Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 87
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا۠   ۧ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : عبادت کے لائق اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا لَيَجْمَعَنَّكُمْ : وہ تمہیں ضرور اکٹھا کرے گا اِلٰى : طرف يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت لَا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں وَمَنْ : اور کون اَصْدَقُ : زیادہ سچا مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے حَدِيْثًا : بات میں
اللہ ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ تم سب کو قیامت کے دن کی طرف لیجا کے رہے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا کون ہوسکتا ہے
اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ط لَـیَجْمَعَنَّـکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰـمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ ط وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا ع ” اللہ ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ تم سب کو قیامت کے دن کی طرف لیجا کے رہے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا کون ہوسکتا ہے۔ “ (النسآء : 87) منافقین کے نفاق کا اصل سبب مسلمانوں کو گزشتہ آیت کریمہ میں منافقین سے ترک تعلق سے روکا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان جس طرح پہلے ان سے محبت سے پیش آتے تھے اسی محبت کو باقی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمان آہستہ آہستہ قرآن کریم کے اسلوبِ بیان اور منافقین پر تنقید سے منافقین کے رویے کا گہری نظروں سے جائزہ لینے لگے تھے۔ مخلصین کے گروہ میں اگر کوئی غیر مخلص آدمی چھپا بیٹھا ہو اور مخلصین کو اس پر شبہ ہونے لگے تو یقینا ان کا اس کے ساتھ میل جول اور تعلق کی نوعیت میں فرق آجاتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں مسلمان بھی اسی کیفیت سے دوچار تھے۔ قرآن کریم نے ان کے ساتھ سلام کا حکم دے کر انھیں اپنے رویے میں تبدیلی لانے سے روکا اور اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو ایک بہت اہم حقیقت کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے کہ مقصود منافقین کو اپنے سے کاٹنا نہیں بلکہ اصلاح ہے۔ اور اصلاح تمہارے طرز عمل میں تبدیلی سے نہیں ہوگی بلکہ اس سے ہوگی کہ جو سبب ان کے بگاڑ کا ہے اسے دور کرنے پر پوری توجہ دو ۔ وہ سبب یہ ہے کہ منافقین جو اسلام اور آنحضرت ﷺ کی نبوت پر یکسو نہیں ہو رہے اور ان کے معمولات میں بعض دفعہ نفاق جھلکنے لگتا ہے اور وہ بہانے بہانے سے جہاد و قتال سے بچ نکلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے اندر ابھی تک اللہ کی الوہیت اور آخرت پر یقین پوری طرح جگہ نہیں بنا سکا۔ وہ اللہ کو مانتے ہیں اور اسی کے لیے تمہارے ساتھ نمازیں بھی پڑھتے ہیں ‘ لیکن جس طرح اسے ماننے کا حق ہے اس طرح نہیں مانتے۔ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ اللہ تعالیٰ مطاع مطلق ہے اور ہم اس کی غیر مشروط بندگی کے پابند ہیں اس بندگی اور اطاعت میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ اس کا رسول اس کا نمائندہ ہے۔ اس کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ اس کے کسی حکم سے انحراف اللہ کے حکم سے انحراف کے برابر ہے۔ اور دوسری یہ بات کہ اللہ کا علم ایسا وسیع ہے کہ ہم ہر وقت اس کی نگاہوں میں ہیں۔ وہ ہمارے ایک ایک عمل کو جانتا ہے اور ہمیں ہر لمحہ دیکھتا ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا اور جانتا ہے اسی کے مطابق ہمارا نامہ عمل تیار ہو رہا ہے۔ تیسری یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ایسی ہمہ گیر ہے کہ وہ تمام انسانوں کو جس طرح پیدا کرنے اور مارنے پر قادر ہے اسی طرح دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی کب مرا اور کس سرزمین میں دفن ہو کر خاک ہوگیا۔ اس کی قدرت کے لیے یہ بات کوئی مشکل نہیں کہ وہ قیامت میں ان سب کو اٹھا کر ایک میدان میں جمع کرے گا جسے محشر یا میدانِ حشر کہتے ہیں۔ اور اس کے قیامت برپا کرنے ‘ میدانِ حشر میں ایک ایک شخص کا حساب کرنے اور اس کے جزا و سزا دینے میں کوئی شبہ نہیں۔ سب لوگ اپنا اپنا نامہ عمل ہاتھوں میں لیے اپنے اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ اور چوتھی یہ بات کہ پروردگار نے جو کچھ قرآن کریم میں نازل کیا اس کی ایک ایک بات سچی اور ایک ایک حکم حق ہے۔ کیونکہ صدق اللہ کی صفت ہے اس سے بڑھ کر اور کوئی سچا نہیں۔ یہ وہ بنیادیں ہیں جس پر اسلامی عقائد ‘ عبادات اور پوری زندگی کے معاملات کی تعمیر ہوتی ہے۔ ان منافقین کی تمام کمزوریوں کا سبب صرف یہ ہے کہ ان کی یہ بنیادیں پختہ نہیں۔ وہ ریت کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔ اس لیے جب جب ریت ان کے پائوں کے نیچے سے پھسلتی ہے ان کے اعمال میں دراڑیں آنے لگتی ہیں۔ انکے معاملات کی دیواریں ٹوٹنے لگتی ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان کی ان بنیادی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ جب وہ اپنے عقائد اور اپنی اساسی باتوں میں پختہ ہوجائیں تو پھر خود بخود ان کا ہر عمل اخلاص کی تصویر ہوگا۔ وہ خود نفاق کو ایک لعنت سمجھیں گے اور اللہ کے ساتھ ظاہر و باطن اپنا معاملہ درست کرلیں گے۔ اور جب تک یہ بنیادیں استوار نہیں ہوں گی تو محض سخن سازی سے ان کی زندگی میں اخلاص نہیں آسکتا۔ اکبر نے ٹھیک کہا تھا ؎ تو خاک میں مل اور آگ میں جل جب خشت بنے تب کام چلے ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ تعمیر نہ کر آج بھی اگر امت کی بگڑی ہوئی حالت کا ہم جائزہ لیں تو ان کی تمام تر اخلاقی اور معاملات کی خرابیوں کا یہی سبب آپ کو ملے گا کہ وہ بنیادی ‘ نظریاتی اعتقادات میں کمزوریوں کا شکار ہیں۔ اللہ ہم سب کو اپنی عافیت میں رکھے۔ (آمین)
Top