بطور خاص یہ فرمانا کہ ” تیرے رب کی قسم ہے “ اس میں آنحضرت ﷺ کی جس طرح دلنوازی اور عظمت شان کا اہتمام کیا گیا ہے اس کی وضاحت کے لیے تو شہپرجبریل چاہیے ‘ انسانی زبان یا قلم میں اس کی طاقت نہیں کہ وہ اس کی نزاکتوں کا حق ادا کرسکے۔ اس کے بعد ایمان کے ثبوت کے لیے تین باتیں ارشاد فرمائیں : ایمان کے ثبوت کے لیے تین شرائط 1 کہ تمہارے ایمان کا اس وقت تک کوئی اعتبار نہیں جب تک تم اپنی زندگی کے تمام اختلافات میں اللہ کے رسول ﷺ کو آخری حکم ‘ سند اور اتھارٹی نہ سمجھو۔ اس میں دو باتیں انتہائی قابل غور ہیں۔ ایک یہ بات کہ اللہ کے رسول کی فیصلہ کن حیثیت صرف عبادات یا خالص دینی امور میں نہیں ‘ بلکہ اعتقادات سے لے کر معاملات تک اور پھر عدالتوں سے لے کر ایوان ہائے حکومت تک ‘ قومی معاملات سے لیکر بین الاقوامی معاملات تک تک ‘ کسی سطح پر بھی اور کسی دائرے میں بھی کوئی معاملہ سر اٹھائے جس میں امت کے اہل علم یا عوام اور حکمرانوں میں یہ اختلاف ہوجائے کہ اس معاملے میں راہ صواب اور نقطہ اعتدال کیا ہے ؟ تو اس کے فیصلے کے لیے صرف اللہ کے رسول کی طرف لوٹنا ہوگا۔ اگرچہ رجوع سب سے پہلے قرآن حکیم کی طرف کیا جائے گا ‘ لیکن قرآن کریم کے اصولوں کی عملی تعبیر ‘ اس کے مبہمات کی وضاحت ‘ اس کے مجملات کی تشریح ‘ چونکہ یہ صرف اللہ کے رسول کا کام ہے اس لیے عملی طور پر اللہ کے رسول کی ذات ہی مرجع ہوگی۔ کوئی آدمی یا کوئی گروہ صرف اعتقادات یا عبادات میں تو اللہ کے رسول کی طرف دیکھتا ہے لیکن باقی پوری زندگی میں وہ اللہ کے رسول کو حَکَم تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ منافق ہے اور اس کے ایمان کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اور دوسری یہ بات کہ کہ اگر کوئی شخص زندگی کے ہر معاملے میں زبانی طور پر تو اللہ کے رسول کی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے ‘ لیکن عملی طور پر وہ اللہ کے رسول یعنی قرآن و سنت کو حقیقی اہمیت دینے اور واقعی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جب کبھی آنحضرت ﷺ سے اظہارِ عقیدت و محبت کا وقت آئے تو وہ سب سے پیش پیش ہو ‘ لیکن جب اس سے اجتماعی ‘ تہذیبی ‘ تمدنی ‘ حکومتی اور تعلیمی معاملات میں آنحضرت یعنی قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کے لیے کہا جائے تو وہ صاف پہلو بچا کر نکل جائے تو ایسا شخص بھی اللہ کی نگاہ میں مومن نہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی کے تمام معاملات اور اختلافی امور میں جب تک آنحضور ﷺ کی فیصلہ کن حیثیت تسلیم نہ کی جائے اس وقت تک ایمان ناقابلِ اعتبار رہتا ہے۔ اور ایسا شخص حقیقت میں مومن نہیں ہوتا۔ 2 دوسری بات اس آیت کریمہ میں ایمان کے ثبوت کے لیے یہ فرمائی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو حکم ‘ سند اور اتھارٹی تسلیم کرلینا ہی کافی نہیں ‘ بلکہ آپ ﷺ کے فیصلوں کو جو قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہیں اور قیامت تک کے لیے باقی رہیں گے انھیں دل و جان سے قبول کرنا بھی ضروری ہے۔ یعنی زبانی اقرار کافی نہیں بلکہ دل کی تصدیق اور دل کا میلان بھی ضروری ہے۔ جیسے ہی کسی معاملے میں یہ ثابت ہوجائے کہ اس معاملے میں آنحضرت ﷺ کی ہدایت یہ ہے تو اگر دل اسے قبول کرنے میں تنگی محسوس کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں نفاق موجود ہے۔ حقیقی ایمان کے لیے انشراحِ قلب اور طبیعت کا یکسو ہونا ضروری ہے۔ دنیا کے اہل علم اس کے بارے میں کوئی بھی رائے رکھیں ‘ لیکن ایک مومن کے لیے اللہ کے رسول کی رائے کے مقابلے میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ دل میں اس کیفیت کا پیدا ہوجانا حقیقی ایمان ہے ‘ جس کے بغیر اللہ کے یہاں ایمان کا اعتبار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی بات کا حکم دیتے تھے تو صحابہ ( رض) فوراً سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاکہہ اٹھتے تھے اور ان کا انگ انگ اطاعت میں ڈوب جاتا تھا۔ وہ جیسے جیسے اطاعت کی کلفتوں سے گزرتے تھے ویسے ویسے ان کے دلوں کی مسرتوں میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ 3 تیسری چیز حقیقت میں متذکرہ دونوں چیزوں کا نتیجہ ہے۔ جب ایک شخص اللہ کے رسول کی اصل حیثیت کو تسلیم کرلیتا ہے ‘ پھر اللہ کے رسول کے ہر فیصلے پر وہ دل و جان سے جھک جاتا ہے اور آپ ﷺ کی ایک ایک ادا پر سرِ تسلیم خم کردیتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی پوری ذات کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں دے دیتا ہے ‘ اپنی خواہشات سے دستبردار ہوجاتا ہے اور اپنے نفع و ضرر کے پیمانوں کو توڑ کر پھینک دیتا ہے۔ اب اس کے سامنے نفع وہ ہے جسے حضور ﷺ نفع قرار دیں اور نقصان وہ ہے جسے حضور ﷺ نقصان قرار دیں۔ ان تین باتوں کا خلاصہ آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں بیان فرما دیا۔ ارشاد فرمایا لایؤمن احدکم حتی یکون ہواہ تبعا لما جئت بہ (تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ اس کی خواہشاتِ نفس اس تعلیم اور شریعت کے تابع نہ ہوجائیں جسے میں لے کے آیا ہوں) ۔ اس حدیث پر اگر غور کریں تو پوری زندگی اس میں سمٹ آتی ہے۔ گھر میں بھی حضور کی سنت حکومت کرتی نظر آتی ہے اور اجتماعی زندگی کے ہر ادارے میں اور حکومت کے ایوانوں میں بھی آنحضرت یعنی آپ ﷺ کی شریعت کا ڈنکا بجتا سنائی دیتا ہے۔
Top